شعیب میر : ایک جیالا خلاق فطرت نہ رہا – عامر حسینی

میں تحصیل کبیروالا ،ضلع خانیوال کے نواحی چک 20 وہنوئی میں ایک دوست کے ہاں افطار کی دعوت پہ آیا ہوا تھا۔ہم کھتیوں کے سامنے بنے دوست کے گھر کے سامنے چارپائیوں پہ بیٹھے تھے۔میرے ساتھ محمد امین وارثی اور سلیم سپرا تھے۔اچانک میں نے حجاجی کی پوسٹ فیس بک پہ دیکھی۔اس پوسٹ میں شعیب میر کے گزرجانے کا ذکر اور ان کے نماز جنازہ کی اطلاع تھی۔

خبر انتہائی غم و اندوہ والی تھی اور مجھے ایک لمحے کے لیے ساکت کرگئی۔میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔میں شعیب میر صاحب کی فیس بک وال پہ گیا تو وہاں ان کی بیٹی نے سٹیٹس لکھا تھا جو حجاجی کی دی گئی خبر کی تصدیق کررہا تھا۔میں شعیب میر کے موبائل فون نمبر پہ تعزیتی پیغام بھیجا جو شاید ان کی بیٹی کے پاس تھا۔یہ موبائل فون نمبر مجھے ایک دوست کی وساطت سے ملا تھا۔

شعیب میر کا انتقال پرملال پاکستان میں ایک ایسی فضا میں ہوا ہے جب جعلی دانشوروں کا دور دورہ ہے۔اور کمرشل ازم بھی بہت گھٹیا قسم کا ہوچکا ہے۔ تھڑدلے لکھاریوں اور دانشوروں نے فضائے دانش کو مکدر بنادیا ہے۔

میں شعیب میر کی ذاتی زندگی بارے کچھ نہیں جانتا تھا۔ میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پہ ان کا دوست بنا اور ان کی وقفے وقفے سے پاکستانی سیاست،معاشرت ، تاريخ اور آرٹ پہ کی جانے والی پرمغز،خیال آفریں پوسٹوں کو پڑھ پڑھ کر خود کو ان کے نیاز مندوں میں شمار کرنے لگا۔

وہ اکثر وبیشتر میری پوسٹوں کو لائک کرتے، اس پہ کمنٹ کرتے اور تجویز کرتے پائے جاتے تھے۔جب کبھی ان کا لائک مجھے ملتا یا ان کا کمنٹ آتا تو میں خوشی سے نہال ہوجاتا تھا۔

وہ پاکستان پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی سیاست سے جڑے پہلوؤں کے عاشق تھے اور وہ شاید ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جو پلٹ پلٹ کر ذوالفقار علی بھٹو کی ناحق پھانسی کی یاد دلاتے رہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اس قتل پہ آواز اٹھاتے رہیں گے جب تک ریاستی سطح پہ اس قتل کو قتل ناحق تسلیم نہیں کیا جاتا اور ذوالفقار علی بھٹو کو ریاستی سطح پہ شہید قائد عوام نہیں مان لیا جاتا۔

شاہ ور علی خان نے شعیب میر بارے ایک تعزیت نامہ تحریر کیا ہے۔اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ان کے شایان شان تعزیت نامہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
خلاق مصنف،اشتہار سازی کے گرو،میڈیا مہان،باغی،نابغہ،استاد اور اپنے ملک پیک سلوگن ‘خالص ہی سب کچھ ہے’جیسے مشہور سلوگن کے خالق کے طور پہ واقعی ‘خالص جذبے’ کے آدمی تھے۔

میں کل ان کو قبرستان میں الوداعی سلام کرکے واپس لوٹا تو مجھ پہ ان کی روشن یادوں نے جیسے حملہ کردیا۔مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو،جب میں تعلیم مکمل کرکے امریکہ سے لوٹا تھا اور ایک کارپوریٹ ملٹی نیشنل برانڈ/سیلز کی دنیا میں ایک گلوبل آئل کمپنی کے لیے کام میں بری طرح سے پھنسا ہوا تھا۔
میرے اندر لکھنے اور موسیقی کا لازوال جذبہ تھا اور میں کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتا تھا۔

تو اپنے تذبذب اور کنفیوژن کی ردتشکیل کرنے کے لیے،میں نے اپنی اس متضاد حالت کو شعیب صاحب کے ساتھ ڈسکس کیا۔وہ اس وقت مولن لوئے اینڈ روؤف میں ایگزیگیٹو کریٹو ڈائریکٹر اور جنرل مینجر تھے۔انہوں نے مجھے سختی سے ایک محفوظ اور پرآسائش کارپوریٹ کرئیر کو چھوڑ کر ایک غیر محفوظ اور ناقابل پیشن گوئی اشتہارات/میڈیا /کریٹو ورلڈ میں داخلے سے پیدا خطرات بارے خبردار کیا۔پھر بھی انہوں نے انتہائی گہرائی تک غوطہ لگانے پہ اکسایا اگر میرے اندر کی پکار سچی تھی۔

انہوں نے مجھے ہائر کرلیا۔ وہ ایک نابغہ تھے۔یا مجھے ان کو ‘جیالا نابغہ’ کہنا چاہئیے۔ان کی شاگردی میں، میں نے نہ صرف خیال/سکرپٹ/کاپی رائٹنگ اور جنون کی حدوں کو چھولینے والے طریقے سیکھے۔لیکن ان سے سب سے اہم بات میں نے یہ سیکھی کہ کیسے کسی بھی جذبے کی بے باکی سے تسکین کی جاتی ہے۔ ان میں بالکل ایک باغی کی روح تھی۔ ان کی بچوں جیسی توانائی متعدی تھی۔

بعد میں انٹرٹینمنٹ،موسیقی، گیت، اداکاری، تخلیقی نثر،اشتہاری فلم ورک میں میری مہم جوئی اور اس کے ساتھ میری اپنی اشتہاری کریٹو ہاٹ شاپ،فارغ فور سب پہ شعیب صاحب کی باغی روح کا کہیں نہ کہیں ،کچھ نہ کچھ توانا اثر موجود رہا۔
وہ رہنمائی کرنے، ہمیشہ رابطے میں رہنے اور ہمیشہ مثبت پیغامات اور احساسات کو بھیجنے میں بہت مہربان تھے۔

ہمارے درمیان بہت کچھ مشترک تھا: زبان/الفاظ/شاعری کی طرف کشش ،ترقی پسند اور جمہوری اقدار پہ ہمارا پختہ ایقان (میں ضیاء دور میں ان کی طرف سے سنائی شاہی قلعہ جیل کی کہانیوں سے بہت جذبہ پاتا تھا)، موسیقی میں ایک ہی استاد (بشارت صاحب)

اور کرکٹ سے ہمارا شغف(اگرچہ وہ ایک مختلف سطح پہ تھے۔وہ فرسٹ کلاس کرکٹ امپائر رہ چکے تھے)

جب آخری بار قریب چھے سال بعد، ہم چھے ماہ قبل مشترکہ دوستوں کی شادی میں ملے تو ان کے چہرے میں وہی دلکش مسکراہٹ تھی اور ان کی وہی ابھارنے والی روح تھی۔میں خوش ہوتا تھا جب بھی وہ ملتے تھے۔کیونکہ میں نے ان کو بتارکھا تھا کہ میں ان کو ان کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ وجوہات سے اپنا گرو مانتا ہوں۔

اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے میری زندگی کا دھارا بدلا تھا اور مجھے میری طرف آنے والا راستا دکھلایا تھا۔بعد میں،وٹس ایپ میسج میں، میں نے ان کو بتایا تھا کہ کافی عرصے بعد ان کو دیکھنا میرے لیے کس قدر جوش بھردینے والا تھا۔انہوں نے میرے پیغام کا جواب جو ارسال کیا اسے میں درج کرتا ہوں

:
” شاہ ور میں بھی تمہیں اور روحما کو کافی دیر بعد دیکھ کر خوش ہوا ہوں۔اور خاص طور پہ جان کر کہ تم اس راستے پہ ہو جو تمہاری امنگ اور تمہارے پیشے دونوں کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے۔اسے یونہی اچھے سے کرتے رہو۔”

میں اپنی سی بہترین کوشش کروں گا سر!میری رانمائی اور مجھے بہتر کرنے پہ اکسانے کا کام وہاں اوپر سے کرتے رہیے گا باس!آپ کی کمی بہت محسوس ہوگی۔ہمیشہ شانت رہیں آپ ۔بہت پیار اور سلامتی
———
انکل حجاجی اکثر نسل انسانی کے بارے میں بہت سنکی سا رہتا تھا۔لیکن بہت سے پاکستانی جیسے مرحوم شعیب میر ہوئے ایسے ہوتے ہیں جن کی یاد منائی جانا چاہئیے۔شاہ ور علی خان نے ایک عظیم مضمون لکھا ہے۔

Comments

comments