What is the common message in Salman Taseer’s murder and Justice Javed Iqbal’s parents’ murder?

چند روز پہلے تک حکومتی اتحاد میں کوئی دراڑ نہیں تھی۔ مگر اچانک مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر کے سیاسی ہلچل بھی پیدا کر دی۔ ہرچند حکومت اس میں سے عارضی طور پر بچ گئی ہے‘ مگر ایم کیو ایم سے ایک جھٹکا لگنے کے بعد اس کی بے بسی نمایاں ہو کر سامنے آ گئی تھی۔ ہرچند ایم کیو ایم کی حمایت دوبارہ حاصل کر لی گئی‘ مگر پیٹ سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ دیکھنے والوں نے دیکھ لیا ہے کہ اس سیاسی نظام میں کتنا دم ہے؟

مولانا کے حکومت سے نکلتے وقت آسیہ بی بی کا معاملہ ایک تکرار تک محدود تھا۔ گورنر سلمان تاثیر اور صوبائی حکومت کے مابین تعلقات کشیدہ تھے اور عام طور سے یہی سمجھا جا رہا تھا کہ آسیہ بی بی کا معاملہ بھی سیاسی کشمکش کا حصہ ہے۔ کسی کی اس پر خاص توجہ نہیں تھی۔ لیکن مولانا نے پہلی ہی کانفرنس میں ناموس رسالت کا مسئلہ نمایاں کر کے پیش کیا اور احتجاجی تحریک پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مہم چلی اور پھر جذبات کا ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہواکہ گورنر تاثیر کے اپنے ہی محافظ نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ اسی پر بس نہیں‘ ان کی موت پر بعض طبقوں میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے اور ان کے قاتل کو ہیرو بنا کر پھولوں سے لادا جا رہا ہے۔

دلیل اور منطق کا دورختم ہو چکا ہے۔ قانون ہاتھ میں لینے کا رواج پھیل رہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اتفاق ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے اور اس طرح کے سارے واقعات تاریک راستوں پر ہمارے سفر کی رفتار تیز کر رہے ہیں۔

کل رات سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس جاوید اقبال کے والدین کو قتل کر دیا گیا۔ پاکستان بار کونسل کی صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ”ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس قتل میں ججوں کے لئے کوئی پیغام نہیں ہے۔ لیکن ہم اس امکان کو رد بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ان دنوں بڑے حساس مقدمات سن رہے ہیں۔“ یہ حساس مقدمات ہم سب کے علم میں ہیں۔ سلمان تاثیر کے قتل سے جمہوریت پسندوں کو ایک پیغام دیا گیا ہے‘ تو اس قتل میں‘ عدلیہ کے لئے کوئی اور پیغام مضمر لگتا ہے۔

میں ججوں کی بحالی کی تحریک کے دوران جب بے لگام خواہشوں پر مبنی نعرے سنتا تھا‘ تو بار بار لکھا کرتا تھا پاکستانی معاشرے میں اتنا بڑا انقلاب نہیں آیاکہ ہمارے ہاں طاقت کے مراکز عدلیہ کی بالادستی کو اس حد تک تسلیم کر لیں ۔ کسی نہ کسی دن طاقت کے مراکز پلٹ کر ضرور جھپٹیں گے۔ ایک عزت مآب جج کے والدین کا قتل اسی سلسلے کی ابتدا نہ ہو؟ میں ابھی سے بتا سکتا ہوں کہ ان دو بزرگ ہستیوں کے قاتل کبھی نہیں پکڑے جائیں گے۔ ایسی مہارت کے ساتھ قتل کرنے والے کبھی کسی کے ہاتھ نہیں آئے۔

دنیا میں ہمارے تاریک مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں‘ تو کچھ دانشور اور مدبر ایسے بھی تھے جو روشنی کی کرن دیکھ لیا کرتے تھے اور جواب میں کہتے تھے کہ پاکستان میں سنبھل کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی بھرپور صلاحیتیں موجود ہیں اور یہ ملک دوبارہ مستحکم ہو گا۔ لیکن سلمان تاثیر کے قتل کے بعد وہ بھی مایوس ہو گئے۔

فرید زکریا انہی میں سے ہیں۔کل انہوں نے ”واشنگٹن پوسٹ“ میں لکھا۔ ”میرا ہمیشہ سے یقین تھا کہ معاملات پاکستان کے گورننگ ایلیٹ کے کنٹرول میں ہیں۔ اس ملک کی فوج ملک کو ڈوبنے نہیں دے گی اور اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ لیکن گذشتہ ہفتے کے بعد میں پریقین نہیں رہ گیا۔

ملک کے ممتاز ماہر اقتصادیات شاہد جاوید برکی پاکستان کی اقتصادی حالت پر بہت پریشان ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ ”ہمارے ہاں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی بیروزگاری حالات کو مزید بگاڑے گی۔ پیداواری نوکریاں نہیں ملیں گی‘ تو وہ انتہاپسندوں کو طاقت مہیا کریں گے۔“

پاکستانی امور کے ماہر سٹیفن پی کوہن بھی ان لوگوں میں شامل ہیں‘ جو ہمارے مستقبل کے بارے میں پرامید تھے۔ لیکن اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا ”امید کوئی پالیسی نہیں ہوتی لیکن مایوسی بھی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ہم وہی کچھ کرتے ہیں‘ جو کچھ ہم کر سکتے ہیں اور اب ہمیں پاکستان کی ناکامی کے لئے تیاری کرنا ہو گی‘ جو کہ (خاکم بدہن) پانچ یا چھ سال میں ہو جائے گی۔“ہمارے فیصلے ہمارے ہاتھ میں نہیں رہ گئے۔ یہ فیصلے اب وقت کرے گا۔

Source: Nazir Naji, Jang, 13 Jan 2011

Real or imagined message of malice?

The shocking discovery of the Supreme Court’s (SC’s) Justice Javed Iqbal’s murdered parents in their home is being scrutinised through many different lenses. Initial eyewitness reports indicated that they had offered resistance to a robbery and were made to pay the price by being shot dead. However, some reports indicate that the old couple was found to have been strangled. It is too early to say what exactly happened as the facts are still murky but it goes without saying that this is a very tragic incident indeed. The lawyers’ community is up in arms and have announced a strike to protest this gruesome act.

This horrific murder of a defenceless elderly couple is also being made grounds for a suspicion most unsettling. Justice Javed heads the three-man SC bench hearing the sensitive missing persons’ case — a case that has caused widespread agitation and disturbance for the masses because of the cloak of non-transparency it is wrapped in. On Monday, the SC declared that 2011 would be the year of the missing persons. Just one day after this statement by the SC, Justice Javed’s parents have been murdered. Now their death could most certainly be the result of a robbery gone horribly wrong but, in conspiracy-fuelled Pakistan, the link is adding fuel to a fire that has been raging for too long now.

What has given this suspicion grounds to breed is the fact that a glaring culture of impunity exists within our security and intelligence apparatus. For too long now there has been no closure given to the many families who have had loved ones disappear without a trace. For too long now there have been rumours of the agencies whisking people away for reasons unknown. Any attempts to investigate this matter have been met with staunch resistance by the agencies. It is probably because of these very reasons that, even without evidence, people are pointing to a supposed link between the missing persons’ case and the murder of Justice Javed’s parents.

Even though we cannot rush to judgment, it is extremely troubling that such thoughts even exist. Even if such a link does not exist, such a baseless rumour would be enough to serve as a scare tactic for anyone willing to take a tough stand on the missing persons.

Source: Daily Times, 13 Jan 2011

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. imtiaz
    -