کیا قیام امام حسین رض قبائلی جنگ کا تسلسل تھا؟ – عامر حسینی
کچھ سفیانی لبرل اور اموی مارکس واد 61 ھجری کو رونما ہونے والے واقعہ کربلاء کے بارے میں دیوبندی مکتب فکر سے نمودار ہونے امیہ پرست نظریہ ساز مولوی حسین پھجرواں، مولوی غلام اللہ خان،مولوی عبداللہ چکڑالوی اور ان کے شاگرد معنوی مولوی عبداللہ والد مولوی عبدالعزیز، محمود عباسی کی پیروی کرتے ہیں اور ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے انھوں نے ‘آزادانہ تحقیق’ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا:
‘کربلاء میں جو ہوا وہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان ماقبل اسلام سے پہلے چلی آرہی لڑائی کا نتیجہ تھا۔’
سفیانی لبرل چند جدیدیت پرستوں کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ ‘واقعہ کربلاء’ کی تاریخ کا ‘عقلی/ ریشنل’ بنیادوں پہ جائزہ لیتے ہیں۔ جبکہ ان کے جو ناقد ہیں وہ ‘جذباتی’ بنیادوں پہ ‘واقعہ کربلاء’ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ ان کے ناقد اندھی اعتقاد پرستی کا شکار ہیں۔
اموی مارکس واد یا بوتیک لیفٹیے ‘واقعہ کربلاء’ کو ایک قبائلی یا اقتدار کی ہوس میں لڑی جانے والی لڑائی کا کلیشہ بناتے ہوئے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ مارکس کے تاریخ کے مادی تصور کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نتیجہ پہ پہنچے ہیں کہ یہ واقعہ ‘دو قبیلوں ‘ کی باہمی لڑائی کا نتیجہ تھا اور اس میں کسی ایک گروہ کو ‘انقلابی و مظلوم’ اور دوسرے کو ‘رجعت پرست و ظالم’ قرار دینا سرے سے غلط ہے۔ ان کے خیال میں یہ ‘حکمران طبقے’ کے اندر ہی باہمی لڑائی اور جنگ تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ‘سفیانی لبرل ‘ ہوں یا ‘اموی مارکس واد’ یہ دونوں امویوں کے قائم کردہ ‘سوشل آڈر’ کو تعریفی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بس اس تعریف کا بیانیہ بلحاظ اصطلاحات مختلف ہے۔
لبرل سفیانی اموی سوشل آڈر کو عقلی/ ریشنل، روشن خیال/ان لائی ٹینڈ قرار دیتے ہیں اور اس بناء پہ وہ یزید کو عقلیت پسند/ ریشنلسٹ کردار کا حامل کہتے ہیں۔
اموی مارکس واد اموی سوشل آڈر کو اس وقت کے عرب سماج میں ترقی کا اگلا قدم اور اموی سوشل آڈر نافذ کرنے والوں کو ترقی پسند پیداواری قوتوں کے نمائندہ قرار دیتے ہیں اور دوسرے معنوں میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کا مدمقابل شیعان علی کا گروہ غیر انقلابی،رجعت پرست، پیداواری قوتوں کی ترقی میں روکاوٹ پیدا کرنے والے سماجی گروہوں کا نمائندہ تھا۔
لبرل سفیانی اور اموی مارکس واد دونوں اموی سلطنت / امیہ ایمپائر کے پھیلاؤ اور اس کے کے پھیلنے کے عمل کو تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور وہ اسے کہیں پہ بھی مذمتی انداز نظر سے دیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔
سفیانی لبرل اور اموی مارکس وادیوں کا پس منظر
یہاں پہ سفیانی لبرل اور اموی مارکس وادیوں کا دیوبند سے نکلنے والی اموی نواز سیاسی اسلام پسندی کی لہر کے ہر اول دستے کی فکر سے اشتراک صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اموی نواز سیاسی اسلام پسند دیوبندی شیخ ابن تیمیہ سمیت قرون وسطی کے اموی نواز سیاسی اسلام پسند دانشوروں کی ہمنوائی کرتے ہوئے اموی سلطنت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ یزید ان کی نظر میں ایک عادل، پاکباز،اسلامی اصولوں کا پیرو حاکم تھا اور اس کا مسند اقتدار پہ بیٹھنا بھی جائز تھا اور اموی حاکموں نے اسلامی سلطنت کی توسیع عین اسلامی اصولوں کے مطابق کی اور اموی سلطنت کے خلاف اٹھنے والی تحریکیں فتنہ، سازش، تھیں جو ساسانی،مجوسی،نصرانی باقیات کی سازش تھیں۔
