Did Jinnah aspire for a secular Pakistan? – by Dr Safdar Mehmood
Photo: Dawn
Related article:
A Rebuttal to Dr. Safdar Mehmood’s article “Did Jinnah Aspire to a Secular Pakistan” – by Naveed Ali
قائداعظم پر بہتان لگانے والے
صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
گزشتہ چھ دہائیوں سے یہ بحث جاری ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا تصور ِ پاکستان کیا تھااور اگر وہ زندہ رہتے تو پاکستان کا آئینی، سیاسی، سماجی اور نظریاتی نقشہ کن خطوط پر استوار ہوتا۔ جہاں تک قائداعظم کے تصور ِ پاکستان کا تعلق ہے ان نقاط پر تقریباً سارے دانشور، لکھاری اور محققین متفق ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک ایسی جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے جس کے آئین اور حکومتی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پررکھی جائے، جہاں قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی، انسانی مساوات اور سماجی و معاشی انصاف کا بول بالا ہو۔ قائداعظم جاگیرداری نظام کاخاتمہ چاہتے تھے اور انہوں نے یہ واضح کیا تھاکہ انہیں ایسا پاکستان نہیں چاہئے جو جاگیرداروں کی جاگیر ہو بلکہ وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جو عوام کی حاکمیت ہو۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاں تک قانون کی حکمرانی، انسانی برابری، سماجی اور معاشی انصاف کا تعلق ہے۔ دراصل یہ سب اسلامی نظام کے درخشاں اصول ہیں جن کی نبی کریم کے دورسے لے کر خلافت راشدہ تک بے شمار مثالوں سے تاریخ بھری پڑ ی ہے۔ سیکولر حضرات انہیں سیکولرازم قرار دیتے ہیں جبکہ ہم انہیں اسلام کا ناگزیر حصہ سمجھتے ہیں۔ ذرا رک کر پہلے اتنا سا فیصلہ تو کرلیجئے کہ کیاہم نے قائداعظم کے بتائے ہوئے اُن اصولوں کواپنایا اور عمل کیا جن پرکوئی اختلاف ِ رائے نہیں کیونکہ اختلاف تو صرف ایک نقطے پر ہے، ان اصولوں کو تو سبھی مانتے ہیں ۔
قائداعظم نے گیارہ اگست 1947 والی تقریر میں زور دے کر کرپشن، سفارش، سمگلنگ، اقرباء پروری اورذخیرہ اندوزی کے خاتمے کا وعدہ کیا اور واضح کیا کہ وہ پاکستان میں ان خرابیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔
کیا ہم نے ان موذی امراض پر قابو پالیا ہے؟ کیا ان بیماریوں کے کینسر نے گزشتہ باسٹھ برسوں میں پاکستان کے باطنی وجود کو چاٹ چاٹ کر کمزور نہیں کردیا؟میری بات یاد رکھئے کہ کسی بھی قوم یا ملک کو باطنی طور پر مضبوط کرنے کے لئے عوام کو ملکی ڈھانچے میں احساس شرکت دینا ضروری ہوتا ہے اور احساس شرکت اس وقت پروان چڑھتا ہے جب معاشرے میں انسانی مساوات اور سماجی و معاشی انصاف کاراج ہو، کرپشن، سفارش اور اقرباء پروری کا خاتمہ ہو چکا ہو اور ہر شخص کو زندگی کے برابرمواقع مہیا ہوں کیونکہ جہاں کرپشن، سفارش اور اقرباء پروری سکہ رائج الوقت ہوں وہاں عوام کاوہ طبقہ مستقل طور پر احساس محرومی کا شکا ر ہوکر ریاست سے بدظن ہو جاتا ہے جو سفارش، اثر و رسو خ اور سماجی و معاشی انصاف سے محروم ہو۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں قانون کی حکمرانی ہو۔ یہی قائداعظم کا خواب تھا اور یہی اسلامی نظام کی بنیادیں ہیں۔
اسی لئے قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 مرتبہ اور قیام پاکستان کے بعد 14بار یہ وضاحت کی کہ پاکستان کے آئین اور ریاستی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کردیا کہ آئین کیسا ہوگا؟ اس کا فیصلہ منتخب دستو ر ساز اسمبلی اور عوام کریں گے۔ یہ بیان ایک طرح سے ان کے جمہوری طرز فکر کی غمازی کرتا ہے۔ جب فیصلہ عوام کو کرنا ہے تو یہ بات ذہن میں رکھئے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان بہت بڑا سیکولر تھا، انگریز کی فوجی زندگی کے حوالے سے اس کی زندگی سیکولر ازم کے مطابق پروان چڑھی تھی، وہ مطلق العنان بھی تھا اور ریاستی طاقت بھی اس کے پاس تھی لیکن جب اس نے اپنے تشکیل کردہ آئین میں پاکستان کو صرف جمہوریہ قراردیا تو اس پر اتنا دباؤ پڑا کہ اسے طوعاً کرعاً اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دینا پڑا۔
