Na hota’ mein to kya hota? -by Naveed Ali

نہ ہوتا ‘میں’ تو کیا ہوتا ؟

ایک خاتون کی شادی ایک ایسے شخص سے ہو رہی تھی جو عمر رسیدہ اور بال بچے والا تھا، ان کو ان کی تجربہ کار ماں نے مشوره دیا کہ بیٹی ایسے آدمی کو پہلی دن اپنی زلفوں کا اسیر بنا لینا اور کچھ ایسا طنطنہ رکھنا کہ چوں بھی نہ کر سکے، بہت مشکل وقت کے لئے دو سرخ بکسے جہیز میں ساتھ کیے دے رہی ہوں، ان کو ہمیشہ تیار اور نظر کے سامنے رکھنا اور کمبخت اگر ذرا سی بھی آنا کانی کرے تو سامان تو تیار ہوگا، موقع دیے بغیر میکے جانے کی دھمکی دے دینا. خیر جناب، شادی ہوئی اور وہ صاحب کہ سٹھیانے کی عمر میں تھے نو خیز بیوی پا کر بڑے خوش ہوے، ان کی پہلی بیوی بھی صبر شکر گزارا کر رہی تھیں مگر کب تک، جہاں برتن پاس پاس ہوں وہاں آواز ہونا تو لازمی ہے، سو ایک دن دونو خواتین کسی بات پر لڑ پڑیں، صاحب کا زور بڑی پر تو چلتا نہ تھا کہ وہ بھی بڑا خاندانی پاس منظر رکھتی تھیں پھر اولاد نرینہ اور وارث کی ماں تھیں، لہٰذا چھوٹی پر برسنے لگے، چھوٹی کو ماں کی بات یاد تھی اور سرخ بکسے سامنے رہتے تھے، اس نے ہاتھ کے ہاتھ بکسے اٹھاے اور چلائی ہے کوئی جو سواری کا انتظام کرے میں چلی میکے. اب میاں کو ہوش آیا، اور کچھ تو بس میں نہیں تھا ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوے اور منّت سماجت کرنے لگے، بیوی کچھ ردّ و قدح کے بعد مان گیئں. بس جناب اب یہ دستور ہو چلا جب بیوی کو کچھ ناگوار گزرتا سرخ بکسے اٹھاتیں اور میاں سب بھول بال منانے لگتے. ایک دن ایک ملازمہ صفائی کر رہی تھی، اس نے صفائی کے لئے دونو بکسے اٹھا کر کہیں اور رکھنے چاہے، میاں جی پاس بیٹھے اخبار میں مگن تھے، ان کو دو زنانہ ہاتھ نظر آے، اتنی پختہ عادت ہو چلی تھی کہ وہیں دو زانو ہو گئے اور منّتیں کرنے لگے ، پیچھے سے بیوی چلائیں کہ یہ کیا کرتے ہو تو ہوش آیا . اب ملازمہ حیران، میاں پریشان اور بیوی پشیمان، بولے ہٹاؤ ان بکسوں کو دور کرو، بیوی کو اندازہ ہو گیا کہ اب سرخ بکسے کسی کام نہیں آنے کے اور دونوں کو پتہ چلا کہ تعلقات کی بنیاد سمجھوتوں اور فائدوں کے بجاے باہمی اشتراک، رضامندی اور احترام ہونا چاہیے ، اور ملازمہ اس کے مورال میں عجیب اضافہ ہو گیا. حالیہ اطلاعات کے مطابق چھوٹی بڑی کے ساتھ ‘بہن چارہ’ بڑھا رہی ہیں اور میاں دونوں کی دل جوئی میں لگے ہیں، اور ملازمہ آل پاکستان گھریلو ملازمہ یونین کا صدر بننے کے چکر میں ہیں، جب شیر کے منہ کو خون لگ جائے تو پھر کیا کیا جائے؟

یہ قصّہ کسی نہ کسی طرح ہمارے ارد گرد دہرایا جاتا ہے. اس قصّے میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے کئی اسباق موجود ہیں، اگر سوچا جائے تو، ویسے تو ڈیکارٹس نے کہا تھا کہ ‘میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں’ مگر کیونکہ ہمارے ہاں فلسفہ الحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے لہٰذہ لوگ یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ‘میں نہیں سوچتا اس لئے میں ہوں اور میں ہی میں ہوں’ ظاہر سی بات ہے اگر سوچنے لگے تو پھر تو جنگل میں دھونی رما سادھو بنے بیٹھے نظر آئیں گے نہ کہ بڑے بڑے محلوں میں اعلی ترین طرز رہائش اختیار کئے، حکومت کریں گے کہ چاکری ؟ اگر سوچنے لگے تو پھر آوروں کا حق کون غضب کرے گا؟ مفلس اور نادار کہاں سے پیدا ہوں گے؟ عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کون بنائے گا اور ایسا نہیں ہوگا تو یتیموں اور بیواؤں کا کال پڑ جائے گا پھر ان کی خدمت کر کے جنّت میں محل کون بنائے گا؟ اگر سوچنے لگیں گے تو جو حال اس دنیا کا ہے وہ دیکھ کر شرم آئے گی اور اگر شرم آئے گی تو پھر اپنے فرائض ادا کرنے پڑیں گے، فرائض ادا کریں گے توپھر مزے کون کرے گا؟ سوچیں گے تو بال بچوں کا خیال کون رکھے گا؟ سوچیں گے تو اپنا الو سیدھا اور دوسرے کا ملیدہ کون بنائے گا؟ سوچیں گے تو لوگ انسان نظر آئین گے ان کا بھی وہی دل وہی دماغ وہی بدن وہی ضرورت وہی احساس نظر آئے گا، پھر کسی کا حق مارتے تکلیف ہوگی، بلکہ کچھ لوگوں کا تو کام کھٹائی میں پڑ جاے گا کہ اغوا برائے تاوان یا اغوا برائے منصب داران و محترمان کون کرے گا؟ کسی انسان کو مارتے، قتل کرتے سوچنے بیٹھ گئے تو پھر بوری میں بند یا یہاں وہاں نالوں اور اجاڑ جگہوں میں پڑی لاوارث لاشیں کہاں سے آئیں گی؟ سوچیں گے تو ہر کسی کی ماں اپنی ماں جیسی لگے گی، ہر کسی کے بچے اپنے بچے دکھائی دیں گے ، سوچیں گے تو کیا سے کیا ہو جائے گا ، ایسے میں تو جینا مشکل ہو جائے گا. سوچیں گے تو روز نئی قلابازی کون کھائے گا؟ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے ملک و قوم کی بلی کون چڑھائے گا؟ کون اشتراک بنائے گا اور بنا کے مٹائے گا؟ پھر بینگن کی طرح ہر طرف لڑھکنا مشکل ہو جائے گا.

ویسے ڈیکارٹس کا مطلب یہ نہیں تھا جو یہاں ہم نے لے لیا کہ اپنے آپ کو بدلنے کے لئے سوچنا ضروری ہے ( ویسے یہ بھی ضروری ہی ہے) ، بلکہ اس کے خیال میں انسان اپنے گرد و پیش ، اپنی دنیا کا اتنا ادراک رکھتا ہے کہ جتنا وہ دیکھ یا سیکھ پاتا ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں کنویں کے مینڈک کی مثال دی جاتی ہے جس کے خیال میں آسمان اتنا ہی ہوتا ہے جو کہ وہ کنویں سے دیکھ پاتا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ انسان جو آزاد ہو سکتا ہے خود کو کسی نہ کسی ایسے کنویں میں قید کر لیتا ہے، اپنے خیال کا اسیر ہو جاتا ہے، خود اپنی حدیں کھینچ دیتا ہے( یہاں ان جسمانی حدود کی بات نہیں ہو رہی جو آپ کو ہرکولیس نہیں بننے دیتیں) . اپنے خیال کے کنویں سے نکلنے کے لئے ضروری یہ ہے کہ دوسروں کے تجربات و احساسات کا احترام کیا جائے دنیا کو جانا جائے ، یہ سمجھا جائے کہ انسان نے اس دنیا میں جو کچھ حاصل کیا ہے کسی نہ کسی طرح سب کی مشترکہ میراث ہے کسی ایک فرد یا قوم کی ملکیت نہیں، اس لئے احترام انسانیت ہم سب پر واجب ہے. اپنی بقا کے لئے دوسروں کو اپنی زلفوں کا اسیر بنانے اوراس لئے اپنے خیالات و اقدار کی روشنی میں جانچنے اور نتیجتاً روز روز کی کھٹ پٹ اور دھونس دھڑلے کے بجائے بہتر ہے کہ دوسروں سے سیکھا جائے اور مل کر ایک بہتر دنیا تشکیل دی جائے.

مگر اختلافات سے بچنا نا ممکن ہے اور نتیجے میں کچھ نا کچھ بحث مباحثے، ناچاقی ، تکرار یہ سب چلتا رہتا ہے جو اکثر عملیت پسند احباب کی طبع نازک پر گراں بھی گزرتا ہے. ہمارے ممدوح مکرّمی صاحبزادہ پیر قدرت اللہ صاحب دامت برکاتہُم عالیہ سابق ایم این اے تو لفظ اختلاف سے ہی چڑھتے ہیں اسی لئے کبھی اختلافی سیاست نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ حزب اختلاف تو ہونا ہی نہیں چاہیے صرف حزب اقتدار ہو تو بھی سب مسئلے حل ہو جائیں، نہ رہے بانس نا بجے بانسری. مکرّمی صاحبزادہ پیر قدرت اللہ صاحب دامت برکاتہُم عالیہ سابق ایم این اے ، جنہوں نے ہمیں دھمکی دے رکھی ہے کہ ان کا اسم گرامی ہمیشہ ایسے ہی لکھا جاے ورنہ ہم پر ہتک عزت کا دعویٰ ٹھونک دیں گے، اب تو ان کے مریدوں کی تعداد بھی اتنی ہو گی ہے کہ ڈر لگنے لگا ہے، جان ہے تو جہان ہے, تومکرّمی صاحبزادہ پیر قدرت اللہ صاحب دامت برکاتہُم عالیہ سابق ایم این اے اسی واسطے جمہوریت سے خدا واسطے کا بیررکھتے ہیں کہ اس سے ان کی شان میں کمی آتی ہے اور وہ جنھیں ان کے آگے درخواست گزر ہونا چاہیے ان کو ان کے آگے درخواست گزار ہونا پڑتا ہے خیر اس کا بدلہ تو یہ الکشن کے بعد لے ہی لیتے ہیں کہ وعدہ فردا کے بعد گئے تو پھر لوگ ان کو ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں، اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لےکے. صاحبزادہ پیر قدرت اللہ صاحب دامت برکاتہُم عالیہ سابق ایم این اے کو ایسے لوگ پسند نہیں جو ان کے مرید نہ ہوں، خدا کی قدرت کہ ایسے لوگ بے انتہا ہیں ورنہ ان کا بس چلتا تو ساری دنیا ان کی مرید ہوتی. مکرّمی صاحبزادہ پیر قدرت اللہ صاحب دامت برکاتہُم عالیہ سابق ایم این اے کو لڑکپن سے ہی ہٹلر بڑا پسند تھا، عقیدے کی وجہ سے لب کترواتے ہیں ورنہ تو ہٹلر جیسی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں، ان کے والد محترم نے بزورقائل کر کے اڑوا دیں، ہٹلر کے اتباع میں فوج میں تو نہیں گئے مگر آج بھی وردی ہی کو پوجتے ہیں، اور دل و جان سے چاہتے ہیں کہ ہو تو وردی ہو اور کچھ نا ہو، کہ وردی کے بغیر طاقت کا حصول نہیں، اور بغیر طاقت کے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا حالانکہ ہمارے خیال میں بغیر نیت اور سنجیدگی کے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ، مگر مکرّمی صاحبزادہ پیر قدرت اللہ صاحب دامت برکاتہُم عالیہ سابق ایم این اے یہاں ہم سے بادل نخواستہ اختلاف رکھتے ہیں (اور چاہتے ہیں کہ ہم ان سے متفق ہو جائیں). ویسے ہمارے خیال میں تو مکرّمی صاحبزادہ پیر قدرت اللہ صاحب دامت برکاتہُم عالیہ سابق ایم این اے ملٹی پل پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار ہیں کیوں کہ آنجناب عالم ہیں، پیر ہیں، سیاست دان ہیں، اور اب تو زمیندار اور سرمایہ کار بھی ہیں اور یہ سب ہیں اسی لئے خوف زدہ اور تنقید اور اختلاف سے عاجز ہیں اور اپنے علاوہ کچھ اور سوچنے سے قاصر ہیں, سو ہر مسئلہ ڈنڈے کے زور پر حل کرنا چاہتے ہیں.

یہ ‘میں’ کی بیماری بڑی بری بیماری ہے اور ایک طرح کی خود فراموشی اور خود فریبی، ایک لطیفہ سنا تھا کہ ایک صاحب کو محفل قوّالی میں حال آ گیا،قوّالی کے دوران ہر مصرعے کے اختتام پر چلاتے ‘میں ہوں’ قوّال نے پڑھا ‘ جو ہوا دام جنوں کا اسیر’ یہ چلائے ‘میں ہوں’ قوّال نے کہا ‘بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ‘ یہ چیخے ‘میں ہوں’ اور اسی طرح ہرمصرعے پر بولتے رہے تا آنکہ قوّال کو غصّہ آ گیا ، کہا ‘آج بھی ہے جو فلک سے بلند اختر’ مست چلائے ‘میں ہوں’ قوّال: ‘ہو گیا ہجر لیلیٰ میں جو بے گھر ‘ ‘میں ہوں’ ‘اندوہ و آلام ہجراں میں سخن ور’ ‘میں ہوں’ قوّال لال پیلا ہو کے : ‘ناریل ہاتھ لگا جس کے وہ بندر’ ‘میں ہوں’……. تو کچھ لوگ اسی طرح میں ہی میں میں اپنی گت بنوا لیتے ہیں, نہ خود چین لیتے ہیں نا کسی کو چین لینے دیتے ہیں، اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پھر واپسی محال ہو جاتی ہے اور خود کشی آسان ہو جاتی ہے. المیہ یہ ہے کہ ایسے افراد جب معاشروں پر حاوی ہو جائیں تو معاشرے بھی خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں. اعتدال، برداشت اور رواداری کی ضرورت ہمیشہ اسی لئے محسوس کی جاتی ہے کہ انسان خود جئے اور دوسروں کو بھی جینے دے.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Kazim Azam
    -
  2. Naveed
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.