یمن میں جنگ کیسے ایک خون آشام دلدل میں بدل گئی – رابرٹ ایف ورتھ – حصّہ اول

نوٹ: رابرٹ ایف ورتھ نیو یارک ٹائمز کا صحافی ہے جس نے یمن میں اپنے حالیہ دورے کا احوال رقم کیا اور یمن کی جنگ کا جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ امریکہ کے یمن میں سعودی جنگ کا ساتھ دینے کے اوبامہ ایڈمنسٹریشن کے فیصلے کا کمزور دلیلوں سے دفاع کرتی ہے اور یمن سمیت مڈل ایسٹ میں جو امریکہ کا گھناؤنا سامراجی مداخلتوں پہ مشتمل کردار رہا ہے اس کی پردہ پوشی کرتی ہے اور یمن کی جنگ بارے امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا کے نیو لبرل میڈیا کی منافقت کو بھی چھپاتی ہے لیکن پھر بھی اس رپورٹ سے بہت سے حقائق عیاں ہوتے ہیں۔ اور یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ کیسے سعودی عرب اور خود امریکہ نے بھی حوثیوں کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا اور ان کا خیال یہ تھا کہ سعودی بدمست طاقت کے سامنے حوثی تحریک ایک دم سے ڈھے جائے گی جو سراسر غلط ثابت ہوا۔ سعودی عرب کے جنگی جرائم کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں کلین چٹ دے دی گئی۔ امریکی صحافی کہتا ہے کہ سعودی عرب فرقہ واریت اور کرپشن کے زھر کو یمن کی سیاسی و معاشی رگوں میں داخل کرتا رہا جس نے یمنی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا۔حوثی قبائل کی تحریک کے بارے میں وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے علاقے سے القاعدہ کا صفایا کردیا۔وہ پولیس اسٹیٹ تو کہتا ہے حوثی قبائل کے زیر کنٹرول علاقوں کو لیکن ساتھ میں یہ بھی کہتا ہے اسے سکون کا سانس انہی علاقوں میں لینا نصیب ہوا۔ گویا ریاست جیسی کوئی چیز آج بھی یمن میں اگر موجود ہے تو وہ حوثی کے زیر کنٹرول علاقے ہیں۔ پھر سعودی افواج ان علاقوں کو تباہ کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟

یمن کے شمال مشرق میں کسانوں کی آبادی پہ مشتمل ایک چھوٹا سا قصبہ دحیان ہے۔ سعودی عرب کی سرحد سے یہ دو گھنٹے کی مسافت پہ واقع ہے۔ اس کی ایک گرد آلود، ناہموار گلی میں، ایک بڑا سا کارٹر اب بھی ایک پھلوں اور سبزیوں کے ایک ٹھیلے کے نزد دکھائی دیتا ہے جس کے گرد لکڑیوں کے ستون گڑے ہیں اور ان کے گرد سرخ فیتہ لپیٹ دیا گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پہ ایک سعودی جنگی طیارے نے 9 اگست کی صبح طالب علموں کو لیجانے والی اسکول بس پہ لیزر گائیڈڈ بم مارا تھا۔اس درگھٹنا میں 44 بچے اور 10 بالغ مرد مارے گئے تھے۔ یہ جگہ اب مزار جیسی حثیت اختیار کرگئی ہس۔ کارٹر سے چند فرلانگ کے فاصلے پہ ایک پختہ دیوار پہ انگریزی اور عربی کے جلی حروف میں لکھا ہوا ہے’ امریکی یمنی بچوں کا قتل کرنے والے ہیں’۔

یہاں سے وہ قبرستان بھی زیادہ دور نہیں ہے جہاں پہ اسکول بس کے متاثرین دفن کیے گئے۔ ہر ایک قبر پہ تابوت کی شکل کی خشک اور چٹانی زمین پہ ایک پوٹریٹ کھڑی ہے جس میں صاحب/صاحبہ قبر کی تصویر لگی ہے۔ ایک خاکستری پتھریلی دیوارسے پرے اس بس کا ڈھانچہ ہے جو مڑی تڑی اور جلی ہوئی دھات پہ مشتمل ہے۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو ایک لڑکا خاموشی سے ایک قبر کے پاس کھڑا تھا،اور نیچے قبر کے کتبے کو گھورے جارہا تھا۔

اس نے مجھے بتایا،’ہم سب اکٹھے ایک ہی اسکول میں تھے۔’ وہ 14 سال کا تھا۔ وہ بھی آسانی سے اسی بدنصیب بس پہ ہوتا لیکن وہ پہلے اسکول ٹرپ سے ہوآیا تھا۔ جب بم پھٹا تو وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے بازار جارہا تھا۔ اس کا باپ زخمی نہیں ہوا۔لیکن جلد ہی اسے پتا لگ گیا کہ اس کے بہت سے ساتھی اور اساتذہ شہید ہوگئے۔ اب وہ ہر روز ان سے ملنے قبرستان آیا کرتا تھا، اس نے آہستہ سے مجھے بتایا۔

حوثی تحریک ایک طاقتور اور ناقابل تسخیر ملیشیا ہے جو یمن کے ایک بڑے حصّے پہ حکمرانی کررہی ہے۔اس کے نزدیک بس پہ بمباری ایک طرح سے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ گزشتہ کئی سالوں سے سویلین آبادی پہ ہونے والی بمبماری کے واقعات سے ہٹ کر یہ خبر پوری دنیا کے زرایع ابلاغ کی ہیڈ لائن میں تبدیل ہوگئیں۔ اور اس پہ انسانی حقوق کے گروپوں کا ردعمل بھی سامنے آیا۔ جم کیری جیسے ایکٹرز نے بھی اس پہ ردعمل دیا۔ اس جگہ کو دیکھنے کے بعد ایک اہلکار مجھے ایک پرہجوم آڈیٹوریم میں لے گیا جو نزدیک ہی واقع تھا، جہاں پہ اٹینڈنٹ نے ہمیں ایسے پمفلٹس تھمائے جن میں مرنے والے اور لہو لہان بچوں کی تصویریں تھیں۔ چند ایک یمنیوں نے اس موقع پہ اس جارحیت کے خلاف سخت ناراضگی پہ مبنی تقریریں کیں۔ ان تقریروں میں ان بلیٹسک مزائیلوں کا کوئی ذکر نہیں تھا جو حوثیوں نے ریاض پہ برسائے تھے۔ یا ان کے اپنے جنگی جرائم کا ذکر نہیں تھا۔ ایک چھوٹا سا لڑکا جو اس حملے میں بچ نکلا تھا اسے سٹیج پہ بلایا گیا، جہاں اس نے پہلے سے لکھا ہوا ایک متن بلند اور مضبوط آواز میں پڑھا۔جب میں اسے سن رہا تھا تو میں اس جنگ کے ایک اور دوسرے المیے بارے سوچنے سے اپنے آپ کو نہ روک پایا: جو اس جنگ کو لڑرہے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد کم عمر لڑکوں کی ہے۔ جلد ہی سٹیج پہ کھڑا بچہ بھی ان کا حصّہ بن سکتا تھا۔

مارچ 2015ء میں سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف پوری طاقت سے بڑے پیمانے پہ فوجی مہم شروع کی جبکہ حوثی اس سے چند ماہ پہلے یمن کے اکثر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرچکے تھے۔ سعودی عرب نے نو ریاستوں کا ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا اور انہوں نے واضح طور پہ کہا کہ حوثی ایران کے اتحادی ہیں اور ان کی جنوبی سرحدات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ جنگ نے یمن کے اکثر علاقے کو بنجر زمین میں بدل ڈالا ہے اور ابتک دس ہزار لوگ مارے گئے اور زیادہ ہلاکتیں بے رحم ہوائی حملوں کا نتیجہ ہیں۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد شاید اس سے بھی زیادہ ہو کیونکہ یمن کے دور افتادہ علاقوں میں اموات کی تصدیق انتہائی مشکل ہے۔

ایک کروڑ چالیس لاکھ یمنی باشندوں کو بھوک کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے یہ بحران ایک ایسے بدترین قحط میں بدل سکتا ہے جو گزشتہ سو سالوں میں کبھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں ، خاص طور پہ دور حاضر کے سب سے بدترین ہیضے کی وبا بھی یہیں پھوٹ پڑی ہے۔

حوثی جن کا نام ان کے جد قبیلے پہ ہے جنوب کا بیشتر علاقہ کھوچکے ہیں جو پہلے ان کے قبضے میں تھا۔ لیکن جنگ نے کئی اعتبار سے ان کو اور ز؛ادہ طاقتور کردیا ہے۔ لڑائی نے ان کی مہارتوں کو تیز کیا ہے۔اور ان کے عزم کو اور پختہ کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی گرفت اس آبادی پہ اور زیادہ گہری ہوئی ہے جو بغاوت سے مایوس ہے اور کسی بھی طرح سے نظم و ضبط کی بحالی چاہتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ کچھ خاندان کے پاس چندہ باکس ہوتے ہیں جن پہ چھپا ہوا ہے’ انفاق فی سبیل اللہ’ہر نوجوان، بوڑھا جنگ کے لیے جو نقدی دے سکتا ہے دیتا ہے۔مجھ سے آنے سے تھوڑی دیر پہلے صنعاء سے کچھ فاصلے پہ موجود ایک شمالی قبیلے نے کئی سو گاڑیوں پہ اںگور، سبـزیاں، بھیڑیں، بچھڑے، نقدی اور ہتھیار لادھے تاکہ بحراحمر کی بندرگاہ حدیدہ کے نزدیک لڑنے والے حوثیوں کی مدد کی جائے۔

