حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کے ایکٹ میں ترمیم کا بل پاس کروایا جس کا بنیادی مقصد حکمران جماعت کی صدارت نااہل ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کو دلانا تھا، لیکن اسی بل میں انتحابی فارم کے لیے وضع کیے جانے والے ختم نبوت کے حلف نامے کو مبینہ اقرار نامے میں بدلنے کی ایک شق بھی متعارف کرائی گئی۔
اس شق کو لیکر مذہبی جماعتوں نے خاصا شور بلند کیا۔اس مجوزہ ترمیم نے مسلم لیگ (ن) کی اتحادی مذہبی جماعتوں جن میں جے یو آئی ایف سرفہرست ہے اور جمعیت اہلحدیث کو خاصی مشکل میں ڈال دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیکولر اور لبرل امیج کی جو مہم چلائی جارہی تھی اسے اس ترمیم نے خاصا متاثر کیا۔ ایک طرف پارٹی میں نواز شریف کے ساتھ خواجہ آصف جیسے سیاست دانوں کے لبرل امیج کا معاملہ ہے تو دوسری جانب پارٹی کے ساتھ کھڑے مولانا فضل الرحمان، پروفیسر ساجد میر جیسے پارلیمانی اتحادیوں اور ان کی جماعتوں کا دباؤ ہے۔
ادھرپارلیمانی اپوزیشن میں تحریک انصاف،اس کی اتحادی جماعت اسلامی اور پارلیمان سے باہر بیٹھی نواز شریف کیمپ کی مخالف مذہبی جماعتیں جن میں پاکستان عوامی تحریک،سنّی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، تحریک لبیک یا رسول اللہ اور منظوری کا انتظار کرنے والی ملی مسلم لیگ نے جماعت اہلسنت، تحریک ختم نبوت، سنّی تحریک، جماعت اہلسنت دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر تحفظ ختم نبوت کے نام پہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی۔ اس مہم نے سوشل میڈیا پر بھی زور پکڑا جس سے حکمران جماعت دفاعی پوزیشن میں آ گئی۔
اس دوران امریکہ کے دورے پر گئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی جس میں ان کو احمدی جماعت کے سربراہ کے بھتیجے کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسند طبقے اور مسلم لیگ نواز مخالف پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے اسے بھی اپنے تئیں سازش کا حصّہ خیال کرلیا۔
خواجہ آصف نے اینکر جاوید چوہدری کے ساتھ ایکسپریس نیوز ٹی وی پر ایک پروگرام میں اس بارے میں وضاحت دی کہ جو آدمی انہیں ملا وہ ان کے مرحوم دوست کا بیٹا تھا اور اس کے احمدی ہونے بارے میں ان کو بالکل علم نہ تھا اور یہ تصویر غلط استعمال کی جارہی ہے۔ لیکن اس سے آگے خواجہ آصف نے جو کہا اس نے مسلم لیگ (ن) کو مزید مشکل میں ڈال دیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ وہ تو سیلفی لینے والوں سے پوچھ لیتے ہیں کہ کہیں وہ احمدی تو نہیں ہیں۔
خواجہ آصف کا یہ بیان نواز شریف کو ایک سیکولر اور لبرل سیاست دان کے طور پر پیش کرنے والے صحافیوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے بعض علمبرداروں کو مشکل میں ڈال گیا۔
حکمران جماعت اپنے سیاسی مخالفوں کی جانب سے حلف نامے میں ترمیم پر ختم نبوت کے قانون کو غیر موثر بنانے کے الزام سے ابھی نمٹنے کی کوشش میں لگی تھی کہ قومی اسمبلی کے فلور سے سابق وزیراعطم کے داماد کیپٹن صفدر نے احمدی کمیونٹی کے خلاف انتہائی متنازع اور اشتعال انگیز تقریر کرڈالی۔
اس تقریر میں کیپٹن صفدر نے احمدیوں کو ملک دشمن اور پاکستانی فوج سے احمدی افسروں کو نکالنے اور ان کی بھرتی پہ پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کی عمارت کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پہ رکھے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا۔
