اداریہ تعمیر پاکستان : پاکستان سعودی عرب کے داخلی انتشار سے سبق سیکھے
سعودی عرب میں آل سعود کے اندر اقتدار کی رسا کشی کے بحران نے شدت اختیار کرلی ہے۔اور شاہی فرمانروا شاہ سلمان کے لڑکے محمد بن سلمان کی ہوس اقتدار اور اختیارات کو اپنے گرد مرتکز رکھنے کا جنون پاگل پن کی حد تک بڑھ گیا ہے۔اس سلسلے میں حال ہی میں آل سعود کے 12 شہزادوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر گرفتار ہونے والوں میں بن لادن کنسٹرکشن کمپنی کے چئیرمین بکر بن لادن بھی شامل ہیں۔اور گرفتار شہزادوں میں نیشنل گارڈ کے سربراہ اور شاہ عبداللہ کے بیٹے محمد متعب ، سابق ولی عہد محمد بن نائف اور شہزادہ اولید بن طلال کی گرفتاری کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔اور کہا جارہا ہے کہ یہ گرفتاریاں موجودہ شاہ سلمان اور ان کے بیٹے جو کہ اس وقت سعودی عرب کے ڈی فیکٹو سربراہ کے خلاف کسی بھی ممکنہ بغاوت اور مزاحمت کو وقوع ہونے سے روکنا ہے۔
محمد بن سلمان جو کہ یمن پہ جنگ مسلط کرنے کے ماسٹر مائینڈ ہیں۔اور اس وقت وہ شام،عراق میں مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکامی اور مڈل ایسٹ میں ایران کی بڑھتی پیش قدمی سے سخت پریشان نظر آتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ایک طرف تو ایران کو ان کے دوست روس سے دور کیا جائے تو دوسری طرف وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد سے ایران اور اس کی خطے میں سب سے بڑی حلیف طاقتور تنظیم حزب اللہ کے پر کاٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ امریکی صدر خود ہی امریکہ و جی فائیو پلس ون- ایران نیوکلئیر ڈیل ختم کردیں۔اور یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ سعودی عرب کی پوری کوشش ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف نئی جنگ کا آغاز کرے۔محمد بن سلمان قطر کےساتھ پیدا بحران کے بھی خالق تصور کئے جاتے ہیں۔حالیہ گرفتاریوں کا ایک رشتہ محمد بن سلمان کی یمن جنگ اور قطر بائیکاٹ کی پالیسی سے گرفتار شہزادوں کے اختلاف اور اندرونی تنقید سے بھی جوڑا جارہا ہے۔جبکہ کچھ تجزیہ کارطلال کی گرفتاری کا تعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے تعلقات کی خرابی بھی بتلارہے ہیں۔
سعودی عرب نے مڈل ایسٹ، جنوبی ایشیاء،افریقہ ، یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں فرقہ پرستی پہ مبنی جس ریڈیکل وہابی ازم کو پروان چڑھایا تھا اور دنیا بھر میں اپنا اثرورسوخ پھیلانے کے لئے جہادازم اور یک رخی و یک نوعی کلچر کو فروغ دیا تھا اس کی آگ سے اب اس کا اپنا آپ جلتا دکھائی دے رہا ہے۔شام ، عراق، افریقی ممالک، افغانستان،پاکستان سمیت دنیا بھر میں مین سٹریم صوفی سنّی و شیعہ اسلام کے خلاف اس نے جو تکفیری کلچر پروان چڑھایا اس کا نشانہ آل سعود خود بھی بن رہے ہیں۔پہلے القاعدہ چیلنج بنکر ابھری تھی، اب داعش خود سعودی عرب کے لئے ایک چیلنچ بنکر سامنے آئی ہے۔اور اس نے سعودی عرب کے اندر بڑے پیمانے پہ عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔
وزیر دفاع سعودی عرب محمد بن سلمان اپنے پیش روؤں کی فرقہ وارانہ پالیسیوں سے پیدا شدہ خطرات کا مقابلہ اور زیادہ فرقہ وارانہ پالیسیوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔وہ ایران سے اپنی جیو پولیٹکل غلبے کی اور مسابقت کی لڑائی فرقہ وارانہ زبان اور اسلوب میں لڑنا چاہتے ہیں۔اپنی پالسیوں پہ ان کو تھوڑی سی بھی تنقید برداشت نہیں ہے۔اسی لئے سعودی عرب میں سے پہلے موجود فکری گھٹن اور حبس میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔بقول نیویارک ٹائمز کے ایک تجزیہ نگار کے سعودی عرب میں آزاد خیال دانشور اور تنقیدی رويے کے مالک آزاد علماء کسی کیفے میں سعودی عرب کی حکومت پہ تنقید کا ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالتے اور نکال دیں تو ہراساں ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔
سعودی عرب کے حکمراں خاندان آل سعود کی 1925ء سے یہ تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ سے اپنے خطے اور لوگوں کی آزادی و خودمختاری کو سامراج کے ہاتھوں گروی رکھا ہے۔ابن سعود نے اپنے آپ کو برطانوی سامراج کے ہاتھوں فروخت کیا اور جب امریکی سامراج کا سورج بلند ہوا تو اس نے اپنے آپ کو امریکی سامراج کے ہاتھوں گروی رکھ دیا۔
موجودہ حالات میں شاہ سلمان جو کہ محمد بن سلمان کی کٹھ پتلی ہیں ہر قیمت پہ سعودی حکومت کے ہر حصّہ پہ اپنا کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں اور وہ سعودی عرب کو ہر صورت مڈل ایسٹ میں بالادست قوت کے طور پہ برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔اور اس مقصد کے لئے ان کو اسرائیل سے ہاتھ ملانے، اپنی رہی سہی خودمختاری اور اقتدار اعلی امریکی صدر کے ہاتھ گروی رکھوانے میں کوئی شرم نہیں ہے۔
سعودی عرب نے پاکستان کو بدترین عدم استحکام سے دوچار کرنے، یہاں پہ فرقہ وارانہ تقسیم بڑھانے کے لئے جنرل ضیاءالحق اور اس کے سیاسی بیٹے نواز شریف کو ہائر کیا تھا۔نواز شریف نے سعودی عرب کی خوشنودی کے لئے پاکستان کو سعودی طرز کی بادشاہت کے راستے پہ چلانے کی ایک کوشش 14 ویں ترمیم کے زریعے سے کی تھی۔اور آٹھ سال کی جلاوطنی کاٹنے کے بعد جب ان کو واپس پنجاب میں اور پھر 2012ء مرکز میں حکومت کا موقعہ ملا تو انہوں نے پھر سعودی عرب کی چاکری میں کسر نہ اٹھارکھی۔نواز شریف پاکستان کو یمن جنگ میں ملوث کرچکے ہوتے اگر اس وقت ان کو نیچے سے عوامی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
پاکستان سعودی عرب سے سبق سیکھ سکتا ہے۔موجودہ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے دورہ ایران کیا،ابھی حال ہی میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باوجوہ ایران گئے ہیں۔یہ اچھی شروعات ہے۔ہمیں مڈل ایسٹ میں سامراجی مداخلتوں اور مصنوعی طریقے سے رجیم ہٹاؤ پالیسیوں سے خود کو دور رکھنا چاہئے۔