یہ عوامی امنگوں کی ترجمانی تھی ورنہ پاکستانی عوام نے کبھی بھی مذہبی جماعتوں کو اقتدار نہیں سونپا اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل تھیو کریسی کا اسلام میں تصور ہی موجود نہیں اسی لئے قائداعظم بھی بار بار وضاحت کرتے رہے کہ پاکستان ہرگز مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ کچھ سیکولر حضرات کا کہنا ہے کہ اگر قائداعظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتے تو جماعت اسلامی او ردیگر مذہبی طاقتیں ان کی مخالفت نہ کرتیں۔ یہ دلیل انتہائی سطحی ہے کیونکہ مولانا مودودی کی تحریریں گواہ ہیں کہ انہیں اعتراض اس بات پر تھا کہ مسلم لیگ اور قائداعظم اسلامی ریاست کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن مسلم لیگی قیادت اسلام نافذ نہیں کرسکے گی۔ رہی جمعیت علماء ہند تو وہ سرے ہی سے وطنیت اورتصور ِ پاکستان کی مخالف تھی لیکن قیام پاکستان کے بعدان کے ممتاز رہنما مولانا حسین احمد مدنی نے پاکستان کے حوالے سے واضح طور پر کہا تھا کہ مسجد کی جگہ پر تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو پھر اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی۔ گویا انہوں نے پاکستان کو مسجد سے تشبیہ دی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کی حمایت سے بنااور یہ کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 1945-46 کے انتخابات میں مسلم اقلیتی صوبوں اور مسلمان عوام نے سیکولر پاکستان کے لئے ووٹ دیئے تھے؟اگر سیکولر پاکستان کے لئے ہی اتنی قربانیاں دینا تھیں تو پھر سیکولر ہندوستان میں کیا تکلیف تھی؟ نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور حج کرنے پر تو سیکولر ہندوستان میں بھی کوئی پابندی نہیں۔ مسلم اقلیتی صوبے ہوں یا ہندوستان کے مسلمان عوام، انہوں نے اسی لئے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کی تھی کہ قائداعظم کے وعدے کے مطابق پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جانا تھی۔ اسے ایک اسلامی جمہوری ملک ہونا تھا نہ کہ مذہبی ریاست۔ اس حوالے سے سیکولر دانشوروں کاکہنا ہے کہ قائداعظم نے کبھی اسلامی ریاست کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کے منہ سے کبھی سیکولر کا لفظ نکلا؟ دوئم آپ یہ تو انکار نہیں کرسکتے کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے پہلے باربار کہا کہ پاکستانی ریاست کے ڈھانچے کی بنیاد اسلام پر استوار کی جائے گی بھلا اس میں اور اسلامی ریاست میں کیا فرق ہے؟
ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ قائداعظم نے فروری 1948 میں امریکی عوام کے لئے براڈکاسٹ میں پاکستان کو پریمیئر اسلامی ریاست قراردیا تھا اور ایک بار پھر اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کے دستو ر کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ انہوں نے سبی دربار کے خطاب میں 14فروری 1948 کو بھی وضاحت کی کہ ”میرے ذہن میں ہمیشہ ایک اصول رہا ہے وہ اصول ہے مسلم جمہوریت کا۔ میرا ایمان ہے کہ ہماری کامیابی اور نجات کا رازنبی کریم کے دیئے گئے سنہری اصولوں کی پیروی میں ہے۔آیئے ہم اسلامی آئیڈیلز اور اصولوں کی بنیاد پر جمہوریت کی عمارت تعمیر کریں۔“ گویا قائداعظم نے ایک بار پھر واضح کردیا کہ وہ ایسی جمہوریت کے حامی ہیں جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پرہو،انہی اصولوں کے مطابق قائداعظم نے ان گنت بار اقلیتوں کو برابر کے حقوق کی یقین دہانی کرائی اوربار بار وضاحت کی کہ اسلام نے جو فراخدلانہ سلوک اقلیتوں سے کیا ہے اس کی مثال دوسرے مذاہب میں نہیں ملتی۔ یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ قائداعظم سیکولر تھے یا اسلامی اصولوں کے حامی تھے یہ نہ میرا ذاتی مسئلہ ہے نہ میرا کوئی ایجنڈا یا سیاسی مقصد ہے میں تو فقط یہ کوشش کرتا ہوں کہ قائداعظم کے نظریات کو مسخ نہ کیا جائے اور انہیں اپنے صحیح تناظر میں سمجھا جائے۔
میں نے قائداعظم کو جتنا پڑھا اور سمجھا ہے میری دانست میں وہ ہرگز سیکولر سوچ کے حامل نہیں تھے۔ وہ پاکستان کو ایک ایسی جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پراستورہو لیکن وہ ہرگز مذہبی ریاست نہ ہو کیونکہ مذہبی ریاست شہریوں پر مذہب نافذ کرتی ہے جبکہ اسلامی جمہوری ریاست میں لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی گزارتے ہیں اور بحیثیت شہری سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
