سانحہ پشاور کے تین سال، تکفیریت کا دیو آج بھی بے قابو
پاکستان میں تکفیری دہشتگردی کی تاریخ بہت تلخ ہے لیکن اس تاریخ میں سانحہ اے پی ایس پشاور جیسا المناک سانحہ کوئی دوسرا رونما نہ ہوا، جس میں معصوم بچوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا۔ ایسا سانحہ جس نے دردِ دل رکھنے والے ہر انسان کی روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جذبات کو الفاظ میں ڈھالنے پر ملکہ رکھنے والے بہت سے لوگوں کے الفاظ کرب و تکلیف کی وجہ سے ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ چونکہ ہمارا اوڑھنا بچھونا تو ہے ہی غمِ حسینؑ اس لئے ہم اسی کی پناہ ڈھونڈتے رہے اور جب جب دل میں سوال پیدا ہوتا رہا کہ آخر کوئی معصوم بچوں کو کیسے ذبح کرسکتا ہے تو فورا کربلا کے ایک چھ ماہ کے شہید کو یاد کرکے دل کو جواب دیتے رہے۔
میں نے اس سانحے کے رونما ہونے کے بعد کئی بار ناصر کاظمی کا مختلف کلام بھی صرف اس لئے بار بار پڑھا کیوں کہ ناصر کاظمی نے اپنے کلام میں تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کے دوران رونما ہونے والے المیوں کے کرب و یاس کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک تحریر لکھی تھی جس میں گمان ظاہر کیا تھا کہ اگر ناصر کاظمی آج حیات ہوتے تو ہجرت کے المیوں پر لکھے اپنے تمام کلام کو شاید اس سانحے سے منسوب کردیتے، بالخصوص یہ شعر:
۔
“ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصرؔ
چمن میں کس قدر پتے جھڑے ہیں”
کچھ روز گزرے اور آنسووں کی وجہ سے دھندلی ہوئی آنکھیں کچھ صاف ہوئیں اور اطراف میں نظر دوڑائی تو لوگوں کو کہتے پایا کہ اس دلخراش سانحے نے پوری قوم کر متحد کردیا ہے، کسی نے بتایا کہ پوری قوم دہشتگردوں کے خلاف یک زبان ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا تھا؟ میں نے غور کیا تو محسوس کیا کہ قوم اس بات پر تو متحد ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ہوا لیکن قوم کا ایک دھڑا قاتلوں کا نام لینے سے گریزاں ہے، ایک دھڑے کی آنکھیں بچوں کیلئے آنسووں سے تر ہیں اور زبان ڈرون کے ردعمل کی دہائی دے رہی ہے، ایک دھڑا وہ بھی نظر آیا جس نے قاتلوں کی مذمت کرنے سے ہی انکار کردیا، ایک دھڑا وہ تھا جس نے آرمی پبلک سکول کے سامنے ڈمہ ڈولہ کے بچوں کی چارپائیاں بچھا کر اعلان کردیا کہ یہ بھی تو بچے تھے، ایک دھڑا اسے مکمل طور پر بیرونی سازش قرار دیتا نظر آیا قطع نظر اس سے کے صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ سے لیکر وہ تمام دہشتگرد جنہیں پچھلے تین سالوں میں سولہ دسمبر کو پھانسیاں دینے کی خبر دی جاتی رہی، وہ سب پاکستانی تھے۔ میں کیسے یقین کر لیتا کہ قوم اس سانحے پر متحد جب میں نے غزہ، روہنگیاہ اور شام کیلئے عظیم الشان ریلیاں نکال کا عالمی استکبار کی مذمت میں نعرے لگانے والوں کو ایک بار بھی پاکستانی تاریخ کے اس المناک ترین سانحے میں ملوث طالبان کے خلاف ریلی تو کُجا، اُن کا نام تک لیتے نہیں دیکھا۔ میرے تلخ الفاظ پر معذرت لیکن قوم بالکل متحد نہیں تھی، قوم متحد ہوتی تو ہمیں تاویل پرستی نہیں، بلا مشروط مذمت، نفرت اور لعنت نظر آتی۔
غالبا دو برس پہلے، اس سانحے کی پہلی برسی پر اسی فیس بک پر میں نے ایک مخصوص فکر کی حامل تنظیم کی جانب سے بنائی گئی ایک ویڈیو دیکھی جو سانحہ پشاور میں قتل ہونے والے بچوں کو “خراجِ تحسین” پیش کرنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ مجھے پوری ویڈیو یاد نہیں لیکن اُس ایک سین اور ایک جملہ اب تک میرے ذہن پر نقش ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک ماں کو جونہی خبر ملی کی سکول پر حملہ ہوگیا ہے تو وہ مصلی بچھا کر بیٹھی اور کچھ ان الفاظ میں دعا مانگنے لگی:
“اے اللہ، میرے بچے سے وہ کام لے لے جو تجھے پسند ہے”۔ یعنی میرے بچے کو “شہادت” نصیب ہوجائے۔ یہ وہ طرزِ عمل اور فکر ہے جو قتل، سفاکیت اور درندگی پر شہادت، تقدس اور جانثاری کی متبرک چادر ڈال کر تاویل پرستی کی تمام حدیں پار کرتا نظر آتا ہے۔ اُس قوم کو آپ کیسے متحد کہہ سکتے ہیں جس کا ایک بہت بڑا طبقہ اس “Massacre” کو قربانی قرار دے؟ یہ قتل عام تھا، سفاکیت تھی اور معصوم بچوں کے والدین کی روحوں تک کو زخمی کردینے والا سانحہ تھا۔ یہ قربانی نہیں تھی، اس پر شہادت کر متبرک غلاف مت ڈالیں۔
کل مبشر علی زیدی صاحب نے اپنی سو لفظی کہانی میں قتل ہوجاتے والے ایک بچے کی روح اور دنیا میں موجود اُس کی دکھیاری ماں کی حالت بیان کی اور اس کہانی پر ہونے والے کچھ تبصروں نے مجھے ایک بار پھر باور کروا دیا کہ یہ قوم اس سانحے پر کبھی متحد نہیں تھی۔ کیوں کہ لوگ ان معصوم بچوں کو اُن کے والدین کیلئے “جنت کا ٹکٹ” قرار دیتے نظر آئے۔
آج اس سانحے کی تیسری برسی ہے۔ اُداس اور جذبات سے مغلوب تو ہم سب ہی ہیں لیکن آئیں ایک بار اپنے اطراف پر نظر بھی دوڑاتے جائیں کہ کون اس تکفیری دہشتگردی کے خلاف بلا مشروط بولتا نظر آرہا ہے، کون “Backhanded” مذمت میں مصروف ہے، کون قتل پر شہادت کے غلاف ڈٓل رہا ہے اور کون ان معصوم بچوں کو ان کے والدین کیلئے جنت کا ٹکٹ قرار دیتا نظر آرہا ہے۔ وہی والدین جن میں سے کوئی ماں ذہنی توازن کھو بیٹھی، کوئی باپ اپنا منہ پیٹتا نظر آیا اور کبھی یہ سب اکٹھے ہوکر شہرِ اقتدار میں “انصاف” مانگتے نظر آئے۔
بحیثیت ایک شیعہ، جسے منظم نسل کشی کا سامنا کرنے والے اپنے مکتب فکر سے لیکر تکفیری دہشتگردی کا نشانہ بننے والے ۸۰ ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں کی مذمت اور اُن کے بارے میں لکھنے پر طرح طرح کی تاویلیوں کا سامنا کرنا پڑا، میں یہ بات ایمانداری سے کہنا چاہوں گا کہ سانحہ پشاور جیسا المیہ اس قوم کیلئے ایک لٹمس ٹیسٹ ہونا چاہئے۔ ایسا ٹیسٹ جس میں کسی تاویل اور کسی توجیہہ کی گنجائش نہیں۔ یہ صرف اور صرف اپنے اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہونے کا معاملہ ہے، یہاں کسی تاویل کی گنجائش نہیں۔
پھول دیکھے تھے جنازوں پی ہمیشہ شوکتؔ
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے