شام و یمن پہ جہادیوں کی پریشانی – عامر حسینی
ایک غیر ملکی غیر جانبدار تجزیہ کار کی اپنی رائے یہ ہے غوطہ شہر میں اس وقت عسکریت پسندوں اور شامی فوج کے درمیان لڑائی میں سوائے لڑائی کے اور کوئی راستا اس لئے نہیں بچا کہ عسکریت پسندوں نے سب کے سب آپشن ٹھکرادئے ہیں،ان آپشن میں سے ایک محفوظ طریقے سے شہر خالی کرکے نکل جانے کا تھا۔
ایک صاحب کہتے ہیں کہ پھر بلوچ آزادی پسندوں کے گوریلا سیکشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے ( بی ایل ایف کا تو کمیوفلاج نام لیا ان کا مقصد یہ ہے جو بھی ریاست کے ڈویلپمنٹ ماڈل سے اختلاف کرے اور اسے رد کرے، اسے مار دیا جائے،چاہے وہ حارب ہو کہ غیر حارب)
بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے نعرے تلے عسکریت پسند لڑنے والوں اور فوج کا جو باہمی تصادم ہے اس تضادم کے بارے میں میں نے کسی جگہ نہیں لکھا کہ اس دوران فوج ہتھیار ڈال کر اپنے سینے بی ایل ایف کے سامنے کردے۔اور میں کہوں بھی تو فوج ایسا کبھی نہیں کرے گی۔
ہم نے ہمیشہ بلوچ آزادی پسند سیاسی قوتوں اور ریاست پاکستان کے درمیان مذاکرات اور سیاسی حل کی تلاش پہ زور دیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ بلوچ کہیں باہر سے نہیں آئے۔
غوطہ شام کے اندر بھاری تعداد میں لوگ غیرشامی ہیں اور وہ جہاد کے نام پہ شامیوں پہ اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔میں آج بھی شام کے جمہوری سیاسی اور عوام کے نمآئندوں اور بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان بات چیت کا حامی ہوں اور کہتا ہوں کہ ان کو آپس میں مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
شامی حکومت روس، چین، ایران سمیت جن ممالک سے مدد طلب کرنے پہ مجبور ہوئی اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطی میں امریکہ و مغربی اتحادیوں نے شام کی پرامن عوامی جمہوری حقوق کی تحریک کو تکفیری جہادی پراکسیز سے خانہ جنگی میں بدل ڈالا۔
امریکی سامراج کی فوجی و پراکسی مداخلت نے شام میں ایک آمر کے خلاف چلنے والے جمہوری تحریک کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔انقلاب کی تحریک رد انقلاب میں بدل گئی۔ نجانے کن کمیونسٹ اور سوشلسٹ سے لوگ ملتے ہیں جو ان کی نظر میں روس کو اب ایک سوشلسٹ یا کمیونسٹ ملک شمار کرتے ہیں۔
روس ، ایران اپنے جیو پالیٹکس مفادات میں شام کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔پاکستان میں جہاد ازم اور تکفیر ازم کے حامیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکی سامراج اور مغربی طاقتوں اور ان کے اتحادیوں سعودی عرب وغیرہ کے باہمی اتحاد پہ مبنی شام میں فوجی و پراکسی مداخلت کو اسلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی فرقہ وارانہ تعبیر پہ اصرار کرتے ہیں۔
