ہند و پاک کی سیاست ماقبل تقسیم سیاست کی باز گشت ہے – آخری حصّہ – عامر حسینی
اعجاز اشرف آل انڈیا مسلم لیگ اور بی جے پی کے کمزور پوزیشن سے عروج تک پہنچنے کے درمیان بھی مماثلت تلاش کرتے ہیں۔لیگ کی کارکردگی 1937ء میں بہت ہی بری تھی اور بی جے پی بھی 1984 کے لوک سبھا الیکشن میں صرف دو نشستیں جیت سکی تھی۔پھر اس نے رام جنم بھومی تحریک شروع کی اور اس دوران اس نے اپنے آپ کو ہندؤ مذہبی جذبات کی واحد ترجمان پارٹی کے طور پہ پیش کیا۔اس نے ایودھیا جہاں پہ بابری مسجد تھی کی جگہ پہ مذاکرات کے دوران اپنی ویٹو پاور منوالی اور اس جگہ کو ہندؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ رکھ دیا۔
تب سے بی جے پی کا سیاسی گراف بلند ہونا شروع ہوگیا۔یہ اور زیادہ تیزی سے بڑھتا مگر وی پی سنگھ کی حکومت نے 1990ء میں دوسری پسماندہ ذاتوں کے لئے نوکریوں میں کوٹہ متعارف کرادیا۔اس کوٹے کے خلاف شور مچانے نے بی جے پی کے ‘ہندؤ ایکتا ‘ کے پروجیکٹ کو پیچھے دھکیل دیا۔اونچی اور درمیانی ہندؤ جاتیوں میں تقسیم ہوگئی۔
انیس سو بانوے میں جب بابری مسجد گرادی گئی تو اس واقعے نے بی جے پی کو سیاسی اچھوت بنادیا تھا لیکن چھے سال کے مختصر دورانیہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے علاقائی جماعتوں کے کانگریس اور دوسرے علاقائی سیاسی حریفوں سے مسابقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکز میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔تب سے ابتک اس کی طاقت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔یہ دے سال یعنی 2004ء سے 2014ء تک اقتدار سے باہر تو رہی لیکن اسے پھر مارجنلائز نہیں کیا جاسکا۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی علاقائی اتحادوں کی تشکیل کی حکمت عملی اختیار کی تھی خاص طور پہ پنجاب اور بنگال میں اس نے انٹر کمیونل بنیاد پہ علاقائی سیاسی گروہوں کے ساتھ اتحاد بنائے۔1937ء میں فضل حق کی کرشک پرجا پارٹی بنگال کی دستور ساز اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بنکر سامنے آئی۔اس نے پہلے کانگریس کی حمایت سے حکومت بنانے کی کوشش کی لیکن ان کے باہمی مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔
کانگریس پارٹی نے اس وقت کرشک پرجا پارٹی کے ممبران اسمبلی میں نقب لگانے کی کوشش کی اور پارٹی کے اندر بغاوت کے خطرے سے بچنے کے لئے فضل حق نے جناح سے مدد طلب کی۔جناح کی حمایت سے پہلے یہی فضل حق تھے جو کہتے تھے کہ اگر مسلم لیگ کے بغیر بھی ہندوستان کی ایڈمنسٹریشن کا مسئلہ حل کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔اور کچھ ماہ کے بعد انہی فضل حق کا کہنا تھا کہ اگر وہ کانگریس کی حمایت قبول کرلیتے تو اپنے ہاتھوں سے اسلام کے ڈیتھ وارنٹ پہ دستحظ کردئے ہوتے۔پنجاب میں یوننیسٹ پارٹی کے سکندر حیات خان نے مسلم لیگ کی کمیونل سیاست کی سخت مخالفت کی تھی۔1937ء میں مسلم لیگ نے پنجاب کی 84 مسلم نشستوں میں سے دو نشستیں جیتی تھیں لیکن سکندر حیات کو شک تھا کہ جناح کی کمپئن کچھ یوننیسٹ مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں ہندؤ راج کے ناگزیر ہونے کا یقین دلا چکی ہے۔تو اس نے اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کے لئے خود بھی کئی یوننیسٹوں کے ساتھ 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کرلی۔وہ بیک وقت یونینسٹ بھی تھے اور مسلم لیگی بھی تھے۔ایک مرتبہ جیسے ہی مسلم لیگ کے پنجاب اور بنگال میں قدم جمے تو پھر اسے روکنا ناممکن ہوگیا۔اور اس کی ایک وجہ ہندؤں میں دایاں بازو چاہے وہ کانگریس میں تھا یا اس سے باہر تھا کا قابو سے باہر ہوجانا بھی تھا۔کانگریس کی حکومت میں خاص طور پہ بہار اور اتر پردیش میں جو کمیونل فسادات ہوئے انھوں نے بھی کم اہم کردار ادا نہیں کیا۔
