قتل حسین کے بعد نساء اہل بیت کے مرثیے – عامر حسینی
امام حسین ، آپکے چودہ افراد اہل بیت اور 56 دیگر اصحاب کے کربلاء میں شہید ہوجانے کے بعد گیارہ محرم الحرام کو اہل بیت کے بچے کھچے افراد کی بطور قیدی کوفہ روانگی سے پہلے کتب تواریخ و احادیث میں نساء اہل بیت کے ندب ( عربی میں ندب غم و اندوہ کے وقت ادا کیے جانے والے جملے ہوتے ہیں، آپ اسے رثاء حسین کی ابتدائی شکل بھی کہہ سکتے ہیں) ملتے ہیں۔ جو دہ دہلا دینے والے ہیں۔ لیکن ان سب رثاء حسین میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ نساء اہل بیت نے مصیبت کی اس گھڑی میں محمد رسول اللہ، سیدنا حمزہ، علی المرتضی ، فاطمہ زھرا، جعفر طیار کو پکارا اور اپنی شکایت اللہ کی بارگاہ کے ساتھ ساتھ محمد اور دیگر بزرگان اہل بیت کی بارگاہ میں جمع کرائی۔
نساء اہل بیت کے رثاء حسین نے اصل میں بعد میں عرب شاعروں کے رثاء حسین کا پیٹرن بھی مرتب کردیا۔ نثری رثاء حسینکا پیٹرن زینب بنت علی اور حضرت امام سجاد علی بن حسین سید الساجدین کی تقریروں اور خطبوں نے طے کیا اور رثاء حسین کا منظوم انداز نساء اہل بیت کے رثاء نے طے کیا۔
ان ابتدائی رثا حسین کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ حسین کی مظلومیت اور یزید کے ظلم کو بہت ہی صاف اور شفاف طریقے سے عوام الناس کے سامنے لیکر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ سو سال تک بنو امیہ کی حکومتوں نے ‘رثاء حسین’ کو ناقابل معافی جرم قرار دے ڈالا تھا۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت زینب بنت حسین میدان کربلاء میں قتل حسین کے بعد شدید غم اور دکھ میں گرفتار نظر آتی ہیں۔ اس وقت ان پہ غم و اندوہ چھایا ہوا ہوتا ہے۔ اور اشعار و رثاء کی صورت ہم اس کا اظہار بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن کوفہ کے بازار اور عبید اللہ ابن زیاد کے دربار میں پیشی کے وقت ہم بجا طور پہ دیکھتے ہیں زینب بنت علی اپنے غم و اندوہ کو احتجاج کی طاقت میں بدل ڈالتی ہیں اور اس وقت وہ ہمیں اس کردار اور روپ میں نظر آتی ہیں جسے آج سب ‘ کار زینبی ‘ کہتے ہیں اور ڈاکٹر علی شریعتی نے ان کے بارے میں کیا خوب کہا
ای زبان علی در کام، ای رسالت حسین بر دوش
یعنی زبان علی تھی اور پیغام حسین کا تھا
زینب نے بزبان علی پیغام حسین کو پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا
عمر بن سعد اور اس کے شریر لشکر نے امام حسین ابن علی،ان کی اولاد اور اصحاب کے کربلاء میں جمعہ کے روز دس محرم 61ھجری کو قتل پہ ہی بس نہیں کیا بلکہ عمر ابن سعد نے باقی کے دن اور شام کو اور اگلی صبح 11 محرم بروز ہفتہ اپنے لشکر کے ہلاک شدگان کی نماز جنازہ پڑھائیں اور ان کی تدفین کی۔ جبکہ امام حسین کی باقیات کو اور آپ کے ساتھ شہید ہونے والوں کی باقیات کو لق دق صحراء میں آگ برساتے سورج اور تپتی زمین پہ چھوڑ دیا تاکہ درندے ان کی مزید بے حرمتی کریں۔ نہ غسل کا انتظام تھا اور نہ نماز جنازہ کا نہ ہی دفن کا۔
گیارہ محرم الحرام بروز ہفتہ دوپہر سے پہلے ابن سعد اور اس کا بقیہ لشکر کربلاء سے کوچ کرگیا اور لڑائی کے میدان کو چھوڑ گیا۔اس کا رخ کوفہ کی جانب تھا تاکہ اپنے کارنامے وہ اپنے سردار عبید اللہ ابن زیاد کو بتاسکے۔ اس روانگی کے دوران اس لشکر نے امام حسین کے بچ جانے والے اہل بیت کو اسیر بناکر ساتھ لے لیا۔ ان میں امام علی بن الحسین زین العابدین و سید الساجدین تھے جو کہ بیماری کے سبب بہت کمزوری محسوس کررہے تھے۔
اور اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کے سروں کو بھی ساتھ لے لیا۔ جبکہ سر حسین کو ابن سعد نے ان کے قتل کے بعد دسویں محرم کو خولہ بن یزید کے ہاتھ ابن زیاد کے پاس کوفہ روانہ کردیا تھا۔
هذا وقبل أن يغادر الأسري من النسوة والأطفال والصبية بما فيهم الإمام العليل زين العابدين (عليه السلام)، أرض المجزرة الرهيبة، تحت حراسة جلاوزة ابن سعد، قالت النسوة السبايا للحراس: بحق الله ألا مررنا علي مصرع الحسين وأجساد الشهداء، فجاز الركب ساحة المعركة حيث الأشلاء مبعثرة في الدماء. فلما نظر النسوة إلي القتلي صحن وضربن وجوههن. فصاحت زينب: وامحمداه، صلي عليك ملائكة السماء، هذا حسين بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء (إلي آخر ما مر ذكره في الفصل السابق). فضجت النسوة من ورائها بالنواح، وبكي كل عدو وصديق من هذا الموقف الرهيب. كما أن سكينة بنت الحسين (عليه السلام) اعتنقت جسد أبيها فأجتمع عليها عدة من الأعراب حتي جروها عنه. وكان هذا أول نواح عام علي ضحايا الطف بعد المعركة الشنيعة والمجزرة الرهيبة
اس سے پہلے کہ خاندان اہل بیت کی عورتیں،بچے اور بچیاں بشمول بیمار زین العابدین عمر ابن سعد کی حراست میں دردناک قتل کی سرزمین سے رخصت ہوتے تو قیدی عورتوں نے قید کرنے والوں سے کہا: اللہ کا واسطہ ہے ہمیں جائے شہادت حسین اور دیگر شہداء کے اجساد کے پاس سے لیکر چلو۔تو ان کو لڑائی کے میدان سے گزر کر جانے کی اجازت جہاں مثلہ لاشے اپنے ہی خون میں غلطان تھے۔ جب عورتوں کی نظر مقتولوں کے لاشوں پہ پڑی تو ان کا ضبط ختم ہوگیا اور انہوں نے رونا شروع کردیا۔ زینب بنت علی المرتضی نے روتے ہوئے اونچی آواز میں کہا
وامحمداه، صلي عليك ملائكة السماء، هذا حسين بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء وبناتك سبايا، وذرّيتك مقتّلة
ہائے محمد آپ پہ آسماںوں کے ملائکہ درود بھیجتے ہیں،يہ حسین کھلے میدان میں،خون میں لت پت ،اعضاء کٹے ہوئے اور آپ کی قیدی بیٹیاں اور آپ کی مقتول اولاد
فوالله لا أنسي زينب وهي تندب الحسين وتنادي بصوت حزين وقلب كثيب: يا محمداه، صلي عليك ملائكة السماء، هذا حسينك مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء، وبناتك سبايا، إلي الله المشتكي، وإلي محمد المصطفي وإلي علي المرتضي وإلي فاطمة الزهراء وإلي حمزة سيد الشهداء يا محمداه، هذا حسين بالعراء تسفي عليه ريح الصبا. واحزناه. واكرباه عليك يا أبا عبد الله. اليوم مات جدي رسول الله. يا أصحاب محمد، هؤلاء ذرية المصطفي يساقون سوق السبايا.
راوی نے لکھا ہے کہ
اللہ کی قسم میں زینب (بنت علی کی حالت) نہیں بھول سکتا جب وہ حسین ابن علی کا مرثیہ پڑھ رہی تھی ان کی آواز میں حزن تھا اور ان کا دل بہت ٹوٹا ہوا تھا
اے محمد آپ پہ آسمان سے ملائکہ کا درود ہو ۔ یہ آپ کے حسین ہیں خون میں غلطان ، اعضاء کٹے ہوئے، اور آپ کی بیٹاں ہیں قیدی، اور ہم اللہ کے ہاں،
بارگاہ محمدی میں، بارگاہ علی المرتضی میں و قاطمہ زھرا کے ہاں، سید الشھداء حمزہ کے ہاں شکوہ کناں ہیں۔ یا محمد! یہ حسین ہے صحراء لق و دق میں پڑے ہوئے، جن پہ چلتی ہوئی ہوائیں بھی غم کرتی ہیں اور اور ہم سب ان کا حزن کرتے ہیں اور اے ابا عبداللہ ہم سب آپ کے قتل پہ مبتلائے کرب ہیں ، لگتا ہے آج میرے جد رسول اللہ کی وفات ہوئی ہو، اے اصحاب محمد یہ رسول اللہ کی اولاد ہے جن کو قیدی بناکر بازاروں میں گھمایا جانے والا ہے۔
کتب تاریخ میں حضرت زینب بنت علی کا میدان کربلاء میں ایک اور مرثیہ بھی درج ہے۔ کہ جب حضرت امام حسین زخموں سے چور ہوکر گھوڑے سے زمین پہ اس طرح گرے کہ ان کے رخسار کا دایاں حصّہ زمین پہ لگا ہوا تھا تو حضرت زینب بنت علی اپنے خیمے سے نکلیں اور انہوں نے روتے ہوئے فرمایا
وأخاه واسيداه، واأهل بيتاه، ليت السماء أطبقت علي الأرض، وليت الجبال تدكدكت علي السهل
ہائے میرا بھائی، ہائے میری سیدہ (فاطمہ زھرہ) ہائے اہل بیت
کاش اے آسمان تو زمین پہ گرجاتا
کاش اے پہاڑ تم زمین پہ گرتے اور سب ملیامیٹ کرڈالتے
اور حضرت زینب نے یہ بھی کہا
ويلكم أما فيكم مسلم؟
کیا تمہارے اندر کوئی مسلمان بھی ہے؟
تو کسی نے جواب نہیں دیا
کہتے ہیں کہ جب امام حسین قتل ہوگئے اور خیمہ امام حسین و امام زین العابدین کو لوٹا جانے لگا تو ام کلثوم نے اپنی والدہ کے سر پہ ہاتھ رکھا اور غم و اندوہ کے ساتھ یہ مرثیہ کہا
وامحمداه، واجعفراه، واحمزتاه، هذا حسين بالعراء، صريع بكربلاء محزوز الرأس من القفا، مسلوب العمامة والردا ـ
ہائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہائے جعفر، ہائے حمزہ
یہ حسین ہیں لق و دق صحراء میں پڑے ہوئے
کربلاء میں بھوکے پیاسے
جن کا سر تن سے جدا کردیا گیا
اور ان کا عمامہ اور چادر لوٹ لی گئی