Democracy is the path and solution – by Naveed Ali

“خدا لگتی”

کسی نے ایک لطیفہ سنایا تھا “بعد از مرگ ایک شخص جسےجنّت لے جایا جا رہا تھا اس نے فرمائش کی کے اگر جنّت میں داخلے سے پہلے اسے جہنّم کی سیر کرا دی جائے، فرشتوں نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ پورا جہنم دکھایا جائے مگر ایک گوشہ دکھائے دیتے ہیں، جہاں لے کر گئے وہاں کئی کنویں بنے تھے اور ہر کنویں پر دو فرشتے کھڑے تھے، اور کنووں سے آہ و بکاہ سنائی دیتی تھی، جو فرشتہ ان صاحب کو سیر کرا رہا تھا اس نے بتایا کہ ہر قوم کا ایک کنواں ہے، اور ہر ایک کے منہ پر فرشتے اس لئے ہیں کہ اگر کوئی باہر نکل آئے تو اس کو اٹھا کر واپس پھینک دیں، دیکھا تو ایک کنویں پر کوئی نگران نہیں تھا، اندر سے رونے چلانے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں مگر کوئی باہر بھی نہیں آتا تھا، اس شخص نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے، فرشتے نے جواب دیا، یہ پاکستانیوں کا کنواں ہے، اس پر کسی نگران کی ضرورت نہیں، یہ خود کسی کو باہر نہیں آنے دیتے، جو نکلتا ہے اس کی ٹانگیں کھینچ کر پھر گرا لیتے ہیں.”

اس لطیفے پر ہنسنا نہیں بلکہ رونا آیا، ایک وجہ تو یہ تھی کہ سنانے والا پاکستانی نہیں تھا دوسری وجہ یہ کہ بات غلط نہیں تلخ تھی اور باعث شرم تھی، مگر دل کھول کر ہنسے کہ اپنے اوپر ہنسنا بھی دوسرے کے لئے ایک صحت مند پیغام تھا, ویسے بھی کبھی کبھی انسان رنج کا اتنا خوگر ہو جاتا ہے کہ پھر رونا نہیں آتا، برے سے برے حال میں ہنستا رہتا ہے.

پچھلے دو دن میں ایسی خبریں پڑھنے کو ملی ہیں کہ یہ لطیفہ یاد آیا، دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت ایک بار پھر صف آزمائی کے لئے پر تول رہی ہے، اندرون خانہ کیا حالات ہیں اور ایسا کیوں نا گزیر ہے یہ تو ان لوگوں کو ہی بہتر اندازہ ہوگا، پس پردہ محرکات کی شدت کا اندازہ انداز بیان سے لگایا جا سکتا ہے, مگر محرکات سے قطع نظر آدمی یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟ کہ جہاں بولنے والے کی سوچ کی گہرائی اور گیرائی دونوں نظر آتے ہیں. ہم یہاں کوئی حوالہ نہیں دیں گے پڑھنے والے خود پڑھ سکتے اور دیکھنے والے دیکھ ہی رہے ہوں گے، مگر الزامات کی اس بوچھاڑ میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سب ایک دن میں عنقا ہوا ہے؟ پھر اس طرح کی دھمکیاں کہ بتا دیں گے، سامنے لے آئیں گے، بھائی بتاؤ نا کس کا انتظار ہے؟ سچ اگر سچ ہے تو قوم کی امانت ہے، امانت میں خیانت کیوں؟ یہ خوف فساد خلق ہے کہ خود غرضی جس کی بنا پر صرف دھمکیاں دی جاتی ہیں، اور دھمکیاں بھی ایسی ویسی، ہمیں ہر دوسرے دن بتایا جاتا ہے کہ مخالفین کتنے نا اہل اور کرپٹ ہیں اور وقت آنے پر ثبوت پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے، مگر جب لینے کے دینے پڑتے ہیں تو یہی مخالف عزیز ہو جاتے ہیں اور قوم کو نئی نوید دی جاتی ہے، پھر مفاد ٹکراتے ہیں تو پھر صف بندی ہو جاتی ہے، مگر کوئی ثبوت اس قوم تک نہیں پہچتا، صرف باتیں سنائی دیتی ہیں.

