آزادی کا خواب

آزادی کے چونسٹھ سال بعد بھی بر صغیر کے باشندے اپنے لئے ایک واضح سمت کا تعیین کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، مفادات کے ٹکراؤ میں گروہی اور انفرادی مقاصد کا حصول اہمیت رکھتا ہے اور اجتماعی مقاصد کو کوتاہ نظری اور بے صبری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے. صرف یہی نہیں ہم نے اپنے گروہی مقاصد کے لئے  تاریخ کو بھی اس بری طرح سے مسخ کیا ہے کہ سچائی ایک مبہم امکان بن کر رہ گئی ہے. واقعات و شخصیات کے گرد اتنے اساطیری ہالے چڑھا دے گئے ہیں اور عام آدمی کو حقیقت سے اتنی دور لے آیا گیا ہے کہ بہت سے بت گرانا ممکن ہی نہیں رہا. اور ایک عام آدمی کی زندگی دیکھیں تو یہ سوال بری طرح کچوکے لگاتا ہے کہ یوم آزادی خوشی و سرشاری میں گزار دینا چاہیے کہ آج کے دن کچھ وقت کے لئے ان آزاد ممالک کے ہر آزاد فرد کو کچھ وقت نکال کر اپنے گردو پیش پر ایک نظر ڈالنی چاہیے اور اپنے آپ سے کچھ سوال پوچھنے چاہیئں کہ یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے، کیا یہی آزادی کے حصول کا مقصد تھا ؟ جھنڈے لہرانے اور ترانے گانا ضروری ہے ، چراغ اور دئے جلانا جائز ہے کہ ان سے اتحاد و اتفاق کا سبق ملتا ہے، افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کواجتماعیت سے منسلک کریں مگر افراد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی قسم کی خوش فہمی کا شکار نہ ہوں. ہماری اکثریت تک تو آج تک آزادی کا پھل پہنچا ہی نہیں، ہم ان کو کیسے بھلا سکتے ہیں؟ آج کے دن خوشی  منانےکے علاوہ ہمارے نوجوانوں کو اور کچھ بھی کرنا چاہیے کہ نہیں؟ اپنے ان بھائیوں بہنوں کا خیال جو آزادی کی  نعمت سے بے خبر زندگی کی تگ ودو میں جٹے هوئے ہیں. مسائل کا ادراک نہ ہو تو مسائل حل نہیں ہو سکتے.

٢٠١٠ میں یو-این-ڈی-پی کی تیار کی گئی ہیومن ڈویلوپمنٹ رپورٹ  کے مطابق پاکستان کا ایچ-ڈی-آئ اعشاریہ چار نو صفر  ہے، بھارت کا اعشاریہ پانچ ایک نو، اور بنگلہ دیش کا اعشاریہ چار چھ نو؛ ایچ-ڈی-آئ ممالک عالم میں مجموعی تعلیم، صحت، عمر،  اور دیگر معیار زندگی کو ناپنے کا ایک معیار ہے( ہمارے لئے خوشی کی خبر صرف اتنی ہے کہ یہ معیار ایک پاکستانی ڈاکٹر محبوب الحق اور ایک ہندوستانی امرتیا سین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے). ایک سو بہتر ملکوں میں بھارت ایک سو بائیس ، پاکستان ایک سو اٹھائیس اور بنگلہ دیش ایک سو بتیس کی پوزیشن پر ہیں. بھارت میں اکتالیس اعشاریہ چھ فیصد آبادی صرف ایک  اعشاریہ پانچ ڈالر یومیہ یا اس سے بھی کم پر زندہ ہے، پاکستان میں بائیس  اعشاریہ چھ فیصد اور بنگلہ دیش میں اننچاس  اعشاریہ چھ فیصد. اور اگر ہم اس  کو دو ڈالر یومیہ پر لے جائیں تو بھارت میں پچہتر فیصد، پاکستان میں ساٹھ فیصد اور بنگلہ دیش میں اسی فیصد انسان اس حد میں زندگی گزار رہے