Death Anniversary of Shahbaz Bhutti: Tahir Ashrafi and a biased section of Liberal Press
Friday, March 2nd is the death anniversary of #ShahbazBhatti who was killed by the #takfiriDeobandi terrorists affiliated with the #Taliban.
Bhatti was a minister in the previous PPP government and Tahir Ashrafi, a Deobandi hate monger had incited for his murder shortly before the tragic event. Please see this video clip every time a commercial liberal tries to white wash the hate crimes of Tahir Ashrafi.
دو مارچ 2018ء بروز جمعہ سابق وزیر برائے انسانی حقوق شہباز بھٹی کی برسی ہے۔شہباز بھٹی کو تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کی تنظیم طالبان نے جان سے ماردیا تھا۔
شہباز بھٹی پی پی پی کے سابقہ دور میں وفاقی وزیر تھے اور طاہر اشرفی، ایک نفرت پھیلانے والا دیوبندی ملّا نے اس المناک واقعہ سے کچھ دن پہلے ان کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی تھی۔
یہ تقریر طاہر اشرفی نے اس زمانے میں کی تھی جب پاکستان کا ایک معروف لبرل ہفت روزہ اخبار ‘فرائیڈے ٹائمز’ اس کو اعتدال پسند،لبرل اور بین المذاہب ہم آہنگی کا علمبردار بناکر پیش کررہا تھا۔اس کے کچھ عرصے بعد طاہر اشرفی کو ایکپریس نیوز ٹی وی چینل پہ ایک تجزیاتی پروگرام میں فرائیڈے ثائمز کے سابق ایڈیٹر اور معروف لبرل صحافی و مصنف ‘رضا رومی’ کے ساتھ دیکھا جانے لگا۔پروگرام کا نام تھا ‘میں اور مولانا’۔اسی زمانے میں طاہر اشرفی کو جنگ-نیوز گروپ سمیت پاکستان کے مین سٹریم ٹی وی چینلز پہ ایک اعتدال پسند اسلامی اسکالر کے طور پہ خوب کوریج دی جانے لگی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب رضا رومی پہ قاتلانہ حملہ ہوا اور ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے علاوہ دیگر ٹی وی چینلز نے اس حملے کے خلاف رضا رومی کے ساتھ وہ اظہار یک جہتی نہ کیا جس کی فرائیڈے ٹائمز کو توقع تھی تو اس وقت ارشد شریف صحافی اینکر اے آر وائی نیوز پہ تنقید کرتے ہوئے فرائیڈے ٹآئمز نے طاہر اشرفی اور مولوی عبدالعزیز کو اپنے شو میں وقت دینے کا طعنہ ارشد شریف کو دے ڈالا۔
شہباز بھٹی کے خلاف منافرت انگیز مہم چلانے والا دیوبندی ملّا طاہر اشرفی اسلام آباد میں رمشاء مسیح کیس میں نقاب اوڑھ کر خود کو ماڈریٹ روپ میں ظاہر کرتا ہے اور اپنی تنظیم پاکستان علماء کونسل اور ختم نبوت موومنٹ انٹرنیشنل دیوبندی تنظیموں کے ساتھ اسلام آباد میں ایک جلوس نکالتا ہے۔فرائیڈے ٹائمز میں رضا رومی کا ایک فیچر لگتا ہے اور ایک رپورٹ شایع کی جاتی ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نیوز رپورٹ میں ختم نبوت انٹرنیشنل بارے دھمیے سے انداز میں یہ لکھا جاتا ہے کہ یہ تنظیم احمدی کمونٹی کے بارے میں تشدد پھیلانے میں ملوث بتائی جاتی ہے جبکہ طاہر اشرفی جو کہ پاکستان کے اندر شیعہ کے خلاف منافرت آمیز پروپیگنڈے میں ملوث ہے کو شیعہ نسل کشی کے خلاف ایک موثر مذہبی آواز قرار دے دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں لبرل پریس اور سول سوسائٹی کا ایک سیکشن جس میں نواز شریف کو ‘عظیم جمہوریت پسند بناکر پیش کرنے والے لبرل پیش پیش ہیں،حیرت انگیز طور پہ شہباز بھٹی کے قتل میں اشتعال انگیز تقریریں کرنے والے اس دیوبندی ملّا کے بارے میں خاموش رہے۔بالکل ویسے جیسے یہ سلمان تاثیر کے قتل پہ اکسانے والے دیوبندی کرداروں کے بارے میں خاموش رہے اور انھوں نے بریلوی مکتبہ فکر کے اندر موجود انتہا پسندوں پہ اپنا فوکس رکھا۔
پاکستان کے لبرل پریس میں متعصب اور کمرشل ازم کا داعی سیکشن اسقدر متعصب ہے کہ اس نے خادم رضوی جیسے کٹھ پتلی کرداروں کو لیکر اہلسنت بریلوی مسلمانوں کے خلاف جس قدر منافرت بھرے القاب استعمال کئے اور خادم رضوی کی مسلکی اور فرقہ شںاخت بار بار ظاہر کی،ویسے یہ بھولے سے بھی سپاہ صجابہ ، لشکر جھنگوی اور طالبان کی مسلکی شناخت ظاہر نہیں کرتے۔
