khuda ka zikr kare zikre amreeka na kare? – by Zalaan
Related article: Case of bogus science – By Dr. Pervez Hoodbhoy
قدرتی آفات ،عذاب یا امریکی ہارپ
امریکا میں تیز ہواؤں اور ٹورنیڈو کی زد میں آکر تین سو افراد ہلاک ہو گئے ،یہ خبر سن کر انٹرنیٹ کے مجاہد جو اپنے آپ کو انسان دوست بھی کہتے ہیں دکھ کے بجاے خوشی کا اظہار کتے ہوئے نظر آے اور یہ فتویٰ جاری کیا کے یہ الله کا عذاب ہے
اس سے پہلے جو بھی قدرتی آفت امریکا پر آئیں ییں جب بھی یہ طالبان دوست مجاہدین یہی کہتے تھے کے یہ الله کا عذاب ہے ،پر مزے کی بات یہ کے جو قدرتی آفت امریکا کے بجاے دنیا کے کسی اور حصے میں آجاے تو یہ طالبان اسے عذاب نہیں کہتے ہیں بلکے کہتے ہیں کے یہ امریکا نے ہارپ ٹیکنولوجی کے ذریے کروایا ہے ،ابھی حال ہی میں جاپان میں زلزلہ آیا تو ایک نیم مولوی صاحب نے یہی فتویٰ دیا کہ جاپان میں آنے والے زلزلہ اور سونامی امریکا نے کروایا ہے جس سے وہ ایٹمی ریکٹر تباہ کر کے دنیا میں تباہی لایے گا پر حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے اندر کی اور اس قدر سائنسی بات صرف پاکستان کے مسلمانوں تک پونھچی اور جاپان والوں کو کچھ پتا ہی نہیں ، کترینا میں آنے والا طوفان عذاب تھا کیونکہ الله امریکا سے ناراض ہے …،پاکستان میں انے والا سیلاب انڈیا نے کر وایا – جتنے سونامی،زلزلے ،سیلاب ،بارشیں جو امریکا سے باھر آتی ہیں وہ امریکا ہارپ سے لاتا ہے- پر حیرت کی بات یہ کے سونامی ،سیلاب ،زلزلوں کی تاریخ بہت پرانی ہے پر اس پر کون سوچے ،سائنس دان بھی یہودی اور عیسائی ہیں ان کی کون مانتا ہے ،بس امریکا ہی سب کچھ کر رہا ہے
پر یہ لوگ ایک راے بھی نہیں رکھتے ہیں ،کبھی کہتے ہیں یہ عمال کا نتیجہ ہیں ،کبھی کہتے ہیں یہ الله کی طرف سے ہے ،کبھی کہتے ہیں یہ امریکا کی سازش ہے اور سائنس کہتی ہے کے یہ قدرتی عمل ہے .اب ایک عام بندہ جب بارش ہوتی ہے تو سوچتا ہے کہ یہ بارش الله کر رہا ہے یا امریکا …. اگر یہ ایمان کی خرابی ہے تو یہ ایمان کی خرابی بھی مولویوں ہی کی پیدا کردہ ہے
ان امریکا مخالف جذباتی مجاہدوں کے نظریے سے لگتا ہے کہ جب امریکا میں قراتی آفت آتی ہے تو وہ الله کرتا ہے اور امریکا سے باھر امریکا خود کرواتا ہے .لگتا ہے یہ مولوی خود کسی شرک خفی میں مبتلا ہو گئے ہیں جن کے ذہنوں میں امریکا اس قدر سوار ہو گیا ہے کہ ہر ہوتی ہوئے چیز امریکا ہی سے ہوتی ہوئے نظر آتی ہے اسی لیہ جماعت اسلامی اور اس جیسی سیاسی مذہبی تنظیموں کے اجتماعات میں الله کا ذکر کم اور امریکا کا ذکر زیادہ ہوتا ہے
خدا کا ذکر کرے ،ذکر امریکا نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زبان خدا نہ کرے
Specimen of ISI and JI’s propaganda on American HAARP causing floods in Pakisan
Pervez Hoodbhoy is not a very good conspiracy theorist. He is, however, a very good scientist. He is professor of physics at Quaid-i-Azam University, and as a scientist, he is getting quite frustrated with people trying to use pseudo-science to make up crazy conspiracy theories that confuse and scare people for no good reason.
Writing for Dawn (http://www.dawn.com/2010/11/16/case-of-bogus-science.html), he takes direct aim at the conspiracy theory that has been sent around in emails and even published by The Nation (http://www.nation.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-english-online/Opinions/Columns/21-Sep-2010/HAARP-The-American-WMD) and Dawn (http://news.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/in-paper-magazine/sci-tech-world/the-wondrous-world-of-science-700) which claims the CIA is controlling the weather with a top-secret machine called HAARP.
These conspiracy theories are ridiculous. Perhaps they are entertaining, but they are not harmless. As Dr Hoodbhoy observes, giving credit to such stories “decreases society’s collective ability to make sensible decisions”. It also wastes the valuable time of our eminent scientists like Pervez Hoodbhoy who have to take time away from working on important matters for the country in order to debunk such nonsense. We have said before that everyone is entitled to their own opinions, but they are not entitled to their own facts. This includes science. That the media gives space to such pseudo-science nonsense is a shame on the profession, and an embarrassment to the country.
http://pakistanmediawatch.com/2010/11/16/haarp-conspiracy-debunked-by-preeminent-pakistani-nuclear-scientist/
Jang group takes the lead in cultivating USA phobia and conspiracy theories.
