Nazir Naji on Zulfiqar Mirza

سیاسی دھماکہ

ہمارے ہاں سیاست کم اور سیاسی دھماکے زیادہ ہوتے ہیں۔ الیکشن کے فوراً بعد ججوں کی بحالی کا معاہدہ ہوا۔ وہ ٹوٹا تو سیاسی دھماکہ ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے پہلے وفاقی کابینہ میں شامل ہو کر دھماکہ کیا اور پھر کابینہ چھوڑ کر دھماکہ کر دیا۔ صدر زرداری نے پرویزمشرف کو نکال کے دھماکہ کیا اور پھر صدارتی امیدوار بن کے دھماکہ کر دیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برطرف کر کے دھماکہ کیا گیا اور برطرفی کے دوران مسلم لیگ (ن) نے لانگ مارچ کا دھماکہ کر دیا‘ جس پر جج صاحبان کی بحالی ہوئی۔ ایسے سیاسی دھماکوں کا شمار نہیں جو عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے علیحدہ اور اپوزیشن میں شامل ہو کر کئی دھماکے کئے۔ ایم کیو ایم نے حکومتوں میں شمولیتیں اور علیحدگیاں اختیار کر کے‘ اتنے سیاسی دھماکے کئے کہ مجھ سے تو ان کی گنتی نہیں ہو پا رہی۔ مسلم لیگ (ق) نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مفاہمت کر کے ایک اور دھماکہ کر ڈالا۔ ابھی فضاؤں میں ان دھماکوں کی گونج جاری تھی کہ صدر آصف زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ذوالفقار مرزا نے دھماکہ کر ڈالا۔ میں نے اپنی زندگی میں ان گنت پریس کانفرنسیں دیکھی ہیں۔ سب سے طویل اور ہر لمحے دلچسپی قائم رکھنے والی پریس کانفرنسیں ذوالفقار علی بھٹو کی ہوا کرتی تھیں۔ مگر ان کے زمانے میں ٹی وی چینلوں کا جمعہ بازار نہیں لگا تھا۔ صرف ایک سرکاری چینل ہوا کرتا تھا‘ جسے لوگ بے دلی اور مجبوری کے عالم میں دیکھا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کی پریس کانفرنسیں دلچسپی سے ضرور دیکھی جاتیں۔ لیکن ذوالفقار مرزا کی طویل ترین پریس کانفرنس کم و بیش تمام چینلوں پر نشر ہوئی اور لوگوں نے گلیوں‘ محلوں اور سڑکوں پر ٹی وی رکھ کر‘ اجتماعی طور پر اس پریس کانفرنس کو آخری لمحے تک پلک جھپکائے بغیر دیکھا اور ”جیو“ نے تو مرزا صاحب کو کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ جیسے ہی وہ کراچی پریس کلب سے نکلے‘ انہیں ”جیو“ نے گھیر لیا اور پھر مرزا صاحب کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ معمول کے کئی شیڈولڈ پروگرام ہڑپ ہو گئے۔

آج میں مرزا صاحب کے ان ان گنت بیانات پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں‘ جو صرف ایک ہی رات میں انہوں نے اپنی پریس کانفرنس اور ”جیو“ کے دو مختلف پروگراموں میں یکے بعد دیگرے دیئے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس زاویئے سے بات کا آغاز کروں؟ میرا خیال ہے سب سے پہلے اس رشتے پربات کی جائے‘ جو مرزا صاحب کے بیانات کو دھماکہ خیز بنانے کی وجہ بنا۔ وہ ہے صدر مملکت کے ساتھ ان کا ذاتی نوعیت کا دیرینہ‘ قریبی اور گہرا رشتہ۔کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ ذوالفقار مرزا اس طرح کھل کر اپنی جماعت کی پالیسیوں کے خلاف گرج چمک کے ساتھ موسلادھار برسیں گے۔ لیکن وہ نہ صرف برسے بلکہ چھاجوں برسے۔ ابتدائی مراحل میں تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اچانک یہ کیا ماجرا ہو گیا؟ ابھی تک لوگوں کو یقین نہیں آ رہا کہ جو کچھ مرزا صاحب فرما رہے ہیں‘ اس میں سچ بھی ہے یا نہیں؟ جو وہ فرما رہے ہیں‘ کیا وہ کہہ بھی رہے ہیں؟ بہت سے مبصر‘ دانشور اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والے اصحاب شش و پنج میں ہیں۔ بعض کو تو مرزا صاحب پر یقین ہی نہیں آ رہا اور ان کا خیال ہے کہ وہ پہلے کی طرح ایک بارپھر معافی مانگ کر گھر لوٹ جائیں گے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ یہ صدر زرداری کی چال ہے۔وہ ایم کیو ایم کی طرف سے لگائے گئے جھٹکوں کا غصہ ذوالفقار مرزا کے ذریعے نکالتے رہتے ہیں۔ اب چونکہ ایم کیو ایم نے لگاتار جھٹکے لگانا شروع کر دیا ہے‘ اس لئے صدر صاحب نے بھی ہر جھٹکے پر فوری غصہ نکالنے کے لئے ذوالفقار مرزا کو مامور کر کے‘ جوابی کارروائی کا مستقل انتظام کر لیا ہے۔ اس اندازے کو دیکھ کر مجھے جنرل ضیاالحق کی وہ تقریر یاد آگئی‘ جو انہوں نے بھٹو صاحب کو برطرف کر کے بطورچیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی تھی۔ اس تقریر میں انہوں نے وہ سب کچھ کہا جو بغاوت پر اترا ہوا کوئی شخص کہہ سکتا ہے۔ مگر لوگ تب بھی یہ کہہ رہے تھے کہ یہ بھٹو صاحب کی چال ہے۔ انہوں نے پی این اے کی تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ضیاالحق کوآگے کر دیا ہے اور جب تحریک دم توڑ دے گی‘ تو بھٹو صاحب واپس اپنی جگہ پر آ جائیں گے۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔

جنرل اعظم خان مرحوم کا واقعہ ذوالفقار مرزا کے دھماکے سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ ایوب خان نے اعظم خان کو اپنا انتہائی قریبی رفیق سمجھتے ہوئے مشرقی پاکستان کا گورنر لگا دیا تھا۔ وہ انتہائی مستعد اور خالص فوجی انداز میں مخلصانہ کام کرنے والے سپاہی تھے۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے شکایتوں اور محرومیوں میں ڈوبے اور مغربی پاکستان کے خلاف بپھرے ہوئے مشرقی پاکستانی عوام کا غصہ اپنے طرزعمل سے ٹھنڈا کر دیا۔ یہاں تک تو وہ ایوب خان کے لئے قابل برداشت رہے۔ مگر جب اعظم خان کی مقبولیت بلند سے بلندتر ہوتی گئی اور وہ مشرقی پاکستانیوں کے محبوب لیڈر بنتے نظر آئے‘ تو ایوب خان کو اپنی کرسی کی فکر پڑ گئی۔ مشرقی پاکستان پورے مغربی پاکستان سے زیادہ ووٹ رکھنے والا صوبہ تھا۔ ایوب خان نے سوچا کہ جب مجھے کبھی الیکشن لڑنا پڑا تو اعظم خان میرے لئے مصیبت بن جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے مشرقی پاکستانی عوام کے جذبات کی پروا نہ کرتے ہوئے‘ انہیں برطرف کر دیا۔ وہ کھرا سپاہی کسی احتجاج کے بغیر خاموشی سے گھر چلا گیا۔ذوالفقار مرزا نے بھی سندھ کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے‘ سندھی عوام میں اپنے لئے پسندیدگی کے جذبات پیدا کئے اور وہ کبھی کبھی صدر صاحب کی پالیسیوں کے خلاف بیانات دینے لگے‘ جسے صدر زرداری دوستانہ نازوانداز کے کھاتے میں ڈالتے رہے۔ لیکن گزشتہ روز مرزا صاحب نے جو سیاسی دھماکہ کیا‘ اس نے تو حالات ہی بدل ڈالے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس نے وہ جادو کیا ‘ جو 1993ء میں برطرفی سے پہلے نوازشریف کی نشری تقریر نے کر دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے وزیراعظم سمجھے جاتے تھے مگر اس تقریر سے وہ‘ اپنے بل بوتے پر دیکھتے ہی دیکھتے ایک قدآور سیاستدان بن گئے اور ایک ہی رات میں وہ مقبولیت حاصل کی‘ جو بڑے بڑے لیڈروں کو نصیب نہیں ہوتی۔ان کی طاقتور حریف بے نظیر بھٹو جو انہیں سیاستدان ہی نہیں سمجھتی تھیں‘ یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ آج نوازشریف سیاستدان بن گئے ہیں۔ ذوالفقار مرزا جو ایک صوبائی سطح کے لیڈر تھے‘ اس پریس کانفرنس کے بعد اسی طرح ابھر کے سامنے آ گئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ صدر زرداری کو ان کے سرکاری اور ذاتی ذرائع نے کیا بتایا ہے؟ مگر میں انہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ذوالفقار مرزا مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد بے شمار لوگوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ سندھ تو ان پر فریفتہ ہو گیا ہے۔ صرف وہی سندھی ان کے خلاف ہو گا‘ جس کی اپنی چودھراہٹ کو مرزا سے خطرہ لاحق ہو۔ ورنہ تمام سندھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ذوالفقار مرزا نے ان کے دل کی آواز بلند کی ہے اور مرزا کی یہ مقبولیت صرف سندھیوں میں نہیں‘ کراچی کے لئے امن کے آرزومند اہل کراچی میں بھی بڑھ گئی ہے۔ پنجاب میں جہاں انہیں‘ سندھ کا مقامی سیاستدان سمجھا جاتا تھا‘ یہاں بھی ان کی پریس کانفرنس کی زبردست پذیرائی ہوئی ہے۔ ہر طرف ایس ایم ایس چل رہے ہیں‘ جن میں ذوالفقار مرزا کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے اور اس طرح کے نعرے بھیجے جا رہے ہیں ”ذوالفقار مرزا۔تیری جرات کو سلام“۔

اصولی طور پر صدرزرداری کو اپنے دوست کا یہ اقدام پسند نہیں آنا چاہیے۔ اب تک جناب صدر نے جس سیاسی فراست اور دانائی کا ثبوت دیا ہے‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایوب خان والی غلطی دہراتے ہوئے اپنے دوست کی مقبولیت کو خطرہ سمجھنے کے بجائے‘ اس کو اپنے اثاثے میں بدلنے کی کوشش کریں۔ مرزا کو جو بھی سیاسی طاقت ملی ہے‘ صدرزرداری چاہیں تو اسے اپنے بیگ میں ڈال سکتے ہیں۔فی الحال مرزا کوئی بڑا مطالبہ نہیں کر رہے۔ دہشت گردی کے خلاف جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں‘ وہ پاکستان بھر کے عوام کی آواز ہے۔ خود ایم کیو ایم کی قیادت بھی اسی خواہش کا اظہار کرتی ہے اور ذوالفقار مرزا کا ذاتی مطالبہ‘ بہت معمولی ہے۔صدر زرداری جانتے ہیں کہ مطالبہ کیا ہے؟ وہ اس پر ہنستے بھی ہوں گے۔ اس وقت ان کے سامنے صرف ایک کینچوا ہے۔ فیصلہ بروقت نہ کیا‘ تو یہ سانپ بن سکتا ہے۔

روزنامہ جنگ ۳۱ اگست۲۰۱۱

 

تماشہ نہ دیکھیں

کراچی میں قتل و غارت گری کی تازہ لہر پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے بہت دن پہلے عرض کیا تھا کہ یہ سب بھتے اور ناجائزہ قبضوں کا تنازعہ ہے‘ جو نئے دعویدار نمودار ہونے کے بعد شروع ہوا اور اس کی وجہ بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں کے درمیان اپنے اپنے ”علاقوں“ کی حدبندیوں کا فقدان ہے۔ جب تک ایک ہی دعویدار بلاشرکت غیرے من مانی کر رہا تھا‘ شہر والوں نے حالات کے جبر کو قبول کر کے سمجھوتہ کر رکھا تھا۔ لیکن افغان جنگ کے بعدنئے آبادکاروں کی تعداد میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوا‘جس کی وجہ سے مزید مسائل پیدا ہوئے اور حالیہ خونریزی انہی کا حصہ ہے۔افغانستان اور فاٹا سے آنے والے پختون مسلح بھی ہیں اور تربیت یافتہ بھی۔اپنی اس طاقت کے ساتھ جب انہوں نے شہر میں آسان آمدنی کے طور طریقے دیکھے‘ تو وہ بھی میدان میں کود پڑے۔ انہیں کچھ پتہ نہیں کہ کہاں سے وصولی کرنی ہے اور کہاں سے نہیں؟ وہ اندھادھند بھتے مانگنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جس پر پرانے بھتہ خوروں کی آمدنی متاثر ہوتی ہے اور ان کے درمیان ٹارگٹ کلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ چند سالوں سے نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا اور وہ اپنے فطری میزبانوں کے علاقے لیاری میں آباد ہوتے گئے اور جب انہوں نے دو بڑے گروہوں کو بزور قوت آسان آمدنی سے فیضیاب ہوتے دیکھا‘ تو وہ بھی میدان میں کود پڑے۔ لیاری چونکہ پیپلزپارٹی کا روایتی مرکز ہے۔ جب وہاں کے لوگ بھتہ وصولی کے میدان میں اترے‘ تو ان پر پیپلزپارٹی کا ٹھپہ لگ گیا اور اس طرح کہا جانے لگا کہ یہ پیپلزپارٹی کے لوگ ہیں اور پیپلزپارٹی کی بدقسمتی کہ خود ان لوگوں نے بھی اپنے مخالفین اور انتظامیہ کو یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ انہیں پیپلزپارٹی کی سرپرستی حاصل ہے۔ جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی شکایات میں اضافہ ہونے لگا۔

کراچی کی انتظامیہ اپنے شہری مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی‘ تو صوبائی حکومت کو متحرک ہونا پڑا اور اس کی طرف سے بحالی امن کی مہم کے سربراہ بطور صوبائی وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا تھے۔ مرزا صاحب نے اپنی فہم کے مطابق کراچی میں پیپلزپارٹی میں بھی ایک مسلح ونگ تیار کرنے کی کوشش کی‘ جو پارٹی کی مرکزی قیادت کے تصور سیاست کے خلاف تھی۔ حکومت غیرجانبداری کی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے وزیرداخلہ رحمن ملک کو کراچی میں ذمہ داریاں دی گئیں اور انہوں نے ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیوں پر زور دینا شروع کیا‘ تو ذوالفقار مرزا طیش میں آ گئے اور ان دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ جس کی وجہ سے صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضاگیلانی دونوں کے لئے مسائل پیدا ہونے لگے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی بھی پیپلزپارٹی کے نام پر خونریزی کرنے والوں کی وجہ سے شکایت کرنے لگے اور مرزا صاحب جو پارٹی سربراہ کے فیصلے کے خلاف سیاسی تصادم میں اضافہ کرتے جا رہے تھے‘ اپنی قیادت کے لئے پریشانی کا باعث بن گئے۔ ایم کیو ایم کی مخالفت میں انہوں نے جو بیانات دیئے‘وہ ایک سیاسی تنظیم یا قیادت کے بجائے اردو بولنے والوں کی پوری کمیونٹی کو پیپلزپارٹی کے مخالفین کی صفوں میں دھکیلنے کا باعث بننے لگے۔ حالانکہ اردو بولنے والوں کی بہت بڑی تعداد پیپلزپارٹی کی حمایت کرتی آ رہی ہے اور کراچی میں پیپلزپارٹی کے کئی بڑے لیڈراس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرزا صاحب کو صدرمملکت سے ذاتی تعلقات کی بنا پر بہت عرصے تک برداشت کیا گیا۔ لیکن انہوں نے شاہی سید کی قیام گاہ پر میزبان کی مزاحمت کو نظرانداز کرتے ہوئے جو خوفناک تقریر کر ڈالی‘ اس کے بعد وفاق میں پارٹی کی حکومت کو خطرات لاحق ہو گئے۔ مسئلہ صرف ایم کیو ایم کی ناراضی کا نہیں تھا۔ پوری کمیونٹی کی بدگمانی کیا مسئلہ بن گیا۔ مرزا صاحب ایم کیو ایم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کمیونٹی کی مخالفت پر اتر آئے اور اتنا کچھ کہہ بیٹھے کہ اب حکومتی پالیسیوں کے خلاف بیانات دینے کے بعد‘ وہ اپنی سیاسی حیثیت بنانے کے لئے وضاحتیں کرنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے پوری کمیونٹی کو کبھی ہدف نہیں بنایا۔ حالانکہ الیکٹرانک میڈیا پر ان کے متنازعہ جملے باربار نشر ہوتے رہے ہیں اور ان کی کوئی بھی تاویل اصل الفاظ کے مفہوم کو نہیں بدل سکی۔ مرزا صاحب کو خود سوچنا چاہیے کہ اپنے ہی کہے گئے جن الفاظ کا بوجھ آج وہ ذاتی سیاست کی وجہ سے برداشت کرتے ہوئے گھبرا رہے ہیں۔ پارٹی کی حکومت ان کی ذمہ داری کس طرح قبول کر سکتی ہے؟ انہوں نے بظاہر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو اعلان بغاوت کیا ہے‘ اس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی قیادت ہی نہیں‘ پورے ملک کے لئے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ ایم کیو ایم کے لئے اس طرح کے حملے نئی بات نہیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان خدانخواستہ پھر سے تصادم ہوا‘ تو یہ بھی نیا تجربہ نہیں ہو گا۔ 90ء کے عشرے میں ایم کیو ایم دو مرتبہ وفاقی حکومتوں کی مسلح کارروائیوں کا نشانہ بن چکی ہے۔ مگر بعدازاں کارروائیاں کرنے والی دونوں جماعتوں کو اپنی وفاقی حکومتیں چلانے کے لئے ایم کیو ایم سے مدد بھی لینا پڑی۔ ایسے ہر تصادم میں ایم کیو ایم پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات فراخدلی سے لگائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان کی ہر سیاسی قیادت اور جماعت ایسے الزامات کا ہدف بنتی رہی ہے۔ ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کا معروف میڈیا گروپ‘ نوازشریف پر بھی الزام تراشی کی مہم میں مصروف ہے۔ مرزا صاحب کے لسانی نفرتیں پھیلانے والے بیانات سے پہلے کراچی کے مسئلے کو انتظامی اور سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس میں ایم کیو ایم سمیت سب جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش جاری تھی۔ ذوالفقار مرزا نے بارہا اسے لسانی رنگ دینے کی کوشش کی اور پارٹی ڈسپلن سے آزاد ہونے کے بعد اب وہ کھل کر یہ کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے حامیوں کو اسلحہ اٹھانے اور ایک کے بدلے میں پانچ لاشیں گرانے کے مشورے دے رہے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ سندھی قوم پرستوں میں انہیں کوئی اہمیت نہیں مل سکتی۔ کیونکہ اس تحریک کی اپنی جڑیں‘ اپنی تنظیمیں اور اپنے لیڈر ہیں اور ان سب کے اپنے سیاسی اہداف ہیں۔ ان میں مرزا صاحب کہیں فٹ نہیں ہوتے۔ اپنی جماعت سے علیحدہ ہو کر وہ صرف ایک فرد رہ جاتے ہیں‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔اگر جوش‘ غصے اور طیش کی حالت سے نکل کر مرزا صاحب کو سوچنے سمجھنے کا موقع ملے‘ تو انہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے سمیت‘ کس کی خدمت کر رہے ہیں؟ اگر وہ ایم کیو ایم پر اپنا غصہ نکالنے کے لئے یہ سوچتے ہیں کہ وہ فوج کو ایم کیو ایم کے خلاف میدان میں لے آئیں گے‘ تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ صورتحال اتنی خطرناک ہو چکی ہے کہ جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن بھی آج یہ انتباہ کرنے پر مجبور ہیں کہ فوج کو کراچی میں کارروائی سے گریز کرنا چاہیے۔ خود فوج کراچی میں دو مرتبہ کارروائیوں کا تجربہ کر چکی ہے اور دونوں مرتبہ فوج کے لئے وہاں جو حالات پیدا ہوئے‘ ان سے نکلنے کے لئے فوجی قیادت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی مختلف مفادپرست گروہوں کی طرف سے شدید دباؤ کے باوجود‘ کراچی میں فوجی کارروائی کے لئے تیار نہیں ہو رہے اور انہیں نہیں ہونا چاہیے۔ ملٹری اکیڈمی کے پڑھے ہوئے لوگوں سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہے کہ جنگ اگر شہری آبادیوں کے اندر لڑنا پڑجائے‘ تو وہاں ایک کی جگہ 6سپاہیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ 2کروڑ کی آبادی والے شہر کے لئے کتنی فوج کی ضرورت ہو گی؟ جرنیلوں سے بہتر اس سوال کا جواب کوئی نہیں جانتا۔ ملک میں ہر وقت تماشے دیکھنے کے خواہشمندوں کے لئے ذوالفقار مرزا نے ایک نیا تماشہ ضرور لگا دیا ہے۔اگر یہ تماشا نہ رکا‘ تو بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ میری مودبانہ التماس ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات اور تنازعات سے بالاتر ہو کر‘ مرزا صاحب کے اس تماشے کو پھیلنے سے روکیں اور اس کی لپیٹ میں آنے سے گریز کریں۔

روزنامہ جنگ ۶ ستمبر ۲۰۱۱

Comments

comments