حوثیوں کے سعودی عرب کے خلاف انتقام سے بھرے غصّے کو ایک خاص شاعرانہ انصاف میں دیکھنے کی لالچ ہر شخص کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان کی تحریک کا جنم تین عشروں پہلے ہوا۔ اور یہ تحریک سعودی عرب کی جانب سے حوثیوں کی سرزمین میں جو شمال مغرب کی طرف ہے میں سلفی وہابی اسلام پھیلانے کا ردعمل تھی۔ تب سے لیکر ابتک، سعودی عرب یمن کے سابق مرحوم بادشاہ علی عبداللہ الصالح کی مدد سے ہر اس سیاسی قوت کو کرپٹ بناکر سمجھوتہ کرنے پہ مجبور کرتا چلا آرہا تھا جو اس کے لیے کسی قسم کے خطرے کا سبب بنتی۔ خوثی بے خوف جنگجوؤں کا ایک ایسا گروہ ہیں جو سوائے لڑنے کے کچھ اور نہیں جانتے۔ وہ خدائی مینڈیٹ رکھنے کے دعوے دار ہیں اور انہوں نے اپنے ناقدین کو اذیت دینے سے لیکر مارنے تک کے سب کام کیے ہیں۔ رائٹس گروپ کہتے ہیں کہ ان کے پیش رو جو کرتے آئے وہ بھی یہی کرتے ہیں۔انہوں نے بچوں کو بطور سپاہی بھرتی کیا، بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پہ است،مال کیا اور میڈیا پہ کسی اختلافی آواز کو نشر نہیں ہونے دیا۔ ان کے پاس جدید سلطنت کو چلانے کی صلاحیت اور اہلیت بالکل نہیں ہے، اور بعض اوقات تو وہ امن مذاکرات کرنے پہ بھی رضامند نظر نہیں آتے۔ لیکن اس میں سعودی عرب کا اپنے ہمسایہ کی جانب انتہائی متکبر اور نخوت سے بھرے اقدامات کرنے کی طویل المعیاد پالیسی کا بھی جزوی کردار ہے جس کا مقصد یمن کو کمزور اور تقسیم رکھنا تھا۔

یہی پالیس اب سعودیوں کے خدشات کو حقیقی خوف کے طور پہ سامنے لاچکی ہے۔ حوثی حکام کا کہنا کہ انھوں نے ویت کانگ ہتھکنڈوں کا بخوبی مطالعہ کیا ہے اور وہ اس جنگ کو ایسی دلدل کہتے ہیں جس میں آل سعود دھنس کر تباہ ہوجائے گی۔” ہمیں توقع ہے کہ یہ جنگ بہت طویل ہوگی”۔ مجھے حوثی ڈی فیکٹو وزیر خارجہ حسین العزی نے بتایا۔ ” یہ ایک ایسی جنگ ہے جو کمر توڑنے والی ہے، یا وہ ہمیں توڑ دیں گے یا ہم ان کو توڑ دیں گے۔

مارچ 1915ء کے آخر میں بم گرائے جانے کے پہلے مرحلے کے بعد، ایک شاندار سا سوئی سوئی آنکھوں والا شخص واشنگٹن میں آکر کھڑا ہوا اور اس نے کہا،’ سعودی عرب نے یمن میں فوجی آپریشن شروع کردیے ہیں۔ یہ عادل الجبیر سعودی سفیر تھا۔ کئی امریکیوں کے نزدیک واشنگٹن کے مقام کو اس بڑی جنگ کے اعلان کے لیے چننے کے کوئی معانی نہیں تھے۔ لیکن یمن میں لوگ اکثر وبیشتر اس کا ذکر کرتے ہیں۔ انھوں نے اسے امریکہ اور اس کے کلائنٹ سعودی عرب کے درمیان شر پہ مبنی پیچیدہ تعلق بارے سوچا سمجھا اشارہ قرار دیا۔ بلکہ اسے ایک بڑے توسیع پسندانہ سامراجی منصوبے کا اعلان خیال کیا۔ جبیر نے اپنی تقریر میں اس بات پہ زور دیا تھا کہ سعودی عرب نے دنیا بھر میں اپنے بہت سے اتحادیوں سے بغور مشاورت کی تھی اور خاص طور پہ امریک بہادر سے جو اس جنگ میں سعودی عرب کو انٹی جنس ، اہداف بنانے میں تعاون اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کررہا تھا۔

سچائی تھوڑی مختلف تھی۔ اوبامہ ایڈمنسٹریشن سعودی عرب کے آپریشن فیصلہ کن طوفان میں تعاون پہ کافی شش و پنج دکھانے کے بعد رضامند ہوئی تھی اور وہ اسے ایران کے خلاف نہ جیتی جانے والی پراکسی جنگ خیال کررہی تھی۔سابقہ ایڈمنسٹریشن کے ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ یہ فیصلہ ریاض کے ساتھ ایران نیوکلئیر ڈیل پہ موجود تناؤ کا حصّہ تھا۔ اگر سعودی مہم جوئی کی حمایت سے انکار کیا جاتا اہمیت کے حامل سعودی عرب-امریکہ تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے اس معاہدے کی حمایت سعودی حکام کو خوش کرنے کے لیے کی گئی۔ اس کی حمایت سے جو خطرات تھے وہ پہلی نظر میں کم از کم قابل قبول تھے۔ لیکن حوثی افواج تو غیر متوقع طور پہ ناقابل شکست ثابت ہوئیں۔ چند ہفتوں میں، پینٹاگان حکام نے سعودی بمباری کے اندھادھند ہونے اور کسی قسم کی واضح جنگی حکمت عملی کے موجود نہ ہونے کی شکایت شروع کردی۔ جان کیری اوبامہ کا سیکرٹری برائے سٹیٹ نے کوشش کی لیکن وہ صلح کا کوئی معاہدہ کرانے میں ناکام ہوگیا۔

دو سالوں تک یمن کی جنگ شام میں ہونے والے خوفناک واقعات کے سائے میں چھپی رہی۔ جب ٹرمپ صدر بن گئے، تو انھوں نے محمد بن سلان کو سعودی عرب کا ابھرتا ریجنٹ ، جنگ کا آرکیٹکٹ اور سب سے سے چہیتے بیٹے کے طور پہ پیش کیا۔گوشتہ سال جب جیرڈ کشنر نے 110 ارب ڈالر کے اسلحے کے فروخت کا معاہدہ محمد بن سلمان سے کیا تو بہت کم لوگوں نے ان ہتھیاروں کے یمن کی جنگ میں استعمال ہونے کے امکان کو بنیاد بناکر سوال اٹھائے تھے۔ لیکن قحط، ہیضہ، شادی بیاہ کی تقریبات پہ بمباری کی خبریں بہرحال کسی نہ کسی طرح امریکی شعور تک رس رس کر پہنچتی رہیں۔ مارچ میں 44 سینٹرز نے امریکہ کی یمن کی جنگ کی حمایت ترک کرنے کے حق میں ووٹ دیے اور یہ قرار داد 11 ووٹوں کی کمی سے منظور ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اگست میں اسکول بس پہ بمباری نے ان آوازوں میں اور اضافہ کردیا۔ پھر اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجعی کے قتل اور لاش کے ٹکڑکے ٹکڑے کرنے جیسا واقعہ پیش آیا جس میں بظاہر محمد بن سلمان کا ہاتھ تھا تو اس نے سعودی ولی عہد اور یمن کی جنگ کو نئے حقائق کی روشنی میں دیکھنے پہ مجبور کردیا۔

یمن کا نمائشی صدر اب بھی عبد ربہ منصور ھادی ہے، یہ 73 سالہ بوڑھا پیالے کی طرح گنجے سر کا مالک ہے۔ یہ اس حکومت کا سربراہ ہے جسے سعودی عرب اور امریکا بین الاقوامی طور پہ منظور حکومت کہتے ہیں۔ ایک ایسا فقرہ جو شرمناک جواز پیش کرتا ہے۔ ان الفاظ کے پیچھے مالیخولیا کردینے والی یہ حقیقت چھپی ہے کہ یمن بطور ایک قوم کے اب موجود نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ قوم تو یہ کبھی بھی رہا ہی نہیں۔ جب 2011ء میں بہار عرب شروع ہوئی تو امید پرستی کے لیے وہ قابل اطمینان لمحہ تھا۔ اور اسی نے یمن کے مرد آہن علی عبداللہ صالح کا اقتدار ختم کیا تھا۔لیکن یہ امیدیں تخلق خانہ جنگی میں بدل گئیں۔ اب یمن بہت سے دھڑوں اور جنگی لارڈز کے درمیان ایک ایسے صدر ھادی کا نظارہ کررہا ہے جسے عالمی طور پہ ایک مکار کٹھ پتلی کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ حقیقی طاقتیں یمن کے جنوب اور مشرق میں اس وقت غالب ہیں وہ کئی ایک مسلح گروہوں اور جہادیوں کا مجموعہ ہیں جن میں القاعدہ بھی شامل ہے جسے زیادہ تر سعودی عرب یا یو اے ای کی حمایت و سپانسر شپ حاصل رہی ہے۔ ان گروپوں کے قبضے میں وہ جگہ ہے جہاں سے آپ اس ملک میں داخل ہوسکتے ہو ، جبکہ اس ملک کی فضاؤں اور سمندر کی سخت ناکہ بندی جاری ہے۔
میں عدن کی طرف گیا، جو کہ جنوبی ساحلی بندرگاہ ہے کسی زمانے میں یمن کا سب سے بڑا کاسموپولیٹن شہر تھا جہاں جابجا نوآبادیاتی دور کی باقیات تھیں۔ کچھ سال پہلے تک، عدن میں بڑی کشش تھی۔ وہاں پہ ایک بہت اچھا چینی ریستوران تھا جسے ایک ایسا آدمی چلاتا تھا جس کا باپ 1940ء میں عدن آیا تھا اور اس ریستوران میں ہر وقت چینی، ہندوستانی، عرب، افریقی بھرے رہتے تھے۔

یہاں پہ شیعہ مساجد، مسیحی کلیسا تھے اور حجاز میں یہی واحد جگہ تھے جہاں یہ موجود تھے۔آپ اب بھی ساحل پہ بئیر پی سکتے ہیں اور اس گھرکے پاس سے گزر سکتے ہیں جہاں فرانسیسی شاعر رم بو نے اپنے آخری ایام گزارے تھے یا آپ اس انگلش پارک کا دورہ کرسکتے ہیں جہاں کوئین وکٹوریا کا مجسمہ تھا جس پہ ہر وقت پرندے سایہ کیے رکھتے تھے۔ عدن نام کے طور پہ تو یو اے ای کی حمایت یافتہ فوج کے زیر کنٹرول ہے، لیکن اصل میں کوئی انچارج نہیں ہے۔ یہ تباہ شدہ کھنڈرات بنی عمارتوں کا شہر ہے۔ ہوٹل بند ہوچکے۔خود ساختہ ‘اصلی مسلمان’ سلفیوں کے گروہ گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور اغواء و قتل عام سی بات ہے۔ میرے یمنی دوستوں نے مجھے گھر کے اندر رہنے کی تلقین کی۔

حوثی اس کے برعکس ایک پولیس سٹیٹ کی شکل کی ریاست کا انتطام و انصرام سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہماری ويزہ دستاویزات پہ حوثی انفارمیشن منسٹری کی مہریں لگیں، ہر ایک چیک پوائنٹ سے گزنے یے بعد بغیر نشان زدہ باڈر کو کراس کرکے وہاں پہنچنے پہ میں سکھ کا سانس لیا۔ حوثیوں نے اپنے علاقے سے القاعدہ کا صفایا کردیا ہے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کا اعتراف ان کے دشمن بھی حسد سے کرتے ہیں۔

میں ساڑھے چار سے صنعا نہیں آیا تھا۔اور یہاں آئی تبدیلیوں ہلادینے والی تھیں: بکھری ہوئی برباد عمارتیں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتیں ، خاص طور پہ شہر کے گردو نواح میں۔ صنعاء شہر پہ فضائی حملے اب کمیاب ہیں۔میں نے صرف ایک حملہ دیکھا، ہدف آدھا میل دور تھا: ایک جیٹ طیارے کی کان پھاڑدینے والی باز گشت آتی اور دور کہیں پہ دھویں کے بادل اٹھتے دکھائی دے جاتے۔ سورج غروب ہوتے ہی شہر کا زیادہ تر حصّہ تاریکی میں ڈوب جاتا۔ اب وہاں پہ کوئی پاور گرڈ اسٹیشن نہیں بچا اور بجلی زیادہ تر گیس فیول سے چلنے والے جرنیریٹر سے حاصل کی جاتی ہے۔جنوبی صنعاء میں حددہ سب سے امیر ترین شہر ہوا کرتا تھا وہاں غیر ملکی سیاحوں کی تواضح کرنے والے ہوٹل اب قصہ پارینہ تھے۔ اور ایسے ہی تمام دولت مند یمنی جو آنے والے مغربی باشندوں کو اپنے سیلون میں سنگل مالٹ اسکاچ کا گلاس بھر کر پیش کرتے اور ایسے ان کو خوش آمدید کہا کرتے تھے یہاں سے چلے گئے تھے۔

حوثیوں کے دارالحکومت میں نشانات واضح ہیں۔ صدر صالح کی بڑی بڑی تصویریں کب کی گم ہوکیں اور ان کی جگہ حوثیوں کا ٹريڈ مارک لے چکا ہے جسے ‘سرخا / چیخ کہا جاتا ہے اور اسے سرخ اور سـبز رنگ کے ساتھ سفید پس منظر میں پینٹ کیا جاتا ہے اور یہ ہے: اللہ اکبّر، امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد، صہیونیت پہ لعنت، اسلام کی فتح ہو’۔ تحریک کا سرکاری نام’انصار اللہ’ بھی جگہ جگہ آنرشپ سٹمپ کی طرح پینٹ ہے۔ حوثی شہداء کے چہرے ہر ہآئی وے پہ بڑے بڑے بل بورڈز پہ جھلکتے ہیں اور ریڈیو پہ جنگی ترانے دن رات چلتے رہتے ہیں۔ بدحالی کا شکار مرد اور لڑکے بعض تو مشکل سے ٹین ایج لگتے ہیں سارے شہر میں بنی چیک پوسٹوں پہ کاروں کو روک کر تلاشی لیتے نظر آتے ہیں۔

ایک رات صنعا میں،میں نے ایک کم عمر سکاؤٹ لڑکی کو دیکھا وہ زور سے چلارہی تھی،” یمن کسی کی غلامی قبول نہیں کرے گا۔” اور وہ ایک یوتھ پریڈ مارچ کا حصّہ تھی۔ بیرونی غلبے کے خلاف مزاحمت حوثیوں کی تحریروں، تقریروں، بینرز پہ لکھی عبارتوں اور ترانوں تک کا مرکزی خیال ہے۔ اس سے آگے جاکر، ان کا جو سیاسی پروگرام ہے وہ خالی سا نظر آتا ہے۔وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک ایسی ملیشیا ہیں جن کی مذہبی جڑیں ہیں جو ان کو وراثت میں ملی ہیں۔ ان کے سربراہ عبدالمالک حوثی کو ایک روحانی سربراہ کی حثیت دی جاتی ہے۔ لیکن وہ ایرانی طرز کی مذابی پیشوائیت کی حکمرانی پہ یقین نہیں رکھتے۔

حوثیوں نے ایک نئی انتظامی ادارہ متعارف کرایا ہے ،یہ 10 رکنی سپریم پولیٹکل کونسل ہے، جو کہ اپنا زیادہ وقت فوجی اور سیکورٹی مسآئل پہ غور و فکر میں گزارتی ہے۔ انہوں نے پرانی بیوروکریسی کو اپنی جگہ پہ برقرار رکھا ہے اگرچہ وہ ابتک ان کے لیے کچھ زیادہ نہیں کا اور سرکاری ملازمیں کو تنخواہوں کی مد میں کچھ نہیں ملا کیونکہ کٹھ پتلی صدر ہادی منصور سنٹرل بین 2016ء میں عدن لے گیا۔ حوثی کے مالی معاملات ابتک پردہ غیب میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق وہ کسٹم محصولات کی مد میں 30 ملین ڈالر وصول کرتے ہیں جو بندرگاہ، زمینی تجارت پہ لگے محصولات سے وصول ہوتے ہیں۔ اور یہ آمدنی زیادہ تر جنگ پہ خرچ ہورہی ہے۔یمن کا تیل جو کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا زریعہ آمدنی تھا حوثی کے زیر کنٹرول علاقوں سے باہر کا ہے۔ صعدہ کے گورنر نے مجھے بتایا صوبائی حکومت کا سالانہ بجٹ 2 لاکھ ڈالر ہے۔میں نے حوثی اشرافیہ کے اندر اسمگلنگ وغیرہ سے امیرہوجانے کے الزامات سنے ہیں۔لیکن ان کے آپس کے درمیان سودے بازی کا حجم کسی بھی نحاظ سے صالح کی اقربا پروی پہ مبنی لوٹ کھسوٹ سے موازانہ نہین کیا جاسکتا۔ حوثی یونیسیف ،ورلڈ فوڈ پروگرام اور دوسری امدادی ایجنسیوں کے محتاج ہیں تاکہ اپنے ملک کو قحط سے بچا سکیں۔

میں نے حسن زید سے پوچھا جو اس تحریک کے بانیوں کے بہت قریب رہا اور اب یوتھ منسٹر ہے کہ حوثی چاہتے کیا ہیں؟ اور ان کا سیاسی وژن کیا ہے؟ اس نے بنا ہچکچائے ہوئے جواب دیا کہ کوئی نہیں، اس کے مطابق حوثیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کے رویوں کا ردعمل ہیں۔

دو ہزار آٹھ میں، میں صنعا کے ایک کورٹ ہاؤس گیا تاکہ اس کیس کو رپورٹ کرسکوں جس میں شمالی یمن کے دور دراز علاقے کے ایک گروپ پہ بغاوت کا الزام تھا۔ اس وقت ، حوثی ایک گمنام گروہ کا نام تھا،یہاں تک کہ یمن میں بھی ان کا نام کم سننے کو ملتا تھا۔ ان کے ٹھکانے سعودی عرب کی سرحد کے نزدیا تھے اور چار سالوں سے وہ یمنی افواج سے لکن چھپی کھیل رہے تھے۔ یہ ساری لڑائی سر تا پا راز تھی۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یمنی حکومت نے ان کو اتنا بڑا خطرہ کیسے سمجھا اور حوثیوں نے اتنے عرصے اپنی طاقت کو چھپائے کیوں رکھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ چند ہزار مضبوط جنگجوؤں کا ٹولہ تھے۔ حوثی چاہتے کیا ہیں؟ یہ سوال میں اکثر سنا کرتا تھا۔

اس زمانے میں انفارمیشن منسٹری دہشت گردی کے بارے میں پمفلٹ بانٹتی جن یں القاعدہ اور حوثی کا ذکر ہوا کرتا۔ ان پمفلٹوں میں حوثیوں کو ایرانیوں کے کٹھ پتلی بتایا جاتا اور ان پہ ایرانی پاسداران انقلاب سے اسلحہ لینے کا الزام عائد کیا جاتا۔میں نے جب اس وقت صنعا میں تعینات امریکی سفیر سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ایرانی فوجی سپورٹ کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اصل میں امریکہ کا یہ اصرار تھا کہ یمن کو القاعدہ سے لڑنے کے لیے جو ھتیار فراہم کیے گئے ان کو حوثیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا جو دہشت گرد نہیں سمجھے جاتے تھے۔

میں اوس صبح عدالت کے احاطے کے باہر ایک گلی کے کونے پہ یمنی صحافیوں کے ایک جھنڈ میں کھڑا ہوا تھاجب ایک آرمڈ گاڑی چلتی ہوئی آئی۔ اس کی کھڑیاں بند تھیں، اور جیسے ہی یونیافارم پہنے گارڈز باہر نکلے، تو ہم نے گاڑی کے اندر سے لوگوں کو ایک آواز ہوکر ‘سرخا’ نعرہ لگاتے سنا۔’ اللہ اکبّر، امریکہ مردہ باد،اسرائل مردہ باد،صہیونیت پہ لعنت، فتح اسلام کی ہوگی’۔ مرد پابازنجیر تھے اور ان کو احاطہ عدالت میں لایا گیا تو تب بھی وہ نعرے لگارہے تھے۔ اس منظر کو لوگ ہنسی مذاق میں دیکھ رہے تھے۔ ایک چیز جو ہم سب حوثیوں کے بارے میں جانتے تھے وہ یہی نعرہ تھا اور یہ یمن کا نائن الیون کے بعد امریکہ سے اتحاد سوچا سمجھا اشتعال انگیز نعرہ تھا اور جنگ کی ایک حقیقی وجہ بھی تھا۔ حوثیوں نے اس نعرہ لگانے کو قریب قریب مقدس فریضہ بناڈالا تھا اور حکومت اسے ایک سیاسی اختلاف اور حربہ سمجھنے کی بجائے اسے بہت بڑا جرم سمجھا کرتی تھی۔

یہان تک کہ حوثی کے اس نعرے یا ان کے بارے میں رپورٹنگ کرنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ اسی صبح ایک یمنی صحافی جس کا نام عبدل کریم الخیوانی تھا پہ حوثیوں کی حمایت کے الزام میں چارج شیٹ کیا گیا کیونکہ اس نے حوثیوں کے علاقے کا دورہ کیا تھا اور ان کے بارے میں ہمدردانہ طور پہ لکھا تھا۔ بعد میں ، میں خیوانی سے واقف ہوگیا اور میں نے ایک دوپہر اس کے ساتھ بسر کی۔وہ پہلا آدمی تھا جس نے واقعی حوثی بارے بات کی تھی۔

خیوانی ان لوگوں میں پہلا آدمی تھا جنھوں نے پہلے پہل مجھے حوثی تحریک کے جنم بارے بتایا تھا۔ حوثی خاندان سید خاندان ہیں اور ان کا آبائی علاقہ سعودی سرحد کے نزدیک ایک قصبہ مرّان ہے۔ ایک ہزار سال پہلے سید پس منظر کے حامل زیدی مسلمانوں نے شمالی یمن میں ایک طرح سے شاہی ذات جیسی شئے قائم کی، ان کے نمایاں ممتاز اشراف خاندانوں نے بادشاہ فراہم کیے جنھوں نے اس زمانے میں زیادہ تر حکمرانی کی۔1962ء کے انقلاب کے نتیجے میں بادشاہت جو امامت کہلاتی تھی کا تختہ الٹ دیا گیا اور یہ گروہ جمہوریت مخالف گروپ کہلوایا۔ ان کی حکومت میں شراکت داری پہ پابندی لگادی گئی۔

تب 1980ء میں، ایک اور جھٹکا لگا۔ سعودی حکمران جو ایران کے اسلامی انقلاب سے ڈرے ہوئے تھے یمن کے زیدیوں کو بھی مشکوک سمجھنا شروع کردیا۔ سعودیوں نے اپنے سخت گیر سلفی نظریات کو سرحد کے اس پار فروغ دینا شروع کردیا۔ ان ہی کوششوں کا نتیجہ دماج شہر میں ایک سلفی اسکول کا اجراء تھا۔ اسی مدرسہ سے بعد میں القاعدہ یمن کی بڑی قیادت پڑھی۔اس کے ساتھ آل سعود نے یمن کی سیاست کو قابو میں رکھنے کے لیے قبائلی سرداروں، فوجی افسروں اور دوسری اشراف شخصیات کو باقاعدگی سے پیسے دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

سعودیوں نے دوسرے لفظوں میں فرقہ واریت کی زھریلی شراب اور بدعنوانی کی ایکسپورٹ یمن کو جاری رکھی۔ یہاں تک کہ زیدی جو کہ یمن کی آبادی کا ایک تہائی ہیں کبھی بھی سنّی اکثریت سے نہیں جھگڑے تھے۔ لیکن جلد ہی زیدی ملّاؤں نے بھی اپنے مذہبی خیالات کا احیاء کرنے کی ضرورت محسوس کی تاکہ سعودی پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جاسکے۔ انھوں نے صدہ میں پہلے سمر پروگرام کی بنیاد رکھی اور کہا جاتا ہے کہ اسی نے اولین حوثی لڑاکے پیدا کیے۔ اب وہ جس مذہب کا پرچار کرتے وہ زیدی اسلام کا ایک ایسا چہرہ تھا جو آل سعود اور اس کیے اتحادیوں بشمول امریکہ کے خلاف سخت غصّے میں تھا۔ ان باغی زیدی نوجوانوں میں جو سب سے زیادہ کرشماتی چہرہ تھا وہ حسین الحوثی کا تھا جس نے ستمبر الیون کو ایک مغربی پلاٹ کہہ کر مسترد کردیا تھا اور چند ماہ بعد اس نے اپنی تقاریر میں حوثیوں کا روایتی نعرہ شامل کیا تھا۔ اس نعرہ کا مقصد صدر صالح کو غضب ناک کرنا تھا جو کہ بے تابی سے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے لیے بے تاب تھا اس نے فوری حوثیوں کو ریاست کا دشمن قرار دے ڈالا۔

