نومبر 2017ء کے پہلے ہفتے میں لاہور میں متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس کے بعد جے یوآئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث پاکستان، تحریک اسلامی (ساجد نقوی)، جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ، جے یو آئی (سمیع الحق گروپ) کی مرکزی قیادت کی موجودگی میں ایم ایم اے کو سابقہ آئین اور منشور کے ساتھ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

باقاعدہ اعلان دسمبر کو کراچی میں مولانا شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے اویس نورانی کی رہائش گاہ پہ ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔

اس اجلاس کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اس میں جماعت دعوۃ کے سیاسی ونگ ملی مسلم لیگ کی قیادت بھی شریک ہوئی۔

ایم ایم اے کی بحالی کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان خیبرپختون خوا میں اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر نہیں لڑے گی اور اس کا دوسرا مطلب یہ کہ مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق اگلے الیکشن میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں ایم ایم اے کے امیدوار پی کے اور بلوچستان کے اندر پی ٹی آئی، مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی، اے این پی، قوم پرست بلوچ و پشتون پارٹیوں کو ٹف ٹائم دیں گے۔

دوسری طرف نومبر کے پہلے ہفتے میں لاہور ہی کے اندر بریلوی مکتبہ فکر کی اہم جماعتوں کا نمائندہ اجلاس منعقد ہوا ہے۔ اس اجلاس میں جماعت اہلسنت پاکستان اور جمعیت علمآئے پاکستان کے تمام دھڑوں، سنّی اتحاد کونسل، پاکستان سنّی تحریک سمیت 20 سے زائد سنّی بریلوی جماعتیں شریک ہوئیں۔

اس اجلاس میں تحریک لبیک یارسول اللہ کی نمائندگی نہیں تھی، نہ ہی پاکستان عوامی تحریک اور منھاج القرآن اس میں شریک ہوئيں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان کو دعوت بھی دی گئی تھی کہ نہیں۔

سنّی بریلوی تنظیموں کے اس مشترکہ اجلاس میں اصولی طور پہ فیصلہ کرلیا گیا کہ اہلسنت بریلوی جماعتیں ایک انتخابی اتحاد اور ایک منشور اور ایک نشان پہ الیکشن لڑیں گی۔ یہ اتحاد ظاہر سی بات ہے اپنی زیادہ سے زیادہ طاقت پنجاب کے اندر اور سندھ کے شہری علاقوں ميں دکھا سکتا ہے۔

یہ معلوم نہیں ہکہ یہ اتحاد مین سٹریم سیاست میں سولو فلائٹ کرے گا یا کسی بڑی سیاسی پارٹی سے اتحاد بنائے گا۔ اب تک جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے لگتا یہ ہے کہ اس مجوزہ نئے اتحاد میں ایک گروپ چاہتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد بنایا جائے۔

اس گروپ میں ناظم اعلیٰ جماعت اہلسنت پاکستان خطیب اتفاق مسجد ماڈل ٹاؤن پیر ریاض حسین شاہ،پیر آف سیال شریف اور ان کا حلقہ اثر، بھیرہ شریف والے، قاری احمد میاں خانقاہ خیر المعاد ملتان والے اور اسی طرح وسطی پنجاب کے کئی ایک سرکردہ پیر گھرانے شامل ہیں۔

سنّی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا قادری اور پاکستان سنّی تحریک والوں کا رجحان پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہے  جبکہ صاحبزادہ حامد سعید کاظمی اور قاری حنیف طیب وغیرہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔

صاحبزادہ اویس نورانی اور قاری زوار بہادر ان کو ایم ایم اے کے ساتھ لے جانے کے خواہش مند ہیں، مگر لگتا ہے کہ یہ اتحاد اس طرف نہیں جائے گا اور نجیتاً اویس نورانی کو بریلوی اتحاد سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔

 اہلسنت بریلوی تنظیموں میں ایم ایم اے کی سعودی نواز، جہاد ازم اور ریڈیکل و پولیٹکل اسلام ازم کے ساتھ جڑت پہ سخت تحفظات پائے جاتے ہیں اور ایک طرح سے یہ ( بریلوی) اتحادبنیادی طور پہ وہابی ازم اور دیوبندی ازم کی ریڈیکل وسعت گیریت کے خلاف بنایا جانا ضروری خیال کیا جارہا ہے۔

لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ اس سے پاکستان کے اندر مذہبی انتہا پسندی اور تکفیریت کے پھیلتے اثر اور بنیاد پرستی میں کسی طرح کی کوئی کمی آئے گی ٹھیک نہیں ہوگا۔

مذہبی دایاں بازو اپنے تمام تر مسلکی اور مذہبی اختلافات کے باوجود سیکولر ازم، لبرل ازم، روشن خیالی، اعتدال پسندی اور پاکستان میں تکثیریت کی کسی بھی شکل کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

بریلوی سنّی مسلک  جسے تصوف کے کافی قریب خیال کیا جاتا ہے اس کے کی مذہبی پیشوائیت اب دن بدن ریڈیکل اپروچ کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔

پہلے سنّی تحریک عسکریت پسندی کے ساتھ جڑی تھی اب تحریک لبیک یارسول اللہ جیسی تنظیمیں بلوائی سیاست کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔

آنے والے دنوں میں اس مکتبہ فکر کی مذہبی ملائیت اور اس کے زیر اثر لوگ اس ملک کی مذہبی اقلیتوں کے لیے اور مشکلات کھڑی کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

بریلوی مکتبہ فکر کے اندر پنپنے والا یہ تکفیری فاشسٹ رجحان دن بدن اس مسلک کی مذہبی قیادت کو اور زیادہ دائیں جانب دھکیل رہا ہے۔

پاکستان کا مذہبی دایاں بازو اور اس کی جملہ سیاسی جماعتیں 1973ء کے آئین میں اقلیتوں کو مارجنلائز/کمتر بنانے والی شقوں اور بلاسفیمی لاز کے غلط استعمال کے روک تھام کے لئے کسی بھی طرح کی اصطلاحات کی سخت ترین مخالف ہیں۔

یہ تمام جماعتیں، بھارت اور افغانستان بارے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کا جو سخت ترین موقف ہے، اس کی بھی کھل کر حمایت کرتی ہیں اور خطے میں امن کے لیے کسی درمیانی راستے کے نکالے جانے کی سخت مخالف ہيں۔

یہاں تک کہ ایک بہت بڑا مذہبی طبقہ جس کا تعلق زیادہ تر پنجاب سے ہے نواز شریف سے نالاں بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس نے دائیں بازو کے روایتی موقف سے ہٹ کر بھارت اور افغانستان کے معاملے میں اپنی راہ اپنائی۔

اس مذہبی دائیں بازو کی بہت سی سیاسی جماعتیں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی بڑی پارٹیوں میں ہوئی توڑ پھوڑ کے اندر اور موجودہ سیاسی بحران میں اپنے لیے امکانات کی تلاش کررہی ہیں۔

سنّی بریلوی اور اہلحدیث سیاسی مذہبی جماعتیں پنجاب میں حصّہ لینے کے چکر میں ہیں تو جماعت اسلامی و جے یو آئی ف اور س خیبرپختون خوا اور بلوچستان پہ نظریں لگائے بیٹھی ہیں۔

مذہبی دایاں بازو سیاست کے میدان میں اپنے رجعت پسندانہ ایجنڈے کو آگے تو بڑھائے گا ساتھ  ہی وہ اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد بھی پورے کرے گا۔

پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدالتی اسٹیبلشمنٹ کے زریعے پہلے سے ہی مین سٹریم سیکولر جماعتوں کو خوفزدہ کیے ہوئے ہے  اور وہ ان جماعتوں کے اندر بڑے پیمانے پہ توڑ پھوڑ بھی کروارہی ہے۔

دیکھا جائے تو بلوچستان پہلے ہی ان کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی بڑا اختلاف سرے سے ہے ہی نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی خارجہ و داخلہ پالسیوں میں پوزیشن سنٹر رائٹ اور کہیں کہیں فار رائٹ ہے۔

کے پی کے  اور بلوجستان میں میں جے یو آئی (ایف)، جے یو آئی (س) اور جماعت اسلامی کا ایم ایم اے کی بحالی پہ رضامند ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے اور زیادہ تندہی سے کام کرنے اور اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی تیاری کررہی ہیں۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کو کنٹرول کرنے کی پیش بندی بھی ہوسکتی ہے یا اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو پنجاب میں لانے اور بدلے میں مذہبی جماعتوں کو دیگر چند جماعتوں سے مل کر ایک دفعہ پھر کے پی کے دینے کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔

مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف دونوں جماعتیں مذہبی دائیں بازو کے ووٹ بینک اور سیٹ ایڈجسمنٹ کی پالیسی پہ عمل پیرا ہوں گی۔

مسلم لیگ نواز آگے چل کر محاذ آرائی کی جو سیاست کرنے کی خواہاں ہے اس میں وہ پنجاب میں خاص طور پہ سنّی بریلوی پیر اور مذہبی سیاسی لیڈروں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی کوشش کرے گی جبکہ پی ٹی آئی بھی اس معاملے میں اپنی سی کوشش کرے گی۔

ایسے میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں، آزاد خیال گروپوں، سیکولر، لبرل اور لیفٹ رجحانات کے حامل حلقوں کو مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مذہبی دایاں بازو بطور پریشر گروپ کے اور دباؤ بڑھائے گا۔

اب تک یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اس دباؤ کے سامنے کھڑے رہنے کی بجائے سرنڈر کرتی آئی ہیں۔

مذہبی جماعتوں کے ہاتھ اقتدار لگنے سے سندھ، بلوچستان، خیبرپختون خوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کے اندر لیفٹ، ریڈیکل نیشنلسٹ قوتوں اور ایسے ہی مذہبی اقلیتوں جیسے شیعہ، احمدی، ہندو، کرسچین پہ اور زیادہ دباؤ دیکھنے کو ملے گا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر سیکولر حلقے میں تقسیم در تقسیم کا عمل بہت زیادہ ہے اور ان ميں باہمی اشتراک کے مواقع کم ہی نظر آرہے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ سیکولر اشرافیہ کی موقعہ پرستی اور مین سٹریم میڈیا اور سوشل ميڈیا پہ ان کی پرو اشراف پالیسیاں ہیں۔

ان کا کمرشل ازم عوامی حلقوں میں پورے سیکولر کاز کو ہی مشکوک بنا ڈالتا ہے۔

پاکستان کے عوامی سیکولر دوست حلقوں کو اس امر کا سدباب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Source:

http://nuktanazar.sujag.org/right-wing-pakistan