اگر آپ ذرا سا غور فرمائیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ قائد اعظم پر سیکولر ازم کا بہتان لگانے والے تین قسم کے حضرات ہیں۔ اوّل وہ لوگ جو دین سے بیگانہ ہیں، دوم وہ جو دین سے بدظن ہیں اور سوم وہ جو دین سے برگشتہ ہیں۔
اس گروہ کا قائد ان کا وہ پسندیدہ مورخ ہے جو ببانگ دہل ٹیلی ویژن پر کہتا رہتا ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان قرآن سے بالاتر ہو کر سوچ سکتا ہے؟ اس کے ”فرمودات“ سن کر مجھے یوں لگا جیسے وہ شخص اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کی ذاتی زندگی پر اسلام کی چھاپ نظر نہیں آتی اس لئے وہ سیکولر نظام کے حامی تھے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم کوئی مولوی یا صوفی منش انسان نہیں تھے نہ ہی وہ کوئی مذہبی شخصیت تھے لیکن وہ عقیدے کے حوالے سے ایک پکے اور سچے مسلمان تھے، اُن کی سچائی، حق گوئی اور دیانت کی گواہی ان کے شدید ترین مخالف بھی دیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی دنیا کے عظیم ترین قانون دینے والی شخصیات میں پڑھ کر لنکز ان میں داخلہ، وقف الاولاد کا بل اور محترمہ رتی سے شادی کرنے سے قبل اسے بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد صدیقی کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام کروانا اور اپنی اکلوتی بیٹی وینا سے غیر مسلمان نوجوان سے شادی کے باعث لاتعلق ہو جانا ایسے اقدامات ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے باطن میں ایک مسلمان بستا تھا۔ یاد رہے کہ مولانا نذیر احمد صدیقی مرحوم مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا تھے۔ ایک لکھاری نے دعویٰ کیا ہے کہ قائداعظم کبھی کسی مذہبی تقریب میں نہیں گئے۔ یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ انگلستان سے واپس آ کر بمبئی میں انہوں نے جس پہلے جلسے میں شرکت کی وہ عید میلاد النبی کا جلسہ تھا جس میں راجہ محمود آباد نے سیرت نبوی پر ایمان افروز تقریر کی، نعتیں پڑھی گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہٴ عقیدت پیش کیا گیا۔ گورنر جنرل بننے کے بعد اور وفات سے آٹھ ماہ قبل بھی انہوں نے عید میلاد النبی کے موقع پر 25جنوری 1948ء میں کراچی لاء بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا اور پاکستان میں شریعت کی بنیاد پر قانون سازی کا اعلان کیا۔ کیا قائد اعظم کو سستی شہرت یا ووٹوں کی ضرورت تھی کہ وہ اسلامی جمہوریت، شریعت کے نفاذ یا پاکستان کے آئین کی اسلامی اصولوں پر بنیاد کا اعلان کر رہے تھے اور بار بار کر رہے تھے۔ ان کی صداقت، اصول پرستی اور سچائی مسلمہ حقیقتیں ہیں۔
اسی لئے میں محسوس کرتا ہوں کہ جو دانشور قائداعظم پر سیکولرازم کا بہتان لگاتے ہیں وہ خود تضاد بیانی کا شکار ہیں کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ قائداعظم ایک سچے کھرے انسان تھے وہ ہرگز منافق نہیں تھے لیکن یہ تسلیم کرنے کے باوجود ان کی نیت پر شبہ کرتے ہیں اور ان کے الفاظ پر اعتبار نہیں کرتے۔ قائد اعظم نے آزادی سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد ایک سو بار سے زیادہ بار یہ کہا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی ۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو برس پہلے سیکھ لی تھی۔ ہماری تعلیمات اور قوانین کا منبع قرآن مجید ہے اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام دوسرے مذاہب کی مانند صرف مذہبی عبادات کا مجموعہ نہیں۔
اگر آپ قائد اعظم کی تقریریں پڑھیں تو آپ کو ان میں مسلسل ان باتوں کی تکرار ملتی ہے اس لئے جب ہمارے سیکولر حضرات قائد اعظم کے تصور پاکستان پر سیکولرازم کا بہتان لگاتے ہیں تو وہ گویا تضاد بیانی کے مرتکب ہوتے ہیں کہ وہ قائداعظم کو سچا اور کھرا انسان بھی مانتے ہیں اور ان کے اعلانات کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ دراصل مذہب سے خوفزدہ یہ حضرات قائد اعظم کے سیدھے سادے الفاظ سے اپنا من پسند مفہوم نکالنے کی کوششیں کرتے ہیں اور ان کی اِن کوششوں کا شاہکار11/ اگست 1947ء کی تقریر ہے۔