ہارپ۔بارش،ہوائی وسمندری طو فان وزلزلہ لانے کاہتھیار …..نصرت مرزا
اخبار ”نیویارک ٹائمز“ میں ایک اسٹوری 8 دسمبر 1915ء میں امریکہ کے سائنسدان نیکولا ٹیسلا کے سائنسی تھیوری ٹیکنالوجی اور ایجادات کے بارے میں شائع ہوئی اور دوسری اسٹوری بھی ”نیویارک ٹائمز“ میں ہی مگر کوئی 25 سال بعد یعنی 22 ستمبر 1940ء کو شائع ہوئی۔ اس وقت اِس امریکی سائنسدان کی عمر کوئی 80 سال کی تھی، اس میں انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ موسم میں ایسے تغیرات لا ئے جا سکتے ہیں جو بارش برسا سکتے ہیں اور زلزلہ لاسکتے ہیں یا کسی جہاز کے انجن کو کسی خاص جگہ سے 250 کلومیٹر پہلے ہی ایک چھوٹی سی شعاع سے پگھلا یا جاسکتاہے، کسی خاص ملک خطہ یا علاقے کے گرد شعاعوں کا دیوار چین جیسا حصار قائم کرسکتا ہے مگر معروف امریکی سائنسدانوں نے اس نظریہ کو یہ کہہ کر مشہور نہیں ہونے دیا کہ اُن کے نظریہ کو قبول کرلیا جائے تو کرئہ ارض کو توڑ دے گامگر امریکی حکومت نے اُن کے نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پینٹاگون کو ذمہ داری سونپی۔
پینٹاگون نے High Frequency Active Aurol Research Program (HAARP) پر کام شروع کیا اورا لاسکا سے 200 میل کی دوری پر ایک انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیا۔ 23 ایکڑ پلاٹ پر 180 ٹاورز پر 72میٹرر لمبے انٹینا نصب کئے جسکے ذریعہ تین بلین واٹ کی طاقت کی Electromagnetic wave) 2.5-10( میگا ہرٹز کی فریکوئنسی سے چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن اسٹار وارز، میزائل ڈیفنس اسکیم اور موسم میں اصلاح اور انسان کے ذہن کو قابو کرنے کے پروگراموں پر عملدرآمد کررہی ہے موسمی تغیرات پیدا کرنے کے لئے ایک کم مگر طے شدہ کرئہ ارض کے فضائی تہوں میں کہیں بھی جہاں موسمی تغیر لانا ہو سے وہ الاسکا کے اس اسٹیشن سے ڈالی جاسکتی ہے جو کئی سو میلوں کی قطر میں موسمی اصلاح کرسکتی ہے۔ امریکہ میں کسی بھی ایجاد کو رجسٹر کرانا ضروری ہے اور اس میں اُس کا مقصد اور اُس کی تشریح کرنا ضروری ہے چنانچہ HARRP کا پنٹنٹ نمبر 4,686,605 ہے، اس کے تنقید نگار نے اس کا نام جلتی ہوئی شعاعی بندوق رکھا ہے۔ اِس پنٹنٹ کے مطابق یہ ایسا طریقہ اور آلہ ہے جو کرئہ ارض کے کسی خطہ میں موسمیاتی تغیر پید اکردے اور ایسے جدید میزائل اور جہازوں کو روک دے یا اُن کا راستہ بدل دے، کسی پارٹی کے مواصلاتی نظام میں مداخلت کرے یا اپنا نظام مسلط کردے۔ دوسروں کے انٹیلی جنس سگنل کو قابو میں کرے اور میزائل یا ایئر کرافٹ کو تباہ کردے۔ راستہ موڑ دے یا اس کو غیر موثر کردے یا کسی جہاز کو اونچائی پر لے جائے یہ نیچے لے آئے۔ اس کا طریقہ یہ پنٹنٹ میں یہ لکھا ہے کہ ایک یا زیادہ ذرات کا مرغولہ بنا کر بالائی کرہ ارض کے قرینہ یا سانچے (Pattern) میں ڈال دے تو اس میں موسم میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کو موسمی اصلاح کا نام دیا گیا۔ پنٹنٹ کے مطابق موسم میں شدت لانا یا تیزی یا گھٹنا، مصنوعی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالائی کرئہ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ زمین کے کسی خطہ پر انتہائی سورج کی روشنی، حدت کو ڈالا جاسکتا ہے۔ اس نظام پر ایک کتاب Angles Don’t play this Haarp” ” جو دو سائنسدانوں JEANE MANNING اور Dr. NICK BEGICHنے لکھی ہے ،ا س کے مطابق کرئہ ارض کا اوپری قدرتی نظام جو سورج کی روشنی کا اسطرح بندوبست کرتا ہے کہ اُس کو انسان دوست رکھنے کے لئے نقصان دہ شعاؤں کو جذب کر لیتا ہے، مگر ہارپ کا مقصدIonosphere کواپنی مرض کے مطابق چلانا ہے، اس کو Ionospheric Heater کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اسکے ذریعہ وہ مصنوئی حدت یا اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ہارپ کے بارے میں پہلی اطلاع 1958ء میں وہائٹ ہاؤس کے موسم کی اصلاح کے چیف ایڈوائزر کیپٹن ہوورڈ ٹی اور ویلی یہ کہہ کر دی کہ امریکہ کرئہ ارض کے موسم کو ہیرپھیر کے ذریعہ متاثر کرنے پر تجربات کررہا ہے۔ اسی طرح 1986ء پروفیسر گورڈن جے ایف میکڈونلڈ نے ایک مقالہ لکھا کہ امریکہ ماحولیات کنٹرول ٹیکنالوجی کو ملٹری مقاصد کے حصول کے لئے تجربات کررہا ہے۔ یہ جغرافیائی جنگوں میں کام آئے گی اور قلیل مقدار کی انرجی سے ماحول کو غیر مستحکم کردے گا۔
اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر امریکہ کی رعونت اور امریکہ کی دنیا سے بے اعتبائی کوئی یوں ہی نہیں ہے، اس کے پیچھے اُس کی وہ سائنسی طاقت ہے جس میں ایٹم بم ایک حقیر ہتھیار ہو کر رہ گیا ہے۔ سائنسداں ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں، پاکستان میں سائنسدانوں کو مقید کرکے رکھا جاتا ہے، وہاں پر موسموں کا ہیرپھیر، آب و ہوا کی اصلاح، قطب جنوبی و قطب شمالی کے برف کو بڑی مقدار میں پگھلانا یا پگھلنے کو روکنا اوراوزون کی تہوں کو تراشنا، سمندر لہروں کو قابو کرنا، دماغی شعاعوں کو قبضہ کرنا، دو سیاروں کی انرجی فیلڈ پر کام ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے 1970ء میں بززنسکی نے جہاں یہ کہا تھا کہ وہ دنیا کے طاقت کے محور کو امریکہ لے گئے ہیں اور اب کبھی یورو ایشیا میں نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ زیادہ قابومیں رہنے والی اور ہدایت کے مطابق چلنے والی سوسائٹی ، امریکی ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ابھرے گی اور معاشرہ یا اس کرہ ارض کے لوگ اُن لوگوں کے حکم پر چلیں گے جو زیادہ سائنسی علم رکھتے ہوں گے۔ یہ عالم لوگ روایتی اور منافقانہ یا بے تعصبی سے قطع نظر اپنے جدید ترین تکنالوجی کو سیاسی عزائم کے حصول کے لئے بروئے کار لانے سے گریز نہیں کریں اور عوامی عادتوں اور معاشرہ کو کڑی نگرانی اور قابو میں رکھنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے جس صورت پر کام کیا جارہا ہوگا اس پر تکنیکی اور سائنسی معیار اور مقدار متحرک کی جائے گی۔ ان کی یہ پیش گوئی آج صحیح ثابت ہورہی ہے، آج ”امراء“ سامنے آرہے ہیں اور سائنس کو بروئے کار لا کر زلزلے، سونامی، موسم میں تغیر، جہازوں کے راستے، جہازوں کو گرایا جارہا ہے اور سیلاب لائے جارہے ہیں۔