اس تفصیل سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ صرف اصطلاحوں کے استعمال کا فرق ہے لیکن مطلب ایک ہے اور یہ تینوں گروہ مختلف راستوں سے ایک ہی نتیجے پہ پہنچتے ہیں۔
اموی نواز دیوبندی سیاسی نظریہ کو دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھنے والے ہوں یا ان کے بعد آنے والے بڑے اہم اور نمایاں رہنماء ہوں نے ہی رد کردیا تھا۔ ان میں اگر تفصیل سے بہت وضاحت سے عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ کسی نے رد کیا تو وہ علامہ انور شاہ کاشمیری ہیں۔
اموی نواز دیوبندی سیاسی نظریہ کو دوسرا بہت بڑا چیلنج سید ابوالاعلی مودودی اور ان کے شاگرد جسٹس ملک غلام علی نے دیا اور ان کی نظریاتی بیخ کنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اموی نواز دیوبندی سیاسی نظریہ کو خود جمہور سنّی اسلام کے نظریہ سازوں نے بھی زبردست چیلنج دیا اور ان کی اس بڑے پیمانے پہ مخالفت ہوئی کہ جمہور دیوبندی علماء کو ایک متفقہ فتوی لکھ کر عوام کے سامنے پیش کرنا پڑا کہ علمائے دیوبند کا جمہور قیام امام حسین کو ہی ٹھیک خیال کرتا ہے اور یزید کو غاصب،فاسق و ظالم حاکم سمجھتا ہے اور اسے خون امام حسین کا ذمہ دار خیال کرتا ہے۔ اور ایک طویل عرصہ تک ‘ اموی نواز دیوبندی نظریہ’ اور اس کے حامل بے نام و گمنام ہوگئے۔ ان لوگوں کی کتابوں اور ان کے ناموں کو نئی زندگی اور خود دیوبندی مکتب میں پھر سے راہ دکھانے میں لال مسجد والوں اور سپاہ صحابہ والوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
اگر آپ اموی حاکموں کے ‘عقلیت پسند’ اور ‘ترقی پسند’ ہونے کا پرچار کرنے اور واقعہ کربلاء کو ‘قبائلی جنگ’ قرار دینے والے لبرل اور مارکس واد کی پروفائلنگ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثریت لبرل یا مارکس واد لیبل لگانے سے پہلے ‘اموی نواز دیوبندی نظریاتی’ رہی ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد ‘محمود عباسی’ کو اپنا ‘ناخدا’ تسلیم کرتی رہی ہے۔ اور کئی ایک ایسے ملیں گے جن کا ‘ ریشنل ازم’ تک پہنچنے کا سفر ‘ غلام احمد پرویز’ کی فکر سے شروع ہوا تھا۔
علوی تحریک کی سماجی مادی بنیادیں
اب میں آتا ہوں اس سوال کی جانب کہ علوی تحریک کی مادی /سماجی بنیادیں کیا تھیں؟ کیا علوی تحریک کے حامی کسی قبیل داری جذبہ عصیبت کے تحت علوی تحریک میں جمع ہوئے تھے؟
طبقات ابن سعد، تاریخ طبری ، ابن اعثم کوفی، بلاذری سمیت ابتدائی کتب ہائے تاریخ میں ایک چھوٹا سا واقعہ درج ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب ثقیفہ بنو سعد میں مسلمانوں کی اکثریت نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ مقرر کردیا تو اس وقت ابو سفیان حضرت علی المرتضی کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ‘ کیا اب بنو تمیم کے بکریاں چرانے والے ہم پہ حاکم ہوں گے۔ اے علی ہاتھ آگے بڑھاؤ میں مدینہ و مکّہ کی گلیاں تمہاری حمایت میں قریشی نوجوانوں سے بھردوںگا۔’ اس پہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ابوسفیان کی اس گفتگو کو ‘زمانہ جاہلیت کی قبائلی عصبیت’ سے لتھڑی قرار دیکر رد کردیا۔