شہباز بھٹی نے اپنے قتل سے پہلے جاوید چودھری کے ایکسپریس نیوز کے ٹاک شو میں جو گفتگو کی تھی،جو ان کی آخری میڈیا ٹاک ثابت ہوئی کو سن لیں۔شہباز بھی بلاسفیمی ایکٹ کو ختم کرنے کی بات نہیں کررہے تھے۔نہ ہی وہ توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹھیک خیال کرتے تھے۔ان کا کہنا یہ تھا کہ بلاسفیمی ایکٹ میں پرچے کے اندراج اور تفتیش کے طریقہ کار میں بدلاؤ کی ضرورت ہے۔پھر سب سے بڑی بات یہ کہ وہ چاہتے تھے کہ بلاسفیمی ایکٹ کی شق 295 اے اور 295سی میں بالترتیب قرآن پاک کے علاوہ دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں اور دیگر انبیاء کی توہین کو بھی جرم قرار دینے کے الفاظ شامل ہوں۔شہباز بھٹی پاکستان میں بلاسفیمی لاءز کے غلط استعمال کو روکنے کی بات کررہے تھے۔لیکن شہباز بھٹی کے خلاف جھوٹا اور غلط پروپیگنڈا کیا گیا۔اور وہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بن گئے۔
شہباز بھٹی دو مارچ،2011ء میں تکفیری دیوبندی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں جان گنوابیٹھے۔ ان کا ناحق قتل بلاسفیمی ایکٹ کے بارے میں ان سے جھوٹ منسوب کرنے اور ان کے خلاف نفرت بھری مہم چلانے پہ ہوا۔مسلم لیگ نواز نے پی پی پی کی حکومت کے خلاف ایک مذہبی ملاؤں کے زریعے سے جھوٹی کمپئن چلائی۔اور جھوٹا پروپیگنڈا یہ تھا کہ پی پی پی کی حکومت امریکہ اور مغربی طاقتوں اور اسلام دشمن عناصر کے اشارے پہ بلاسفیمی ایکٹ ختم کرنا چاہتی ہے یا اسے غیر موثر بنانا چاہتی ہے۔ اس مہم میں سب سے آگے مولوی طاہر اشرفی اور پنجاب میں نواز لیگ کے دیگر اتحادی تکفیری ملاّ تھے۔اس مہم کا پہلا نشانہ گورنر سلمان تاثیر بنے اور دوسرا نشانہ وفاقی وزیر شہباز بھٹی بنے۔
پاکستان میں آج جو جمہوریت کے جعلی مجاہد بنے ہوئے ہیں، اسی لبرل پریس کے اندر بیٹھے سیکشن نے مسلم لیگ نواز کی جانب سے مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرست جنونی ملاؤں کے زریعے پی پی پی کی حکومت کے خلاف سازش کو چھپایا اور طاہر اشرفی اس لبرل کمرشل مافیا کا اعتدال پسند،ماڈریٹ ، ترقی پسند چہرہ کہلوایا،جیسے احمد لدھیانوی ‘سفیر امن’ کہلوائے گئے۔
مسلم لیگ نواز کا حامی لبرل پریس میں بیٹھا سیکشن اس زمانے میں نواز شریف کے حامی تکفیری ملّاؤں پہ ‘لبرل و ماڈریٹ’ نقاب ڈال رہا تھا، جیسے آج وہ فضل الرحمان و لدھیانوی پہ ڈال رہا ہے اور اکوڑہ خٹک میں جامعہ حقانیہ اور سمیع الحق پہ جو نقاب اعتدال و مین سٹریم عمران خان اور پی ٹی آئی ڈالتی ہے،اسے نوچنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہاں تک کہ ڈان میڈیا گروپ بھی طاہر اشرفی کو ایک ماڈریٹ لبرل مولوی بناکر پیش کرنے سے باز نہیں آیا۔چھے مارچ،2017ء کو ڈان کے سٹاف رپورٹر ناصر جمال نے اسلامی نظریاتی کونسل میں طاہر اشرفی اور مولانا شیرانی کے درمیان ہوئے جھگڑے کی رپورٹ فائل کی،اس رپورٹ کے انٹرو میں ہی رپورٹر طاہر اشرفی کو لبرل ماڈریٹ مولوی کے طور پہ پیش کرتا ہے
میں جب یہ حقائق سامنے لاتا ہوں تو پاکستان میں اس منافق ٹولے کے لبرل ماسک سے متاثرہ کچھ لوگ تکلیف میں آتے ہیں۔ان کو ان لبرل بتوں کے ٹوٹنے پہ غصّہ آتا ہے۔ان کو چاہئیے کہ ان گروہ کے کمرشل ازم کو سمجھیں اور دھوکہ مت کھائیں۔
شہباز بھٹی جیسے لوگ صرف تکفیری فاشزم کے ہاتھوں ہی نہیں مرتے بلکہ ان کو بار بار مرنا نام نہاد لبرل مگر حقیقت میں منافق ٹولے کی وجہ سے پڑتا ہے۔
شہباز بھٹی ایک سچا جیالا، سیاسی کارکن، انسانی حقوق اور مظلوموں،محکوموں کی آواز تھا اور یہ آواز اسے پی پی پی کی ترقی پسند ، روشن خیال آئیڈیالوجی سے ملی تھی۔وہ مسیحی بنیاد پرست نہیں تھا نہ ہی اسلامو فوبیا کا شکار تھا۔میں اس کی جدوجہد پہ اسے سرخ سلام پیش کرتا ہوں۔
Source: