Nazir Naji on Zulfiqar Mirza
سیاسی دھماکہ
ہمارے ہاں سیاست کم اور سیاسی دھماکے زیادہ ہوتے ہیں۔ الیکشن کے فوراً بعد ججوں کی بحالی کا معاہدہ ہوا۔ وہ ٹوٹا تو سیاسی دھماکہ ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے پہلے وفاقی کابینہ میں شامل ہو کر دھماکہ کیا اور پھر کابینہ چھوڑ کر دھماکہ کر دیا۔ صدر زرداری نے پرویزمشرف کو نکال کے دھماکہ کیا اور پھر صدارتی امیدوار بن کے دھماکہ کر دیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برطرف کر کے دھماکہ کیا گیا اور برطرفی کے دوران مسلم لیگ (ن) نے لانگ مارچ کا دھماکہ کر دیا‘ جس پر جج صاحبان کی بحالی ہوئی۔ ایسے سیاسی دھماکوں کا شمار نہیں جو عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے علیحدہ اور اپوزیشن میں شامل ہو کر کئی دھماکے کئے۔ ایم کیو ایم نے حکومتوں میں شمولیتیں اور علیحدگیاں اختیار کر کے‘ اتنے سیاسی دھماکے کئے کہ مجھ سے تو ان کی گنتی نہیں ہو پا رہی۔ مسلم لیگ (ق) نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مفاہمت کر کے ایک اور دھماکہ کر ڈالا۔ ابھی فضاؤں میں ان دھماکوں کی گونج جاری تھی کہ صدر آصف زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ذوالفقار مرزا نے دھماکہ کر ڈالا۔ میں نے اپنی زندگی میں ان گنت پریس کانفرنسیں دیکھی ہیں۔ سب سے طویل اور ہر لمحے دلچسپی قائم رکھنے والی پریس کانفرنسیں ذوالفقار علی بھٹو کی ہوا کرتی تھیں۔ مگر ان کے زمانے میں ٹی وی چینلوں کا جمعہ بازار نہیں لگا تھا۔ صرف ایک سرکاری چینل ہوا کرتا تھا‘ جسے لوگ بے دلی اور مجبوری کے عالم میں دیکھا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کی پریس کانفرنسیں دلچسپی سے ضرور دیکھی جاتیں۔ لیکن ذوالفقار مرزا کی طویل ترین پریس کانفرنس کم و بیش تمام چینلوں پر نشر ہوئی اور لوگوں نے گلیوں‘ محلوں اور سڑکوں پر ٹی وی رکھ کر‘ اجتماعی طور پر اس پریس کانفرنس کو آخری لمحے تک پلک جھپکائے بغیر دیکھا اور ”جیو“ نے تو مرزا صاحب کو کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ جیسے ہی وہ کراچی پریس کلب سے نکلے‘ انہیں ”جیو“ نے گھیر لیا اور پھر مرزا صاحب کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ معمول کے کئی شیڈولڈ پروگرام ہڑپ ہو گئے۔
آج میں مرزا صاحب کے ان ان گنت بیانات پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں‘ جو صرف ایک ہی رات میں انہوں نے اپنی پریس کانفرنس اور ”جیو“ کے دو مختلف پروگراموں میں یکے بعد دیگرے دیئے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس زاویئے سے بات کا آغاز کروں؟ میرا خیال ہے سب سے پہلے اس رشتے پربات کی جائے‘ جو مرزا صاحب کے بیانات کو دھماکہ خیز بنانے کی وجہ بنا۔ وہ ہے صدر مملکت کے ساتھ ان کا ذاتی نوعیت کا دیرینہ‘ قریبی اور گہرا رشتہ۔کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ ذوالفقار مرزا اس طرح کھل کر اپنی جماعت کی پالیسیوں کے خلاف گرج چمک کے ساتھ موسلادھار برسیں گے۔ لیکن وہ نہ صرف برسے بلکہ چھاجوں برسے۔ ابتدائی مراحل میں تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اچانک یہ کیا ماجرا ہو گیا؟ ابھی تک لوگوں کو یقین نہیں آ رہا کہ جو کچھ مرزا صاحب فرما رہے ہیں‘ اس میں سچ بھی ہے یا نہیں؟ جو وہ فرما رہے ہیں‘ کیا وہ کہہ بھی رہے ہیں؟ بہت سے مبصر‘ دانشور اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والے اصحاب شش و پنج میں ہیں۔ بعض کو تو مرزا صاحب پر یقین ہی نہیں آ رہا اور ان کا خیال ہے کہ وہ پہلے کی طرح ایک بارپھر معافی مانگ کر گھر لوٹ جائیں گے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ یہ صدر زرداری کی چال ہے۔وہ ایم کیو ایم کی طرف سے لگائے گئے جھٹکوں کا غصہ ذوالفقار مرزا کے ذریعے نکالتے رہتے ہیں۔ اب چونکہ ایم کیو ایم نے لگاتار جھٹکے لگانا شروع کر دیا ہے‘ اس لئے صدر صاحب نے بھی ہر جھٹکے پر فوری غصہ نکالنے کے لئے ذوالفقار مرزا کو مامور کر کے‘ جوابی کارروائی کا مستقل انتظام کر لیا ہے۔ اس اندازے کو دیکھ کر مجھے جنرل ضیاالحق کی وہ تقریر یاد آگئی‘ جو انہوں نے بھٹو صاحب کو برطرف کر کے بطورچیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی تھی۔ اس تقریر میں انہوں نے وہ سب کچھ کہا جو بغاوت پر اترا ہوا کوئی شخص کہہ سکتا ہے۔ مگر لوگ تب بھی یہ کہہ رہے تھے کہ یہ بھٹو صاحب کی چال ہے۔ انہوں نے پی این اے کی تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ضیاالحق کوآگے کر دیا ہے اور جب تحریک دم توڑ دے گی‘ تو بھٹو صاحب واپس اپنی جگہ پر آ جائیں گے۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔
جنرل اعظم خان مرحوم کا واقعہ ذوالفقار مرزا کے دھماکے سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ ایوب خان نے اعظم خان کو اپنا انتہائی قریبی رفیق سمجھتے ہوئے مشرقی پاکستان کا گورنر لگا دیا تھا۔ وہ انتہائی مستعد اور خالص فوجی انداز میں مخلصانہ کام کرنے والے سپاہی تھے۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے شکایتوں اور محرومیوں میں ڈوبے اور مغربی پاکستان کے خلاف بپھرے ہوئے مشرقی پاکستانی عوام کا غصہ اپنے طرزعمل سے ٹھنڈا کر دیا۔ یہاں تک تو وہ ایوب خان کے لئے قابل برداشت رہے۔ مگر جب اعظم خان کی مقبولیت بلند سے بلندتر ہوتی گئی اور وہ مشرقی پاکستانیوں کے محبوب لیڈر بنتے نظر آئے‘ تو ایوب خان کو اپنی کرسی کی فکر پڑ گئی۔ مشرقی پاکستان پورے مغربی پاکستان سے زیادہ ووٹ رکھنے والا صوبہ تھا۔ ایوب خان نے سوچا کہ جب مجھے کبھی الیکشن لڑنا پڑا تو اعظم خان میرے لئے مصیبت بن جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے مشرقی پاکستانی عوام کے جذبات کی پروا نہ کرتے ہوئے‘ انہیں برطرف کر دیا۔ وہ کھرا سپاہی کسی احتجاج کے بغیر خاموشی سے گھر چلا گیا۔ذوالفقار مرزا نے بھی سندھ کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے‘ سندھی عوام میں اپنے لئے پسندیدگی کے جذبات پیدا کئے اور وہ کبھی کبھی صدر صاحب کی پالیسیوں کے خلاف بیانات دینے لگے‘ جسے صدر زرداری دوستانہ نازوانداز کے کھاتے میں ڈالتے رہے۔ لیکن گزشتہ روز مرزا صاحب نے جو سیاسی دھماکہ کیا‘ اس نے تو حالات ہی بدل ڈالے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس نے وہ جادو کیا ‘ جو 1993ء میں برطرفی سے پہلے نوازشریف کی نشری تقریر نے کر دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے وزیراعظم سمجھے جاتے تھے مگر اس تقریر سے وہ‘ اپنے بل بوتے پر دیکھتے ہی دیکھتے ایک قدآور سیاستدان بن گئے اور ایک ہی رات میں وہ مقبولیت حاصل کی‘ جو بڑے بڑے لیڈروں کو نصیب نہیں ہوتی۔ان کی طاقتور حریف بے نظیر بھٹو جو انہیں سیاستدان ہی نہیں سمجھتی تھیں‘ یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ آج نوازشریف سیاستدان بن گئے ہیں۔ ذوالفقار مرزا جو ایک صوبائی سطح کے لیڈر تھے‘ اس پریس کانفرنس کے بعد اسی طرح ابھر کے سامنے آ گئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ صدر زرداری کو ان کے سرکاری اور ذاتی ذرائع نے کیا بتایا ہے؟ مگر میں انہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ذوالفقار مرزا مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد بے شمار لوگوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ سندھ تو ان پر فریفتہ ہو گیا ہے۔ صرف وہی سندھی ان کے خلاف ہو گا‘ جس کی اپنی چودھراہٹ کو مرزا سے خطرہ لاحق ہو۔ ورنہ تمام سندھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ذوالفقار مرزا نے ان کے دل کی آواز بلند کی ہے اور مرزا کی یہ مقبولیت صرف سندھیوں میں نہیں‘ کراچی کے لئے امن کے آرزومند اہل کراچی میں بھی بڑھ گئی ہے۔ پنجاب میں جہاں انہیں‘ سندھ کا مقامی سیاستدان سمجھا جاتا تھا‘ یہاں بھی ان کی پریس کانفرنس کی زبردست پذیرائی ہوئی ہے۔ ہر طرف ایس ایم ایس چل رہے ہیں‘ جن میں ذوالفقار مرزا کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے اور اس طرح کے نعرے بھیجے جا رہے ہیں ”ذوالفقار مرزا۔تیری جرات کو سلام“۔
اصولی طور پر صدرزرداری کو اپنے دوست کا یہ اقدام پسند نہیں آنا چاہیے۔ اب تک جناب صدر نے جس سیاسی فراست اور دانائی کا ثبوت دیا ہے‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایوب خان والی غلطی دہراتے ہوئے اپنے دوست کی مقبولیت کو خطرہ سمجھنے کے بجائے‘ اس کو اپنے اثاثے میں بدلنے کی کوشش کریں۔ مرزا کو جو بھی سیاسی طاقت ملی ہے‘ صدرزرداری چاہیں تو اسے اپنے بیگ میں ڈال سکتے ہیں۔فی الحال مرزا کوئی بڑا مطالبہ نہیں کر رہے۔ دہشت گردی کے خلاف جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں‘ وہ پاکستان بھر کے عوام کی آواز ہے۔ خود ایم کیو ایم کی قیادت بھی اسی خواہش کا اظہار کرتی ہے اور ذوالفقار مرزا کا ذاتی مطالبہ‘ بہت معمولی ہے۔صدر زرداری جانتے ہیں کہ مطالبہ کیا ہے؟ وہ اس پر ہنستے بھی ہوں گے۔ اس وقت ان کے سامنے صرف ایک کینچوا ہے۔ فیصلہ بروقت نہ کیا‘ تو یہ سانپ بن سکتا ہے۔
روزنامہ جنگ ۳۱ اگست۲۰۱۱