طبقات ابن سعد میں حضرت علی المرتضی سے آپ کے چچا حضرت عباس سے اس وقت کی ایک گفتگو کا ذکر ملتا ہے جب حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور ایک مجلس شوری خلافت کا تعین کرنے کے لیے مقرر کردی گئی اور اس نے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کردیا۔ حضرت عباس حضرت علی کو فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو ‘ ثقیفہ بنو ساعد میں مہاجر و انصار صحابہ کے اجتماع’ کی خبر دیکر جانے کو کہا آپ نہیں گئے اور پھر مجلس شوری میں جانے سے منع کیا آپ نہیں رکے اور میں نے آپ کو بنو ہاشم کے نوجوانوں کے ساتھ ان فیصلوں کے خلاف کھڑے ہونے کو کہا آپ نے میرا مشورہ نہیں مانا۔
یہ دوامثال میں نے بطور خاص درج کی ہیں۔ کچھ داخلی شہادتیں اس معاملے میں بہت کارآمد ہیں۔ آپ معاویہ ابن سفیان،عمرو بن العاص کو لکھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خطوط پڑھیں اور خاص طور پہ وہ خطوط جو آپ نے ان خطوط کے جواب میں لکھے جن میں معاویہ ابن سفیان نے ایک تو قبائلی شرف کی بحث چھیڑی اور دوسرا اس نے اعمال اور سبقت اسلام وغیرہ کے تناظر میں افضلیت اور برتری کی بحث چھیڑی۔ آپ نے اپنے سیاسی موقف کے بیان میں کہیں بھی قبائلی شرف اور قبیل داری بنیادوں کو بنیادی حوالہ نہیں بنایا اور آپ کے خطبات، خطوط اور مکالمے میں بلکہ ‘قریش اشرافیت’ کے خلاف بہت سخت ردعمل موجود ہے۔ ماقبل اسلام قبائلی تفخر پہ آپ کے انتہائی سخت جملے موجود ہیں۔
ایک اور تاریخی شہادت یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جب جنگ جمل لڑنے کے لیے مدینہ سے عراق آئے تو آپ کے ساتھ کل ایک ہزار افراد کا لشکر تھا اور اس لشکر میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جن کا تعلق عراق اور مصر سے تھا جو حج کے موقعہ پہ مدینہ میں موجود تھے۔ جبکہ مدینہ سے آپکے ساتھ آنے والوں کی پروفائلنگ آپ کو یہ بتادے گی کہ اس لشکر میں آپ کے ساتھ بنو ہاشم کی خود اشرافیہ اور نوجوانوں میں بھی بہت کم لوگ تھے اور ان میں انصار صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد تھی اور ساتھ ساتھ اس میں جید مہاجر صحابہ کی تعداد تھی اور اس طرح سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا جو کیمپ تھا اس کی لیڈر شپ میں بھی ہمیں اشراف قبائل کا غلبہ نظر نہیں آتا۔ اور ایسے ہی آپ نے جن لوگوں کو بلاد اسلامیہ کا گورنر مقرر کیا ان میں بھی ایک بھی ہاشمی نہیں تھا۔
کوفہ کی ساتویں صدی عیسوی/ پہلی صدی ہجری میں سماجی گروہ بندی کا پہلی بار مادی ٹھوس سائنسی تاریخی اصولوں کے ساتھ اگر کسی شخص نے جائزہ لیا تو وہ مارٹن ہنڈز تھا۔
میں یہاں پہ مارٹن ہنڈز کے مقالے کے ابتدائی دو پیرا گراف کا حوالہ دے رہا ہوں اور میں یہ طویل پیرا گراف دینے پہ مجبور ہوں
The years from 34/654-5 to 40/660-I were a time Egypt and the Fertile Crescent-a crisis which began with arose under ‘Uthman and led to his murder, continued ‘Ali and Mu’awiya, and ended with the murder of ‘Ali’s death we can discern at Kufa three broad political preceding circumstances it is the purpose of this article Khwarij, who had been so named since the time of the confrontation appeared in opposition both in the time of ‘All and Shi’a, who had originally been ‘Ali’s supporters and were movement thereafter; and tribal leaders, usually termed ashraf the intermediaries in the official power structure period. The regime in ‘Iraq from the time of Mu’awiya and Ziyad until the time of al-Hajjaj rested on a tribal organization in which tribal leaders were supposed to support, and were in turn supported by, the government.
