وفاقی وزیر برائے مواصلات حافظ عبدالکریم کا تعلیم کے نام پر فراڈ – شیرافگن بزدار

ڈیرہ غازی خان میں انڈس انٹرنیشنل انسٹیوٹ کا قیام 2011میں عمل میں آیا,ادارے کا قیام عمل میں آتے ہی ادارے کا الحاق فیڈرل اردو یونیورسٹی اسلام آباد کے ساتھ کیا گیا ,ادارے کے منتظمین نے انسٹیوٹ کی تشہیر کے لیے ڈویثرن بھر کے اہم شاہراوں ,بازاروں اور مختلف سڑکوں پر بڑے بڑے بل بورڈز آویزاں کر دیے تھے ,جس میں اس وقت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ہارون رشید کے بیرون ملک کے مختلف یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کے ساتھ تصویریں نمایاں تھی اور اس وقت کے طلباء کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ انڈس انسٹیوٹ کا چائنہ کے مختلف یونیورسٹیز کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا ہے جس میں انڈس انسٹیوٹ کے فارغ التحصیل پوزیشن ہولڈرز کو ایم فل اور پی ایچ ڈیز پروگرام میں اسکالر شپ پر داخلے ملیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف سائن بورڈز پر وفاقی وزیر حافظ عبدالکریم کی تصویریں بھی نمایاں تھیں کہ حافظ صاحب کی کوششوں سے انڈس کے طلباء و طالبات بیرون ملک تعلیم حاصل کر سکیں گے اور اس میں ایم فل کے لیے رقم چالیس لاکھ جبکہ پی ایچ ڈی پروگرامز کے لیے 60لاکھ روپے تک کے بیرون ملک اخراجات کی پیش کش کی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ سٹوڈنٹس انڈس میں داخلے لے سکیں, اور اپنے اس تشہیر ی مہم کے ذریعے کامیاب بھی ہوئے کیونکہ ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ علاقے کے مکینوں نے ان کے جھوٹی تشہیر مہم سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کے داخلے انڈس انٹرنیشنل انسٹیوٹ میں کرائے کیونکہ یہاں کے لوگوں نے شاید خوابوں میں بھی کبھی نہیں دیکھا تھا کہ ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرسکیں گے اور ان کو بھلا کیا پتہ تھا کہ جس شخص حافظ عبدالکریم کو اپناخیرخواہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ راہزن نکلے گا وہ نہ کہ ان کے بچوں کا مستقبل شاد رکھے گا بلکہ اجاڑ دے گا

پہلے ہی سال اتنے زیادہ تعداد میں داخلوں کی وجہ سے حافظ عبدالکریم نے 2013 میں ادارے کی مزید مارکیٹنگ کی غرض سے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو انڈس انٹر نیشنل انسٹیوٹ میں مدعو کرکے ان سے انڈس کا افتتاح کرایا، وزیراعلی کے دورہ کے بعد انڈس انسٹیوٹ میں نئے پروگرامز بھی شروع کیے گئے، اور اس کے ساتھ حافظ عبدالکریم نے ڈاکٹر ہارون رشید کو ہٹا کر انڈس کا انتظام اپنے گھر جمائی داماد ندیم اقبال کے حوالے کر کے طلبا کا مستقبل داؤ پر لگادیا ,کیونکہ ڈاکٹر ندیم اقبال کا اپنا ایک ماضی ہے اور وہ ماضی میں جہادی تنظیموں کے ساتھ روابط رکھتے رہے ہیں اور شاید آج تک نادرا کے کسی بھی شناختی کارڈ یا ب فارم کی تصدیق کے لیے ان کوبقابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا, اور اس کے علاوہ اپنے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے انکو تعلیمی حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا.خیر ندیم اقبال نے اس وقت کے گورئمنٹ پوسٹ گریجویٹ کے پرنسپل ڈاکٹر نجیب حیدر اور گورئمنٹ گرلز کامرس کالج کے پرنسپل ڈاکٹر راشدہ قاضی کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا لیا اور ان دونوں شخصیات کو طلباء کو انڈس میں لانے کے ٹاسک دیے گئے جس میں ان دونوں شخصیات نے دن رات محنت اور لگن سے کام کر کے اپنے اپنے کالجز کے طلباء وطالبات کو سبز باغ دکھا کر انڈس میں داخلہ دلوائے

ادارے کا پہلے سال الحاق فیڈرل اردو یونیورسٹی کے ساتھ رہا ،ایک سال کے دورانیے میں فیڈرل اردو یونیورسٹی نے طلباء سے خود سمسٹرز کے امتحانات لیے، امتحانات میں کافی سارے اسٹوڈنٹس کی ناکامی کے بعد ادارے نے فیڈرل اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ سے ساز باز کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد ادارے نے فیڈرل اردو یونیورسٹی اسلام آبادکے ساتھ الحاق ختم کرنے کا فیصلہ کیا، فیڈرل اردو یونیورسٹی کے ساتھ الحاق ختم ہوتے ہی طلباء طالبات میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور طلباء و طالبات نے اس بابت احتجاج بھی کیا مگر اور کافی سارے طلباء طالبات نے معاملے کی جانکاری کے لیے انتظامیہ سے پوچھ گچھ کی کوشش کی تو ان تمام سٹوڈنٹس کو ادارے سے ایکسپیل کر دیا گیا

فیڈرل اردو یونیورسٹی اسلام آباد کے ساتھ الحاق ختم ہونے کے بعد ادارے کو ایک ایسے یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کی ضرورت پیش آئی جو ان سے امتحانات ادارے کی اپنی مرضی سے لینے کا پابند ہو، اس مشن پر ڈاکٹر نجیب حیدر اور ڈاکٹر ندیم اقبال نے نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس کا رخ کیا اور وہاں پر ان دونوں صاحبان نے این سی بی اے اینڈ اے کے ریکٹر ہیڈ ڈاکٹر منیراحمد سے مذاکرت کیے جو کہ ان دونوں صاحبان کا ذاتی دوست بھی تھا، اور اسی طرح ان کے معاملات این سی بی اے اینڈ ای کے ساتھ طے پا گئے مگر این سی بی اے اینڈ ای نے ان کے ساتھ مکمل طور پر الحاق نہیں کیا کیونکہ این سی بی اے نے اپنے ادارے کی تشہیری مہم میں انڈس انسٹیوٹ کا کبھی ذکر نہیں کیا اور وہ ہمیشہ اپنی تشہیری مہم میں اپنے دو کیمپسز بہاولپور اور ملتان کا ذکر کرتے رہے اور کبھی ڈی جی خان کیمپس کو اپنی تشہیری مہم کا حصہ نہ بنایا، خیر انڈس انتظامیہ نے این سی بی اے اینڈ ای کے ساتھ ووایلا جاری رکھا اور ان کے نام پر الحاق کے ساتھ اپنی تشہیری مہم جاری رکھی ، اور اس دورانیے میں انڈس انسٹیوٹ میں این سی بی اے اینڈ ای نے دورے بھی کیے اور ایک انٹرنیشنل کانفرنس بھی رکھی گئی جس کی صدارت این سی بی اے اینڈ کے ریکٹر ہیڈ ڈاکٹر منیر احمد نے کی، اس کے ساتھ انڈس کا نظام چلتا رہا انڈس انتظامیہ اپنی مرضی کے مطابق نان کوالفائیڈ اسٹاف سے طلباو طالبات کے امتحانات دلواتے رہے اور اپنے چہیتوں کو امتحانات میں اپنی مرضی کے مارکس بھی دیتے رہے

اس کے علاوہ انہوں نے اپنی تشہیری مہم میں انہوں نے یونیورسٹی اور طلباء کو اسٹاف سے متعلق یقین دہانی.کرائی گئی کہ ان کے پاس پی ایچ ڈی اور بیرون ملک سے تعلیم یافتہ اسٹاف ہے اس پر ایک فیصد عمل نہیں کیا گیا

این سی بی اے اینڈ ای کے ساتھ الحاق کے ایک سال کے مکمل ہونے کے بعد ایک نئے معاملے نے جنم لے لیا، معاملہ یہ تھا کہ جن دو طلباء طالبات نے دو دوسال کے پروگرامز میں داخلے لے رکھے تھے ان کی تعلیم کا دورانیہ مکمل ہوچکا تھا، وہی طلباء و طالبات انڈس انتظامیہ سے رزلٹ کارڈز اور ڈگری کے مطالبے پر اتر آئے ، انڈس انتظامیہ نے معاملے کو دبانے کے لیے طلباء کے ساتھ ٖفراڈ پر اتر آئے ،اور انتظامیہ نے انڈس طلباء خطرے کو ٹالنے کے لیے اپنے ایڈمن آفیسر نوید احمد المعروف چھوٹے نوید کی مدد سے طلباء و طالبات کے لیے مختلف سمسٹرز کے گریڈ کارڈز چھپوائے اور ساتھ ہی این سی بی اے اینڈ ای کے شعبہ امتحانات کے کنٹرولر کے جعلی مہر لگا کر طلباء کو دیے گئے جس پر طلبہ وطالبات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یوں انڈس انتظامیہ کے لیے وقتی طور پر خطرہ ٹل گیا

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا، انڈس انسٹیوٹ کا انتظامیہ اس دوران دھڑے کے ساتھ نئے داخلے کرواتے رہے اور ساتھ ساتھ ادارے کا این سی بی اے کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچاتے رہے ، اس دورانیے میں ایک طالب علم عبدالرشید گوہر نے اس بات کی تصدیق کروائی کہ انڈس ادارے کا کسی این سی بی اے اینڈ اے کا ساتھ الحاق نہ ہے اور طلباء و طالبات کو ڈگریاں اور گریڈ کارڈ جاری کیے گئے تھے وہ جعلی ہیں ،اس سلسلے میں انہوں نے انڈس انسٹیوٹ کے چیئرمین وفاقی وزیرحافظ عبدالکریم، انڈس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم اقبال، ڈاکٹر نجیب حیدر رجسٹرار غازی یونیورسٹی، ڈاکٹر راشدہ قاضی ڈین فیکٹی آف آرٹس، نوید احمد پرنسپل انڈس، قاضی سبحان احمد اور دیگر ذمہ داران کیخلاف عدالت میں فراڈ کرنے پر ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرانے کی درخواست کی تھی جس پر انڈس انتظامیہ کی آنکھیں کھل آگئیں اور وہ حرکت میں آگئے ،

ادارے کو اب احساس ہوچکا تھا کہ معاملہ ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور وہ بات 100فیصد درست ثابت ہوئی کہ ان کی جاری کردہ رزلٹ کارڈ جعلی ہیں، تو ادارے کے چونکہ این سی بی اے کے ساتھ الحاق کی باتیں چونکہ دم توڑ چکی تھیں اور وہ ان کے نام پر چونکہ جعلی گریڈ کارڈز بھی جاری کر چکے تھے اور بات چونکہ بہت آگے تک جا چکی تھی ، انڈس انتظامیہ نے اپنا ذاتی اثرورسوخ استعمال کرکے گورئمنٖٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے ساتھ الحاق کیا اور یونیورسٹی انتظامیہ کو یقین دلایا کہ ان کے ادارے کا پہلے الحاق این سی بی اے اینڈ کیساتھ تھا اور این سی بی اے ان کے طلباء کو سمسٹرز کے گریڈ کارڈز بھی جاری کردیے ہیں، اس شرط پر جی سی یو فیصل آباد نے ان کیساتھ الحاق کیا کہ یہ یونیورسٹی اپنی تسلی کے لیے این سی بی اے اینڈ ای سے اس بارے تصدیق کرے گی، تاہم جی سی یونیورسٹی نے طلباء و طالبات سے امتحانات لینا شروع کیے اور امتحانات کے بعد بٖغیر کسی تصدیق کے کافی سارے طلباء و طالبات کو ٹرانسکرپٹ جاری کر دیے گئے،

