پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف ٹرائل کا مقصد
نواز شریف ٹھیک اسی کھائی میں گرے، جسے وہ پی پی پی کے خلاف گزرے تیس سالوں تک استعمال کرتے رہے۔
تاجروں اور سنٹرل اربن پنجاب کا دائیں بازو کا بڑے حصے کو چھوڑ کر، نواز شریف کے لیے ان کی سزا پہ ہمدردی بہت کم ہے۔ اس کی ایک وجہ نواز شریف کا اپنے خاندان کے اثاثوں کا حساب دینے میں ناکامی ہے۔
یہ فیصلہ
آنے میں اتنا لمبا وقت لگا اور بہت دقت کے ساتھ یہ فیصلہ دیا گیا۔ اس سے
بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دائیں بازو، میڈیا،جوڈیشری اور سیکورٹی
اسٹیبلشمنٹ کے اندر ضیاء الحق کے اس فضول خرچ جانشین کی کتنی حمایت ہے۔
کئی عشروں تک، فوجی آمر جنرل ضیاء الحق ، جرنیلوں بشمول جنرل چشتی، بیگ اور گل کے لگائے اس پودے نے خوب مزے کیے اور بڑے پیمانے پہ لوٹ کھسوٹ کی۔ اور اسے کوئی روکنے والا نہیں تھا۔
ہم نے دیکھا کہ کیسے شریفوں نے اپنی کرپشن کو پی پی پی پہ تھونپ دیا۔ اس کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار سے تب ہی مشکل سے نکالا جب وہ ان کے لیے بیکار ہوچکا تھا۔
لیکن نواز شریف کا باب ابھی بند نہیں ہوا۔ وہ اب بھی اپنی بیٹی کے راستے واپس آسکتا ہے۔
سلطنت شریفیہ آج بھی آل سعود کی پسندیدہ ہے اور ان کی پاکستان میں پراکسی اب بھی ان کو سپورٹ کرتی ہے۔
پھر نواز شریف، نے پاکستانی میڈیا، جوڈیشری، اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے دیگر حصوں میں دل کھول کر سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ ایسے ہی نواز شریف نے ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ بندھی ہوئی کارپوریٹ لیفٹ والوں اور این جی او ٹائپ لبرل پہ مشتمل برادری پہ بہت سرمایہ لگایا ہے۔ جو اس کی شخصیت کے گرد لیفٹ اور لبرل تقدیس کے ھالے اور اسرار بننے کے لیے حاضر خدمت ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں نواز شریف کے گرد بائیں اور لبرل جانب سے جو اسطور کھڑی کی گئی ہے یہ اپنی ٹانگوں پہ کھڑی ہونے کی ہمت رکھتی ہی نہیں۔ کیونکہ نواز شریف کے گرد لبرل و لیفٹ افسانہ گھڑنے والے یہی کمرشل لبرل و این جی او لیفٹ پی پی پی کے خلاف میڈیا ٹرائل پہ خاموش رہتے ہیں۔
مضحکہ
خیزی اور حماقت سے سرشار متعصب جے آئی ٹی کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے
خلاف رپورٹ بھی اسی سلطنت شریفیہ کے دور میں وزرات داخلہ نے بنائی تھی۔
ہمیں معلوم ہے کہ جب معاملہ پی پی پی کا ہو تو عدلیہ حقیقی معنوں میں ان کی موت کا سامان کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔
یہ جاننا دلچسپی کا سبب بنے گا کہ جس عدالت نے نواز شریف کو بدعنوانی کے
الزام پہ سزا سنائی، اسی نواز حکومت کی بنائی چارج شیٹ کو فوری قبول کرلیا۔
پاکستان کے جعلی لبرل ، نمائشی لیفٹ کی طرح عدالت کو بھی پتا ہے کہ ان کے دوھرے معیار پہ بہت کم ہی آواز اٹھائیں گے۔
نواز شریف کے بہت زیادہ بڑھاچڑھاکر پیش کیے گئے جعلی اینٹی اسٹیبلشمنٹ
موقف کے برعکس پاکستان پیپلزپارٹی کا موقف واقعی اپنے اندر قوت رکھتا ہے
اور یہ کسی چیز کی خاطر ہے۔ اور وہ چیز ہے اٹھارویں ترمیم کا تحفظ اور اس
پہ عمل درآمد۔ اور یہ کمزور دائیں بازو کی تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کسی
شراپ سے کم نہیں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پاکستانی
معیشت میں تجارت اس توازن کو فضول خرچیاں کے سبب برباد کرڈالا جو توازن پی
پی پی کی حکومت میں حاصل کیا گیا تھا۔ جبکہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت عام فہم
و شعور سے بھی عاری نظر آتی ہے۔ وہ پاکستان کے معاشی بحران سے نمٹنے میں
ناکام رہی اور پاکستانی معیشت کا بحران بڑھتا ہی جارہا ہے۔
پی پی پی کے پیچھے جانا بہت بڑے انتشار کو دعوت دینا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت 18ویں ترمیم ختم کرکے صوبوں کو ملنے والی رقوم خاص طور پہ ہیلتھ اور دیگر سوشل سروسز کی رقوم کی لوٹ مار کرکے تجارتی توازن لانا چاہتی ہے۔
پاکستانی عوام کو محروم و محتاج بنانا ہی پی ٹی آئی کی طرح غبارہ نما دائیں بازو کی حکومتوں کا ایجنڈا ہے۔
اور یہی ان کے نیم فاشسٹ لیڈر عمران خان کا ٹھیک بچگانہ تخیل ہے۔
پیپلزپارٹی سے چوہے بلی کا کھیل اصل میں صوبوں کے صحت، تعلیم اور غربت ختم کرنے والے پروگراموں جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے کو اپ لفٹ کرنے کے لیے ملنے والے فنڈز سے محروم کرنا ہے۔