وہ اسے شیعہ-سنّی لڑائی بناکر دکھاتے ہیں۔اور غوطہ ،حلب، ادلب میں شہری مارے جائیں تو اسے سنّی قتل کہتے ہیں جبکہ دمشق میں مارا جائے تو اسے شیعہ قتل کہتے ہیں۔اور سنّی قتل عام کا بدلہ قرار دیتے ہیں۔ان سے جب یہ سوال کیا جائے کہ بھائی دمشق جس پہ مارٹر گولے اور خودکش حملے ہوتے ہیں وہ تو سنّی اکثریت کا شہر ہے۔اور خود شام کی فوج 80 فیصد سنّی ہے اور اس کا سربراہ بھی سنّی ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
شام کی حکومت اور فوج شیعہ ،سنّی ،دیروزی، کرد شامیوں پہ مشتمل ہے،یہ شام کی کثیر المذہبی اور کثیر النسلی شامی مزاحمت ہے جس کے اتحادی روس، ایران، حزب اللہ اور لبنانی اپوزیشن پارٹیاں ہیں۔
جبکہ دوسری حلب، ادلب اور غوطہ شام میں کیا ہوا؟ جن سنّی مذہبی اور سیکولر ڈیموکریٹک قوتوں نے تکفیری فاشزم کو قبول نہیں کیا ان کو قتل کردیا گیا یا کنارے سے لگادیا گیا۔یہاں تک سعودی عرب، ترکی ، قطر نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا، یہی سوشلسٹ گروپوں کے ساتھ ہوا۔صرف و صرف تکفیری سلفی جہادی اخوانی دیوبندی عسکریت پسند میدان میں رہ گئے۔
جہادی اور تکفیری پراکسیز کا کام ہر ایک قومی آزادی کی تحریک میں یہی رہا ہے۔یہ تنگ نظر فرقہ وارانہ دہشت گردی اور نراجیت کی طرف جاتے ہیں اور پوری تحریک کا بیڑا غرق کرکے آمروں اور سامراجیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
کشمیر اور افغانستان میں جہاد پروجیکٹ کشمیری اور افغان عوام کی آزادی کی منزل کو کھوٹا کرنے کا سبب بنے۔یہ کرائے کے سپاہیوں کی طرح مغربی سرمایہ دار بلاک اور تزویراتی گہرائی کے ایجنٹ بنکر لڑے اور جب کبھی اپنے مربی آقاؤں سے باغی ہوئے تو ان کا قہر سب سے زیادہ اقلیتوں، غیر تکفیری جہادی گروہوں پہ ٹوٹا اور ان کی انتہا ہم نے القاعدہ و داعش و جماعت احرار، لشکر وغیرہ کی شکل میں دیکھی۔
مصر میں قومی خودمختاری اور آزادی کی لڑائی کو اخوان کے انتہا پسندوں نے قبطی مسیحیوں، صوفی سنّی اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں بدل کر رکھ دیا۔
یہی نظارہ ہم نے بحرین، یمن سمیت پورے مڈل ایسٹ میں کیا۔ اور جماعت اسلامی سے لیکر دیگر مذہبی جہادی اسلام ازم کے حامیوں کا مخمصہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے زمانے سے یہ کرائے کے سپاہی بنکر لڑتے ہیں اور پروپیگنڈا کرکے کہتے ہیں کہ ان کا خون خرابہ پروگرام اسلام اور مسلمانوں کو غالب کردے گا۔اور نتیجہ بے انتہا انارکی،فساد فی الارض کی صورت نکلتا ہے۔
میں نے بارہا ان قوم پرست تنظیموں اور جماعتوں کے موقف سے برملا اختلاف کیا ہے جو بلوچ،سندھی ،سرائیکی ، پشتونوں کے حقوق کی لڑائی کسی پڑوسی ملک کی جیو پالیٹکس کے فریم ورک میں خود کو پراکسی بنالیتے ہیں یا کسی سٹریٹجک لڑائی میں وہ امریکی سامراج کو اپنا نجات دہندہ قرار دینے لگتے ہیں۔عوام دوست اور عوامی حقوق کی لڑائی آلہ کار بنکر نہیں لڑی جاسکتی اور نہ ہی ایسا کوئی تاثر دینے میں عوام کو کوئی فائد ہوتا ہے
جماعت اسلامی کے بوسیدہ ہوگئے سرد جنگ کے زمانے کے اینٹی کمیونسٹ لٹریچر سے آپ جدید دور کے ناقدین جہاد ازم کو دیکھیں گے تو یہی مغالطے پیش آئیں گے۔