کیپٹن صفدر کے اس بیان نے نواز شریف کی امیج بلڈنگ کرنے والے درجن بھر سیکولر لبرل صحافیوں اور دیگر شخصیات کو بہت ہی مشکل میں ڈال دیا اور ایسا لگ رہا ہے کہ اب تک ان کی جانب سے کی جانے والی ساری محنت اکارت گئی ہے۔
اگرچہ قومی اسمبلی کے فلور پر وزیراعظم خاقان عباسی نے کیپٹن صفدر کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا اور کہا کہ اس سے میاں نواز شریف سمیت مسلم لیگ نواز میں کوئی اتفاق نہیں کرتا۔ تاہم عباسی نے یہ بھی کہا کہ کیپٹن صفدر کی تقریر منافرت انگیز نہیں تھی۔ عاصمہ جہانگیر نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران نواز شریف سے کیپٹن صفدر کے بیان کا نوٹس لینے اور ان کے داماد کو شوکاز نوٹس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا جسے درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا۔
ادھر ختم نبوت کے معاملے پر فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفینگ میں واضح کیا تھا کہ فوج کے ضوابط بہت واضح ہیں جو مسلمان افسر بھی فوج ميں بھرتی ہوتا ہے وہ ختم نبوت کا حلف نامہ جمع کراتا ہے۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے ایک مبینہ متنازع بیان کو بنیاد بناتے ہوئے عوامی تحریک، بریلوی جماعت اہلسنت، تحریک لبیک یار رسول اللہ سمیت کئی ایک تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے پانامہ کیس سے لے کر احتساب عدالتوں میں اپنی قیادت کے خلاف ٹرائل کے معاملے کو سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ بنا کر پیش کیا اور نواز شریف کی ٹیم نے انہیں ترقی پسند، لبرل، روشن خیال اور بدلا ہوا سیاست دان بنا کر پیش کرنے کی جو مہم چلائی تھی وہ احمدی کمیونٹی کے خلاف کیپٹن صفدر سمیت مسلم لیگ کے وزرا اور اراکین اسمبلی کے جنونی ردعمل اور اس معاملے میں مولویوں کے سامنے سرنڈر کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
مسلم لیگ نواز کی سویلین بالادستی اور پاکستان کو اعتدال پسند ملک بنانے کے لبرل دعوؤں پہ شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے اہل دانش اور تجزیہ کاروں کی تنقید نواز شریف کا ساتھ دینے والی لبرل، سیکولر آوازوں پر بھاری ہو گئی ہے۔
حکمران جماعت کو سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ اپنے ساتھ جڑے سیکولر لبرل سیکشن کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تو دوسری جانب وہ پنجاب سمیت ملک بھر میں اپنے دائیں بازو کے مذہبی ووٹ کو ناراض کرنے کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی جو احمدیوں کے بارے میں انتہائی شاؤنسٹ سوچ کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی مخالف جماعتوں کو مذہبی کارڈ استعمال کرنے دینا نہیں چاہتی۔ چنانچہ ان حالات نے پارٹی کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو نواز شریف کی پارٹی کو دائیں جانب دھکیلنے کے خواہش مند ہیں اور ان ککی خواہش ہے کہ مذہبی کارڈ کو کسی صورت بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
نواز شریف کی ایک بڑی مجبوری یہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے جمہوریت پسند، اینٹی اسٹبلشمنٹ اور لبرل ترقی پسند امیج کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے اور بین الاقوامی برادری میں اپنے اس امیج کو خراب ہونا افورڈ نہیں کرسکتے۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس سے نکلنے کے لئے نواز شریف کو بہرحال کچھ نہ کچھ کھونا پڑے گا۔
Source: