Farewell, Ajmal Khattak

[ajmal-khattak.jpg]
September 15, 1925 – February 7, 2010

With the death of Ajmal Khattak, a renowned leftist-nationalist politician, poet and writer, another chapter in history has closed. Khattak was greatly influenced by Bacha Khan, the great Pakhtun nationalist leader and an ardent follower of Gandhi’s non-violent movement, during his youth. He joined the Khudai Khidmatgar movement to follow in the footsteps of his leader Bacha Khan. Khattak was a prominent leader of the National Awami Party (NAP) and later the Awami National Party (ANP). His political career mirrors the twists and turns that followed the Khudai Khidmatgar’s transformation during and after the partition of the Indian subcontinent. The movement started with a social welfare agenda and was based on secular ideas. NAP was founded on the same principles. After a crackdown against the party was launched in Zulfikar Bhutto’s era, Khattak fled to Afghanistan. NAP was subsequently banned by Bhutto.

During his self-exile days, he was the point man between the Afghan government and the Pashtun nationalists resisting Bhutto’s repression. Their allies, the Baloch nationalists, were greatly disappointed with Khattak as they were not given the kind of support they needed in those difficult times. Khattak returned to Pakistan in 1989 — many years after General Ziaul Haq announced an amnesty for both the Pashtun NAP members and the Baloch insurgents. By then the schism between the Baloch and the Pashtun nationalists was out in the open.

Upon his return Khattak became one of ANP’s most important members. In 2000, some differences with Begum Nasim Wali Khan led to Khattak’s ouster from the party. He led an offshoot of the ANP briefly before rejoining the ANP.

Khattak may have made some political mistakes, yet he is remembered as part of that section of our society that played an important role against dictatorship in the country’s troubled history. It is hoped that the ANP will revisit Bacha Khan’s original legacy as a tribute to both the Khudai Khidmatgar movement and Ajmal Khattak. Source: Daily Times

Jannat

Farewell, Ajmal Khattak Baba. Here is an English translation (by Aziz Akhmad) of one of his Pashto poem titled Jannat (Paradise). The poem is more relevant in today’s Pakistan than, perhaps, when it was written many years ago.

Paradise

I asked a mullah, what do you think is Paradise like?
He ran his fingers through his beard and said
“Fresh fruits and rivers of milk”

A talib (student) was sitting nearby
I asked him, what do you say?
He put aside the book of Zulekha he was reading, and said
“Beautiful women with (tattooed) green dots on their cheeks”

A shaikh stood nearby, rolling his tasbeeh (rosary)
He stroked his beard and said (questioning the talib):
“No, it’s not like that!”
“Paradise is beautiful servant boys and heavenly music.”

A khan raised his head from a lengthy sajda (prostration in prayer)
What is your opinion, Khan Sahib? I asked
He adjusted his turban and said
“The luxuriously furnished and perfumed mansions”

Nearby, a labourer stood in his tattered clothes
I asked him, do you know what Paradise is?
He wiped the sweat from his brow and said
“It’s a full stomach and deep slumber”

A man, in dishevelled hair, passed by, lost in his thoughts
I asked, what do you say, philosopher?
Smoothing his hair, he said:
“It’s nothing but dreams conjured up to please man”

(Confused) I looked down into my heart and then looked up into the blue sky; and heard a murmur in reply:

“Paradise is your home where you are the master, and at liberty;
and if you cannot attain the freedom, then sacrifice on the path to freedom, as an ideal, is Paradise;
Be it hellfire or the gallows”.

Source: Adapted from an article published in The News on 14 October 2009

Jannat – recited by Najiba Sara Biabani, a well-respected Afghan poet, journalist and human rights activist.

An excellent article on Ajmal Khattak by Abdul Haye Kakar (BBC Urdu):


تضادات سے بھری سحر انگیز شخصیت

عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردوڈاٹ کام، پشاور

وہ چار آنے جیب میں لے کر اکوڑہ خٹک سے سیاسی سفر پر نکلے تو آدھی دنیا دیکھ ڈالی۔ انہوں نے اس دوران عام آدمی سے لے کر سربراہان مملکت، نامور سیاستدانوں، شہرہ آفاق ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں کیں اور ساٹھ سال کی سیاسی اور ادبی جدوجہد کے بعد جب دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو ان کے جیب میں چار آنے بھی نہیں تھے۔

ذوا لفقار علی بھٹو کی دورِ حکومت میں لیاقت باغ راولپنڈی میں اپوزیشن کے جلسے پر حکومتی سرپرستی میں حملہ ہوا تو اس وقت اجمل خٹک نیشل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں جب ایک کارکن کو گولی لگی اور اس نے اجمل خٹک کے بانہوں میں زندگی کی بازی ہار دی تب وہ یہ کہہ کر کابل جلا وطن ہو گئے کہ یہ ملک اب مزید رہنے کے قابل نہیں رہا۔

اٹھارہ سال افغانستان میں رہ کر انہوں نے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے، داؤد خان کی حکومت، ثور انقلاب، سوویت یونین کی فوج کی افغانستان آمد اور اس کی پھر شکست و ریخت، پاکستان میں ستر کی دھائی میں پشتون نوجوانوں کی گوریلا جنگ ان سبھی کو انہوں نے نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ وہ ان میں اہم کردار کے طور پر بھی شامل رہے۔

اس سے قبل اجمل خٹک مرحوم نے خدائی خدمت گار تحریک کے کارکن کے طور پر انیس سو بیالیس میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پھر جب انیس سینتالیس میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسی اجمل خٹک نے ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے پاکستان کی عظمت میں پشتو ترانے لکھے اور افغانستان کے خلاف پروپیگنڈہ پروگرام کے سکرپٹ لکھتے رہے۔

لیکن پھر ان کی شخصیت میں یکلخت ایسی تبدیلی آئی کہ پاکستان کے ترانے لکھنے والے اجمل خٹک پشتونستان کے ترانے لکھنے لگے۔ریڈیو پاکستان پشاور پر افغانستان کے خلاف پروپیگنڈہ پروگرام کی سکرپٹ لکھنے والے اجمل خٹک پھر جلاوطنی کے دوران ریڈیو افغانستان پر پاکستان کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔

تضادات سے بھر پور اجمل خٹک کی شخصیت اتنی سحر انگیز بھی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ان کی تہہ در تہہ شخصیت کی جال میں ایسے الجھ جاتے کہ بہت دیر بعد آپ کو پتہ چل جاتا کہ آپ کسی شکاری کے دام میں پھنس چکے ہیں۔

ایک مسلمان پشتون گھرانے میں پرورش، خوشحال خان خٹک کا شاعرانہ رنگ، باچا خان کی سیاسی تربیت، مارکسسزم ، جامعہ ملیہ دہلی کا ماحول ،ترقی پسند ادب کی چھاپ ان کی شخصیت میں اس طرح رچ بس گئی تھی جس کا حتمی نتیجہ ایک متضاد شخصیت کی ہی تشکیل پر منتج ہوسکتا تھا۔

سیاسی جوڑ توڑ کے اتنے ماہر کہ سیاسی اتحاد بنانے کے لیے نکل پڑتے تو آگ اور پانی کو یک جان دو قالب کرلیتے۔ دو دشمنوں کو کھینچ کھینچ کر مذاکرات کی میز پر بٹھاتے اور چند گھنٹوں بعد دو دشمن سیاستدان دوستوں کی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مسکراتے ہوئے کمرے سے یوں نکلتے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور خود اجمل خٹک اپنے ہونٹوں پر ایسی طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے نمودار ہوتے کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ یہ سب تو میرا ہی کمال ہے۔

سیاسی کارکنوں کی محفل میں پیر پھیلاکر اپنے آدھے چہرے کو اپی سفید ٹوپی سے اس طرح چھپاتے کہ گویا وہ سو رہے ہیں اور محفل میں جاری بحث سے وہ بالکل لاتعلق ہیں لیکن جب اسی محفل میں ان کی ذات یا پالیسی کے حوالے سے کوئی بات کرتا تو وہ اپنی بائیں آنکھ کھول کر اس شخص کو کچھ اس طرح گھورتے کہ وہ پانی پانی ہوجاتا لیکن وہ کچھ کہے بغیر اپنی آنکھ دوبارہ بند کر لیتے۔

اجمل خٹک سماجی نفسیات اور ہپناٹزم کے ماہر تھے اسی لیے انہیں جوڑ توڑ ، مذاکرات کی میز پر اپنے مخالف کو مشکل صورتحال سے دو چار کرنے، میل ملاپ میں لوگوں کو اپنی سحر میں گرفتار کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔

اجمل خٹک نے سینکڑوں سال سے جاری پشتو شاعری کی روایت کو توڑتے ہوئے اس میں طبقاتی، انقلابی اور مزاحمتی رنگ کچھ اس انداز سے شامل کرلیا کہ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ’د غیرت چغہ‘ ( غیرت کی پکار) شائع ہوا تو اس نے پشتون نوجوانوں کے خون میں ایسی گرمی پیدا کردی کہ انہیں ایک آزاد پشتون وطن کی منزل بہت قریب نظر آنے لگی۔ان کی’جنت‘ کے عنوان سے ایک نظم انقلابی نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی تھی ۔نثری ترجمہ: ( میں نے اپنےگریباں میں جھانک کر دیکھا، تو میرا دل آسمان کو پکا پکار کر کہہ رہا تھا، میں نے اس کے چند الفاظ سنے، وہ کہہ رہا تھا، کہ اے لا مکان کے مالک، اپنے مکان میں اپنا اختیار جنت ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر اس پاگل پنے کے نام پر، اگر سولی ہے تو سولی اور اگر آگ ہے تو آگ جنت ہے۔)

انہوں نے ان نوجوانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے طور خم کے راستے بہت جلد ’سرخ ڈولی‘ لیکر آئیں گے مگر جب وہ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو کی عام معافی کے اعلان سے استفادہ کرتے ہوئے ’خالی ہاتھ‘ واپس لوٹے تو ان کے کسی شاعر دوست نے ایک نظم لکھی جو بہت مشہور ہوئی تھی کہ’ تم نہ بہار اور نہ ہی پھول لاسکے، تم جھوٹے ہو۔۔۔‘

پانچ سال قبل جب میں نے ایک انٹرویو کے دوران اجمل خٹک کو ’ سرخ ڈولی لانے’ کا وعدہ یاد دلایا اور ان کے خلاف لکھی گئی نظم کا حوالہ دیا تو انہوں نے جواب میں محض اپنا ایک شعر سنایا کہ ’خٹک تادمِ مرگ بار بار تمہاری راہ تکتا رہا، تم آ بھی رہے تھے مگر راستے پُر پیچ نکلے۔‘

Source

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
  6. Abdul Nishapuri
    -
  7. mukhtiar
    -
  8. donepezil vs galantamine
    -
  9. Pashto
    -
  10. Rehmankhan
    -
  11. Abdul Nishapuri
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.