یمن کی کسی کو پرواہ نہیں ہے – عامر حسینی
انیس اپریل کی شام سعودی طیاروں نے یمن کے صوبہ حاج کے دارالحکومت میں ایک شادی کی تقریب پہ مزائیل برسائے جس میں دلہن سمیت 20 افراد ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ جبکہ سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس کا ہدف حوثی قبائل کی تنظیم کے سپریم پولیٹکل کونسل کے ڈپٹی چیف صالح عبدالصمد تھے۔لیکن اس حملے میں ایک بار پھر عورتیں، بچے اور سویلین مرد نشانہ بنے ہیں جو کہ یمن پہ مسلط جنگ کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
پاکستان کے سوشلستان میں یمن پہ ہوئے اس سعودی فضائی حملے میں عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کی خبر پہ کوئی زیادہ ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا۔ چند ایک لیفٹ، پروگریسو اور شیعہ و صوفی سنّی ایکٹوسٹ کے علاوہ کسی نے یمن پہ ہوئے تازہ سعودی فضائی حملے پہ وہ ردعمل نہیں دیا جو عام طور پہ گزشتہ دنوں افغانستان کے صوبہ قندوز کے ایک گاؤں میں ایک مدرسے پہ افغان فوج کی بمباری کی خبر حفاظ بچوں کے مارے جانے پہ دیکھنے کو ملا تھا۔
افغانستان میں دو دن پہلے کابل میں دشت آرچی محلہ میں ہوئے ووٹر رجسٹریشن سنٹر کے سامنے کھڑے لوگوں پہ خودکش بم دھماکہ میں 61 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس خودکش بم دھماکے میں مرنے والوں کی زیادہ تعداد افغان ہزارہ شیعہ برادری کی تھی۔اور ملکی و بین الاقوامی مین سٹریم میڈیا نے ان کی ہزارہ شیعہ شناخت کی جانب اشارہ تک نہ کیا۔
اس حملے پہ بھی بولنے والوں کی بڑی بھاری تعداد اہل تشیع اور صوفی سنّی کمیونٹی کے چند ایک سوشل اکاؤنٹس کی تھی۔
جبکہ اسی دن کوئٹہ ویسٹرن بائی پاس پہ دو ہزارہ شیعہ قتل اور ایک شدید زخمی ہوا۔ یہ واردات بھی شیعہ ہزارہ نسل کشی کا حصّہ تھی۔ لیکن مین سٹریم میڈیا نے حسب معمول ہزارہ شناخت کو ظاہر کی لیکن ان کی نسل کشی کی سب سے بنیادی وجہ ان کا شیعہ ہونے کی طرف اشارہ تک نہ کیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے فاٹا اور کے پی کے اور جنوبی بلوچستان کے اندر سے پشتونوں کی تحریک کے سامنے آنے کے بعد سے پاکستان میں لبرل اور لیفٹ کا ایک سیکشن خطے میں ‘طالبان دور’ کے خاتمے اور ‘مابعد طالبان دور’ کا نظریہ پیش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اور اس سیکشن کے اندر سے یہ خیال بھی سامنے آرہا ہے کہ جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف تحریک میں جامعہ حقانیہ ، سپاہ صحابہ اور طالبان نواز قوتوں کا تعاون بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے پوری دنیا میں جہاد ازم اور تکفیر ازم کی علمبردار ریاستوں اور غیر ریاستی قوتوں کے مظالم کے خلاف سوشلستان میں دیسی لبرل، ان کی تقلید کرنے والے لیفٹ گروپ اور دیوبندی و سلفی سوشل اکاؤنٹس کی جانب سے ردعمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے پاکستان کے اندر پہلے سے موجود تقسیم اور گہری ہورہی ہے۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یمن، شام ، افغانستان اور خود پاکستان کے اندر جہاد ازم، تکفیر ازم اور امریکی-سعودی-برطانوی-فرانسیسی اتحاد کی پالیسیوں کے سبب جس خون آشامی کا سامنا ہے اس سے ہپنے پڑھنے والوں کو باخبر رکھا جائے تاکہ وہ پاکستان کو فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پہ تقسیم کرنے والی قوتوں کے ایجنڈے سے خبردار رہیں۔
امریکہ-سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ کفن کی صورت جزیرۃ العرب میں موجود یمنی قوم اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے۔اس کی خواہش ہے کہ مین سٹریم میڈیا بھی اس کی حالت زار پہ توجہ دے۔
مین سٹریم میڈیا پہ یمن کے پڑوسی ملک شام میں جاری جنگ کی خبریں چھائی ہوئی ہیں۔ روس کے ساتھ سرد جنگ جیسا تناؤ ،امریکی صدر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ اور ان کی جنسی زندگی کی خبریں ہیں جن کو زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔
جب کبھی بین الاقوامی پریس یمن کی جنگ پہ روشنی ڈالتا ہے تو یہ اسے ایک فرقہ وانہ مسئلہ کے طور پہ پیش کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایک ویڈیو گیم ہے جس میں ایرانی پراکسیز سعودی عرب کے خلاف لڑرہی ہوں اور انسانی خون تو یہاں بہہ ہی نہ رہا ہو۔
لیکن مڈل ایسٹ کے سب سے غریب ملک میں حقیقی طور پہ جو ہورہا ہے وہ ہماری انسانیت کا حقیقی امتحان ہے۔ یہ ایک حقیقی آفت ہے۔ مصاغب اور موت کا سب سے بڑا طوفان اور ایسی بڑی نسل کشی ہے جیسی آپ نے کبھی نہ سنی ہوگی۔
زرا ان کھلے حقائق کو دیکھیں:
یمن کے لوگوں کے پاس نہ خوراک ہے، نہ ہی پانی اور نہ دوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 28 ملین کی آبادی میں آدھی سے زیادہ آبادی خوراک کی کمی کا سامنا کررہی ہے۔ بین الاقوامی امدادی رضاکاروں کے اندازے کے مطابق صرف گزشتہ ایک سال میں بھوک سے ڈیڑھ لاکھ یمنی مارے گئے۔ غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق 130 بچے روز مررہے ہیں اور زیادہ تر بچے سعودی عرب کی جانب سے بندرگاہوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے مررہے ہیں۔
اس کے علاوہ آدھے سے زیادہ ملک کا صحت کا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ سعودی عرب ہسپتالوں پہ فضائی حملے کررہا ہے، جہاں پہ زخمیوں کے علاج کے لیے ادویات نایاب ہیں۔ جبکہ ان حملوں کو امریکہ اور برطانیہ کی 26 مارچ 2015ء سے حمایت حاصل ہے،جب ان حملوں کا آغاز ہوا تھا۔
یمن میں مرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ہلال احمر کو ہسپتالوں کو مردہ خانے عطیہ کرنا پڑ رہے ہیں۔ اور یہی نہیں کہ فوجی حملوں سے اموات میں بے تحاشا اضافہ ہوا بلکہ اس فوجی مہم جوئی نے نہ صرف القاعدہ کو مضبوط کیا ہے بلکہ گروپ کو رائٹر خبررساں ایجنسی کے مطابق اور زیادہ امیر کردیا ہے۔
سعودی عرب یمن کے کسی بھی سفارتی حل کو بلاک کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ ریاض نے اقوام متحدہ کودی جانے والی تمام تر امداد اس وقت روک دینے کی دھمکی جب اقوام متحدہ سعودی عرب کو ‘بچوں کے خلاف جارحیت’ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اس کا نام ڈالنے جارہی تھی۔ اور اس طرح سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ دی جانے والی امداد کو اس نے موثر ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا۔
صورت حال ناقابل تصور حد تک بدترین ہوسکتی ہے۔ کیونکہ باراک اوبامہ نے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں سعودی عرب کو وائٹ فاسفورس بیچ دی تھی۔
اقوام متحدہ کے ہیومن ٹیرین چیف مارک لووک نے گزشتہ مہینے ‘الجزیرہ’ نے کہا تھا کہ یمن میں صورت حال قیامت جیسی لگتی ہے۔