ابراہیم جویو: آخری سلام – تحریر: مستجاب حیدر نقوی

کون تھا یہ ؟ہم نے کبھی سنا نہیں اس کے بارے میں،کئی ٹی وی چینلز پہ خبر آرہی ہے۔پاکستان اسٹڈیز میں بھی نہیں پڑھا، کوئی تحریر بھی نہیں گزری۔’

‘ہوگا کوئی غدار جی ایم سید جیسا، باچا خان جیسا ۔۔۔’
‘یہ سندھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔’

‘(چائے کے ہوٹل مالک سے ) ارے بھائی چینل بدل، سپورٹس چینل لگا، کیا کان کھائے جارہے ہیں۔ہمیں سیاست سے کیا لینا دینا۔’

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اس ملک کے باتونی شہری طبقے کی اکثریت خاص طور پہ پنجاب کے شہروں میں جنم لینے والے نوجوانوں کی اکثریت کو کیسے اس مقامی سماجی شعور کی علامتوں سے متعارف کرایا جائے جن کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے سندھی،بلوچی،پشتو،سرائیکی شعور کی آبیاری کی ہے۔

ابراہیم جویو کے مرنے کی خبر پہ پاکستانی شہری باتونی طبقے کے نوجوانوں کا نہ تو چونکنا اور نہ اس موت پہ اپنے اندر کچھ محسوس کرنا بے حسی کی اس گرد کی وجہ سے ہے۔ جو اس ملک کے مین سٹریم ميڈیا،نصابی کتابوں،سینہ در سینہ چلتی روایتوں کے سبب جمی ہوئی ہے۔جو کتابیں، رسالے اور اس زمانے میں سوشل میڈیا پیجز ان کی اس گرد کی صفائی کرسکتے تھے ان پہ غداری پھیلانے،اسلام دشمنی، پاکستانی دشمنی کے الزامات کی بھرمار ہے اور ان کے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہیں ہے۔

اب سوچتا ہوں کہ ابراہیم جویو صاحب کی ایک سو تین سال کی زندگی کو سرخ سلام لکھوں تو یہی باتونی شہری کلاس کہے گی ‘دیکھو ہم نہ کہتے تھے سالا کیمونسٹ تھا۔’

اور یہ سنکر کوئی اور بول پڑے گا ‘ ہیں۔۔۔۔۔ کمیونسٹ کون ہوتے ہیں بھائی؟’

‘وہی سالے جو قادیانی ہوتے ہیں۔'( یہ سچا واقعہ ہے جو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے دیکھا،ظہیر کاشمیری یاد آئے اور ان کا تاریخی جملہ جو انہوں نے ختم نبوت کے جلوس کو لاہور کے ایک چوک سے گزرتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔مگر اسے یہاں لکھ کر ‘سر تن سے جدا’ کروانا نہیں چاہتا۔)

تو بھائی جب اس سماج میں کمیونسٹ قادیانی ہوسکتے ہیں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

ابراہیم جویو نے بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی کی سڑک پہ ہوئی شہادت کو کیسے محسوس کیا تھا اس احساس کو ان کی سندھی میں لکھی نظم سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔

اس احساس کو رفعت عباس اور اشو لال کی سرائیکی نظموں میں بھی ڈھونڈا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی شہری باتونی پرتوں کی ڈھب نرالی ہے۔کسی کو بلوچوں، سندھیوں،سرائیکیوں اور پشتونوں کے آشوب کی سمجھ نہیں آتی تو کوئی پرت یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقات کا سلوک تھا جس نے آخرکار بنگالیوں کے اندر’اکٹھے رہنے’ کی امنگ ختم کی اور آزادی کا نیا سورج ابھاردیا تھا۔یہ اسے آشوب ماننے کو تیار نہيں۔

کسی کو شیعہ کا آشوب سمجھ نہیں آتا تو کسی کو احمدیوں کا، کسی پرت کو مسیحیوں کا تو کسی کو ہندؤں کا آشوب سمجھ نہیں آتا۔

پاکستان کی شہری باتونی پرتوں میں اب ایسی پرتیں بھی ہیں جو ہر اردو بولنے والے کے اندر فہیم کمانڈو،ریحان کانا ، شکیل لنگڑا اور صولت مرزا ہی دیکھتے ہیں اور خدا جانے اچھے خاصے ریحانوں، شکیلوں، صولتوں کو لنگڑا،کانا،کمانڈوکیسے بنادیا گیا تھا، ویسے ہی جیسے حقوق مانگنے والے سندھی 84ء کی ایم آرڈی حریک کے دوران ڈاکو کہہ کر مار ڈالے جاتے تھےاور آج اکثر بلوچ سرمچار، گوریلے،دہشت گرد اور غدار کہہ کر مارڈالے جاتے ہیں۔

ابراہیم جویو نے سندھی زبان، ثقافت ، سندھی ہاریوں کے حقوق کی جدوجہد کی،سندھ کے اندر امن، انصاف اور مساوات کا خواب دیکھا۔یہ خواب بذات خود کسی بڑے جرم سے کم نہ تھے۔اسی لئے وہ پاکستان کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کسی پاکستان اسٹڈیز، سوشل اسٹڈیز کی کسی کتاب میں جگہ نہ پاسکے۔

لیکن ابراہیم جویو نے لاکھوں سندھیوں کو اپنی تحریروں سے متاثر کیا۔شعور زندگی بخشا۔اور ہم جیسی چند بچھڑی روحوں تک بھی اپنی روشنی بانٹی۔ سرخ سلام۔

Comments

comments