Iftikhar Chaudhry, do you have courage to emulate your Bangladeshi counterpart?
Bangladesh hangs Mujib’s killers
DHAKA: The five killers convicted of murdering Bangladesh’s founding president Sheikh Mujib-ur-Rahman were executed late on Wednesday night at Dhaka’s central prison, the deputy law minister said. The Supreme Court of Bangladesh had dismissed the killers’ final attempt to challenge their sentence for killing Mujib. The Bangladeshi president rejected last-minute appeals for clemency from two of the men and ordered their execution.”The execution process has begun,” Deputy Law Minister Kamr-ul-Islam told reporters gathered outside the prison shortly after midnight. afp
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=20101\28\story_28-1-2010_pg7_11
مجیب قاتلوں کو پھانسی سے کیا حل ہوا؟
سپریم کورٹ نے کہاہے کہ مجیب الرحمان نے ہی آزادی کا اعلان کیا تھا
بنگلہ دیش کی آزادی کے ہیرو شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے پانچ مجرموں کو سپریم کورٹ میں اپیل مسترد ہونے کے بعد بدھ کو آدھی رات کے بعد پھانسی سے دی گئی۔
پانچوں سابق فوجیوں کی پھانسی سے قبل اپنے لواحقین سے ڈھاکہ کی سنٹرل جیل میں عجلت میں ملاقات کروائی گئی۔ اس کے بعد ان کی لاشیں رشتہ داروں کے حوالے کر دی گئیں جو انہیں ایمبولنسوں میں گھر لے گئے۔
میت لے جانے والی گاڑیوں پر راستے میں جمع لوگوں نے جوتے برسائے جو مطالبہ کر رہے تھے ان کو بنگلہ دیش کی زمین پر نہ دفنایا جائے۔
لوگ بہت جذباتی تھے۔ مجیب الرحمان کے حامیوں کو اس وقت کا بہت سالوں سے انتظار تھا۔
بنگلہ دیش کے پہلے صدر مجیب الرحمان کو باغیوں نے جو فوج میں جونیئر افسر تھے پندرہ اگست انیس سو پچھتر کی صبح سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔باغیوں نے ان کی اہلیہ، تین بیٹوں، دو بہوں اور تقریباً بیس دیگر رشتہ داروں کو بھی ہلاک کیا تھا۔
مجیب الرحمان کے قتل کے وقت ضیا الرحمان فوج میں نمبر دو تھے۔ انہوں نے بعد میں ملک میں اپنی آمریت قائم لیکن پھر وہ بھی گولی کا نشانہ بن گئے۔ان کی بیوہ اب ان کی جماعت کی سربراہ ہیں۔وہ مجیب الرحمان کے قتل کے دن پندرہ اگست کو ہی اپنی سالگرہ دھوم دھام سے مناتی تھیں
باغیوں کی مدد سے وجود میں آنے والی فوجی حکومت نے ان کو معافی دے دی تھی۔ ان میں سے کچھ کو بعد میں سفارتی عہدوں پر بھی تعینات کیا گیا۔ ان کے دو سرکردہ رہنماؤں نے تو بعد میں سیاسی جماعتیں بھی بنا لی تھیں اور انتخابات میں بھی حصہ لیا۔
بغاوت کے وقت مجیب الرحمان کی دو بیٹیاں ملک سے باہر تھیں جن میں سے ایک شیخ حسینہ واجد نے قاتلوں کو سزا دلوانا زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔
حسینہ واجد نے اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی باگ ڈور سنبھال لی اور انیس سو چھیانوے میں ملک کی وزیر اعظم بھی بنیں۔انہوں نے قاتلوں کی گرفتاریوں کو یقینی بنوایا جن میں سے چھ اب بھی بیرون ملک روپوش ہیں۔
باغیوں کو مجرم قرار دے دیا گیا لیکن حسینہ واجد کی جماعت اگلے انتخابات ہار گئی اور اقتدار میں آنے والی مخالف جماعت نے اس مقدمے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔
عوامی لیگ دوبارہ سن دو ہزار نو میں اقتدار میں آئی اور اس مقدمے پر دوبارہ کارروائی شروع ہو گئی۔ پھانسی کی سزا کے بعد سرکاری وکیل انیس الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگوں کو یقین دہانی ہو گئی کہ کوئی بھی جرم کر کے بچ نہیں سکتا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2010/01/100128_bangla_mujeebcase.shtml
A tale of two countries
On August 15, 1975, the founder of Bangladesh, Sheikh Mujibur Rehman, was killed by a group of army officers. A total of 28 people were killed that day, including Mujib’s entire family and the domestic staff. He was survived by two daughters who were on a visit abroad at that time; one of them is the current premier of Bangladesh, Sheikh Hasina Wajid. After almost 35 years, Bangladesh hanged five men who were convicted for the crime. Six other convicted officers are living in exile abroad.
Mujib’s murder wreaked havoc in Bangladesh. The country was not even four years old when it had to face a military coup after the tragic incident. The perpetrators of this heinous crime were people from the Bangladeshi army who were wedded to the idea of a united Pakistan. They blamed Mujib for taking India’s help in fighting West Pakistan and virtually becoming an Indian colony in the aftermath of the fall of Dhaka in 1971. Whether Pakistan was responsible for Mujib’s assassination cannot be ascertained beyond reasonable doubt, but the military operation and the consequent atrocities committed by the Pakistan Army against the Bengalis cannot be denied. India supported the insurgency in East Pakistan, though it could be argued that given the radicalisation of Indian’s West Bengal and the Naxalite movement, the Indians did not want another radical movement on its hands in East Pakistan. When West Pakistan denied Mujib the right to form a government even after his Awami League got a majority of seats, the emergence of Bangladesh seemed all but inevitable.
There are many interesting parallels between Pakistan and Bangladesh. Two major political players of the 1970s — Zulfikar Bhutto and Sheikh Mujib — were killed by the military, be it in the form of the direct assassination of Mujib or the alleged judicial murder of Bhutto. Both countries have seen a lot of political unrest, resulting in a series of military coups. As far as democratically elected governments are concerned, a two-party system exists in both countries, resulting in a game of musical chairs between the PPP and the PML-N in Pakistan and Sheikh Hasina’s Awami League and Khaleda Zia’s Bangladesh Nationalist Party (BNP) in Bangladesh whenever democracy is restored. Dynastic politics, though seen to be relatively unstable, has also played an important role in the two countries. The Zia and Mujib families of Bangladesh and the Bhutto and Sharifs in Pakistan have all been extremely popular in spite of this brand of politics. Since democracy has finally been restored in Bangladesh and Pakistan after a long struggle, it is hoped that the two countries would also move away from this type of nepotistic politics sometime in the future.
Now that a violent chapter in Bangladesh’s history has been closed, Pakistan too is waiting for justice in Zulfikar Bhutto’s case. Senior Minister Raja Riaz of the PPP has demanded the reopening of Bhutto’s murder case and quoted the example of the recent execution of Mujib’s murderers. He demanded that the chief justice of Pakistan should also reopen the Bhutto case and hold the guilty accountable.
It cannot be gainsaid that democracy is vital to the people of both nations, thus we need to move forward to a credible democratic system. A strong democracy will close the doors for another military dictatorship. We no longer want to be governed by self-imposed rulers who boast of providing better opportunities for the nation, yet they only benefit themselves at the cost of public welfare. This trend must be reversed so as to make Pakistan and Bangladesh stronger, both politically and economically.
http://dailytimes.com.pk/default.asp?page=2010\01\30\story_30-1-2010_pg3_1
تین کہانیاں
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
جنرل سرتھ فونسیکا کے دستوں نے جب گذشتہ برس کے موسمِ گرما میں دنیا کی چند سخت جان عسکری تحریکوں میں سے ایک یعنی تامل ٹائیگرز کو ختم کردیا اور ٹائیگرز کے قائد پربھاکرن کی لاش ٹی وی سکرین پر دکھا دی گئی تو سری لنکا کے صدر مہندا راجہ پکسا نے جنرل فونسیکا کو دنیا کا بہترین جنرل قرار دیا۔لیکن پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔صدر راجہ پکسا اور جنرل فونسیکا کے حامیوں میں بحث چھڑ گئی کہ اصل فاتح کون ہے ؟ وہ صدر جس نے ٹائیگرز کے خاتمے کے لیے سب وسائل وقف کردئیے یا وہ جنرل جس نے عملاً ٹائیگرز کا بھرکس نکال دیا
یہی بحث دونوں کو ایک دوسرے سے دور لے گئی اور جنرل فونسیکا نے اپنی مقبولیت کو آزمانے کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مگر انسانی حقوق کی پامالی کے خراب ریکارڈ اور مالیاتی بدعنوانی کے الزامات کے باوجود صدر راجہ پکسا نہ صرف اٹھارہ فیصد زیادہ ووٹ لے کر صدارتی انتخاب جیت گئے بلکہ تین حاضر سروس میجرجنرلوں، تین بریگیڈئیروں اور دو کرنلوں کو بھی جنرل فونسیکا کی حمائت پر برطرف کر دیا۔اور اس سارے سیاسی کھیل میں سری لنکا کی فوج نے خود کو غیرجانبدار رکھا۔
لیفٹیننٹ جنرل اودیش پرکاش حکومت بھارت کے آٹھ کلیدی فوجی مشیروں میں شمار ہوتے تھے۔ مگرجنرل پرکاش نے مغربی بنگال کے پہاڑی صحت افزا مقام دارجلنگ میں فوجی ملکیت کی ستر ایکڑ زمین کوڑیوں کے بھاؤ ایک بلڈر کو بیچ دی۔ وزیرِ دفاع اے کے انتونی نے فوج کے سربراہ جنرل دیپک کپور سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ فوج کے سربراہ نے لیفٹیننٹ جنرل پرکاش اور چار دیگر فوجی افسران کو فوری ریٹائر کرکے کورٹ مارشل کا حکم دے دیا۔ اب ان افسروں کے سر پر قید اور پنشن سمیت دیگر مراعات کی ضبطی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سن دو ہزار سے دو ہزار چھ تک بھارتی فوج سات ہزار سے زائد کورٹ مارشل کر چکی ہے۔
جنوری کے آخری ہفتے میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان اور انکے اہلِ خانہ سمیت اٹھائیس افراد کو قتل کرنے والے پانچ سابق فوجی افسروں کو ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
پندرہ اگست انیس سو پچھتر کو جب شیخ مجیب الرحمان قتل کئے گئے تو جنرل ضیا الرحمان فوج کے نائب سربراہ تھے۔ قتل کے فوراً بعد بننے والی حکومت کے صدر خوندکر مشتاق احمد نے ایک خصوصی قانون بنا کر مجیب کے قاتلوں کو معافی دے دی۔اگلے گیارہ برس تک بنگلہ دیش میں فوجی حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ شیخ مجیب کے قتل میں ملوث دو افسران نے نہ صرف سیاست میں حصہ لیا بلکہ انتخاب بھی لڑا۔جبکہ دو ملزم بیرونِ ملک سفارتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔
انیس سو چھیانوے میں جب شیخ مجیب کی صاحبزادی شیخ حسینہ وزیرِ اعظم بنیں تو معافی کا قانون منسوخ کردیا گیا اور پہلی مرتبہ دستیاب ملزموں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ انیس سو اٹھانوے میں زیریں عدالت نے پندرہ ملزموں کو سزائے موت سنائی۔لیکن ہائی کورٹ نے اپیل سننے کے بعد تین کو بری کردیا ۔ پھر شیخ حسینہ انتخابات ہار گئیں اور انکی جگہ لینے والی وزیرِ اعظم خالدہ ضیا نے عدالتی عمل کو تقریباً منجمد کر دیا۔جب دو ہزار نو میں شیخ حسینہ دوبارہ وزیرِ اعظم بنیں تو مقدمہ آگے بڑھا اور سپریم کورٹ نے بارہ ملزموں کی سزائے موت برقرار رکھی۔ یوں شیخ مجیب کے قتل کے پینتیس برس بعد پانچ مجرموں کو پھندا پہنا دیا گیا۔چھ مجرم ملک سے باہر ہیں۔ ان میں سے دو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وفات پاگئے ہیں۔
یہ تینوں خبریں جنوری کی ہیں اور جنوبی ایشیا کی ہیں۔ مگر پاکستان میں بیٹھ کر ایسی خبریں سننے کا لطف ہی الگ ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/columns/2010/02/100207_baat_se_baat_as.shtml