ٹرانسکرپٹ تقسیم کرنے کے لیے باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہور خصوصی طور پر تشریف لائے تھے اور طلباو طالبات کو ان کے ہاتھوں ڈگریاں دلوائی گئیں ، جس پر طلباء کو یقین ہو گیا تھا کہ انڈس انسٹیوٹ کا اب کوئی مسئلہ باقی نہ رہا مقررہ مدت پر جب انڈس کے سٹوڈنٹس نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈگریوں کا مطالبہ کیا تو جی سی یو ایف نے اپنی تسلی کے لیے انڈس کا ریکارڈ تصدیق کے لئے نیشنل کالج آف بزنس اینڈ اکنامکس کو بھیجا ، تو این سی بی اے اینڈ ای نے اپنی طرف سے جاری کردہ جعلی گریڈز کو دیکھ کر نہ صرف حیرانگی کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک کہ دیا کہ انڈس انٹرنیشنل انسٹیوٹ کو رزلٹ کارڈز جاری کرنا دور کی بات انہوں نے رجسٹریشن نمبر تک جاری نہیں کیا تھا اور انہوں نے ان گریڈ کارڈز کی نہ صرف تصدیق سے انکار کیا تھا بلکہ جی سی یو ایف انتظامیہ کو انڈس انتظامیہ کے خلاف فارجری دفعات کے تحت مقدمے کی بھی تجویز دی تھی، اس ساری صورتحال کو دیکھ کر گورئمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد نے انڈس انسٹیوٹ کے ساتھ الحاق ختم کیا اور یونیورسٹی کی طرف سے جاری کئے گئے تمام ٹرانسکرپٹ معطل کر دیے گئے ۔

اس ساری صورتحال کو مزاکرات کے ذریعے یا افہام و تفہیم سے حل کرنے کی بجائے طاقت کی نشے میں چور انڈس انتظامیہ اور ایم این اے حافظ عبدالکریم گورئمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر اور این سی بی اے کے ساتھ دھمکیوں پر اتر آئے، اور ایک بار پھر گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کو اس پورے معاملے میں شامل کیا، گورنر پنجاب نے جی سی یونیورسٹی انتظامیہ سے انڈس کے ساتھ دوبارہ الحاق بحال کرکے انڈس کو اپنے حق میں صفائی کا موقع دینے کا حکم صادر کیا جس پر جی سی یو ایف نے انڈس انتظامیہ کو دو ماہ تک سنا مگر انڈس انتظامیہ ان دو مہینوں میں بھی انڈس انتظامیہ صفائی پیش کرنے میں ناکام ہوئی، جس پر جی سی یونیورسٹی نے انڈس انسٹیوٹ کے ساتھ الحاق کو دوبارہ ختم کیا۔

گورئمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کا انڈس کے ساتھ الحاق کو ختم ہوئے 8ماہ ہو چکے ہیں ، اس تمام دورانیے سے طلباء مسلسل سڑکوں پر ہیں اور وہ اپنی آواز کو بے حس حکمرانوں تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں مگر ان کو آواز نہیں سنی جارہی ہے، ان طلباء کے اوپر پولیس دو مرتبہ لاٹھی چارج کرچکی ہے اور ان کے اوپر مختلف نوعیت کے ایف آئی آر بھی درج ہوچکے ہیں، اس سے پہلے وفاقی وزیر حافظ عبدالکریم جو کہ ادارے کا چیئرمین ہے ان سے ملنے کے لیے جانے والے طلباو طالبات پر ان کے پرائیوٹ گن مین غیر قانونی اسلحہ سے فائرنگ بھی کر چکے ہیں ، مگر ان تمام صورتحال میں بے بس حکمران خاموش تماشائی بنے کھڑے ہیں ، اور مقامی انتظامیہ کو معاملے کو بھی دبانے کی بھر پور کوشش میں لگا ہوا ہے۔

اس کے ساتھ افسوسناک امر یہ ہے اس ادارے نے 1500طلباء طالبات کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے، بہت ساروں کو جعلی ڈگریاں جاری کرکے ان کے کیئر یر کو مکمل طور پر تباہ کیا ہوا ہے ، مگراس ادارے کے تمام کرداروں کو جنہوں نے طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھیلا ہے کو بجائے سزا دینے کے اعلیٰ حکومتی عہدے دیئے گئے ہیں ، ایم این اے حافظ عبدالکریم کو 1500طلباء کے مستقبل تباہ کرنے پر انعام کے طور پر وفاقی وزیر بنا دیا گیا، ڈاکٹر نجیب حیدر کو غازی یونیورسٹی کا رجسٹرار مقرر کیا گیا، ڈاکٹر راشدہ قاضی فیکلیٹی ڈین آف آرٹس غازی یونیورسٹی بنا دی گئی اور ندیم اقبال کے ہاتھوں غازی یونیورسٹی کے خزانے کی چابیاں تھما دی گئیں

یہ سارا کچھ ہونے کے باوجود انڈس انتظامیہ اور حافظ عبدالکریم کے حامیوں کی جانب سے یہ واویلا کیا گیا کہ طلباء کے احتجاج کے پیچھے لغاری سرداروں یعنی کہ سیاسی مخالفین کا ہاتھ ہے, میں خود چونکہ اس بات کا گواہ ہوں اور تحریک کو لیڈ بھی کرتا رہا اس کے لیے میں حلفا کہتا ہوں کہ ہمیں آج تک نہ کبھی لغاری سرداروں نے سپورٹ کیا ہے اور نہ ہی کسی دوسری سیاسی شخصیات نے کیا ہے , کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کو سیاسی رنگ دینا کسی.صورت مناسب نہیں تھا, اور جب طلباء کی ہر طرف سے دروازے بند ہو گئے تھے تو اکیس اگست کو اپنی مدد کے لیے طلباء نے ڈیرہ غازی خان کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سائٹی کے ورکرزکو اپنے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج میں شرکت کی اپیل کی تھی جس میں سیاسی قائدین اور ورکرز نے کافی تعداد میں شرکت کی تھی , تاہم اس دن کا احتجاج مولوی عبداکریم اور اس کےحواریوں پر بجلی کی طرح گری تھی جس پرپر بوکھلائٹ کے شکار حافظ عبدالکریم کے حامیوں نے طلباء کےاحتجاج میں شامل ہو کر توڑ پھوڑ اور بدنظمی پھیلانے کی کوشش کی تھی جس کی انڈس سٹوڈنٹس نے موقع پر نشاندہی کرکے انتظامیہ کی توجہ شرپسند عناصر کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی اور شرپسند عناصر سے خود لاتعلقی کا اظہار کیا تھا مگر سب کچھ چونکہ پری پلان تھا اور پولیس کو حکم مل چکا تھا کہ وفاقی وزیرکے خلاف احتجاج کرکے اور ان کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اب بہت ہوچکا ہے لہذا احتجاج کرنے والے طلباء کو منتشر کرنے لیے ان پر لاٹھی چارج کیا جائے اور تمام سٹوڈنٹس کو گرفتار کرکے حوالا ت بند کرکے ان پر مقدمات درج کئے جائیں تاکہ ان کی ہمیشہ کے لیے زبان بندی ہو سکے

اس تمام صورتحال پر طلباء طالبات اب چیف جسٹس اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شاید اپوزیشن پارٹیز کسی فورم پر ان کے لیے آواز اٹھائیں اور شاید چیف جسٹس اس سارے معاملے پر کوئی از خود نوٹس لے۔

Comments

comments