منافقت اور کسے کہتے ہیں؟ – عامر حسینی
پنجاب حکومت کرکٹ بچانے پہ اربوں خرچ کرتی ہے اور عر س و میلوں کی ثقافت برباد کرنے کے لیے حضرت سخی سرور کا مزار سیل کرکے تاریخی میلے پہ پابندی عائد کردیتی ہے اور زائرین پہ پولیس بدترین لاٹھی چارج کرتی ہے۔اس پہ پاکستان کا اینٹی اسٹبلشمنٹ،جمہوریت پسند اور لبرل اشرافیہ نے چند لفظ تک لکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔
پاکستان میں پی ایس ایل تھری کرکٹ کے میچ کے لیے سیکورٹی پلان سامنے آگیا ہے۔ لاہور اور کراچی میں اس دن اسٹیڈیم تک جانے والے راستوں پہ سخت ترین حفاظتی اقدامات کیے جارہے ہیں اور اردگرد کے علاقے اور سڑکیں اس دن شارع عام نہیں رہیں گی۔میچ دیکھنے والوں کو بھی چار گھنٹے کے طویل سیکورٹی پروسس سے گزرنا ہوگا اور کئی کلومیٹر دور وہ اپنی گاڑیاں (صرف وہ جو ایل پی جی اور ایل این جی سلنڈر نہ رکھتی ہوں) کھڑی کریں گے۔لاہور میں نو اضلاع کی پولیس،رینجرز اور فوج کے سینکڑوں جوان، اور ہزاروں کی تعداد میں دیگر سرکاری اہلکار اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں گے۔
کراچی میں بھی ایسا ہی ہوگا۔سیکورٹی انتظامات سمیت اس سارے عمل پہ اربوں روپے کا خرچہ ہوگا،عام آدمی کی نقل و حمل بری طرح سے متاثر ہوگی۔موبائل فون سروس معطل رہے گی۔یہ سب انتظامات پی ایس ایل کے میچز کے لیے کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ کو بچانے کے لیے ریاست جان توڑ کوشش کررہی ہے۔
جبکہ شہریوں کی مشکلات، اربوں روپے کے اخراجات وغیرہ وغیرہ کے باوجود پاکستان کے لبرل سیکشن اور سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کی ہاں میں ہاں ملانے والے تکفیری فاشسٹ بالکل خاموش ہیں۔
پاکستان کے کمرشل لبرل صحافی،اینکر اور تجزیہ کار تکفیری دیوبندی فسطائی تنظیموں کے ہم زبان ہوکر محرم اور میلاد کے جلوسوں کے دوران شہریوں کی مبینہ مشکلات،راستوں کو بند کیے جانے،سیکورٹی انتظامات پہ اربوں روپے کے اخراجات اور اس دن چھٹی سے پاکستانی معیشت پہ پڑنے والے مبینہ منفی اثرات کا سہارا لیکر ان جلوسوں کو چار دیواری تک محدود کرنے کا مطالبہ ٹی وی چینلز،اخبارات اور سوشل میڈیا پہ باقاعدہ کمپئن چلاکر کرتے رہتے ہیں۔لیکن پی ایس ایل میچز کے دوران یہ سب ہونے پہ وہ خاموش ہیں بلکہ وہ اسے پاکستان میں کرکٹ کے احیاء سے تعبیر کررہے ہیں۔
اگر کرکٹ کی ثقافت کو بچانے کے لیے اربوں روپے خرچ کرنا درست ہے اور اس کے لیے راستے بلاک کرنا اور زندگی کے روزمرہ دستور کو معطل کرنا ٹھیک ہے تو پھر محرم، میلاد اور عرس و میلوں کی ثقافت کو بچانے کے لیے اقدامات اٹھانا کیسے غلط ہے؟
کیا ہمارے مہان اینکر پرسن و صحافی حامد میر جنھوں نے تکفیری ملّا محمد احمد لدھیانوی کے دلائل کا سہارا لیکر محرم اور میلاد کے جلوسوں کو چار دیواری تک محدود کرنے کے خیال کو ٹھیک کہا تھا اس سوال کا جواب دینے کی تکلیف کریں گے؟
پنجاب حکومت پنجاب میں کرکٹ سمیت کئی کھیلوں کو فروغ دینے اور سپورٹس پلس کلچرل سرگرمیوں کو زندہ رکھنے کے نام پہ جتنی سرگرم ہے،یہ حکومت پنجاب کے دیہاتوں،قصبوں،شہروں میں پنجابی اور سرائيکی ثقافتوں کے حامل عرس، میلوں اور مزارات پہ ہونے والی مذہبی ثقافتی سرگرمیوں کو دبانے کی اتنی ہی مشتاق ہے۔کیونکہ تکفیری دیوبندی فاشسٹ تنظیمیں سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، لال مسجد بریگیڈ ان پہ حملے کرتے ہیں۔
پس نوشت : نقشے میں آپ ہلکے سرخ رنگ سے رنگے راستے (جو بند راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں) دیکھ سکتے ہیں کہ کتنا بڑا علاقہ اس دن مکمل طور پہ بند ہوگا۔محرم کے جلوسوں کی سیکورٹی کے پلان پہ آپ کو ہزاروں کی تعداد میں سوشل میڈیا پوسٹیں مل جائیں گی اور یہ پوسٹیں صرف تکفیری دیوبندی فاشسٹ نے نہیں کی ہوں گی بلکہ پاکستان کے خود کو روشن خیال،ترقی پسند، لبرل، سیکولر اور نجانے کیا کیا کہلوانے والوں نے بھی کی ہوں گی۔ یہ پاکستان کے اندر سماجی مزاحمت ہو، سیکولر اقدار ہوں، جمہوریت ہو، اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست ہو ہر چیز پہ اپنی اجارہ داری کا خبط سوار رکھنے والا سیکشن ہے۔اس کو ننگا اور بے نقاب کرنے سے آپ فوری ‘موچی اور بوٹ پالشیے ‘ قرار پاجاتے ہیں۔