The pre-Islamic clan organization was the essential basis, but in the changed environment of a central government and the garrison towns of Kufa and Basra. Fighting men (muqdtila) were organized in tribal groups which in turn made up the arbd’ and akhmds of Kufa and Basra; each tribal group was made up of clans, and the units known as ‘irafat were straight-forward subdivisions of these. The ashrdf al-qabd’il were the ‘establishment’ of Iraq, and central autho- rity, whether Umayyad or Zubayrid, was concerned to exercise power both over and through them. This state of affairs changed only with the appointment of al-Hajjaj, the introduction of Syrian troops into ‘Iraq and the revolt of the most prominent of the ashraf al-qabail, ‘Abd al-Rahman b. Muhammad b. al-Ash’ath b. Qays al-Kindi.
What then of the Khawarij and the Shi’a in the early Umayyad period? The main conclusion to which this article seeks to point is that Khariji and Shi’i opposition of that period was not so much directed against central authority per se as against the authority of the tribal leaders through whom that central authority was exercised. Their opposition differed in that at that stage the Khawarij were essentially reactionaries and the Shi’is revolutionaries, but they were at one in that they were advocates of an Islamic social order which had no place for the traditional type of tribal leadership. Their ideas of the form that this Islamic social order should take naturally differed; the Khawarij harked back to the disorganized days of ‘Umar, while the Shi’a idealized the egalitarian policy of ‘All and gradually evolved the notion of an infallible imam.
The formative stages of each were conditioned by their opposition to the existing tribal order. In the case of the Khawarij, it can be noted that the very word khadriji is defined as ‘one who goes out and acquires sharaf on his own account, without his having possessed a long-standing [sharaf]’.’ In traditional tribal terms, sharaf reposed in ‘one who has three consecutive forbears as leaders and is himself the fourth; the bayt of a tribe (qabila) [then rests] in him’.2 In these terms ‘ Khawarij’ simply meant people who claimed sharaf but did not possess tribal sharaf according to traditional criteria; what the Khawarij did in fact claim was an ‘Islamic’ sharaf and the attendant privileges accorded to ‘Iraqi early- comers in the time of ‘Umar, and it was in defence of these that they clashed with government-backed tribal leaders.
The Shi’a in the early Umayyad period consisted (i) of some Kufan early- comers who had been among ‘Ali’s supporters but subsequently had no role to play in the government-backed tribal organization (e.g. IHujr b. ‘Adl al- Kindi, who was totally eclipsed by Muhammad b. al-Ash’ath al-Kindi), and (ii) predominantly of newcomer tribesmen, many of whom had not reached Kfifa until the time of ‘Ali or later, who resisted the authority of the established tribal leadership in the hope of bettering their condition. Certain Kindi, Ham- dani and Bajali groups who first emerge as ‘Ali’s most zealous supporters re- emerge as supporters of Hujr b. ‘Adi, al-Husayn b. ‘Ali and al-Mukhtar b. Abi ‘Ubayd. In the extremely detailed, almost step-by-step account by Abu Mikhnaf of the victory of al-Mukhtar over the tribal leaders,’ it becomes abundantly clear that al-Mukhtar’s Kufan support was in the tribaljabbdnas and that the tribal leaders themselves lived in Kufa proper.
Now whatever the jabbdnas had been at an earlier stage of the evolution of the city of Kufa – whether graveyards or simply open spaces for the grazing and watering of animals- it is plain that by that stage they had been built upon as more people settled at Kufa; they had been the obvious, indeed the only, places where newcomers during the previous twenty odd years had been able to settle. When al-Mukhtar revolted, the tribal leaders went out and unsuccessfully tried to take control of their respective jabbdnas; thereafter they were concerned to prevent the Shi’a from entering ‘old’ Kufa, as the attention paid by Abu Mikhnaf to fighting where the streets debouched (afwdh al-sikak) shows.2 When they entered ‘old’ Kffa, the Shi’a besieged the tribal leaders in the citadel. Their shortlived victory was one of rebellious tribesmen over the established tribal leadership. The important point about al-Mukhtar’s famous rantings was that they foretold a collapse of the established tribal leadership and a redistribution of wealth.3
ھجری کا سال 34 تھا اور عیسوی سال تھا 645-55 جب مصر اور عراق میں ایک بحران شروع ہوا اور اس وقت حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی۔اور اس بحران کی ایک انتہا حضرت عثمان ابن عفان کی شہادت تھی اور یہ بحران بعد ازاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں بھی جاری رہا اور اس کا ایک اور موڑ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت تھی۔ اوریہ 40ھجری/660-1عیسوی کا سال تھا۔اس موقعہ پہ ہمیں کوفہ میں تین بڑے سیاسی کیمپوں کے ابھار کا پتا چلتا ہے۔ ایک خوارج کا کیمپ تھا جو کہ حضرت علی کے سیاسی کیمپ سے صفین کے موقعہ پہ صلح مابین اہل عراق و شام کے معاملے پہ اختلاف کرتے ہوئے الگ ہوگئے تھے۔ دوسرا سیاسی کیمپ قبائلی زعماء پہ مشتمل تھا جوکہ عراق کے سرکاری طاقت کے ڈھانچے میں اموی ادوار میں عمومی طور پہ وچولوں کا کردار ادا کرتے رہے۔عراق میں معاویہ اور یزید کے زمانے سے لیکر حجاج کے دور تک کے رجیم ایک قبائلی تنظیم پہ ٹکا ہوا تھا جس میں قبائلی زعماء سے حمایت اور مدد لی جاتی اور بدلے میں حکومت ان کی مدد کرتی تھی۔
ماقبل اسلام سے پہلے کی جو قبائلی تنظیم کاری تھی وہ بنیاد تھی لیکن ایک مرکزی حکومت اور کوفہ و بصرہ کی چھاؤنی شہروں کی وجہ سے فضا بدل گئی تھی۔ لڑنے والے افراد جن کو مقاتلہ کہا جاتا تھا ان کو بھی قبائلی تقسیم کے مطابق منظم کیا گیا تھا اور یہ کوفہ و بصرہ کے عرب اور اخمس کہلاتے تھے۔ ہر ایک قبائلی گروپ میں بہت سے زیلی قبیلوں کی شاخوں اور اکائیوں سے بنا تھا جو اردف کہلاتے تھے اور سیدھے سبھاؤ ان کی ذیلی تقسیم تھے۔ اشراف القبائل عراق کی اسٹبلشمنٹ تھے اور مرکزی اتھارٹی تھے۔ اب اموی ہوں یا زبیری ہوں دونوں نے پاور اور اقتدار کی مشق ان کے زریعے سے ہی کی تھی۔ یہ صورت حال بس حجاج کے گورنر بننے سے تبدیل ہوئی جب اس نے عراق میں شامی فوج متعارف کرائی اور اس پہ زیادہ تر جو اشراف القبائل میں سے بہت ممتاز تھے جیسے عبدالرحمان بن محمد بن اشعث بن قیس الکندی نے بغاوت کردی تھی۔
تو ابتدائی اموی دور میں شیعہ اور خوارج کا کیا تھا؟ بنیادی خلاصہ جس کی اس مضمون میں تلاش کی گئی وہ یہ نکتہ ہے کہ اس دور کے شیعہ اور خوارج کی حزب اختلاف مرکزی حکومت کی اتھارٹی کے خلاف اتنی نہیں تھی جو اپنا اقتدار ان اشراف قبائل کے زریعے سے قائم رکھتی تھی جتنی یہ اشراف القبائل کے خلاف تھی۔
اس مرحلے پہ خوارج اور شیعہ کی مخالفت اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خوارج کی مخالفت اگر رجعت پرستانہ تھی تو شیعہ کی مخالفت انقلابی تھی لیکن دونوں کیمپوں کا اسلامی نظاموں کا تصور تھا اس میں روایتی قبائلی لیڈرشپ کا کوئی کردار نہیں بنتا تھا۔ان کے ہاں اسلامی نظم و ضبط کا تصور مختلف ہونا لازم تھا۔
خوارج حضرت عمر کے زمانے کے ابتدائی دور بے نظمی میں واپس جانا چاہتے تھے تو شیعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی برابری کا سلوک والی پالیسی کو واپس لانا چاہتے تھے۔
ان میں سے ہر ایک سیاسی کیمپ کے جو تشکیل کے مراحل تھے ان کا انحصار ان کی موجود قبائلی نظم کی مخالفت سے جڑا ہوا تھا۔ خوارج کے معاملے میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ لفظ خارجی کا مطلب تھا کہ ہر وہ فرد جو قبائلی نسب سے شرف کو جوڑنے سے انکاری ہو اور قبائلی نظم سے باہر آئے اور خود اپنے اعمال کی بنیاد پہ شرف کو حاصل کرلے اور شرف کے لیے یہ ضروری نہ ہو کہ وہ نسبی اعتبار سے بھی صاحب شرف ہو۔ جبکہ روایتی قبائلی اصطلاحوں میں شرف اسے حاصل ہوتا تھا جو کم از کم تین پیڑھیوں سے قبائلی لیڈر چلا آرہا ہو اور وہ آپ بھی قبائلی لیڈر ہو اور تیسرا اس کا قبیلہ اس کے ہاتھ پہ وفاداری کی بیعت کرچکا ہو۔ اس اعتبار سے خوارج وہ تھے جو صاحب شرف ہونے کا دعوی کرتے تھے لیکن روایتی کرائی ٹیریا کے مطابق وہ یہ شرف نہیں رکھتے تھے۔دراصل خوارج اس شرف/عزت کے مقام اور مراعات کا مطالبہ کررہے تھے جو حضرت عمر کے زمانے میں عراق میں ابتداء میں آنے والوں کو حاصل ہوا تھا۔ اور یہ اسی شرف اور مراعات کا دفاع تھا کہ ان کا تصادم حکومتی حمایت یافتہ قبائل سے ہوگیا۔
شیعہ کیمپ میں موجود لوگوں کا تعلق یا تو کوفہ میں آباد ہونے والے والے ایسے ابتدائی باشندوں میں سے تھا لیکن حکومتی حمایت یافتہ قبائلی تنظیم میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ مثال کے طور پہ حجر بن عدی الکندی جو کندہ قبیلے سے تھے ان کو محمد بن اشعث الکندی نے حکومتی حمایت یافتہ قبائلی درجہ بندی میں بالکل ہی پیچھے دھکیل دیا تھا۔ یا پھر یہ وہ لوگ تھے جو نئے قبائلی افراد تھے جو یا تو حضرت علی کے دور میں کوفہ پہنچے یا وہ بعد میں آئے اور انہوں نے پہلے سے قائم قبائلی قیادت کی اسٹبلشمنٹ کے خلاف اس امید پہ مزاحمت کی کہ اس سے ان کے حالات میں بدلاؤ آئے گا۔
کندی،ہمدانی اور بجلہ قبائلی گروپوں میں ایسے قبائل تھے جو پہلے تو حضرت علی کے زبردست حامی کے طور پہ سامنے آئے اور پھر یہ حجر بن عدی، امام حسین بن علی اور پھر مختار بن عبید ثقفی کے سب سے بڑے حامی بنکر سامنے آئے۔ ابو مخنف نے مختار ثقفی کی فتح کی تمام جزئیات کے ساتھ جو داستان رقم کی ہے اس سے یہ تو پتا چل جاتا ہے کہ مختار کی کوفہ میں جو حمایت تھی وہ کوفہ کے جبانہ میں وہنے والے قبائیلوں اور پراپر کوفہ شہر میں رہنے والے قبائلی رہنماؤں کی تھی۔ اب جبانہ سے کوفہ شہر کے ارتقاء کے ابتدائی مرحلے میں مراد چاہے قبرستانوں سے ہو یا سادہ طور پہ اس سے مراد جانوروں کے چرنے اور پانی پلانے کے لیے مختص جگہیں ہوں اس سے مراد بہرحال وہ سطح مرتفع تھی جو کوفہ میں جب زیادہ لوگ آباد ہوگئے تو بنائی گئی تھی۔ اور ظاہر ہے کہ یہی وہ جگہیں ہوسکتی تھیں جہاں پہ گزشتہ 20 سالوں میں آنے والے نئے لوگ آباد ہوسکتے تھے۔
جب مختارثقفی نے بغاوت کی تو قبائلی سردار کوفہ شہر سے باہر بنے جبانہ پہ قابض ہونے کے لیے آئے اور انہوں نے جبانہ کا قبضہ لینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد انہوں نے شیعہ کو پرانے کوفہ میں آنے سے روکنے کی کوشش کی اور جیسا کہ محنف نے کوفہ کی گلیوں میں اور بازاروں میں لڑائی کا منظر دکھایا ہے۔ جب وہ پرانے کوفہ میں داخل ہوئے تو شیعہ نے قبائلی سرداروں کا قلعہ میں گھیراؤ کرلیا۔ اگرچہ یہ فتح زیادہ دیر باقی نہیں رہی لیکن یہ بہرحال باغی قبائیلوں کی قبائلی لیڈر شپ پہ مشتمل اسٹبلشمنٹ کے خلاف پہلی کامیاب بغاوت تھی۔اہم نکتہ یہ ہے کہ مختار ثقفی کے جو سب سے زیادہ انقلابی اور باغیانہ نعرے تھے ان میں سے ایک قبائلی اشرافیہ کے غلبے کا خاتمہ اور دوسرا دولت کی تقسیم نو تھا۔
اس تفصیل سے آپ یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جو لوگ قیام حسین کو بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان اقتدار کی جنگ کا منطقی/عقلی نتیجہ بتلاتے ہیں یا اسے دو کزنز کی لڑائی کہتے ہیں وہ کس قدر غلط ہیں۔ اور یہ نتیجہ بھی اس تفصیل سے نکلتا ہے کہ کوفہ میں جو سیاسی صف بندیاں تھیں ان میں شیعان علی کا گروہ تو کھڑا ہی بنوامیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے والی عراقی اسٹبلشمنٹ کے خلاف جو اشراف القبائل پہ مشتمل تھی اور وہ حضرت علی کے دور کی سماجی برابری کے سوشل آڈر کی بحالی کی جنگ لڑرہی تھی۔