ہیں. جی-ایچ-آئ  ایک ایسا پیمانہ ہے جس میں یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ دنیا میں کتنے افراد بھوک کا شکار ہیں یا دوسرے الفاظ میں اس سے قاصر ہیں کہ اپنا پیٹ بھر سکیں، بھارت اور بنگلہ دیش میں یہ سطح چوبیس سے پچیس فیصد کے درمیان اور پاکستان میں اکیس فیصد ہے. مختصر الفاظ میں بھوک اور جہالت کا خاتمہ اور صحت و صفائی کی سہولتوں کی فراہمی ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں اور یہ مسائل اس خطّے کے عوام میں مشترک ہیں، یہ مسائل تب بھی تھے جب ہم نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی، اور یہ مسائل آج بھی جوں کے توں کھڑے ہیں، ہم نے بحثیت مجموعی ان میں اضافہ کیا ہے. یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ہم زوال پذیر ہیں کیوں کہ ہم نے کئی میدانوں میں ترّقی کی ہے، خاص کر بھارت نے مگر اس ترّقی کے ثمرات عوام تک منصفانہ یا برابر کی سطح پر نہیں پنہچے اور اسی غفلت  کا نتیجہ ہے کہ ترّقی معکوس نظر آتی ہے. انڈیا میں تقریباً ایک لاکھ افراد ہر سال خود کشی کر لیتے ہیں، پاکستان میں بھی اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ان میں زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے جو روزگار کے لئے خود پر انحصار کرتے ہیں یعنی محنت کش، کسان، مزدور  اور چھوٹے کاروباری، یا پھر عورتیں جو تشدد اور نا روا سلوک کی وجہ سے زندگی ہار دیتی ہیں. ہمارے معاشروں میں تشدّد،  انتہا پسندی اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے، فرقہ وارانہ، مذہبی، نسلی، لسانی تعصبات میں ہزاروں انسان جان ہر چکے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں حالات سے متاثر ہوئے ہیں. کرپشن ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے، اربوں روپے جو کہ شہریوں کا حق ہوں  مٹھی پھر نفوس کی ہوس کی نظر ہو جاتے ہیں اور اس میں کوئی کمی ہوتی نظر نہیں آتی.  جاگیردارانہ روایتیں اور اقدار آج بھی ہمارے معاشروں پر حاوی ہیں، خاص کر پاکستان میں جہاں کوئی اصلاح سرے سے ہو ہی نہیں سکی اور وہی عناصر اقتدار پر قابض ہیں جو انگریزوں کا دست و بازو تھے؛   سیاسی نظام نے بھی کوئی خاص ترّقی نہیں کی، ہمارے ہاں آج بھی افراد اور خاندان اداروں پر حاوی نظر آتے ہیں اور عوام جو صدیوں سے کسی نا کسی  سنت، سادھو، رشی، منی، پیر، فقیر،  ٹھاکر، سردار، راجہ، مہا راجہ، بادشاہ یا شہنشاہ کی پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی اسی روش پر قائم ہیں، بدلا کیا ہے؟

اس خطّے کی ریاستیں باہمی امن اور مشترک لائحہ عمل بنانے میں بھی ناکام رہیں ہیں، ثبوت یہ ہے کہ ہماری فوجوں نے زیادہ ترّقی کی ہے بجائے باہمی تجارت اور مشترکہ پیداواری منصوبوں کے حالانکہ ہم  مشترکہ  قدرتی ذرایع اور وسائل رکھتے ہیں، ہمارے دریا، سمندر، صحرا اور پہاڑ ابھی تک سرحدوں کا مطلب نہیں سمجھے, ہم نے ان پر باڑیں تو لگا لی ہیں مگر اس کے نتیجے میں پڑنے والے اثرات سے ابھی تک غافل ہیں. ہمارے جتنے جغادری وادی سینا میں جینا چاہتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ ہمالیہ کو کھسکا کر کوہ طور کے سااتھ نہیں رکھا جا سکتا، ہماری جغرافیائی حدود بھی کچھ مطالبہ کرتی ہیں کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھیں، ورنہ جب قدرت سزا دے گی تو کوئی جاۓ پناہ نہ ملے گی. پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، چین اور میانمار ان سب ممالک کا انحصار کوہ ہمالیہ پر ہے، آنے والے وقت میں جو موسمی اور قدرتی تبدیلی آنے والی ہے اور اس کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہونگے ان کا حل باہمی اشتراک ہی میں ہے. اسی طرح جامع معاشی ترّقی بھی اسی وقت ممکن ہے جب باہمی علاقائی تعاون ممکن ہو سکے، ہم مشترکہ طور پر جو افرادی قوّت اور پیداواری وسائل رکھتے ہیں ان سے مشترکہ فایدہ نہ اٹھانا بے وقوفی ہے. ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انگریز کے عہد میں ہندوستان میں پانچ سو سے زیادہ ریاستیں موجود تھیں، ان سے پہلے بھی یہ علاقہ انتظامی طور پر کسی ایک طاقت کے زیر اثر نہیں رہا اس لئے آج اس کا تین ریاستوں میں منقسم ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، یہ تین ریاستیں ایک مشترکہ ماضی کی امین ہیں اور کوشش کریں تو ایک دوسرے کو ہڑپ کئے بغیر ایک اچھا مشترکہ مستقبل بنا سکتی ہیں، جس کا فایدہ ان کے ہر شہری کو پنہچے, ورنہ حال یہ خبر تو دیتا ہے کہ اس راہ پر چلتے رہے تو کہاں پہنچیں گے. ہمارے پاس سارک کی صورت میں ایک ڈھانچہ موجود ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقائی، انفرادی مقاصد اور اجتماعی مقاصد میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے، اس ڈھانچے میں مزید پانچ ریاستیں شامل ہیں یعنی افغانستان، بھوٹان، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ . یہ سب ریاستیں ایک ہی جغرافیایی وحدت میں شامل ہیں, سارک کا ہونا اس کا ثبوت بھی ہے کہ اس بات کا ادراک کیا جاتا ہے کہ تعاون ضروری ہے.

ریاست کو ڈھب پر لانے کی ذمّہ داری سیاسی جماعتوں اور عوام پر عائد ہوتی ہے، ہمارے ہاں انتہائی تیزی سے دائیں بازو کی شدّت پسند جماعتوں کو جو عروج حاصل ہوا وہ اس بات کی نشانی ہے کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور روشن خیال، متعدل  اور ترّقی پسند عناصر متحد نہیں ہو سکے.  نہ ہی کوئی ایسا متبادل عوام کو مل سکا جو ان کی توانائی کو مثبت سمت میں رکھتا. انتہا پسندی کے پیچھے ہمیشہ کسی قسم کی محرومی ہوتی ہے جس کا فائدہ شدّت پسند عناصر اٹھاتے ہیں. پاکستان میں تو زیادہ وقت آمریت کے تحت گزرا ہے, جو خود اداروں کی ناکامی اور عوام کی بے بسی کا ثبوت ہے.

آزادی کا خواب جو ہمارے بزرگوں نے دیکھا ہم نے اسے ہر طریقے سے کھینچ کھانچ کر اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کی ہے،  اور اس چکر میں اپنے ماضی کو مسخ ہی نہیں کیا بلکہ اپنے پرائے کی ایسی تشخیص بھی کر گزریں ہیں کہ اگر جناح یا گاندھی آج واپس ہوں تو پریشان ہو جائیں، ہم نے جس ڈھب سے اپنا مستقبل بنانا چاہا اسی ڈھب سے ماضی کی بھی تشکیل کی اور اسی ڈھب سے افراد اور ان کے کردار بھی بنائے، نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں گاندھی، نہرو، پٹیل، آزاد، بوس اور کانگریس دشمن اور پرائے بنے، اور یہی درجہ جناح سمیت دیگر مسلم لیگی یا اور مسلمان رہنماؤں کو بھارت میں ملا، ہماری نئی نسلوں کو یہ کسی نے نہیں بتایا کہ ان سب نے کسی نہ کسی طرح اپنا کردار ادا کیا مگر یہ سب کے سب ایک ہی خواب دیکھتے تھے وہ تھا اپنے ملک اور قوم کی آزادی، اور یہ ان سب کا مشترکہ مقصد تھا، ہم نے اپنے اپنے دائرہ عمل میں اپنے اپنے ہیرو اور ولن چن لئے مگر اس چکّر میں سچائی کو بھینٹ چڑھا دیا. سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کے بغیر آزادی کا حصول ممکن تھا؟ کیا مسلم لیگ کے بغیر مسلمان سیاسی طور سے متحرّک ہو پاتے؟  نظریات، اور خیالات ہوا میں تشکیل نہیں پاتے بلکہ ان کے پیچھے معروضی حقائق ہوتے ہیں، اور افراد اور ان کے اقدامات کو معروضی حقائق سے علحیدہ کر دینا بلکہ اپنے مقاصد کی روشنی میں نئی تاویلات کو جنم دینا انتہائی شرم ناک ہے. مثال کے طور پر نہرو کو ایک پلے بوائے بنا کر پیش کیا جاتا ہے، ذرا نہرو کو پڑھیں تو؛ تاریخ عالم پر ایک نظر، ہندوستان کی تلاش، جدوجہد آزادی، یہ سب لکھنے والا کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا. پٹیل کی فراست تھی کہ انہوں نے ہندوستان کو متحد کرنے کا خواب پورا کیا اور ایک علحیدہ  ریاست نہیں رہنے دی ، یہ حقیقت ہے کہ حد سے زیادہ مرکزیت نے جنم لیا مگر پٹیل کی اہلیت سے تو انکار نہ کریں. گاندھی نے ایک محیرالعقل کارنامہ سر انجام دیا، انہوں نے ایک عام ہندوستانی جو کہ جہالت اور توہمات میں گھرا تھا اس کو سیاسی طور پر متحرک کر دکھایا، یہ آسان کام نہیں تھا. جناح کی سیاسی بصیرت نے تحریک آزادی کی رہنمائی کی، اور انہوں نے سیاسی اور معاشی طور پر زوال پذیر مسلمانوں کو ایک امید دی ایک  مستقبل دیا. بجا کہ ان سب سے سیاسی غلطیاں اور غلط فیصلے ہوے، مگر تنقید کو نفرت تک لے جانا جائز نہیں ہے اور محض تنگ نظری کو جنم دیتا ہے. رام موہن رائے،  سید احمد خان، راناڈے، گوکھلے، امیر علی، فروز شا مہتہ، دادا بھائی نوروجی، تلک، بپن چندرہ پال، ، حسرت موہانی، مولانا جوھر،سبھاش چندر بوس، راج گوپال اچاریہ، موتی لال نہرو، اینی بیسنٹ، سی آر داس، گاندھی، جناح، نہرو، پٹیل، آزاد، لیاقت علی خان، راجندرہ پرشاد، امبیدکر، یہ سب اور ان گنت اور افراد اس تحریک کے سپاہی تھے جس کے نتیجے میں ہم کو آزادی نصیب ہوئی، ہم کو ان سب کا ممنون ہونا چاہیے اور یہ ہماری نسلوں کا حق ہے کہ وہ ان افراد سے آگاہ ہوں، اپنے ماضی سے آگاہ ہوں تاکہ تعصبات سے دور رہ کر مستقبل کی تعمیر کر سکیں، جی سکیں اور جینے دیں.

احمد ندیم قاسمی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Dr HaidraniShaidrani
    -