اوّل تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا قائد اعظم نے زندگی بھر ایک ہی تقریر کی؟ آپ حضرات ان کی سینکڑوں تقریروں کو کیوں درخور اعتنا نہیں سمجھتے؟ گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے چودہ اگست 1947ء کو اسمبلی میں جو تقریر کی آپ اسے کیوں توجہ کے قابل نہیں سمجھتے وہ اس لئے کہ اس تقریر میں قائد اعظم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رول ماڈل اور نمونہ یا اسوئہ حسنہ قرار دیا اور یہی وہ بات ہے جو ان آزاد خیال اور مذہب بیزار لوگوں کو پسند نہیں۔ گیارہ اگست کو قائد اعظم نے فقط یہ کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے اور یہ بات تو میثاقِ مدینہ کا حصہ ہے۔ دوم انہوں نے کہا کہ تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہو گی یعنی کس پر مذہبی جبر کیا جائے گا نہ مذہب تھونپا جائے گا تو اس میں سیکولر ازم کہاں سے آ گیا کیونکہ یہ اسلامی نظام کے بنیادی اصول ہیں۔ جب قائد اعظم ”ہماری جمہوریت کی بنیاد اسلام پر ہو گی“ کا تکرار کرتے تھے تو اس میں اس شخصی آزادی کا تصور موجود ہے جس کی ضمانت جمہوریت دیتی ہے۔ جب وہ قانون کی حکمرانی ، انسانی مساوات، سماجی و معاشی انصاف اور عدل کی بات کرتے تھے ، جاگیرداری ، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی ، اقربا پروری اور سفارش کے خاتمے کا وعدہ کرتے تھے تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ یہ ہمارے دین اور مذہب کے سنہری اصول ہیں جبکہ سیکولر حضرات انہیں سیکولرازم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ انہیں ہر اچھی چیز سیکولرازم میں اور ہر خطرہ مذہب میں نظر آتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا مذہب انتہا پسندوں، فرقہ واریت کے علمبرداروں اور مذہبی سوداگروں کی جولانگاہ بن گیا ہے جبکہ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ انتہا پسندی اور فرقہ واریت مذہب نہیں بلکہ سیاست کا شاخسانہ ہے ورنہ مذہب تو ان تمام عوامل کی نفی کرتا ہے۔۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم نے مسلمانان ہند و پاکستان سے اسلامی جمہوری ریاست کے قیام کا مینڈیٹ لیا تھا اور اسی منشور پر 1945-46 کے انتخابات جیتے تھے۔ اسلام ہی کے نام پر مسلمانوں نے اَن گنت قربانیاں دی تھیں اور عالمی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تھی۔ قائد اعظم جیسا دیانتدار لیڈر اس مینڈیٹ سے کبھی بھی انحراف نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مورخین جن کا کہنا ہے کہ قائد اعظم نے اسلام کا نعرہ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے لگایا دراصل قائد اعظم پر بہتان لگاتے ہیں اور اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر قائد اعظم ایسا نہیں چاہتے تھے تو پھر قیام پاکستان کے بعد انہوں نے بارہ ماہ کی زندگی میں چودہ بار اسلام کو پاکستان کے نظام کی بنیاد کیوں قرار دیا؟ قیام پاکستان کے بعد زندگی کے آخری سال میں انہیں ایسی کونسی مجبوری تھی کہ انہوں نے شریعت کے نفاذ کا وعدہ کیا؟ ہمارے سیکولر دانشور شوشے چھوڑتے رہتے ہیں اور کنفیوژن پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہ حضرات قرارداد
مقاصد سے نہایت الرجک ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوئی ہے۔ پھر وہ اس صدمے سے بھی نڈھال ہیں کہ قرارداد مقاصد سے ڈر کر وفاقی ہندو وزیر منڈل ہندوستان بھا گ گیا تھا۔