جب میں نے پہلی بار صنعا کی عدالت میں حوثی نعرے کو سنا 2008ء میں تو حسین الخوثی کئی سال پہلے یمنی فوج کے ہاتھوں مارا جاچکا تھا۔ لیکن اس کا نوجوان بھائی عبدالمالک اس کی جکہ لے جگا تھا اور تحریک کی عسکری قوت دن بدن مضبوط ہورہی تھا۔ اس کو ایندھن یمنی حکومت کی اجتماعی سزا کی پالیسی سے کے خلاف پیدا ہونے والے غم و غصے سے ملا۔ صعدہ میں بڑے پیمانے پہ گرفتاریاں ہوئیں جسے دشمن صوبہ خیال کیا جارہا تھا۔2004ء سے 2010ء کے دوران محاصرے کی سی اس کیفیت کا نتیجہ کھلی جنگ میں نکلا۔ راستوں کی ناکہ بندی کی گئی اور فارم تباہ کردیے کئے۔ خوراک کی کمی ہوئی۔ حکومتی ٹینک اور جنگی طیارے نیم بھوک مری کا شکار حوثی جنگجوؤں ‎ کے خلاف استعمال ہورہے تھے۔ حوثی لڑاکے چھوٹے گروپوں میں آزاد یونٹ کی شکل میں لڑررہے تھے اور ایک یونٹ پکڑا بھی جاتا تو اس سے دوسرے خطرے کا شکار نہ ہوتے۔

حوثیوں کے ایک ابتدائی لڑاکے دفاع اللہ شامی نے مجھے بتایا کہ وہ درختوں کے پتے کھایا کرتے تھے۔وہ ان دنوں اس جنگ کے ابتدائی دنوں کی تاریخ لکھنے میں مصروف ہے۔ زخموں کے لیے دوائیں نہیں تھیں۔ ہم مقامی جڑی بوٹیوں سے زخموں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے اور اکثر یہ کوشش ناکام ہوجاتی۔ بچے بھوک سے مرجاتے۔ میں خود ایک ایسے گھر میں گیا جس پہ ٹینک کا گولا لگا تھا اور وہاں عورتیں کچن میں ماری گئی تھیں ان کا خون اوون سے رس کر نیچے بہہ رہا تھا۔

شامی اب یمن کی سٹیٹ نیوز ایجنسی کا ڈائریکٹر ہے جس نے ایک بار اسے ایک حوثی دہشت گرد قرار دیکر اس کی کرفتاری پہ انعام رکھا تھا۔ میں اسے ایجنسی میں صبح ساتھ بجے ملا

چھے جنگیں حوثیوں کے لیے بہت سے اسباق لیکر آئیں۔ ان کے لڑاکوں کے اپنی صلاحتیوں کو صقیل کرنے کے بہت سارے مواقع ملے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہےکہ یمنی فو ج کی نااہلی نے غیر حوثی سویلین کی اموات میں بھی بڑا اضافہ کیا اور اس سے یمنی قبائل میں اس تحریک کے لیے ہمدردی پھیلی۔ حوثیوں نے ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ کمزور یمنی افواج کے اسلجہ ڈپو لوٹ کر اکٹھا کیا۔2009ء تک حوثی پوری طرح سے سعودی افواج کو سرحدی جھڑپوں میں روک کر رکھنے بارے پراعتماد تھے۔ حوثیوں نے سعودیوں کو سرحد پار حملے کرکے اور یہاں تک کہ سعودی اسلحہ چھین کر حیران کردیا۔ یہ سعودیوں کے لیے نا بھلائی جانے والی ذلت تھی۔

دوہزار بارہ میں،جب عرب بہار کا احتجاج یمن تک پہنچ گیا تو حوثیوں نے اسے ایک موقعہ سمجھا۔ دوسرے احتجاجوں سے ہٹ کر، وہ ایک تجربہ کار ملیشیا تھے جو لڑائی میں آزمائی ہوئی تھی۔جوں ہی حکومت گری اور وائلنس بڑے پیمانے پہ پھیلی تو فوج اور حکومت کے وہ متزلزل اراکین جن کو طوائف الملوکی کا خطرہ تھا وہ حوثیوں کے ساتھ مل کئے۔ صدر صالح 2012ء میں استعفا دینے پہ مجبور ہوا اور وہ بھی بتدریج اپنی افواج کے ساتھ حوثیوں سے مل گیا۔ حوثیوں کے لیے یہ اقدام ہلادینے والا تھا جنھوں نے صلح کی اپنے خلاف جنگوں میں بہت کچھ سہا تھا۔ لیکن وہ اپنے ساتھ بہت سارا پیسا اور یمنی فوج کے ایلیٹ دستے بھی لایا تھا۔

ایران نے حوثیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو نوٹ کیا۔ حوثیوں اور ان کے شیعی کزن میں ایک نظریاتی اشتراک بھی تھا۔ اور خاص طور پہ حزب اللہ کی طرز پہ حوثیوں کی ریلیاں منظم ہونے لگیں اور عبدالمالک حوثی کی قد آور تصاویر نظر آنے لگیں۔2013ء میں ٹھوس ثبوت مل گیا کہ ایران اور حزب اللہ حوثیوں کی مدد کررہے تھے۔ لیکن اس مدد کا سعودی عرب کی جانب سے کئی عشروں پہ محیط امداد اور پراکسی سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔2015ء میں جب سعودی عرب نے یمن پہ جنگ شروع کی تو کچھ عرصے بعد ہم نے حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب پہ بیلسٹک مزائل داغتے دیکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایران یا حزب اللہ نے حوثیوں کو بیلسٹک مزائیل فراہم کردیے تھے۔اور اینٹی ٹینک ہتھیار بھی جو انہوں نے شمالی سرحد پہ موثر طریقے سے استعمال کیے۔

 

Comments

comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


*

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.