شہباز بھٹی کے خون کی تاثیر لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ۔ گل زہرا رضوی
پیارے پاکستان کے ہلالی پرچم میں جو سفید رنگ ہے، وہ غیر مسلم اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اقلیتوں نے تو اس رنگ کی خوب لاج رکھی اور تحریک پاکستان سے لے کے دفاع پاکستان تک ان گنت قربانیاں پیش کیں لیکن آج جس رویے کا سامنا اقلیتوں کو ہے ، اس پر شاید جھنڈے کا سفید سے سرخ ہوتا رنگ بھی خون کے آنسو روتا ہو گا ۔
ایک ایسی ہی قربانی وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کی ہے ، جنہیں سلمان تاثیر کے قتل کے دو ماہ بعد ہی انہی وجوہات پر دیوبندی تکفیری کالعدم گروہوں نے قتل کر دیا جن پر سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا ۔ آج شہباز بھٹی کی ساتویں برسی ہے ۔ ظاہر ہے اقلیتوں کے کسی رہنما کے منہ سے صرف لفظ ’توہینِ رسالت‘ ہی نکل جائے تو وہ امتِ مسلمہ کے جیالوں کیلئے فورا واجب القتل ہو جاتا ہے کہ سوچنا ، سمجھنا ، غور و فکر کرنا ، بات کرنے والے کو سپیس دینا ، اسکا موقف جاننا ان باتوں کا تعلق سیارہ زمین سے تو نہیں شاید کہیں پلوٹو سے ہوتا ہو؟ شہباز بھٹی نے واضح کیا اور بار ہا کیا کہ توہین رسالت کے قانون کی ترمیم کے بارے میں کوئی سوچ بچار نہیں ہو رہی البتہ اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اس میں تبدیلی کی جانی چاہئے کیونکہ توہین رسالت کے قانون کو ذاتی فوائد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ شہباز بھٹی پاکستانی قوم کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے، اس لڑائی میں اپنی زندگی ہار گئے ۔
شہباز بھٹی کے قاتل کوئی نئے لوگ نہیں ، وہی کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ جو دہشتگردی کی ہر واردات میں ملوث ہوتے ہیں ۔ وہی سپہ صحابہ اہلسنت و الجماعت ، القاعدہ ، تحریکِ طالبان ۔ وہی شدت پسند تنظیمیں جنکے ہاتھوں پر ہزاروں بیگناہ پاکستانیوں کا خون ہے ۔ اور وہی ستم ظریفی کہ ان تنظیموں کے نمائندے اداروں کی آشیر باد سے سیاسی مبصر بنے بیٹھے ہیں ، کمرشل لبرلز کی خیر خواہی سے معتدل بننے کی اداکاری کرتے پھرتے ہیں ۔ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ طاہر اشرفی، احمد لدھیانوی جیسے تکفیری رحجانات کے حامل افراد کو ایک غلط بیانیہ بنانے کی خاطر ٹی وی چینلز پر مہمانِ خصوصی بنا کر بٹھایا جائے ، جو کھلے عام غیر مسلموں اور شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ، انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے لبرل سکالرز بنا کر پیش کیا جائے ؟
شہباز بھٹی سمیت آج ہزاروں مقتول پاکستانی انصاف کے منتظر ہیں ۔ میرے نزدیک مقتول اقلیتوں کا وطنِ عزیز پر ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی جان دیکر یہ واضح کر دیا کہ پاکستان میں دہشتگردی کسی سعودی ایرانی پراکسی وار کا نتیجہ نہیں ، نہ یہ کوئی شیعہ سنی فساد ہے ۔ بیگناہ احمدی، ہندو، کرسچنز پاکستانیوں کا خون اس بات کی کھلی گواہی ہے کہ تکفیری سوچ کا نشانہ ہر وہ انسان ہے جو انکے نظریات سے متفق نہیں ۔ شیعہ سنی نے تو سمجھ ہی لیا ہے کہ تکفیری وہابی دیوبندی ہیں جو انکا قتلِ عام کر رہے ہیں ، وہ وقت بھی دور نہیں جب شیعہ ، سنی ، مسیحی، احمدی ، ہندو اور دیگر طبقات ملکر انسانیت کے دشمن ان تکفیری گروہوں کو اپنے بیچ سے نکال پھینکیں گے ۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے !