
ايک خاتون کی شادی ايک ايسے شخص سے ہو رہی تھی جو عمر رسيده اور بال بچے والا تھا، ان کو ان کیتجربہ کار ماں نے مشوره ديا کہ بيٹی ايسے آدمی کو پہلی دن اپنی زلفوں کا اسير بنا لينا اور کچھ ايسا طنطنہرکھنا کہ چوں بھی نہ کر سکے، بہت مشکل وقت کے لئے دو سرخ بکسے جہيز ميں ساتھ کيے دے رہی ہوں، انکو ہميشہ تيار اور نظر کے سامنے رکھنا اور کمبخت اگر ذرا سی بھی آنا کانی کرے تو سامان تو تيار ہوگا، موقعديے بغير ميکے جانے کی دھمکی دے دينا. خير جناب، شادی ہوئی اور وه صاحب کہ سٹھيانے کی عمر ميں تھےنو خيز بيوی پا کر بڑے خوش ہوے، ان کی پہلی بيوی بھی صبر شکر گزارا کر رہی تھيں مگر کب تک، جہاںبرتن پاس پاس ہوں وہاں آواز ہونا تو لازمی ہے، سو ايک دن دونو خواتين کسی بات پر لڑ پڑيں، صاحب کا زوربڑی پر تو چلتا نہ تھا کہ وه بھی بڑا خاندانی پاس منظر رکھتی تھيں پھر اولاد نرينہ اور وارث کی ماں تھيں، لہٰذاچھوٹی پر برسنے لگے، چھوٹی کو ماں کی بات ياد تھی اور سرخ بکسے سامنے رہتے تھے، اس نے ہاتھ کےہاتھ بکسے اٹھائے اور چلائی ہے کوئی جو سواری کا انتظام کرے ميں چلی ميکے. اب مياں کو ہوش آيا، اورکچھ تو بس ميں نہيں تھا ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوے اور منّت سماجت کرنے لگے، بيوی کچھ ردّ و قدح کے بعدمان گيئں. بس جناب اب يہ دستور ہو چلا جب بيوی کو کچھ ناگوار گزرتا سرخ بکسے اٹھاتيں اور مياں سب بھولبال منانے لگتے. ايک دن ايک ملازمہ صفائی کر رہی تھی، اس نے صفائی کے لئے دونو بکسے اٹھا کر کہيںاور رکھنے چاہے، مياں جی پاس بيٹھے اخبار ميں مگن تھے، ان کو دو زنانہ ہاتھ نظر آے، اتنی پختہ عادت ہوچلی تھی کہ وہيں دو زانو ہو گئے اور منّتيں کرنے لگے ، پيچھے سے بيوی چلائيں کہ يہ کيا کرتے ہو تو ہوشآيا . اب ملازمہ حيران، مياں پريشان اور بيوی پشيمان، بولے ہٹاؤ ان بکسوں کو دور کرو، بيوی کو اندازه ہو گياکہ اب سرخ بکسے کسی کام نہيں آنے کے اور دونوں کو پتہ چلا کہ تعلقات کی بنياد سمجھوتوں اور فائدوں کےبجاے باہمی اشتراک، رضامندی اور احترام ہونا چاہيے ، اور ملازمہ اس کے مورال ميں عجيب اضافہ ہو گيا.حاليہ اطلاعات کے مطابق چھوٹی بڑی کے ساتھ ‘بہن چاره’ بڑھا رہی ہيں اور مياں دونوں کی دل جوئی ميںلگے ہيں، اور ملازمہ آل پاکستان گھريلو ملازمہ يونين کا صدر بننے کے چکر ميں ہيں، جب شير کے منہ کوخون لگ جائے تو پھر کيا کيا جائے؟يہ قصّہ کسی نہ کسی طرح ہمارے ارد گرد دہرايا جاتا ہے. اس قصّے ميں سوچنے سمجھنے والوں کے ليے کئینے کہا تھا کہ ‘ميں سوچتا ہوں اس لئے ( Descartes) اسباق موجود ہيں، اگر سوچا جائے تو، ويسے تو ڈيکارٹسميں ہوں’ مگر کيونکہ ہمارے ہاں فلسفہ الحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے لہٰذه لوگ يہ ثابت کرنے ميں لگے رہتےہيں کہ ايسا ہرگز نہيں ہے بلکہ ‘ميں نہيں سوچتا اس لئے ميں ہوں اور ميں ہی ميں ہوں’ ظاہر سی بات ہے اگرسوچنے لگے تو پھر تو جنگل ميں دھونی رما سادھو بنے بيٹھے نظر آئيں گے نہ کہ بڑے بڑے محلوں ميں اعلیترين طرز رہائش اختيار کئے، حکومت کريں گے کہ چاکری ؟ اگر سوچنے لگے تو پھر آوروں کا حق کونغضب کرے گا؟ مفلس اور نادار کہاں سے پيدا ہوں گے؟ عورتوں کو بيوه اور بچوں کو يتيم کون بنائے گا اورايسا نہيں ہوگا تو يتيموں اور بيواؤں کا کال پڑ جائے گا پھر ان کی خدمت کر کے جنّت ميں محل کون بنائے گا؟
ايسا نہيں ہوگا تو يتيموں اور بيواؤں کا کال پڑ جائے گا پھر ان کی خدمت کر کے جنّت ميں محل کون بنائے گا؟اگر سوچنے لگيں گے تو جو حال اس دنيا کا ہے وه ديکھ کر شرم آئے گی اور اگر شرم آئے گی تو پھر اپنےفرائض ادا کرنے پڑيں گے، فرائض ادا کريں گے توپھر مزے کون کرے گا؟ سوچيں گے تو بال بچوں کا خيالکون رکھے گا؟ سوچيں گے تو اپنا الو سيدھا اور دوسرے کا مليده کون بنائے گا؟ سوچيں گے تو لوگ انسان نظرآئين گے ان کا بھی وہی دل وہی دماغ وہی بدن وہی ضرورت وہی احساس نظر آئے گا، پھر کسی کا حق مارتےتکليف ہوگی، بلکہ کچھ لوگوں کا تو کام کھٹائی ميں پڑ جاے گا کہ اغوا برائے تاوان يا اغوا برائے منصب دارانو محترمان کون کرے گا؟ کسی انسان کو مارتے، قتل کرتے سوچنے بيٹھ گئے تو پھر بوری ميں بند يا يہاںوہاں نالوں اور اجاڑ جگہوں ميں پڑی لاوارث لاشيں کہاں سے آئيں گی؟ سوچيں گے تو ہر کسی کی ماں اپنیماں جيسی لگے گی، ہر کسی کے بچے اپنے بچے دکھائی ديں گے ، سوچيں گے تو کيا سے کيا ہو جائے گا ،ايسے ميں تو جينا مشکل ہو جائے گا. سوچيں گے تو روز نئی قلابازی کون کھائے گا؟ اپنے چھوٹے چھوٹےمفادات کے لئے ملک و قوم کی بلی کون چڑھائے گا؟ کون اشتراک بنائے گا اور بنا کے مٹائے گا؟ پھر بينگن کیطرح ہر طرف لڑھکنا مشکل ہو جائے گا.کا مطلب يہ نہيں تھا جو يہاں ہم نے لے ليا کہ اپنے آپ کو بدلنے کے لئے سوچنا ( Descartes) ويسے ڈيکارٹسضروری ہے ( ويسے يہ بھی ضروری ہی ہے) ، بلکہ اس کے خيال ميں انسان اپنے گرد و پيش ، اپنی دنيا کااتنا ادراک رکھتا ہے کہ جتنا وه ديکھ يا سيکھ پاتا ہے، جيسا کہ ہمارے ہاں کنويں کے مينڈک کی مثال دی جاتیہے جس کے خيال ميں آسمان اتنا ہی