ان کو قرارداد مقاصد اس لئے ناپسند ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کا اعلان کر کے یہ پیغام دیتی ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کو اپنی زندگیاں اسلام ، قرآن اور سنت سے اخذ کردہ اصولوں کے مطابق گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں گے ۔ اگرچہ اس قرارداد میں اقلیتوں کو مذہبی و شہری حقوق کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن کیا کیجئے کہ سیکولر دانشوروں کو اسلام سے خوف آتا ہے اور وہ اس افسانے پر آنسو بہاتے ہیں کہ اس قرارداد کی وجہ سے منڈل ہندوستان چلا گیا۔ اس دور میں دونوں ملکوں کے شہریوں کو آنے جانے اور پسند کے مطابق سکونت اختیار کرنے کی آزادی تھی اس لئے منڈل اپنے پسندیدہ معاشرے میں چلا گیا جو اس کا حق تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ قرارداد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 7مارچ 1949ء کو پیش کی جب منڈل وفاقی کابینہ میں وزیر تھے۔ اگر انہیں اعتراض تھا تو وہ استعفیٰ دے دیتے لیکن وہ ستمبر 1950 ء تک وفاقی کابینہ کے رکن رہے اور پھر راتوں رات ہندوستان چلے گئے۔ اگر انہیں قرارداد مقاصد کے خوف سے بھاگنا تھا تو وہ ڈیڑھ برس وزارت کے مزے کیوں لوٹتے رہے؟
ان حضرات کو اس شق سے خوف آتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی زندگیاں اسلامی تقاضوں، قرآن اور سنت کے مطابق گزارنے کے لئے مواقع فراہم کئے جائیں گے لیکن اس سے فرار کیسے ممکن ہے کیونکہ پاکستان کے مسلمان عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے یہ شق 1956ء کے آئین میں بھی موجود تھی اور 1973ء کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بھی موجود ہے۔ بلکہ ایک قدم آگے جا کر موجودہ آئین کے پالیسی کے اصول نمبر 1 میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ مسلمانان پاکستان کی زندگیوں کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے تاکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
ان دانشوروں کی یہ تحقیق بھی لاجواب ہے کہ قرارداد مقاصد نے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کو جنم دیا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں اکیس مذہبی انتہا پسند تنظیمیں ہندو ازم کے احیاء اور مسلمانوں کو ہندو مت میں واپس لانے کے لئے سرگرم ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کو سب سے بڑا خطرہ مذہبی انتہا پسندی سے ہے۔ کیا ہندوستانی پارلیمنٹ نے قرارداد مقاصد پاس کی ہے؟ دانشوروں کے اسی گروہ نے یہ شوشہ بھی چھوڑا ہے کہ قائد اعظم نے جگن ناتھ آزاد سے ترانہٴ پاکستان لکھوایا۔ میں نے تحقیق سے ثابت کیا اور اسی جگہ لکھا تھا کہ یہ 2010ء کے سال کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ قائد اعظم نہ ہی جگن ناتھ آزاد کو جانتے تھے، نہ انہوں نے اس سے ترانہ لکھوایا اور نہ کبھی اس سے ملے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ نہ میرا ذاتی مسئلہ ہے نہ میرا کوئی ایجنڈا ہے لیکن قائداعظم کے احترام کا تقاضا ہے کہ ان کے نظریات کو مسخ نہ کیا جائے اور جو بات انہوں نے سینکڑوں بار کہی اس پر اپنی خواہشات کا خول نہ چڑھایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے، انہوں نے اسی منشور پر عوامی حمایت حاصل کی اور حصول پاکستان کی جنگ لڑی لیکن دین سے خوفزدہ طبقہ قائد اعظم کے نام پر سیکولر پاکستان کا نعرہ لگا کر اپنی خواہشات کے گھوڑے دوڑا رہا ہے اور بابائے قوم پر بہتان لگا رہا ہے۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔
Source: Jang 25 Dec 2010, 2 Jan 2011
The aim of this post is to highlight both sides of the narrative that Jinnah did or did not aspire for a secular Pakistan. We have previously posted articles presenting the both perspectives at the LUBP.
یہ برقعہ پوش عورت نوابزادہ لیاقت علی خان کی پہلوٹھی میں کیا کر رہی ہے؟جناح کے سیکولر پاکستان کی علامتی نقیب ہے شاید؟
بانی پاکستان محمد علی جناح نے قوم کو بہت سے پیغام دیے. بہت سی نصیحتیں کیں.
قیام پاکستان سے پہلے اور حصول آزادی کے بعد بہت سے مشورے دیے .
انہوں نے اسلام کی بات بھی کی اور سوشلزم کا تذکرہ بھی کیا،
انھیں سیاسی مصلحت ، عوامی خواہشات اور دور حاضر کے تقاضوں کا پورا شعور اور احساس تھا.
پاکستان کے تجربہ کو کامیاب بنانے کے لئے انہوں نے جو آسان فہم احکام دیے، ان میں سے ایک پر بھی عمل کرنے کی بجاۓ
٦٣ سال سے یہ بحث جاری ہے ، کہ محمد علی جناح مولوی تھے یا سیکولر ؟
دانشوروں اور تحریک پاکستان کے مورخوں سے درخواست ہے کہ محمد علی جناح کو اسلام کا علمبردار
یا سوشلزم کا پرچارک ثابت کر کے ان کی عظمت کی توہین نہ کریں .