پاکستان میں موسم برسات میں عموماً مون سون کے بادل مشرق سے آتے ہیں اور سردیوں کی بارش کے مون سون مغرب سے، مگر اس دفعہ جس کی وجہ سے پاکستان میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا، جس سے پاکستان کی زرعی معیشت زمین بوس ہوگئی اور کروڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ مون سون کے بادل مشرق اور مغرب سے آئے اور وزیرستان و شمالی علاقہ جات میں آکر ٹکرا گئے، اب ایسا کیوں ہوا،، اسکے بعد ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہونگے کہ پاکستان میں جو بد ترین بارش ہوئی اور ہیبتناک طوفان آیایا قدرتی موسمی تغیرات اس کی وجہ ہیں، یہ کسی انسانی عمل سے یہ تغیر پیدا ہوا، اس بات کے امکانات موجودہیں کہ یہ تبدیلی طور ہتھیار استعمال کی گئی، ایک خاص خطہ پر دو مون سون کو ٹکرا کر تباہی لائی گئی، اسکے بعد شبہات بڑھ گئے ہیں کہ 2005ء کا زلزلہ بھی زمینی پلیٹوں میں تبدیلی کرکے لایا گیا ہو، اِس بات پر بھی شک ہے کہ ایئر بلیو کی فلائٹ کے انجن کو کسی شعاع کے ذریعہ پگھلا دیا گیا اور سونامی بھی سمندری لہروں کو قابو کرنے کے کسی تجربہ کی بناء پر آیا ہو۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے ؟ کیا ہم ان سائنسی ایجاد کے پہلے ہدف ہیں اور ہمیں زیادہ مطیع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے یا ہمارے ایٹمی اثاثہ جات کو ٹھکانے لگانا مقصود ہے۔ ایسا کرنے کیلئے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو وار کئے جاچکے ہیں، ایک زلزلہ اور دوسرا سیلاب۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=462973
Excellent post by Aniqa Naz
جمہور یا جانور
دوپہر کا وقت تھا۔ میں بازار میں تھی۔ ایک پتھارے والے کے پاس ایک من پسند لیس دیکھ کر رک گئ۔ بھاءو تاءو کرنے کے بعد جب میں نے اپنا پرس کھولا تو اس میں ہزار کا نوٹ تھا۔ لیس پچھتر روپے کی بن رہی تھی جبکہ اسکے پاس ہزار کا کھلا نہیں تھا۔ چھان پھٹکنے پہ ایک پچاس روپے کا نوٹ برآمد ہوا۔ میں نے وہ دوکاندار کو دیا کہ زر ضمانت کے طور پہ رکھے میں واپسی میں باقی پیسے دیکر لیس لے لونگی۔
واپسی میں دیکھا تو اسکا پتھارا ایک چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ پڑوس کے دوکاندار سے پوچھا کہنے لگا نماز پڑھنے گیا ہے ابھی دس منٹ میں آجائے گا۔ تب اچانک میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے ارد گرد نظر ڈالی۔ تمام دوکاندار اپنے اپنے گاہکوں کے ساتھ مصروف تھے۔ جن کے پاس نہیں تھے وہ چیزیں قرینے سے رکھ رہے تھے۔ یہ دوکانیں کپروں کی بھی تھیں، زیورات کی بھی اور پھل اور سبزی والوں کی بھی۔ اس عوامی ہجوم میں ہر ثقافتی گرو سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ مہاجر، پٹھآن، پنجابی، افغانی۔
اور پھر اسی تسلسل میں مجھے رات ٹی وی پہ آنے والا ایک پروگرام یاد آگیا۔ جس کے میزبان حامد میر، اور مہمانوں میں ہارون رشید اور انصار عباسی شامل تھے۔ اور ہمارے دونوں مدبر صحافیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اٹھانوے فی صد افراد شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں اور جو لوگ جمہور کی رائے کا احترام نہیں کرتے انہیں ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا یعنی اگر وہ گورنر ہے تب بھی اسکا اپنے محافظ کے ہاتھوں مارا جانا قابل صدمہ نہیں۔
اس وقت میں نے اپنے اس بازار کے تمام لوگوں کو دیکھا جو بازار کے بیچوں بیچ واقع مسجد میں نماز ادا کرنے کے بجائے اپنے اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ نماز دین کا سب سے اہم رکن اسکی ادائیگی سے جان چرانے والے ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ شاید لوگ صحیح کہتے ہیں اٹھانوے فی صد شماریات کے نتائج موقعے پہ ہی بنائے جاتے ہیں۔ جیسی ضروت ویسے نتائج۔
جمہور کون ہے؟ تھری پیس سوٹ میںملبوس نک سک سے ایک دم درست، زندگی کی تمام سہولتوں کو استعمال کرنے والے، ہر ممکنہ وسیلے کے نزدیک، بغیر ریش اور باریش افراد جو میڈیا کی لائم لائٹ میں رہنے کے چسکے سے آشنا ہیں یا روزانہ کی بنیاد پہ کپڑا بیچنے والا، سبزی بیچنے والا ، کینو بیچنے والا۔
امریکہ میں ایک سروے کے مطابق ، کم از کم بیس فی صد امریکی افراد اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ صدر باراک حسین اوبامہ مسلمان ہیں۔ جبکہ ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ اوبامہ ہر اتوار کو چرچ اپنی ہفتے وارعیسائ عبادت کے لئے جاتے ہیں۔ اور در حقیقت وہ مسلمان نہیں بلکہ عیسائ ہیں البتہ انکے والد مسلمان تھے۔
میں نے ایک امریکی شہریت کے حامل پاکستانی سے پوچھآ، لیکن اتنے زیادہ امریکی اتنا غلط کیوں سوچتے ہیں جبکہ وہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ امریکیوں کی بڑی تعداد سنجیدہ چیزیں نہیں پڑھتی بلکہ ریئلیٹی ٹی وی جیسے پروگرامز کی اسیر ہے۔ ایک امریکی گھر میں ہر وقت ٹی وی چلتا ہے۔ جو لوگ اس سے کوئ خبر حاص کرنا چاہتے ہیں وہ بھی نہیں حاصل کر پاتے کیونکہ میڈیا کی ترجیح لوگوں کو درست خبریں دینا نہیں، انہیں ٹُن رکھنا ہے۔ ہمم، اسی لئے تو امریکی حیران ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ اور جب ہم میڈیا پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک اور چیز کا داراک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اردو میڈیا اور انگریزی میڈیا بالکل دو الگ قوموں کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ جنگ اخبار تھا جس میں، میں نے سب سے پہلے ایک کالم نگار کے کالم میں یہ بات پڑھی کہ اب جبکہ دنیا جان گئ ہے کہ پاکستان میں آنے والا زلزلہ اور سیلاب امریکہ کے ہارپ کی وجہ سے آئے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان سے معافی مانگنی چاہئیے۔
