زندگی، فرد اور معاشرہ



لڑکپن میں سعدی کی حکایات پڑھیں تھیں، فارسی تو آتی نہیں تھی لہٰذا ترجمہ پڑھا، ہر حکایت کے اختتام پر ایک پیرا گراف ہوتا جو اس حکایت سے ملنے والی ہدایت پر روشنی ڈالتا کہ ‘اس قصّے سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتے ہے کہ ……..’  خدا جانے شیخ صاحب نے اس طرح لکھا کہ یہ مترجم کی ذہنی کاوش تھی.  کچھ حکایتوں کے بعد ہم اس سبق کے چکّر سے اتنا بور هوئے کہ  جہاں سبق حاصل ہوتا پر نظر پڑتی ، وہ آخری پیرا پڑھے بغیر دوسری حکایت پر چھلانگ لگا جاتے، دونوں بوستان اور گلستان اسی طرح بغیر کوئی سبق حاصل کئے بغیر پڑھ ڈالیں. آج جب سوچتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ بے شک افراد ہی سے قوم بنتی ہے، نہ جانے کتنے قصّے ہو گئے، نہ جانے کتنی کہانیاں بنیں اور ماضی کا حصّہ ہو گئیں، ہم ہر قصّے سے چھلانگ لگا کر اگلے پر جا پہنچے بغیر کوئی سبق سیکھے. جیسے غلام محمد  گورنر جنرل بنے ، کیا  قصّہ تھا؟ سب کو پتا ہے، کوئی سبق ؟ کچھ نہیں. اسکندر مرزا سے ایوب خان تک حکومت پہنچی، کیا کہانی تھی؟ لکھی ہے پڑھ لیں، کوئی سبق ؟ آگے چلیں. فاطمه جناح ہار گئیں، ہیں اچھا اور؟ جنگ ہوئی، بڑے مزے کی کہانیاں بنیں، زور دار جوشیلی حکایتیں، اور آخر میں تاشقند، مگر آخر سے تو چھلانگ لگا دینی ہے، چلو جی آگے چلو؛ ایسے نہ جانے کتنے قصّے ہیں کہ اگر سوچو تو دل دہل جاے، مگر سوچو تب نا،  اپنے روٹھے، گھر ٹوٹا، کیا کیا نا فلک کج رفتار نے دکھایا مگر ہم چھلانگیں ہی لگاتے رہے،  آگے چلو جی آگے، اسی طرح آگے بڑھتے بڑھتے یہاں تک آ گئے کہ اب تو سبق سیکھا نہیں بلکہ سکھایا جاتا ہے، بات کہی نہیں جاتی منوالی جاتی ہے، جہاں تک سوچ نہیں جاتی وہاں تک گولی جاتی ہے، اب بولو تو کوئی سمجھتا نہیں اور سمجھے تو کوئی بولتا نہیں، گاندھی کے تین بندروں کا دور دورہ ہے، نا کہو، نا سنو، نا دیکھو، منہ بند، آنکھیں بند، کان بند، گاندھی جی نے ناک کا ذکر نہیں کیا حالانکہ زبان، آنکھ اور کان پر قفل ڈال دینے کے بعد آتی جاتی سانس محض تہمت ہی رہ جاتی ہے، چلتی رہے تو کیا بند ہو جائے تو کیا. حالانکہ اس سانس ہی کی خاطر انسان سب سہتا ہے، سارے دکھ، سارے درد، سب تکلیفیں، سارے غم،یہ سب زندگی کے لئے گوارہ کرتا ہے.