انہوں نے جدید دور کے ایک قابل احترام انسان کی طرح نارمل زندگی بسر کی .
انہوں نے قدیم اور جدید کا جو قابل عمل امتزاج پیش کیا ، اس کو برقرار رہنے دیا جاۓ.
عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ محمد علی جناح کی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش روک دی جاۓ .
انھیں جدید دور کے جمہوری اور روشن خیال رہنما کے طور پر زندہ رکھا اور یاد کیا جاۓ.
اگر جمہوری نظام اسلامی ہو سکتا ہے تو پھر محمد علی جناح بھی سیکولر ہو سکتے ہیں
1. Qauid-e-Azam was a liberal Muslim, who lived a secular life in a secular culture and suggested the same way of life for Pakistan.
2. It is intellectual dishonesty to paint the image of Mohammad Ali Jinnah, to look like Molvi under the influence of Religious pressure or personal DNA.
3. Mr. Jinnah never talked about Theocracy but was attacked and criticized by the champions of Theocracy.
4.Mr. Jinnah was a Muslim just like Meer Taqi Meer, Mirza Ghalib, Sir syed ahmad Khan, Allama Iqbal, Dilip Kumar, Madhu Bala, Mehdi Hasan, Noor Jahan, Faiz Ahamd Faiz, Habib Jilib, Ahmad Faraz, Ahmad Nadeem Qasmi and zulfiqar Ali Bhutto, who loved Islam but lived a secular life.
5. Social, Political and Economic demands of every society keeps on changing with evolution of History.
6. It is not a wise attempt to post and paste a photocopy of 7th Century or 16th century at the social fabric of 21st Century. it won’t fit in.
7. Today Universally Acknowledged Manifesto to progress is,
a. Democracy
b. Secularism
c. Religious Tolerance
d. Rule of Law.
8. Any other ideology is nothing but a carrier of frustration unless there is any better breakthrough.
9. A Major portion of Aristotle’s and Plato’s Philosophy is no more valid today, but still we respect them as pioneers and founders of Philosophy. Same way Mr. Jinnah commands great respect as founder of a new state but all his concepts and advices need adjustments according to Digital Age.
چوہدری خلیق الزمان کے انٹرویو اور بیانات ڈاکٹر صفدر محمود جیسے دانشوروں کے خیالات کی واضح نفی کرتے ہیں
One thing for sure. Jinnah never wanted Pakistan to be a secular state. The question really is whether he wanted Pak to be an Islamic state or not. His politics before the partition suggests that he would have lived with a semi-religious state. Something that eventually emerged in 1973 constitution. An Islamic republic still maintaining a western political structure.
Dr. Mehmood is at least right on one count. Jinnah never asked Narang to write Pak national anthem. That was a lie that has been debunked many times before though.
I don’t think that Mr. Jinnah was unaware of the changing social fabric of the world, after the Second WW.
He talked about Islamic Socialism what suggests a secular attitude for a society, having a population of different Faiths.
Religious tint was one of the causes for the creation of Bangladesh.
Mr. Mohamad Ali Jinnah was very well aware of the reality where Muslims, already divided into more than 72 sects cannot run a State.
Secularism unites where Theocracy divides the humanity.
Salaam..!
i want to know about the word “SECULARISM” ??
what actually the meaning of this word is?
and also why QUAID-E-AZAM is called a SECULAR MAN?
