سٹاک ایکسچینج مندی:غریبوں کے نہیں چھوٹے سرمایہ داروں سے 238 ارب روپے چھن گئے ہیں – عامر حسینی
خبر:سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی ، 100 انڈیکس میں 1328 پوائنٹس کی کمی،سرمایہ کاروں کے 238 ارب ڈوب گئے۔ اوپن مارکیٹ میں روپیہ مزید سستا، ڈالر کی قیمت ایک سو انتیس روپے ہوگئی
یہ خبر جیسے ہی پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ پھیلی تو پاکستانی کمرشل لبرل مافیا ( اس پہ صحافت، سول سوسائٹی، این جی او نائزڈ لبرل لیفٹ، لبرل سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے بہت سے حصّے) اور پٹواری میڈیا مینجرز نے اس خبر کی تشریح یوں کرنا شروع کردی:
‘عوام کے دوسو ارب ڈوب گئے/ غریبوں کے دو سو ارب ڈوب گئے/
پاکستانی کمرشل لبرل مافیا کا انگریزی سیکشن بھی میدان میں کود پڑا۔ یہ کیا کہتا ہے؟ اس کے لیے آپ ڈیلی ڈان کا اداریہ پڑھیں
A SENSE of panic is evident in the markets as the government continues to issue vague signals about its plans for plugging the growing external sector deficit and arrest the accelerating slide of the foreign exchange reserves.
ڈیلی ڈان کے اداریہ کے مطابق منڈی میں افراتفری اور بے چینی کا سبب حکومت کے بیرونی خسارے پہ قابو پانے اور تیزی سے کم ہوتے زرمبادلے کے ذخائر بارے مبہم اشاروں پہ مبنی بیانات جاری کرنا ہے
اس اخبار کا کہنا ہے کہ بروکرز اور سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے مطابق سٹاک ایکسچینج میں حالیہ شدید مندی کا سبب پرائم منسٹر کی جانب سے حالیہ تقریر میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کا بیان ہے۔اخبار اس بیان کو عجلت میں تیار کردہ کہتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہتا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے لوٹ مار کرنے والوں اور بدعنوانی میں ملوث افراد اور گروپوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے آتشیں بیان نے بھی ‘سرمایہ کاروں’ کے اعتماد کو بگاڑ دیا ہے۔ اس سے ہلچل مچ گئی ہے
The statement was vaguely worded, and couched in fiery talk of ending corruption and searching for looted wealth stashed abroad, which fed further anxiety in the markets about whether or not the government has a clear policy direction at the top.
ان لائنوں سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ لگانے والوں کو ‘لوٹ مار اور کرپشن، منی لانڈرنگ’ کے خلاف حکومتی بیان سے عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور اس سے حکومتی پالیسی کی سمت بھی واضح نہیں ہوتی۔
اخبار اپنے اداریہ کے آخر میں جلد از جلد آئی ایم ایف سے بات چیت شروع کرکے اس ابہام کو ختم کرنے کو کہتا ہے۔ اس سے پہلے اس اخبار میں کرپشن، لوٹ مار، منی لانڈرنگ وغیرہ کے خلاف اقدامات اٹھائے جانے خاص طور پہ نواز لیگ کی مبینہ کرپشن پہ اقدامات اٹھائے جانے کو امتیازی احتساب قرار دینے کا سلسلہ تو بہت ہی دراز ہے۔
اس اخبار کو معروضی صحافت کرنے میں سب سے آگے اور سب سے بہترین بتایا جاتا ہے۔ لیکن یہ اخبار کبھی بھی اپنی معروضی صحافت میں ‘ سرمایہ داروں، سٹہ بازوں اور سامراجی کارپوریٹ سرمایہ داروں کی موضوعیت اور داخلیت/مفادات’ کے مطابق رائے داخل کرنے سے نہیں ہچکچکاتا۔
اب آتے ہیں محنت کش دوست تجزیہ کاروں کی جانب۔ وہ اس خبر کا مطلب یہ بتاتے ہیں:
“سٹاک ایکسچنیج میں مندی سے چھوٹے سرمایہ کاروں، سٹہ بازوں اور مڈل کلاس کی کئی ایک پرتوں کی بچتوں سے جمع کی گئی رقم (238 ارب) بڑے سرمایہ داروں کی جیب میں چلے گئے۔ اور پاکستان کی گزشتہ حکومتوں اور موجود حکومت کے ابتدائی دنوں میں سرمایہ دار دوست پالیسیوں کے سبب روپے کی گراوٹ میں اور اضافہ ہوگیا ہے اور ڈالر کی قیمت 129 روپے تک جاپہنچی ہے۔”
ہمارے دوست وقاص احمد کمرشل لبرل مافیا کے زیر اثر سوشل میڈیا پہ موجود لبرل کی جانب سے ‘غریبوں کے 238 ارب روپے ڈوب گئے’ کی جگالی کرنے پہ لکھتے ہیں:
بنیادی معاشی اصولوں کو سمجھ لینے میں لبرل دوست اتنی مستعدی کیوں نہیں دکھاتے جتنا کمیونسٹ دوست دلچسپی لیتے ہیں۔
اب لبرل بھائیوں نے اسٹاک مارکیٹ کے کریش پہ رولا ڈالا ہوا ہے کہ “غریبوں”کے دو سو ارب ڈوب گئے۔
کوئی انہیں بتا سکتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ سوئمنگ پول نہیں ہوتی کہ پیسے ڈوب کر گیلے ہو جائیں اور اسٹیٹ بینک لینے سے انکار کر دے۔
اور ان “غریبوں” کو کس نے کہا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں “کھیلیں”۔
ویسے کیسا غریب ہے کہ پیٹ میں روٹی نہیں ،سر پہ چھت نہیں،پیر میں جوتی نہیں اور اسٹاک مارکیٹ میں “کھیل “رہا ہے۔
ہاں ،کوئی کہتا کہ مڈل کلاسیوں کے دو سو ارب ڈوبنے کی بجائے اپر کلاس کی جیب میں چلے گئے تو پھر مانا جا سکتا ہے۔
لیکن کیا موجودہ حکومت اس سارے معاشی بحران کا ایسا حل تلاش کرنے جارہی ہے جس میں اس بحران کے سخت ترین اقدامات کا سب سے زیادہ بوجھ اس ملک کی اشرافیہ اور کارپوریٹ سرمایہ داروں کی سب پرتوں پہ بلا امتیاز پڑے اور وہ اپنے اس بوجھ کو ورکنگ کلاس ( محنت کشوں اور کسانوں، شہری و دیہی غریبوں اور مڈل کلاس کی نچلی پرتوں) تک منتقل نہ کردیں؟
فی الحال تو جواب نفی میں ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں جتنی بھی جماعتیں ہیں وہ آخری تجزیہ میں بورژوازی/سرمایہ داروں کی بڑی اور درمیانی پرتوں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان میں ورکنگ کلاس کی سیاست کی نمائندگی کرنے والی کوئی بھی نہیں ہے۔