اپنی زندگی زیادہ اہم ہے یا سب کی؟ یہاں پنہچ کر سوچ ساتھ چھوڑ جاتی ہے، شاید سچائی یہ ہے کہ ہر انسان ایک زندہ اکائی ہے اور زندگی کی ہر اکائی کی مجبوری ہے کہ اس کو اپنی سلامتی زیادہ عزیز ہوتی ہے کہ زندگی اسی طرح باقی رہ سکتی ہے. ایک دوست نے ایک تجربے کا ذکر کیا تھا کہ ایک بندریا کو اس کے بچے کے ساتھ پانی کے ایک ٹینک میں چھوڑا گیا جس میں تیزی سے پانی بھر رہا تھا، بندریا جب پانی ناک تک نہیں آ پہنچا بچے کو اپنے سر سے اوپر اٹھاے کھڑی رہی مگر جیسے ہی پانی ناک سے اونچا ہوا اس نے بچے کو نیچے ڈالا اور اس پر کھڑی ہو گیی ، بھیانک تجربہ تھا مگر نتیجہ یہ ہے کہ بندریا کہ اندر کے میکنزم کو پتا تھا کہ وہ خود رہے گی تو بچہ بھی زندہ رہے گا، اور یہ بھی کہ اور بچے بھی پیدا ہو سکیں گے. مگر سوال یہ ہے کہ انسان کے حصّے میں جو دماغ آیا ہے وہ بندر کے دماغ سے کہیں اعلیٰ ہے، ہم زندگی کے لئے صرف قدرت پر انحصار نہیں کرتے بلکہ پیداواری صلاحیت رکھتے ہیں اور اتنے ترقی یافتہ ہیں کہ اپنی نسلوں کا دفع کسی بھی اور نوع سے بہتر کر سکیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم خود غرض ہیں؟  زندگی کی یہ سفاکیت ہی ہماری ذات کا حصّہ نہیں ہے، ہمارے ڈی این اے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم اپنا تسلسل چاہتے ہیں، اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں اور ان کے لئے قربانیاں دیتے ہیں، انسان کا بچہ پیدائش کے بعد سے ایک عرصے تک انتہائی کمزور اور بے بس ہوتا ہے، ماں باپ اس کے لئے یہ ممکن بناتے ہیں کہ وہ جی سکے، خاندان جو ہمارے معاشرے کی اکائی ہے لا یعنی نہیں بلکہ انتہائی اہم ہے، اگر خاندان کا ادارہ نہ تشکیل پاتا تو انسان بچ ہی نہیں سکتا تھا. اور خاندان نے پڑھ کر برادری، قبیلے، نسلوں اور قوموں  کی شکل اختیار کی،  ریاست بھی اسی لئے بنی کہ انسان کو اس کی ضرورت تھی. یہ سارا پھیلاؤ اسی لئے ہے کہ ہم زندہ رہ سکیں، یہ سب بلا وجہ نہیں ہے،  انسان انسان کے بغیر نہیں رہ سکتا پھر کیا وجہ ہے کہ ہم خود غرضی سے وہ سب تباہ کرتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم ہیں؟کیا یہ ممکن ہے  کہ  صرف ہم بچ جائیں اور باقی رہ سکیں؟

بات کہاں سے کہاں نکل گئی ، کہنا یہ تھا کہ ہر انسانی معاشرے میں افراد کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ پاکستانی یا کسی بھی ترقی پذیر معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے کہ جن کے پاس زندگی کی تمام آسائشیں موجود ہیں، اکثر و بیشتر زندگی کو باقی رکھنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور اسی جدوجہد میں اتنے بے حس ہو جاتے ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انسان مل کر ہی باقی رہ سکتے ہیں، بڑھتا ہوا ظلم ، نا انصافی، تشدد یہ سب انفرادی کمزوری اور کمزور ترجیحات  کی نشانی ہیں , زیادہ تر لوگوں کی ترجیح یہ ہے کہ چپ رہیں اور سہتے رہیں، گزارہ چلتا رہے اور وقت گزرتا رہے، اپنی زندگی تو گزر
جائے، مگر ان کو کبھی نا کبھی یہ سوچنا ہوگا کہ، ایک صحت مند معاشرے میں جو ظلم و نا انصافی سے دور ہو، وہیں ان کی نسلوں کی بقا ممکن ہے، بات صرف  ان کی اپنی زندگی کی نہیں، ان کے بچوں اور ان کے بعد آنے والوں کی بھی ہے، انفرادی آسائش اور اجتماعی ترقی یہ دو ممکنہ ترجیحات ہیں، اور ہر معاشرے میں ہر فرد کو ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے.

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے، وہ جو آغاز میں سبق سیکھنے کی بات ہوئی تھی، ہر وہ معاشرہ جہاں افراد اپنے اجتماعی مستقبل  کو ترجیح دیتے ہیں، وہاں خود احتسابی کا عمل فروغ پاتا ہے، تاکہ وہ غلطیاں جو اجتماعی نقصان کا سبب بنیں ہوں ان سے بچا جا سکے، وہاں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ افراد کو احترام رائے کی عادت پڑے کہ  اختلاف کے بغیر خود احتسابی ممکن ہی نہیں، یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں فرق ظاہر ہوتا ہے، حسن ناصر کو مار ڈالا جاتا ہے اور ڈیگال سارتر کے فرانس ہونے کا اعتراف کرتا ہے، حسن ناصر اور سارتر دونوں نے اختلاف ہی تو کیا تھا، دو مختلف معاشروں نے دونوں کے ساتھ کتنا الگ سلوک کیا. دیکھ لیں، ہر صحت مند معاشرے میں ایک ایک فرد کی کتنی اہمیت ہے، ایک شہری کی جان کا نقصان سب کو پریشان کر دیتا ہے، ایک فرد کا قتل ایک ہیجان پیدہ کر دیتا ہے، اور دوسری طرف روزانہ لاشیں بچھتی ہیں اور شہریوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، بس خبریں آتی ہیں اور بھلائی جاتی ہیں.

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

Comments

comments

Latest Comments
  1. Suleman Akhtar
    -
  2. Awais
    -