Share
قائداعظم پر بہتان لگانے والے…سعید صدیقی
برادرم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے دونوں کالم نظر سے گزرے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ذات پر سیکولر ازم کا بہتان لگانے والوں کا یہ موقف ہے کہ قائداعظم کی ذاتی زندگی پر اسلام کی چھاپ نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال کا یہ شعر مفہوم کے اعتبار سے بڑا دقیق اور مومن کی شان پر دلالت کرتا ہے۔
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
مشائخ میں یہ بات محمود اور مستحسن سمجھی جاتی ہے کہ انسان اپنے ظاہر سے باطن میں بہتر ہو۔ قائداعظم کی زندگی کا ایک معجز نما پہلو یہ تھا کہ سیرت و کردار اور اوصاف حمیدہ کے اعتبار سے آپ کے تمام ہم عصر سیاست دانوں میں کوئی ایک شخص بھی آپ کا ہمسر یا برابری کرنے والا نظر نہیں آتا۔ آپ کے بدترین دشمنوں نے بھی آپ کو ضدی یا ہٹ کا پکا تو کہا، لیکن کسی نے آپ کی امانت، دیانت، صداقت پر حرف رکھا نہ وعدہ خلافی کا الزام لگایا بلکہ سب آپ کی راست گوئی اور راست معاملگی کے دل سے قائل ہیں۔ یہ بات ہمیشہ مسلّم سمجھی جاتی ہے کہ جو کچھ ان کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے وہی ان کی مراد ہوتی ہے اور وہ کبھی عام سیاست دانوں کی مانند کجا می نمائی کجا می زند کے مصداق رہے ہیں، نہ کبھی جھوٹ، دھوکہ، فریب اور وعدہ خلافی سے کام لیتے ہیں اور نہ ان کے یہاں دروغ مصلحت آمیز کی گنجائش ہے، نہ مصنوعی تواضع مدارات نہ ریا کارانہ انکساری موجود ہے۔ وہ کس معیار کے داعی اسلام تھے، مختلف مواقع پر ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کروں گا جب قائداعظم 1935ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تشریف لائے۔ استقبالیہ اور صدارتی خطاب کے بعد نماز مغرب کا وقت ہوگیا، جیسے ہی اذان دی گئی قائداعظم فوراً ادھر تشریف لے گئے اور طلباء کی صف میں کھڑے ہو کر نماز مغرب ادا کی۔ وہ ہمیشہ با وضو رہتے تھے۔ ایک بہت ہی اہم واقعہ اس روز پیش آیا، قائداعظم نواب حبیب الرحمن شیروانی کی کوٹھی پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ رات کو تین بجے قائداعظم کے کمرے سے کسی چیز کے گرنے کی زوردار آواز آئی۔ ADC جناب احمد محی الدین برابر والے کمرے میں سو رہے تھے۔ آواز سن کر وہ وہاں گئے تو دیکھا قائداعظم رب العزت کے سامنے نیت باندھے نماز تہجد ادا کر رہے ہیں اور پانی کی ایک بوتل ٹوٹی پڑی ہے۔ پتہ چلا قائداعظم اپنے مالک حقیقی کے سامنے سربسجود ہونے کے لئے اٹھے تو بوتل سے ان کا ہاتھ لگ گیا۔ وہ گر کر چکنا چور ہوگئی۔ واضح رہے نواب حبیب الرحمن خان شیروانی صاحب علم و عرفان بزرگ تھے، مولانا ابو الکلام آزاد نے جنہیں غبار خاطر میں مرشد کے نام سے معنون کیا ہے۔ 23 مارچ 1940ء کے تاریخ ساز اجلاس لاہور جس میں متفقہ طور پر پاکستان ریزولوشن منظور ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں ایک لاکھ کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ ”مسلمانوں، میں نے بہت دنیا دیکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت، دولت، وقار عطا کیا ہے۔ اب میری ایک تمنا ہے کہ مسلمان قوم کو آزاد اور سرفراز دیکھوں۔ میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ وقت مرگ میرا خدا اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تو نے مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ اسلام سے خیانت نہیں کی“۔ مسلم لیگ کا تیسواں سالانہ اجلاس اپریل 1943ء دہلی میں شروع ہوا۔ میں بخار کے باوجود تینوں روز شریک جلسہ رہا۔ تفصیل میں جانے کی تو کالم میں گنجائش نہیں۔ قائداعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمان الٰہی ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو“ کی پیروی کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ گروہوں اور فرقوں میں تقسیم نہ ہوں بلکہ اسلام کے تقاضے اور آپس میں محبت پیدا کریں کیونکہ ان برائیوں نے مسلمانوں کو دو سو برس سے مغلوب کر رکھا ہے۔ یہ بات انہوں نے مسلم لیگ کی تنظیم و ترقی پر مسرت کے ساتھ فہمائش کے طور پر کی۔ فرمایا، مگر مجھ کو روشنی نظر آتی ہے اور بڑی تیز روشنی گویا ان کو پاکستان قائم ہوتا نظر آ رہا تھا۔
نواب بہادر یار جنگ کی ذات ہم صفات سے کون واقف نہیں۔ مزاج میں شگفتگی، زبان میں فصاحت، متقی اور پرہیزگار۔ فرماتے ہیں ربیع الاول کا مہینہ تھا اور مسلمانان بمبئی نے خواہش کی تھی کہ بمبئی کے عظیم الشان جلسہٴ میلاد النبی کی صدارت کروں۔ سرکاوس جی جہانگیر ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور اپنے اور بیگانے دنیا کے سب سے بڑے مقنّن، سب سے بڑے جرنیل ، سب سے بڑے انقلابی اللہ کے سب سے محبوب نبی کے حالات سننے کو جمع تھے۔ صدر مجلس کا استقبالیہ پڑھا جا رہا تھا کہ جلسے میں ایک عام ہیجان پیدا ہوا اور لوگوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ میں نے جلسے میں چاروں طرف متجسس نگاہ ڈالی اور ایک دبلے پتلے آدمی کو گورے رنگ، اونچی ناک ، مضبوط جبڑوں، درخشاں پیشانی اور سینوں کو چیر کر دلوں تک گھس جانے والی تیز نگاہوں کے ساتھ اپنا مضبوط ہاتھ کھلی ہوئی لمبی لمبی انگلیوں سمیت پیشانی سے لگائے صاف ستھرا استری کیا ہوا سوٹ پہنے، ننگے سر نعروں کا خاموش لیکن دلوں کو موہ لینے والا جواب دیتے ہوئے دیکھا۔ میز سے لگی ہوئی بازو والی کرسی پر جلسہ کے منتظم سیٹھ ذکریا منیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ ہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر مسٹر محمد علی جناح جو کبھی نام نہاد آل انڈیا نیشنل کانگریس کے روح رواں تھے۔ ہندوستانی قومیت کے علم بردار تھے۔ انگلستان کے مشہور بیرسٹر ہیں اور آج مسلمانوں کی آنکھ کا تارا ہندوستان کی ملت اسلامیہ کا سہارا اور غلامی سے چھوٹ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانے سے وابستہ ہوگئے۔ میں نے خطبہ صدارت شروع کیا تو قائداعظم کی شخصیت اور رعب میرے قلب و ذہن پر چھایا رہا تھا اور میری زبان سیکڑوں تجربوں میں کامیابیوں کے باوجود رکتی محسوس ہوتی تھی کہ ایک جوہری بیٹھا ہے کہیں اس کی ٹکسال میں میری جنس کھوٹی نہ ثابت ہو۔ خطبہ صدارت ختم ہوا تو تکبیر کے نعروں محمد اور علی کے ناموں سے نسبت رکھنے والا بھی عرش کی سیر کرنے لگا اور اپنے سامعین کو بھی فرش سے بلند کرنے لگا۔ ابتدائی جملے قانون محمدی کا دوسرے مشہور قوانین خصوصاً رومن لا سے متقابل مطالعہ تھا۔ موجودہ قوانین کا ایک عالم متحبر جس کی زندگی رومن لاء کی زیارت کو اپنی آغوش میں پرورش کرتی گزری، جب قانون محمدی کے گوشے کھولنے لگا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ تعلیم مغرب کے شیدائیوں نے قانون محمدی کے کیسے کیسے جلوے دیکھے ہوں گے۔ برخاست کے وقت مجھے متعارف کی مسرت حاصل ہوئی۔ مجھ ناکارہ کے پاس قائداعظم اور زعماء پاکستان کے کردار اور اوصاف حمیدہ کے جو خزانے قلب و ذہن میں محفوظ ہیں تو میں مزید دلائل سند کے طور پر پیش کر سکتا ہوں۔
ناظرین ملاحظہ فرما لیجئے کہ معترضین کا قائداعظم کی ذات پر سیکولر نظریات کا حامل ہونے کا بہتان کس حد تک جائز ہے۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر جس پر معترضین کا فوکس ہے۔ قائداعظم پاکستان میں بسنے والے ہر شہری خواہ اس کا تعلق کسی مذہب، فرقے اور عقیدے سے ہو، ان کے حقوق کی ضمانت دینے کے مکلف تھے۔ 14.7.46ء کو ایک صحافی کے سوال پر Wheather Pakistan will be a theocratic state? He catagory denied۔ کیا پاکستان ایک Theocratic state ہوگی۔ آپ نے قطعی نفی میں جواب دیا۔ انہوں نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ مذہبی اقلیتوں کو ہر قسم کی آزادی ہو گی، لیکن ملک اور قوم کے ساتھ وفاداری شرط لازم ہو گی۔ دراصل لوگ سیکولر ازم کے معنی غلط لیتے ہیں۔ سیکولر ازم کا مطلب لادین نہیں۔ سیکولر ازم مذہب کی امور سلطنت میں مداخلت کو روکتا ہے۔ قرارداد مقاصد جسے پرائم منسٹر لیاقت علی خان نے 12 مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی میں پیش کیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے ساتھ یہ اصول طے کیا گیا کہ مسلم قوم قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارے گی اور غیر مسلم اقلیتوں کو اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہوگی۔ قائداعظم کی کیبنٹ میں چوہدری ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ اور منڈل وزیر قانون تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظم کے افکار عالیہ ان کے نصب العین اتحاد، تنظیم، یقین محکم کو بروئے کار لایا جائے۔ فروعی مسائل میں الجھ کر نہ تو اسلام کی کوئی خدمت ہوتی ہے نہ ملک اور قوم کو ان باتوں سے کوئی فائدہ ہوتا ہے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=496427