میں انگریزی اخبار بھی پڑھتی ہوں۔ جب جنگ جیسے موءقر اردو اخبار میں اس چیز کا باعث ہارپ کو قرار دیا جا رہا تھا۔ اس وقت انگریزی اخبار ڈان میں ملک کے مایہ ناز دو سائینس کے عالموں ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ہود بھائ کے درمیان اس بات پہ زوردار بحث چل رہی تھی کہ ہارپ ایک ہوّے کے سوا کچھ نہیں۔
حیرت تو ہوتی ہے کہ ان دو عالموں نے کسی اردو اخبار کو اس پہ بحث کرنے کے لئے اپنا میدان نہیں چنا۔
یہی نہیں، اگر ہم اتوار کے دن کا جنگ اور ڈان میگزین اٹھائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اخبارات کس قدر کم معیار کے مضامین لکھتے ہیں اور انکی ہمیشہ ایک خاص سمت ہوتی ہے۔
یہی اردو اخبار، اس شدت پسندی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جو پاکستان کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ آخر یہ صحافی کیا کریں ۔ ان کی کیا پیشہ ورانہ تربیت ہے یہ کتنی ریسرچ کرتے ہیں ان میں سے کتنوں نے اپنے آپکو بیرونی دنیا کے علم سے جوڑا ہوا ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو بیرونی مواد کو ترجمہ کر کے اردو میں لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ کرایسس انگریزی صحافیوں کے ساتھ بھی ہے لیکن انہیں انگریزی مواد کو کٹ اینڈ پیسٹ کرنے کی آسانی حاصل ہے۔
ادھر انگریزی اخبار کا فوکس ہمارے ایلیٹس یعنی طبقہ ء اشرافیہ ہے۔ اگر ڈان میں ان دو سائینسدانوں کے درمیان بحث ہوئ تو اس سے ہمارا اردو داں طبقہ انجان ہے۔ انگریزی زبان جاننے کا ایک فائدہ ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں اس وقت جتنا علم کا دھماکا آیا ہوا ہے وہ سب انگریزی میں دستیاب ہے۔ وہ چاہے ادب ہو یا سیاست یا سائینس۔
اردو داں طبقے کی اکثریت تو بم دھماکے کی ہی اصطلاح سے واقف ہے اور ان تک وہی پہنچ پاتا ہے جو اردو میڈیا انہیں فراہم کر سکتا ہے۔ اردو میڈیا کو عوامی تبدیلی یا ترقی سے دلچسپی نہیں۔ انہیں سینسیشن چاہئیے۔ چاہے وہ مذہب کے نام پہ ملے۔
کتنے ٹی وی اینکر ایسے ہیں جو جدید معلومات یا ریسرچ سے فائدہ اٹھاتے ہوں۔ شاید کوئ نہیں۔ جب ادھر ادھر کی چیزیں ہی اٹھانی ہوں تو آسانی سے جو ملے گا وہی حاضر ہوگا۔ اور اردو میں آسانی سے مذہب سے متعلق کتابیں ہی دستیاب ہیں چاہے وہ درست نکتہ ء نظر سے لکھی گئ ہوں یا غیر درست۔
ایلییٹس یا طبقہ ء اشرافیہ نہیں چاہتے کہ عام آدمی ان جیسا معیارزندگی رکھے یا ان جیسی معلومات ہی رکھ لے۔ وہ اس بات پہ ہنس سکتے ہیں کہ پاکستانی کتنے بے وقوف ہیں کہ زلزلے کو ہارپ کا لایا ہوا سمجھتے ہیں لیکن وہ اس قوم کو اردو میں ہارپ کے متعلق بتانے کی جدو جہد میں نہیں پڑیں گے۔
قوم اردو سمجھتی ہے اسے اردو میں جو مواد اور ذہن مل رہا ہے وہ اسی کے مطابق سوچتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر مذہبی لٹریچر دستیاب ہے۔ کوئ ایک معیاری سائینس کی کتاب نہیں۔ پاکستان میں گذشتہ دس سالوں میں اردو ادب میں کوئ معیاری ناول یا ادیب سامنے نہیں آیا۔ ہمارے آج کے نوجوان کو بھی اشفاق احمد کو ہی پڑھنا پڑ رہا ہے۔ فیس بک پہ دھڑا دھڑ اشفاق احمد کے اقتباسات دستیاب ہیں۔
آجکے عہد میں کون اردو ادب لکھے گا۔ شاید کوئ نہیں۔ کیونکہ معاشرہ جب اظہار کے خوف سے گذر رہا ہو اور لوگ ایک دوسرے کو زبان درازی سے رکنے کی تلقین کر رہے ہوں تو اس صورت میں کس میں جراءت ہوگی کہ حقیقت لکھے فکشن کی صورت میںُُ۔ انگریزی داں طبقے کی عوامیت اتنی کم ہے کہ وہ پاکستان سے متعلق پُر اثر ادب شاید ہی لکھ پائے۔ اشرافیہ، بس نوم چومسکی، ڈکنس اور دستوووسکی اور دیگر فلسفہ ء حیات کو پڑھ کر اپنے ڈرائینگ رومز کی ڈسکشنز کو مزےدار بناتے ہیں۔
تو جب ایک شخص دوسرے کو قتل کرتا ہے۔ اور ملک میں جس طبقے کو یعنی عدلیہ کو عدل اور انصاف پھیلانے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے وہ اس قاتل پہ پھول نچھاور کرتے ہیں تو ہمیں کیوں حیرت ہوتی ہے۔
جب ملک میں طبقاتی تعلیمی نظام چلے گا تو نتیجہ وہی ہوگا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔اردو میڈیا کہتا ہے کہ جب جمہور کی بات کے خلاف کام ہوگا تو کسی کا قتل ہونا کوئ ایسی بری بات نہیں۔ کیونکہ جمہور ہم ہیں اس لئے ہم جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ انگریزی میڈیا اپنے ڈرائینگ روم میں دنگ بیٹھا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
ادھر میں پتھارے والے کے مسجد سے واپس آنے کے انتظار میں بازار میں ادھر اُدھر گھوم کر جن کو دیکھ رہی ہوں، یہ کون ہیں جمہور یا جانور؟
http://anqasha.blogspot.com/2011/01/blog-post_06.html
very good and well observed piece @ keep it up zalan
Another propaganda website:
پاکستان میں میرینز بھیجنے کے لیے امریکا کا (HARRP) ٹیکنالوجی کا استعمال
| More
