شامی جنگی ڈرامے کا مرکزی ولن کون؟ – ولادیمر گولیسٹن
نوٹ : روسی نژاد پروفیسر کا تجزیہ ہمیں وہاں سے چيزوں کو دکھاتا ہے جہاں سے دیکھنے کے لیے دماغ کی بند کھڑکیوں کو کھولنا بہت ضروری ہے۔پاکستان میں دیسی لبرل صحافت بھی اتنی بنجر اور گھٹیا سی کیوں دکھائی دیتی ہے؟ جب ہم ان دیسی لبرل کے آقاؤں کی کہانی پڑھ لیتے ہیں تو ہمیں سمجھ آنے لگتا ہے۔
شام پہ امریکہ اور اس کے دو چمچوں کی شام پہ حالیہ تباہ کن حملوں کی فلم میں ایک مطلق ولن دیکھتا ہوں
ولن سیاست دان نہیں ہیں۔۔۔۔ جو اپنے اپنے ایجنڈوں پہ عمل پیرا ہیں۔ ٹرمپ اس نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں: اپنے ناقدین کو خاموش کردیا، اسرائیل کی توجہ ہٹاکر اسے مطمئن کردیا وغیرہ وغیرہ۔
یہ نیتن یاہو بھی نہیں ہے جو ہمیشہ حزب اللہ اور گولان کی پہاڑیوں بارے پریشان رہتا ہے۔۔۔۔اور ایران پہ حملہ کرنے کے ہر موقعہ کی تلاش کرتا ہے۔
یہ تھریسا مے ا میکرون بھی نہیں ہیں۔۔۔۔ دو قابل رحم اوسط درجے کے سیاست دان جن کی بصیرت چار آنے کی بھی نہیں ہے لیکن احساس کمتری ان میں بہت ہے۔
یہ جان میکنن، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ وکشنگٹن اور نیٹو کی قیادت کا اتفاق بھی نہیں ہے جو کہ سرد جنگ کے دنوں کے سکرپٹ کی پیروی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ پہلے ہی ان کے کام آرچکا ہے تو اب وہ فکر کیوں کریں۔
یہ پینگان کے جرنیل بھی نہیں ،جو نئے کھلونے استعمال کرنا چاہتے یا پرانوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
یہ سب کھلاڑی اپنے کام دھندے سے لگے ہوئے ہیں اور اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کررہے ہیں۔
بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اپنی حدودات سے آگے نکلیں اور اپنے تنگ دائروں سے آگے دیکھیں۔ لیکن ہر ایک سے یہ توقع کرنا حماقت ہوگی۔
لیکن جو میری سمجھ میں نہیں آتا اور جسے میں کبھی قبول نہیں کروں گا وہ ہے پریس کا مطلق ولن کا کردار۔ پڑھے لکھے ،نفیس صحافیوں کا مطلق ولن کا کردار جنھوں نے جنگ کے ڈھول گلے میں ڈال کر بجانا شروع کردیے ہیں۔
جنگی بھونپو جو نیویارک ٹائمز، گارڈین، بی بی سی اور دوسرے بظاہر انتہائی باوقار نظر آنے والے میڈیا گھر ہیں کے صفحات کالے کرتے ہیں،محض غدار ہیں۔ اپنے پیشے ، اپنی شناخت ، اپنی انسانیت سب سے غداری کے مرتکب۔آپ ان کو یہ نام دے سکتے ہیں کہ انہوں نے غداری کی ہے۔کوئی کھوج نہیں،کوئی سوال نہیں، کوئی چیلنچ نہیں۔۔۔۔بس صرف تالیاں پیٹ رہے ہیں اور ہل من مزید کی صدائیں لگارہے ہیں۔
زرا گارڈین کو چیک کریں۔۔۔۔۔ اسد، پیوٹن اور ایران کے بارے میں گھٹیا معیار کے مضامین پھر سے لائے جارہے ہیں۔یہ شور کہ اس بمباری سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور یہ کہ ان بدمعاش ریاستوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اور یہ کہ روس جعلی خبروں اور جعلی طریقے سے ابہام پیدا کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس صحافت کی نوعیت بس جنگجوئی پہ مبنی ہے۔
اور وہ یہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں کرتے ہیں۔ملک جتنا جارح ہوگا ، اتنا ہی جارح اور کم سوال اٹھانے والا اس ملک کا پریس ہوجاتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے پیچھے صحافت تھی اور لوگوں کو اپنی جنگ و تشدد سے بھری رپورٹنگ اور تجزیوں سے بھڑکانا بھی اسی کا کارنامہ تھا۔اور ایک بار پھر یہ یہی کررہے ہیں۔
تو صحافت کی تاریخ میں ایک اور شرمناک باب کا اضافہ ہوچکا ہے۔ صحافتی فاحشاؤں نے ایک اور بے شرمی پہ مبنی داؤ اپنی جانب سے کھیلنا شروع کردیا ہے۔
ترجمہ و تلخیص: عامر حسینی