معذور بیٹی کی جان بچانے کے لئے ملک سے جارہا ہوں- ڈاکٹر محمد اعظم وائس چانسلر بارانی یونیورسٹی کا خط
پاکستان کی ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر اور میسا چیوسسٹ امریکن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کئے ہوئے اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ معذور بیٹی جس کا نام زینب ہے کی زندگی کی خاطر ملک بدر ہونے پہ مجبور ہوگیا۔اس نے فیس بک پہ اپنی دیوار گریہ پہ لندن جاتے ہوئے اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ سے الوداعی خط پوسٹ کیا ہے۔اس خط میں اس استاد نے واضح طور پہ پاکستان کی موجودہ مسلم لیگ نواز کی حکومت پہ الزام عائد کیا ہے کہ سوشل میڈیا پہ بدعنوان حکومت کے خلاف اس کی آراء کے سامنے آنے پہ اس کے خلاف مذموم مہم چلائی گئی اور اس مہم کو کامیاب کرنے کے لئے راولپنڈی کے نام نہاد مولویوں سے ایک پمفلٹ چھپوایا گیا جس میں انتہائی بے ہودہ خیالات اس سے منسوب کرتے ہوئے ‘سلمان رشدی’ قرار دے دیا گیا۔
بارانی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اپنے خط میں واضح الزام پنجاب و وفاقی حکومت پہ لگایا ہے۔اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف بلاسفیمی کی مہم کے پس پردہ حکومتی کارندے ہیں۔پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ نواز کی حکومت خود کیسے اپنے پہ تنقید کرنے والوں کے خلاف بلاسفیمی کا ہتھیار استعمال کررہی ہے،یہ خط اس کی واضح مثال ہے۔پاکستان میں بریلوی مکتب فکر کے اندر سے چند ملاؤں کی زبانی کلامی تکفیری چیخ و پکار پہ ہاہاکار مچانے والا کمرشل لبرل مافیا اس خط میں حکومت پنجاب و وفاق کی جانب جو اشارے ہیں اس پہ چپ سادھے بیٹھا۔خط کے متن کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
پاکستان میری محبت
میں اس وقت ہوائی اڈے پہ ہوں،اپنےوطن کو بھاری دل کے ساتھ چھوڑے جارہا ہوں۔میں یہ اپنی بیٹی کی سلامتی اور تحفظ کے لئے کررہا ہوں جو کہ سپیشل چائلڈ ہے اور میرے لئے بھی بہت ہی سپیشل ہے۔
میں 1979ء میں میساچوسسٹ سے پی ایچ ڈی کرکے وطن واپس آیا تھا مگر کچھ کینہ پرور نام نہاد مذہبی لوگوں نے مجھے جانے پہ مجبور کردیا۔ان میں نمایاں ڈاکٹر عبدالغفور بھٹی (اس وقت کا)مشیر گورنر پنجاب تھا۔
کئی سال امریکی یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دینے کے بعد میں پھر دوبارہ 1986ء میں وطن لوٹا لیکن مسلسل میں ان جیسے حاسدین کی جانب سے نشانے پہ رہا۔ایک بار نام نہاد راولپنڈی کی علماء کمیٹی نے میرے خلاف توہین آمیز پمفلٹ شایع کیا جس میں مجھے راولپنڈی کا ‘سلمان رشدی’ کا نام دے دیا گیااور مجھے واجب القتل ٹھہرادیا گیا۔
ان سب دشنام ترازیوں کے باوجود،میں نے بڑے جذبے کے ساتھ اور لگن سے اس ملک کی خدمت کی اور بیرون ملک میں موجود تمام تر مالی کشش و فوائد کو قربان کرتا رہا۔میں ہر ممکن طریقے سے ان تمام برائیوں کے خلاف لڑتا رہا ہوں مگر اپنی چھوٹی بیٹی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔بدعنوان حکومت کے خلاف میرے حقیقت پسند معروضی اظہار/رائے/خیالات کی سوشل میڈیا پہ موجودگی نے میرے خلاف مہم کو ایندھن فراہم کیا اور مذہبی ناراض اور کدروت رکھنے والوں نے میرے خلاف مہم تیز کردی۔مجھے نامعلوم فون نمبرز سے دھمکیاں دی جانے لگیں،میری کار کا تعاقب کیا گیا اور کئی بار میرا راستا روکا گیا۔
میں نے پولیس میں شکایت درج کرانے کی کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ایک درخواست گزاری مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔میں ان عناصر سے تادم آخر لڑسکتا تھا لیکن میری بیٹی جس کا اتفاق سے نام زینب ہے کے لئے۔۔۔۔جب سے قصور میں ننھی سی زینب کے ساتھ جو حادثہ ہوا،میں سو نہیں پارہا۔میری زینب میرے خوابوں میں آتی رہتی ہے۔
اپنے بچوں کے ساتھ مشورے کے بعد آخرکار میں نے ملک چھوڑ جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔میں اپنے وطن سے پیار کرتا ہوں اور جب میری بیٹی زینب برطانیہ میں بس جائے گی میرے بیٹے ڈاکٹر عدنان اور میری بیٹی غانیہ چوہدری کے ساتھ تو میں واپس آجاؤں گا۔
میرے دوستو! براہ مہربانی اس ملک کا خیال کریں کیونکہ ہمارا نام اور ہماری پہچان اسی ملک سے ہے۔قوم جس کی کوئی اپنی دھرتی نہ ہو اس کی اقوام عالم میں کوئی شناخت نہیں ہوا کرتی۔