کراچی (رپورٹ:حامدالرحمٰن) امریکا نے پاکستان میں میرینز بھیجنے کے لیے پاکستان کے شمال مغربی حصے میں ہارپ (HARRP) ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ ہارپ کو اس طرح تیار کیا گیا کہ پورا پاکستان سیلاب کی زد میں آجائے تاکہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی پیدا ہو۔ ہارپ کے تحت زلزلوں‘ سمندری طوفان اور سیلاب کے ذریعے 2020ءتک پاکستان سمیت اپنے حریف ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔ گزشتہ 10 برس کے دوران امریکا نے ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں میں زبردست تباہی مچائی جس میں لاکھوں انسان ہلاک اور کروڑوں متاثر ہوئے ہیں۔انٹرنیٹ پر ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں آنے والا بدترین سیلاب دراصل امریکی آبی جارحیت ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں سیلاب کے حوالے سے نہ پیشگی اطلاع تھی اور نہ اس طرح کے بدترین سیلاب کا کوئی محکماتی انتباہ تھا اور نہ ہی عالمی محکمہ موسمیات میں سے کوئی سیلاب کی نشاندہی کرسکا ہے۔ماہرین نے انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر انکشاف کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں آنے والا بدترین سیلاب امریکا کا تیار شدہ منصوبہ تھا جس کا مقصد پاکستان میں اپنے میرینز کو داخل کرنا تھا کیونکہ پاکستان پر جوہری جنگ مسلط کرکے جیتا نہیںجاسکتا اور اس طرح دو طرفہ تباہی پھیل سکتی تھی اس لیے امریکا نے ماضی میں حاصل کی گئی ٹیکنالوجی ہائی فریکوئنسی ایکٹواورل ریسرچ پروگرام (HARRP) ہارپ کو شمال مغرب میں استعمال کرکے پاکستان کو ڈبونے کا پروگرام بنایا اور آج خیبرپختوانخوا سے سندھ تک چاروں صوبے اس بدترین آبی جارحیت کی زد میں ہیں جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوچکے ہیں اور امداد کی آڑ میں امریکا نے 1000 میرینز پاکستان میں داخل کردیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق امریکا نے اس خفیہ الیکٹرومیگنیٹک سے متعلق جنگی استعداد کو 2020ءتک متعین مقاصد کے تحت مکمل غلبہ کے لیے ڈیزائن کیا ہے۔ محققین کے مطابق امریکا نے ہارپ (HARRP) ٹیکنالوجی کے ذریعے موسمی تبدیلی کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے جس کے زور سے زلزلے‘ سمندری طوفان اور سیلاب پیدا کیے جاسکتے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی مواصلاتی نظام میں خلل ڈالاجاسکتا ہے۔ امریکا نے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے گزشتہ 10 برس میں دنیا میں بدترین تباہی مچائی ہے جس میں لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں متاثر ہوئے ہیں۔
امریکا کی اس ٹیکنالوجی کے ذریعے 2005ءمیں ہری کین (سمندری ہوائی طوفان)‘ قطرینہ‘ ڈینس‘ امیلی‘ ریٹا ‘ 2004ءمیں بدترین سونامی‘ 2007ءمیں انسانیت کی تاریخ کا بدترین سیلاب‘2005ءمیں پاکستان میں زلزلہ‘ 2008ءمیں خطرناک ترین ہوائی طوفان (ٹورناڈو) اور 2009ءمیں ہیٹی میں آنے والا زلزلہ شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ 10 برس میں آنے والے زلزلوں‘ سمندری طوفان اور سیلاب کی کہیں کوئی پیشگوئی نہیں تھی بلکہ یہ اچانک آفتیں ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا کی گئیں۔ ماہرین نے ویب سائٹ پر مزید انکشاف کیا کہ جب اوباما کو نوبل انعام دیا گیا اس روز ناروے میں آسمان میں گھوماﺅ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی دنیا کے کسی خطے میں نہیں دیکھا گیا۔
ماہرین نے مزید انکشاف کیا کہ چلی میں لوگوں نے عین زلزلے کے وقت آسمان کا رنگ تبدیل ہوتے دیکھا اور ایسا ہی نظارہ چین میں بھی زلزلے سے 20 سے 30 منٹ قبل دیکھا گیا جبکہ ایک موقع پر 100 سے زائد تعداد میں پرندوں کے ایک گروہ کو آسمان پر اڑتا دیکھا گیا جو آسمان پر اچانک پرواز کے دوران مرگئے اور اسی خطے میں آگرے ان پرندوں کی ناک اور چونچ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس خفیہ ایجاد کا انکشاف ہارپ کے ڈیزائنر جم فلپس نے خود کیا جبکہ جم فلپس نے خود اس ٹیکنالوجی کی خرابیوں کے بارے میں آگاہ کیا ہے جسے http://www.lightwatcher.com/chemtrai... chemtrils.plof پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس موسمیاتی دہشت گردی کے بارے میں اپریل 1997ءمیں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے ہارپ ٹیکنالوجی کے خطرات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایسی ماحولیاتی دہشت گردی میں ملوث ہیں جہاں سے موسم تبدیل کیے جاسکتے ہیں اور زلزلے پیدا کیے جاسکتے ہیں اس کے لیے بہت سے ذہن اس ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوﺅں پر کام کر رہے ہیں تاکہ وہ دیگر قوموں کو انتقام کے لیے ڈرائیںاور دھمکائیں۔
21 اگست 2010
http://www.shanakht.com/shanakht/news/detail.php?nNewsId=2287
The Nation (then under the leadership of Shirin Mazari) is not lagging behind under Nizami mafia:
HAARP: The American WMD
Published: September 21, 2010
A. R. Jerral
The Decade of 1980 carries significance of great importance for the human history. Two events took place in quick succession: The then Soviet Union decided to move into Afghanistan and Mr Ronald Reagan became the President of the United States. These two events set in motion a chain of events which have engulfed the world in serious conflicts. The Soviet occupation of Afghanistan was an ideology based on a political challenge that the US could not ignore. The ensuing freedom fight or jihad in Afghanistan was one outcome of this challenge that the US under President Reagan met head on with active support from its allies. The second effect was that the US under his leadership embarked upon the development of a most advanced weapon system to defend itself.
President Reagan was an actor of Western genre films before he entered politics. He played the roles of legendary cowboys of the ‘Wild West’ in films. The cowboy is a unique character in the US history; haughty, egoistic, fast on the draw and shoot-to- kill instinct, a macho figure that had his own ideals of right and wrong. Mr Reagan brought these qualities to the White House and the US politics. The weapon development project that he launched was called the Strategic Defence Initiative (SDI), commonly known as the Star Wars after the title of a science fiction movie. The SDI envisaged the use of space for military purpose, especially its use as a defensive shield against incoming hostile missile launched towards the American mainland. The project contained the same haughty and egoistic macho instinct of the cowboy, with a gun in hand that no one could stand against him.
In the absence of any definite information, there were speculative suggestions about SDI. Some thought that the US will deploy laser-based weapon systems in space from where the enemy could be attacked. The fact that it had communication and surveillance satellites operating from space, thus placing weapon platforms in space appeared easy. Such ideas were common in fictions; many sci-fi movies were based on these ideas. However, advancements in scientific research and technological developments made it a possibility. Information now becoming available reveals that in Ameri-ca technology being perfected under the High-frequency Acti-ve Aural Research Programme (HAARP), is part of the Star Wars (SDI) project. It is based in Gokoma, Alaska, and is jointly managed by the US air force and navy, as part of the new generation of weapon system, while it is operated by USAF Research Laboratory’s Space Vehicles Directorate.
http://www.nation.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-english-online/Opinions/Columns/21-Sep-2010/HAARP-The-American-WMD
Dr Hoodbhoy’s article in full:
Case of bogus science By Pervez Hoodbhoy | From the Newspaper November 16, 2010
COMSTECH is the Organisation of Islamic Countries’ highest scientific body. It has received millions of dollars from OIC countries, including Pakistan.
Comstech’s magnificent headquarters are located on Constitution Avenue in Islamabad. It has been headed by Dr Atta-ur-Rahman since 1996. Although its performance has been consistently mediocre, the organisation has now descended to an all-time low.
Recently Dr Rahman published an eye-popping article entitled HAARP (Dawn, Oct 17). The article claims that a physics research project, based in Alaska, may have been used by the US to trigger earthquakes globally, and could also have caused the catastrophic floods in Pakistan. Dr Rahman concludes with a chilling question: “Is the HAARP then, a harmless research tool — or a weapon of mass destruction far more lethal than nuclear weapons? We may never know.”
Given Dr Rahman’s prominent place in Pakistani science, and that he is fellow of the Royal Society, one must consider seriously his claim that HAARP can cause earthquakes and floods. But even the briefest examination makes clear his claims make no scientific sense.
HAARP stands for High Frequency Active Auroral Research Programme. Its website states it is a research programme run by the University of Alaska in collaboration with various US colleges and universities. If HAARP is a secret military project conceived by evil and diabolical minds, it is hard to see why visitors, including foreign nationals, are said to be allowed on site. The website says that the last open house was on July 17, 2010.
At least on the face of things, HAARP does not have the trappings of an American secret weapons facility. (Google Earth, which I used, blacks these out.) Readers will see a field of antennas, as well as some cars and two ordinary looking buildings.
No security barriers are visible. This does not appear to be a classified project.
But, of course, appearances can be deceptive. So let us simply use common sense and physics. Assume therefore that the power of the transmitters is many times that declared on the website (3.6MW). This may mean HAARP could potentially disrupt radio communications during war, or blind incoming missiles. But science cannot accept Dr Rahman’s claim that “It (HAARP) may also affect plate tectonics causing earthquakes, floods through torrential rains and trigger tsunamis.”
Does the good doctor believe in magic and demons? How else can massive tectonic plates be moved by radio waves? Will HAARP tickle a sleeping subterranean monster that awakes and sets off earthquakes? This kind of thinking was what irate and ignorant village mullahs used after the 2005 Pakistani earthquake. They blamed cable television, after which followers smashed thousands of television sets.
Weather change simply cannot be caused by HAARP’s radio waves. The effects of a puny 3.6MW radio transmitter on the ionosphere can only be detected with sensitive instruments. Even these are almost completely washed out by a constant stream of charged particles from the sun that hit the earth during daytime. To see HAARP’s effects would be like trying to see a candle a mile away in blazing sunlight.
Today, even the most powerful lasers and radios are millions of times weaker than needed to heat sizeable portions of the ionosphere. (Of course, producing hotspots in tiny volumes anywhere is not a problem, but these have zero effect on the weather or earthquakes.) Perhaps in some future century a laser might be able to do this job.
Dr Rahman says he is uncertain if HAARP could equal a nuclear weapon or perhaps be even more destructive. But if it is actually the super-weapon that he alleges, then the laws of physics will have to be overturned. Physicists will have the sad task of unlearning all that they know and burning their useless books. With a heavy heart, I shall return all my physics degrees.
Scientists sometimes disagree — this is how scientific disputes are resolved. But it is worth asking if at least some genuine scientists support Dr Rahman’s claims. He provides no examples. Instead, he quotes President Hugo Chavez of Venezuela, who accused the US of causing the Haiti earthquake. While I admire Chavez for standing up to political bullying by the US, I am not sure he knows anything about plate tectonics. In fact, his claim caused seismologists to crack up with laughter.
Dr Rahman also quotes a 1999 committee of the European Union Parliament that called for HAARP to be examined by an international independent body. I do not know if any of the committee members were scientists. But 11 years later, the EU has not called for further investigation, nor alleged that HAARP has caused natural disasters.
The good doctor enthusiastically endorses the statements of Dr Nick Begich, one of HAARP’s most vocal critics, and refers to him reverentially as a scientist. But Begich’s website says that he obtained a doctorate in traditional medicine from The Open International University for Complementary Medicines in 1994. In other words Begich is not a scientist, but a homeopath who obtained a mail order degree.
Yet another quoted “authority” is the arch conspiracy theorist, Michel Chossudovsky, a retired professor of economics in Ottawa. In Dr Rahman’s pantheon of ‘experts’, none has published a scientific paper in a reputable science journal that demonstrates a connection between ionospheric physics and any weather or subterranean phenomenon. In short, Dr Rahman’s claims about HAARP are based on pseudo-science promoted by conspiracy theorists who blame America for all grief in the world.
Once science loses its objectivity and becomes enslaved to any kind of ideology or political opinion, it becomes useless.
Quack science does not just cost money. It also confuses people, engages them in bizarre conspiracy theories, and decreases society’s collective ability to make sensible decisions. One must therefore seriously question whether a pseudoscience organisation like Comstech deserves lavish funding from poor Pakistanis. We have better things to spend our money on. As for the world of science: it will not even notice Comstech’s demise.
The writer teaches physics at Quaid-i-Azam University, Islamabad.
http://www.dawn.com/2010/11/16/case-of-bogus-science.html
Discussions at the LUBP Forum:
http://criticalppp.com/forum/topic.php?id=1107
http://criticalppp.com/forum/topic.php?id=513
http://www.australiangeographic.com.au/journal/the-10-biggest-tsunamis-in-history.htm
Here are the 10 worst tsunamis of all time:
1. Sumatra, Indonesia – 26 December 2004
The 9.1 magnitude earthquake off the coast of Sumatra was estimated to occur at a depth of 30 km. The fault zone that caused the tsunami was roughly 1300 km long, vertically displacing the sea floor by several metres along that length. The ensuing tsunami was as tall as 50 m, reaching 5 km inland near Meubolah, Sumatra. This tsunami is also the most widely recorded, with nearly one thousand combined tide gauge and eyewitness measurements from around the world reporting a rise in wave height, including places in the US, the UK and Antarctica. An estimated US$10b of damages is attributed to the disaster, with around 230,000 people reported dead.
2. Lisbon, Portugal – 1 November 1755
A magnitude 8.5 earthquake caused a series of three huge waves to strike various towns along the west coast of Portugal and southern Spain, up to 30 m high, in some places. The tsunami affected waves as far away as Carlisle Bay, Barbados, where waves were said to rise by 1.5 m. The earthquake and ensuing tsunami killed 60,000 in the Portugal, Morocco and Spain.
3. Krakatau, Indonesia – 27 August 1883
This tsunami event is actually linked to the explosion of the Krakatau caldera volcano. Multiple waves as high as 37 m were propagated by the violent eruptions and demolished the towns of Anjer and Merak. The sea was reported to recede from the shore at Bombay, India and is said to have killed one person in Sri Lanka. This event killed around 40,000 people in total; however, as many as 2,000 deaths can be attributed directly to the volcanic eruptions, rather than the ensuing tsunami.
4. Enshunada Sea, Japan – 20 September 1498
An earthquake, estimated to have been at least magnitude 8.3, caused tsunami waves along the coasts of Kii, Mikawa, Surugu, Izu and Sagami. The waves were powerful enough to breach a spit, which had previously separated Lake Hamana from the sea. There were reports of homes flooding and being swept away throughout the region, with a total of at least 31,000 people killed.
5. Nankaido, Japan – 28 October 1707
A magnitude 8.4 earthquake caused sea waves as high as 25 m to hammer into the Pacific coasts of Kyushyu, Shikoku and Honshin. Osaka was also damaged. A total of nearly 30,000 buildings were damaged in the affected regions and about 30,000 people were killed. It was reported that roughly a dozen large waves were counted between 3 pm and 4 pm, some of them extending several kilometres inland at Kochi.
6. Sanriku, Japan – 15 June 1896
This tsunami propagated after an estimated magnitude 7.6 earthquake occurred off the coast of Sanriku, Japan. The tsunami was reported at Shirahama to have reached a height of 38.2 m, causing damage to more than 11,000 homes and killing some 22,000 people. Reports have also been found that chronicle a corresponding tsunami hitting the east coast of China, killing around 4000 people and doing extensive damage to local crops.
7. Northern Chile – 13 August 1868
This tsunami event was caused by a series of two significant earthquakes, estimated at a magnitude of 8.5, off the coast of Arica, Peru (now Chile). The ensuing waves affected the entire Pacific Rim, with waves reported to be up to 21 m high, which lasted between two and three days. The Arica tsunami was registered by six tide gauges, as far off as Sydney, Australia. A total of 25,000 deaths and an estimated US$300 million in damages were caused by the tsunami and earthquakes combined along the Peru-Chile coast.
8. Ryuku Islands, Japan – 24 April 1771
A magnitude 7.4 earthquake is believed to have caused a tsunami that damaged a large number of islands in the region; however, the most serious damage was restricted to Ishigaki and Miyako Islands. It is commonly cited that the waves that struck Ishigaki Island was 85.4 m high, but it appears this is due to a confusion of the original Japanese measurements, and is more accurately estimated to have been around 11 to 15 m high. The tsunami destroyed a total of 3,137 homes, killing nearly 12,000 people in total.
9. Ise Bay, Japan – 18 January 1586
The earthquake that caused the Ise Bay tsunami is best estimated as being of magnitude 8.2. The waves rose to a height of 6 m, causing damage to a number of towns. The town of Nagahama experienced an outbreak of fire as the earthquake first occurred, destroying half the city. It is reported that the nearby Lake Biwa surged over the town, leaving no trace except for the castle. The Ise Bay tsunamis caused more than 8000 deaths and a large amount damage.
10. Crete, Greece – 21 July 365
This famous, ancient tsunami event was reported throughout the Mediterranean region. It is estimated that the earthquake that caused it would have been at least magnitude 8, occurring somewhere in the Greek Islands. Knossis, Gortis and eight other settlements were completely destroyed on Crete. Reports say the greats waves began with a large drop in the water level, leaving ships aground and sea animals beached. In the northern Adriatic, rivers flowed in reverse and the sea retreated. Numerous coasts around the Mediterranean were flooded, and a total of 5700 deaths occurred; however, these were restricted to Greece and Turkey.
history of earth quakes
http://en.wikipedia.org/wiki/Lists_of_earthquakes
May 22, 1960 Valdivia, Chile 1960 Valdivia earthquake 9.5
2 March 27, 1964 Prince William Sound, Alaska, USA 1964 Alaska earthquake 9.2
3 December 26, 2004 Sumatra, Indonesia 2004 Indian Ocean earthquake 9.1
4 November 4, 1952 Kamchatka, Russia (then USSR) 1952 Kamchatka earthquakes 9.0[2]
March 11, 2011 Sendai, Japan 2011 Sendai earthquake 9.0[3][4]
6 November 25, 1833 Sumatra, Indonesia 1833 Sumatra earthquake 8.8–9.2 (est.)
January 31, 1906 Ecuador – Colombia 1906 Ecuador-Colombia earthquake 8.8
February 27, 2010 Maule, Chile 2010 Chile earthquake 8.8
9 January 26, 1700 Pacific Ocean, USA and Canada 1700 Cascadia earthquake 8.7–9.2 (est.)[5]
July 8, 1730 Valparaiso, Chile 1730 Valparaiso earthquake 8.7–9.0 (est.)[6]
November 1, 1755 Lisbon, Portugal 1755 Lisbon earthquake 8.7 (est.)[7]
February 4, 1965 Rat Islands, Alaska, USA 1965 Rat Islands earthquake 8.7
13 August 15, 1950 Assam, India – Tibet, China 1950 Medog earthquake 8.6
March 9, 1957 Andreanof Islands, Alaska, USA 1957 Andreanof Islands earthquake 8.6
March 28, 2005 Sumatra, Indonesia 2005 Sumatra earthquake 8.6
16 August 13, 1868 Arica, Chile (then Peru) 1868 Arica earthquake 8.5–9.0 (est.)[8]
December 16, 1575 Valdivia, Chile (Kingdom of Chile) 1575 Valdivia earthquake 8.5 (est.)
October 20, 1687 Lima, Peru (Viceroyalty of Peru) 1687 Peru earthquake 8.5 (est.)
May 24, 1751 Concepción, Chile (Kingdom of Chile) 1751 Concepción earthquake 8.5 (est.)
November 11, 1922 Atacama Region, Chile 1922 Vallenar earthquake 8.5 [9]
February 3, 1923 Kamchatka, Russia (USSR) 1923 Kamchatka earthquakes 8.5 [10]
February 1, 1938 Banda Sea, Indonesia (Dutch East Indies) 1938 Banda Sea earthquake 8.5
October 13, 1963 Kuril Islands, Russia (USSR) 1963 Kuril Islands earthquake 8.5 [10]
September 12, 2007 Sumatra, Indonesia 2007 Sumatra earthquakes 8.5
#
lota6177
Noahs flood was caused by Harrp. America has also built a time travel machine where they go back in time and use HARRP.
Posted 1 month ago #
http://criticalppp.com/forum/topic.php?id=883#post-10157
As Abdul suggested, it will be good to have some videos or articles by anyone who wrote on HAARP theory and Pak floods, e.g. ansar abbasi, haroon rasheed, irfan siddiqi, munawar hassan
that will be most relevant and interesting; also any other incidents / examples of USA phobia.
بارشیں اور زلزلے کالے جادو سے ہوتے ہیں بقول مولوی کے یہ دجال ہے ،پہلے بارش کیسے ہوتی تھی ؟ اب بارش ہوگی تو یہ دجال ،خدا ،یا امریکا کرے گا ؟
اسلام جس نے توہم برستی کو ختم کیا آج اسی کے ماننے والے مذہبی لوگ وہم تو توہم پرستی کا شکار ہو گئے ہیں
http://www.youtube.com/watch?v=h38R-tOZ_pg
Pakistan kay media Scientists ,Saray mulkon kay Scientists jahil hain bas pakistan kay neem molvi sahafiyon ko ander ki baat pata hay
must watch this ….
http://www.youtube.com/watch?v=BUoG1mm3oHQ
HAARP is the subject of numerous conspiracy theories, with individuals ascribing various hidden motives and capabilities to the project. Journalist Sharon Weinberger called HAARP “the Moby Dick of conspiracy theories” and said the popularity of conspiracy theories often overshadows the benefits HAARP may provide to the scientific community.[14][15]
The alleged dangers of HAARP were dramatized in popular culture by Marvel Comics, author Tom Clancy, and The X-Files. A Russian military journal wrote that ionospheric testing would “trigger a cascade of electrons that could flip Earth’s magnetic poles.” The European Parliament and the Alaska state legislature held hearings about HAARP, the former citing “environmental concerns.” Author of the self-published Angels Don’t Play This HAARP, Nick Begich has told lecture audiences that HAARP could trigger earthquakes and turn the upper atmosphere into a giant lens so that “the sky would literally appear to burn.” [16] [17]
Skeptic computer scientist David Naiditch called HAARP “a magnet for conspiracy theorists”, saying the project has been blamed for triggering catastrophes such as floods, droughts, hurricanes, thunderstorms, and devastating earthquakes in Pakistan and the Philippines aimed to shake up “terrorists.” Naiditch says HAARP has been blamed for diverse events including major power outages, the downing of TWA Flight 800, Gulf War syndrome, and chronic fatigue syndrome. Conspiracy theorists have also suggested links between HAARP and the work of Nikola Tesla (particularly potential combinations of HAARP energy with Tesla’s work on pneumatic small-scale earthquake generation) and physicist Bernard Eastlund. According to Naiditch, HAARP is an attractive target for conspiracy theorists because “its purpose seems deeply mysterious to the scientifically uninformed”.[18] Conspiracy theorists have linked HAARP to numerous earthquakes. An opinion piece on a Venezuelan state-run television channel’s website named HAARP as a cause of the 2010 Haiti earthquake.[19][20][21
http://en.wikipedia.org/wiki/High_Frequency_Active_Auroral_Research_Program
God Or H.A.A.R.P
http://www.youtube.com/watch?v=lFGa3zHh2Z8
excellent post !