حقیقت یہی ہے کہ کسی کو کنویں سے باہر نہیں نکلنے دینا، جو نکلے اس کی ٹانگیں کھینچنا مسلک عزیز ہے. ٹھیک ہے کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا اور گٹھ جوڑ، پیش بندی، صف بندی سب کرنی پڑتی ہے، سیاست مفادات کی نگرانی اور ان کو آگے بڑھانے کا نام ہے، مگر کن مفادات کو؟ ذاتی مفادات کہ قومی مفادات جو نظریات کے تحت اپنائے جاتے ہیں؟ دنیا میں بیشتر سیاسی صف بندی ، کسی بھی جماعت کے دائیں یا بائیں بازو کے رجحان کی بنا پر ہوتی ہے، اور ان جماعتوں میں شامل افراد بھی وہی رجحان اور نظریات رکھتے ہیں جو کہ ان کی جماعت کے ہوں، یہ ضرور ہوتا ہے کہ مختلف افراد اور ان کے ہم خیال نظریاتی حوالوں سے شدّت پسند یا لچک دار رویے رکھتے ہوں، اسی لئے اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے اشتراک بنائے جاتے ہیں اور لابنگ کی جاتی ہے، کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر یہ اشتراک معمول کی مجبوری ہیں.ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ اختلافات بڑھ جائیں اور یہ ممکن نہ رہے کہ ساتھ چلا جا سکے، ایسی صورت میں راستے علحیدہ کر لئے جاتے ہیں. مگر یہ سب رضامندی اور احترام راءے کے ساتھ ہوتا ہے. اسی طرح یہ بھی معمول ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف میں چوٹیں چلتی ہیں اور پالیسی اختلافات پر بحث بھی، اختلاف راءے صحت مند سیاست کا لازمی جز ہے. کنیڈا ہو یا اسٹرالیا، امریکا ہو یا برطانیہ، جاپان ہو یا ہندوستان، ہر جگہ حکومت اور حزب اختلاف میں اختلاف راءے اور بحث معمول ہے، مگر کہیں بھی کردار کشی اور مایوسی پھیلانے کی وہ کوششیں نظر نہ آئیں گی جو پاکستان کی سیاست کا حصّہ بن گئی ہیں.

اسی طرح پاکستان ہی میں یہ ممکن ہے کہ بے تھالی کے بینگن سب سے کامیاب سیاست دان ہیں، جن کا کوئی قبلہ کعبہ نہیں وہ سب پر بھاری اور ہر ایک کی مجبوری ہیں. اس کی ایک بڑی وجہ جاگیر داری کلچر ہے, دوسری بڑی وجہ انفرادی خود غرضی ہے، اقتدار اور قوت کا نشہ اتنا حاوی ہے کہ آج کا لبرل کل بنیاد پرست ہو جاتا ہے، کل کا بنیاد پرست آج کا ترّقی پسند، اور ان کے پیچھے چلنے والے پریشان .یہ بات صحیح ہے کہ انسان ہمیشہ سیکھنے کا عمل جاری رکھتا ہے، اور اپنی غلطیاں مان کر ان کو درست بھی کرتا ہے، نظریات تبدیل بھی جو جاتے ہیں، خیالات بدل بھی جاتے ہیں. مگر یہ سب کسی نہ کسی پیٹرن پر تو ہو، یہ تو نہیں ہو سکتا نا کہ آج کچھ کل کچھ پرسوں کچھ؟ آج کلو قوال کے ہمنوا، کل مجو میراثی کے ، پرسوں نعت خوان, ترسوں الحاج اور آخر میں بھنگڑے ڈالتے ، بغلیں بجاتےدکھائی دے رہے ہیں.

کسی بھی فرد کا فکری ارتقا کسی نا کسی ضابطے کے تحت ہوتا ہے اور اس کے اعمال بھی کسی نا کسی ضابطے کے تحت ہوتے ہیں، یہی اصول جماعتوں اور گروہوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ آخر کے تئین رہنما بھی انسان ہی ہیں. مگر ایسی جماعتوں, ایسے رہنماؤںاور ایسے انسانوں کو کیا کہیں جو روز ایک نئی پٹری پر دوڑتے دکھائی دیں؟

ایک بات اور سوچنے کی ہے کہ موجودہ حکومت کی جگہ اگر کوئی دوسری جماعت ہوتی تو وہ موجودہ حالات میں کیا کرتی؟ مسائل کا حل صرف یہ نہیں کہ تنقید کی جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ خود کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچا جائے، پاکستان میں جمہوریت اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہی ہے، عوام غربت میں پس رہے ہیں اور ان کو اپنی سلامتی کا تحفظ کرنا ہے، ہمارے اصل مسائل کچھ اور ہیں، انصاف کا حصول ، تجارت و صنعت کا فروغ ، روزگار، صحت، تعلیم، مواصلات، قدرتی وسائل کا تحفظ، صوبائی خود مختاری کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی چللنج اور امپیریلزم کا سامنا .

ضرورت ہے کہ رہنما ان مسائل پر کام کریں، دانشور ان مسائل پر رہنمائی کریں، عوام سے ان حوالوں سے بات کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں جو نا مساعد حالات میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں، جی ہاں پاکستانی تاجر، صنعت کار، زمیندار، ٹیکنوکریٹ، مزدور، کسسان ، طلبہ اور دوسرے یہ سب جیسے تیسے اپنا کام جاری رکھے ہیں، انہوں نے ہار نہیں مانی نہ ہی یہ ہار مانیں گے، ان کو جن مسائل کا حل ہے ہمارے سیاست دان ان پر کام کریں، اور حکومت کو سپورٹ یا چلینج کریں تو ان حوالوں سے ،

الزام تراشی سے بالاتر ہو کر صحت مند تنقید کریں، ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے کے علاوہ بہت کام کرنے کو ہے، ایک دوسرے کو آئینہ دکھا دکھا کر خود بور ہوئے ہوں کہ نا عوام کا ناطقہ بند کر دیا ہے، کھانے پینے سے آگے بھی تو بات چلے، کچھ عوام کا بھی بھلا ہو.

ایسے میں زیادہ تر لوگ جمہوریت سے بیزار نظر آتے ہیں، ہماری حقیر راءے میں یہ لوگ بھی غلطی پرہیں، کیوں کہ اگر کوئی تبدیلی لا سکتا ہے تو وہ عوام ہی ہیں، اگر وہ بیزار اور مایوس ہو جائیں گے تو پھر تبدیلی کا محرک ہی نہیں رہے گا. کچھ لوگ اس مغالطے میں بھی نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں معاملہ بڑی اور چھوٹی برائی کے انتخاب کا ہے، ان اصحاب کی رائے میں جو سیاست میں ہے وہ شیطان ہے اور سارا ہر پھیر اس بات کا ہے کہ کس شیطان کا انتخاب ہو. یہ بھی بڑا مغالطہ ہے،

جمہوریت صرف بندوں کو گننے کا نام نہیں ہے، جمہوریت سچائی ہے، جمہوریت اس کا ساتھ دینا ہے جس کو آپ صحیح سمجھیں، جمہوریت وفاداری بہ شرط استواری ہے، صحیح جمہوریت اور با شعور جمہور تبدیلی لاتے ہیں، وہ شیطان نہیں چنتے بلکہ شیطان کو انسان بنا دیتے ہیں. جب یہ کہا جائے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں تو مقصد یہی ہے کہ رہنما عوام کو جواب دہ ہیں، اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے حق کو کب اپنا حق سمجھتے ہیں، یہ ہونا تو ہے دیکھنا ہے کہ کب اور کس قیمت پر؟ دن، سال، عشرے کہ صدیاں، ہمارے لوگ اپنے آپ کو جاننے میں کتنا وقت لیتے ہیں, اور رہنما کوئی ایک راستہ کب اپناتے ہیں

Comments

comments

Latest Comments
  1. RimJhim
    -
  2. RimJhim
    -
  3. Pro-PPP
    -
  4. Naveed
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.