مدیحہ گوہر کے گزرجانے پہ جی بہت اداس ہے – ریاض ملک

اسّی کی دہائی کے تاریک ترین دور میں جب امریک کا حمایت یافتہ آمر جنرل ضیاء الحق شہری و سیاسی حقوق پامال کررہا تھا تو مدیحہ گوہر بھی مزاحمت کے چند بڑے ناموں میں سے ایک تھیں۔

( کیونکہ ضیاء آمریت کے کالے قوانین اور عورتوں بارے خاص طور پہ امتیازی قوانین بنانے کے خلاف بننے والے حقوق نسواں کے سب سے بڑے متحرک محاذ پاکستان ایکشن فورم کی وہ نمایاں لیڈنگ خواتین رہنماؤں میں شامل تھیں اور ضیاء الحق کے خلاف مال روڈ پہ عورتوں کے تاریخی جلوس کا حصّہ تھیں اور وہ اس جلوس کے اسیران میں شامل تھیں۔دو دفعہ وہ ضیآء الحق دور میں جیل گئیں اور ان کو نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے)

مجھے خاص طور پہ پاکستان ٹیلی وژین کا ڈرامہ نیلے ہاتھ یاد ہے جو پاکستان کی جیلوں میں بند خواتین سے تباہ کن بدسلوکی بارے تھا۔ اس کا مرکزی کردار مدیحہ گوہر کا تھا جو ایک سیاسی قیدی بنکر جیل پہنچتی ہیں اور پھر ان کے زریعے ہمیں قیدیوں کی حالت زار اور جیل کی زندگی ان کی آنکھوں کے زریعے سے دکھائی جاتی ہے۔ یہ ڈرامہ ان کے شوہر ندیم شاہد نے لکھا تھا اور آج بھی یہ ڈرامہ ” اورنج از دا نیو بلیک” مقبول ٹی وی شوز کی طرح سپر ہٹ ڈرامہ ہے۔

(ریاض ملک سے یہاں غلطی ہوئی انہوں نے لکھا کہ ندیم شاہد ان کے مستقبل کے ہونے والے شوہر تھے جبکہ نیلے ہاتھ انیس سو اٹھاسی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آنے کے بعد پی ٹی وی پہ آن ائر گیا اور 90ء میں نگران حکومت کے وقت یہ ڈرامہ بند کردیا گیا تھا اور ندیم شاہد سے مدیحہ گوہر نے شادی لندن میں کرلی تھی اور واپس آکر 1984ء میں انہوں نے اجوکا تھیڑ کی بنیاد ملکر رکھی تھی )

مدیحہ اور ندیم نے ایسے وقت میں مزاحمت کی جو مزاحمت اور تاریکی دونوں سے عبارت تھا۔

ہم سب واقف ہیں کہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے 11 سالہ تاریک ترین دور کی یادیں تحلیل کرنے اور ابہام کے پردے میں لیپٹ کر رکھنے کی بھرپور کوششیں ہوئی ہیں۔ ہم پاکستان کے لیفٹ-لبرل کے ایک برائے فروخت حصّے کی جانب سے اس بارے ترمیم پسندی کے سامنے آنے سے بھی واقف ہیں جو کہ نواز شریف کی طرح کے ضیاء پرستوں کے مالشیوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔

مدیحہ اور ندیم کے پی ٹی وی اور ان کے اپنے اجوکا تھیڑ کے لیے کیے گئے کام کی بدولت سے ہم اس تاریک دور میں جو ہوا اس سے واقف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کس نے مزاحمت کی اور کون بک گیا۔ ہمیں شکریہ کے ساتھ مدیحہ و ندیم جیسے فنکاروں کی اداکاری اور تحریروں کو شکریہ کے ساتھ یاد رکھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریک ترین گھڑیاں تھی اور یہ کہ وہ تاریکی ہمارے حال میں بھی رس رس کر آرہی ہے۔

اس زمانے میں بے نظیر بھٹو اور بيگم نصرت بھٹو حقیقی زندگی میں مزاحمت کاری کی علامت تھیں اور ہم کیسے بیگم نصرت بھٹو کے سر پہ ایک پولیس افسر کی لگائی گئی ضرب بھول سکتے ہیں۔ اور وہ پولیس افسر رانا مقبول تھا جو اب نواز شریف کا ساتھی ہے۔ اس دور میں آرٹ نے زندگی کی عکاسی کی۔

آپ کی ہمت اور آپ کے فن کے لیے ۔مدیحہ جی ! آپ کا بہت بہت دھنے واد

Comments

comments