نواز لیگ اور پی ٹی آئی پاکستانی معشیت پہ دائیں بازو کے حملے کی نمائندہ ہیں
دو ہزار تیرہ میں پاکستان کی برآمدات 26 بلین ڈالر پہ کھڑی تھیں، بنگلہ دیش کی برآمدات بھی اتنی ہی تھیں۔ 2009ء سے گیلانی اور پھر راجا پرویز اشرف کی سربراہی میں حکومت نے ٹیرف میں کچھ آسانی اور کوٹہ سٹرکچر کو بہتر کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی جس نے پاکستان کی ٹیکسٹائل گروتھ کو بہتر بنایا۔ آخری دنوں میں صدر زرداری نے ایران-پاکستان گیس پائپ لائن معاہدے کو عمل میں لانا شروع کردیا تھا جو درمیانی مدت میں بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن کی فراہمی کا موجب بنتی۔
دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پی پی پی کی حکومت نے تیل کی قیمتوں کو ایک سو چالیس سے 90 ڈالر فی بیرل کے درمیان دیکھا۔ تیل پاکستان کی بڑی برآمدات میں سے ایک ہے۔
سعودی حکومت نے پی پی پی کی حکومت کو سپورٹ کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ پی پی پی حکومت سعودی حکومت کی مڈل ایسٹ میں فرقہ وارانہ جنگجوئی اور مداخلت میں اپنا تعاون فراہم کرنے سے انکاری تھی اور یہ ایران میں بھی اپنی سرحد سے کسی مداخلت کے خلاف تھی۔ اس زمانے میں سعودی حکمرانوں نے یا تو جنرل کیانی سے روابط رکھے یا بدعنوان سابق چیف جسٹس پی سی او جج افتخار چوہدری کو سر پہ بٹھائے رکھا۔ اور میاں نواز شریف بھی اسی گاڑی پہ سوار رہے اور انھوں نے پی پی پی حکومت کے ساتھ تعاون نہ کیا۔
نواز شریف کے تباہ کن پانچ سالہ دور کے بعد آج برآمدات 18 بلین ڈالر پہ پہنچ گئی ہیں اور بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم 40 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
حالانکہ نواز شریف کی لیگی حکومت کو سعودی عرب نے اربوں روپے دیے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ یہ رقم میاں نواز شریف اپنے چہیتوں کو بانٹتے رہے ہیں۔ لیکن ان اربوں روپے کے بدلے میں نواز شریف نے سعودی حکمرانوں کو کیا دیا ابتک اس پہ پردہ پڑا ہوا ہے۔ بس اتنا پتا ہے کہ سابق آرمی چیف کو ایک فرقہ وارانہ فوجی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت میں تیل کی قیمت 40 ڈالر فی بیرل تک گئی اور آخری سال میں یہ 90 ڈالر فی بیرل پہ آئی۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 بلین ڈالر سالانہ پہ کھڑا رہا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
سابق نواز لیگی حکومت کے دوران پی ٹی آئی اور پی ایم ایل نواز کی حکومتوں میں سب سے بے کار اور غیر متعلقہ ٹرانزٹ منصوبوں کو شروع کرنے کا مقابلہ جاری رہا۔ مسلم لیگ نواز نے سی پیک کی مد میں 65 ارب ڈالر کے قرضے کے لیے کک بیکس اور کمیشن کمانے کے لیے معاہدہ کیا جس نے پاکستان کے اثاثوں اور اور خودمختاری کو چین کے ہاتھ گروی رکھ دیا۔
تین ماہ ہوئے پی ٹی آئی کو حکومت میں آئے تو پی ٹی آئی نے بس یہ کیا ہے کہ اس نے مسلم لیگ نواز کی تباہی کو اور گہرا کردیا ہے جبکہ وہ اپنے سارے وعدوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ ایک بدعنوان جرنیل غلام عمر کے دو بیٹے ہی ان دو دائیں بازو کی جماعتوں میں تباہ کن معاشی پالیسی کو چلاتے رہے ہیں۔
ملک کی اشرافیہ، کمرشل لبرل اور بوتیک لیفٹ یا تو نواز لیگ کے اندھے حامی ہیں یا پی ٹی آئی کے۔ ویسے یہ دونوں پی پی پی سے بھٹو دور سے نفرت کرتے ہیں۔
ان دونوں جماعتوں کے نمبرز اور پاليسیاں واضح یاد دہانی ہیں کہ ہم کہاں پہ غلط سمت گئے۔ جب پی پی پی نے رقم کو بڑھانے،سماجی فلاح و بہبود اور برآمدات بڑھاؤ پالیسیوں پہ فوکس کیا تو پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے اقربا پرست سرمایہ داروں کے سروں پہ امتیازی احتساب اور ٹرکل ڈاؤن معشیتوں کے ابہام کا سودا سمایا ہوا تھا۔
زرا کسی کراچی والے یا لاہوری سے بات کریں تو وہ چند پوش گلیوں کو جن کو نواز ليگ نے بنایا ہوگا ان کے بارے میں خوابیدہ لہجے میں بات کرے گا/کرے گی۔ یا پھر اس کے ہاں وہ جنونی وطن پرستی کا جذبہ نظر آئے گا جسے ان کے ذہنوں میں پی ٹی آئی نے بھر رکھا ہے۔
یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے سیاسی کلچر سے کوسوں دور ہیں اور ان کے ہاں اپنی پارٹی قیادت سے اختلاف کا اظہار اور ان کو لتاڑنے کی ثقافت سرے سے موجود نہیں ہے اور یہ تیزی سے روبہ زوال ثقافت ہے جو آج بھی پی پی پی کے کچھ حلقوں میں آج بھی موجود ہے۔(لیکن وہاں بھی اگر اس کلچر کی حفاظت نہ ہوئی تو یہ شاید ختم ہی ہوجائے)
اپنے بلند و بانگ دعوؤں اور بتونے جھاڑنے کے ساتھ، پی ٹی آئی آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہوگئی ہے اور پاکستانی کی ہاتھ پیر مارتی معشیت کو پھر سے کنوئیں کی نچلی سطح پہ دھکا دے دیا ہے۔ ان کے پاس نہ تو معشیت کو بڑھانے کا وژن ہے اور نہ ہی قرضوں کا سود اتارنے اور دفاعی اخراجات جیسے سٹرکچرل ایشوز سے نمٹنے کا حوصلہ ہے۔
جہاں جنرل ضیاء کی مسلم لیگ اور ایم کیو ایم اب مقامی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی میں ہیں اور اس محاذ آرائی میں بھی ہر وقت ڈیل کرنے اور سودا بازی کرنے کی طرف رجحان بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے، وہاں جنرل باجوہ کی پی ٹی آئی کے حامیوں کے پاس نہ تو مربوط جواب ہے اور نہ ہی حقیقت پسندی پہ مبنی جوابات ہیں۔ یہ جو دست برداری اور محاذ آرائی ہے دونوں پاکستان کے لیے تباہ کن ہیں۔