ہوتا ہے جو کہ وه کنويں سے ديکھ پاتا ہے، ديکھا يہ گيا ہے کہ انسان جوآزاد ہو سکتا ہے خود کو کسی نہ کسی ايسے کنويں ميں قيد کر ليتا ہے، اپنے خيال کا اسير ہو جاتا ہے، خود اپنیحديں کھينچ ديتا ہے( يہاں ان جسمانی حدود کی بات نہيں ہو رہی جو آپ کو ہرکوليس نہيں بننے ديتيں) . اپنےخيال کے کنويں سے نکلنے کے لئے ضروری يہ ہے کہ دوسروں کے تجربات و احساسات کا احترام کيا جائےدنيا کو جانا جائے ، يہ سمجھا جائے کہ انسان نے اس دنيا ميں جو کچھ حاصل کيا ہے کسی نہ کسی طرح سب کیمشترکہ ميراث ہے کسی ايک فرد يا قوم کی ملکيت نہيں، اس لئے احترام انسانيت ہم سب پر واجب ہے. اپنی بقاکے لئے دوسروں کو اپنی زلفوں کا اسير بنانے اوراس لئے اپنے خيالات و اقدار کی روشنی ميں جانچنے اورنتيجتاً روز روز کی کھٹ پٹ اور دھونس دھڑلے کے بجائے بہتر ہے کہ دوسروں سے سيکھا جائے اور مل کرايک بہتر دنيا تشکيل دی جائے.مگر اختلافات سے بچنا نا ممکن ہے اور نتيجے ميں کچھ نا کچھ بحث مباحثے، ناچاقی ، تکرار يہ سب چلتا رہتاہے جو اکثر عمليت پسند احباب کی طبع نازک پر گراں بھی گزرتا ہے. ہمارے ممدوح مکرّمی صاحبزاده پيرقدرت لله صاحب دامت برکاتہُم عاليہ سابق ايم اين اے تو لفظ اختلاف سے ہی چڑھتے ہيں اسی لئے کبھی اختلافیسياست نہيں کرتے، کہتے ہيں کہ حزب اختلاف تو ہونا ہی نہيں چاہيے صرف حزب اقتدار ہو تو بھی سب مسئلےحل ہو جائيں، نہ رہے بانس نا بجے بانسری. مکرّمی صاحبزاده پير قدرت لله صاحب دامت برکاتہُم عاليہ سابق ايماين اے ، جنہوں نے ہميں دھمکی دے رکھی ہے کہ ان کا اسم گرامی ہميشہ ايسے ہی لکھا جاے ورنہ ہم پر ہتکعزت کا دعویٰ ٹھونک ديں گے، اب تو ان کے مريدوں کی تعداد بھی اتنی ہو گی ہے کہ ڈر لگنے لگا ہے، جانہے تو جہان ہے, تومکرّمی صاحبزاده پير قدرت لله صاحبدامتبرکاتہُم ہے تو جہان ہے, تومکرّمی صاحبزاده پير قدرت لله صاحب دامت برکاتہُم عاليہ سابق ايم اين اے اسی واسطےجمہوريت سے خدا واسطے کا بيررکھتے ہيں کہ اس سے ان کی شان ميں کمی آتی ہے اور وه جنھيں ان کےآگے درخواست گزر ہونا چاہيے ان کو ان کے آگے درخواست گزار ہونا پڑتا ہے خير اس کا بدلہ تو يہ الکشن کےبعد لے ہی ليتے ہيں کہ وعده فردا کے بعد گئے تو پھر لوگ ان کو ڈھونڈتے ہی ره جاتے ہيں، اب اسے ڈھونڈچراغ رخ زيبا لےکے. صاحبزاده پير قدرت لله صاحب دامت برکاتہُم عاليہ سابق ايم اين اے کو ايسے لوگ پسندنہيں جو ان کے مريد نہ ہوں، خدا کی قدرت کہ ايسے لوگ بے انتہا ہيں ورنہ ان کا بس چلتا تو ساری دنيا ان کیمريد ہوتی. مکرّمی صاحبزاده پير قدرت لله صاحب دامت برکاتہُم عاليہ سابق ايم اين اے کو لڑکپن سے ہی ہٹلربڑا پسند تھا، عقيدے کی وجہ سے لب کترواتے ہيں ورنہ تو ہٹلر جيسی مونچھيں رکھی ہوئی تھيں، ان کے والدمحترم نے بزورقائل کر کے اڑوا ديں، ہٹلر کے اتباع ميں فوج ميں تو نہيں گئے مگر آج بھی وردی ہی کوپوجتے ہيں، اور دل و جان سے چاہتے ہيں کہ ہو تو وردی ہو اور کچھ نا ہو، کہ وردی کے بغير طاقت کا حصولنہيں، اور بغير طاقت کے کوئی مسئلہ حل نہيں ہوتا حالانکہ ہمارے خيال ميں بغير نيت اور سنجيدگی کے کوئیمسئلہ حل نہيں ہوتا ، مگر مکرّمی صاحبزاده پير قدرت لله صاحب دامت برکاتہُم عاليہ سابق ايم اين اے يہاں ہمسے بادل نخواستہ اختلاف رکھتے ہيں (اور چاہتے ہيں کہ ہم ان سے متفق ہو جائيں). ويسے ہمارے خيال ميں توmultiple) مکرّمی صاحبزاده پير قدرت لله صاحب دامت برکاتہُم عاليہ سابق ايم اين اے ملٹی پل پرسنالٹی ڈس آرڈرکا شکار ہيں کيوں کہ آنجناب عالم ہيں، پير ہيں، سياست دان ہيں، اور اب تو زميندار اور ( personality disorderسرمايہ کار بھی ہيں اور يہ سب ہيں اسی لئے خوف زده اور تنقيد اور اختلاف سے عاجز ہيں اور اپنے علاوه کچھاور سوچنے سے قاصر ہيں, سو ہر مسئلہ ڈنڈے کے زور پر حل کرنا چاہتے ہيں.يہ ‘ميں’ کی بيماری بڑی بری بيماری ہے اور ايک طرح کی خود فراموشی اور خود فريبی، ايک لطيفہ سنا تھا کہايک صاحب کو محفل قوّالی ميں حال آ گيا،قوّالی کے دوران ہر مصرعے کے اختتام پر چلاتے ‘ميں ہوں’ قوّال نےپڑھا ‘ جو ہوا دام جنوں کا اسير’ يہ چلائے ‘ميں ہوں’ قوّال نے کہا ‘بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديده ور پيدا’ يہ چيخے ‘ميں ہوں’ اور اسی طرح ہرمصرعے پر بولتے رہے تا آنکہ قوّال کو غصّہ آ گيا ، کہا ‘آج بھی ہےجو فلک سے بلند’ مست چلائے ‘ميں ہوں’ قوّال: ‘ہو گيا ہجر ليلیٰ ميں جو بے گھر ‘ ‘ميں ہوں’ ‘اندوه و آلام ہجراںميں سخن ور’ ‘ميں ہوں’ قوّال لال پيلا ہو کے : ‘ناريل ہاتھ لگا جس کے وه بندر’ ‘ميں ہوں’……. تو کچھ لوگاسی طرح ميں ہی ميں ميں اپنی گت بنوا ليتے ہيں, نہ خود چين ليتے ہيں نا کسی کو چين لينے ديتے ہيں، اتناآگے بڑھ جاتے ہيں کہ پھر واپسی محال ہو جاتی ہے اور خود کشی آسان ہو جاتی ہے. الميہ يہ ہے کہ ايسے افرادجب معاشروں پر حاوی ہو جائيں تو معاشرے بھی خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہيں. اعتدال، برداشت اوررواداری کی ضرورت ہميشہ اسی لئے محسوس کی جاتی ہے کہ انسان خود جئے اور دوسروں کو بھی جينےدے.
Comments
comments