ماقبل تقسیم کی سیاست میں کمیونل ازم اور ایسے ہی شناخت کی سیاست نے آہستہ آہستہ ہندوستان کے مین سٹریم سیاسی منظرنامے پہ اپنا کنٹرول کرلیا تھا۔مسلم لیگ نے پنجاب میں مسلمانوں کے کل ووٹوں کا 65 فی صد اور بنگال میں مسلمانوں کا تراسی اعشاریہ چھے فیصد 46ء کے انتخابات میں حاصل کرلیا۔آل انڈیا مسلم لیگ جو کہ جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی جماعت کے طور پہ سامنے آئی تھی اس نے اپنی حمایت کو دوسرے طبقات تک بڑھانے کے لئے بھی اقدامات اٹھائے۔آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے اندر تنخواہ دار طبقے کی خواہشوں اور امنگوں کی ترجمان بنکر بھی سامنے آئی۔سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کے تناسب کی کمی کا ایشو بھی خوب خوب استعمال کیا گیا۔اور آل انڈیا مسلم لیگ نے پنجاب اور بنگال میں غریب کسانوں کے مقابلے میں موجود بھاری تعداد میں ہندؤ اور مسلم جاگیرداروں کے خلاف ریڈیکل ایجنڈا دیا اور کمیونسٹ پارٹی کے دانیال لطیفی نے 46ء میں مسلم لیگ کا منشور تشکیل دیا جس میں جاگیرداری کے خاتمے، زرعی اصلاحات متعارف کرانے تک کے وعدے کئے گئے۔
اگرچہ یہ وعدے صرف کاغذات تک ہی محدود تھے۔دلچسپ بات یہ ہے اس زمانے میں نیشنل کانگریس نے یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگی امیدواروں کے خلاف احراریوں اور جمعیت علمائے ہند کے مولویوں کو پنجاب کے دیہاتوں میں بھیجا اور انھوں نے پیر جاگیرداروں ، زمیندار اشرافیہ کے خلاف مذہبی اور مسلکی اعتبار سے پروپیگنڈا کیا۔اور فرقہ وارانہ لائن بھی اختیار کی۔یونینسٹ پارٹی اور آل انڈیا مسلم لیگ نے اس پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لئے خود بھی بریلوی مولوی اور پیر جن کا اثر بہت تھا سے مدد مانگی اور کانگریسی ملّا کی اصطلاح ان دنوں سامنے آئی اور اس نے بہرحال جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار کے پنجاب میں پروپیگنڈے کو غیر موثر کرڈالا۔
بی جے پی نے بھی اپنے اوپر سے برہمن پارٹی کا ٹیگ اتارنے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں۔اس نے بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کو اپنی طرف کیا ہے۔اس کے لئے اس نے اپنی پارٹی کے اندر پسماندہ جاتی اور دلت ہندؤ رہنماؤں کے ساتھ یا تو اتحاد بنایا یا ان کو اپنی پارٹی کے اندر شامل کرلیا ہے۔
نوٹ: اعجاز اشرف آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت جو کہ سنّی مسلمانوں کی اکثریت کی پارٹی تھی قائد اعظم محمد علی جناح کو سونپے جانے جوکہ مسلکی پس منظر کے اعتبار سے شیعہ تھے کو ایک سوچا سمجھا اقدام بتاتے ہیں اور اسی طرح وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت نرنیدر مودی کو سونپے جانے کو بھی ایک سوچا سمجھا اقدام بتاتے ہیں۔نرنیدر مودی کا تعلق بھی کمزور سمجھی جانے والی جاتی سے ہے۔اور اسے بھی مسلم لیگ اور بی جے پی کے درمیان ایک مشترکہ مماثلت قرار دیتے ہیں۔
اعجاز اشرف کو یہ شبہ اس لئے ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ جب پاکستان مسلم لیگ میں تبدیل ہوئی تو رفتہ رفتہ اس کی قیادت اور اس کا کنٹرول سنّی پس منظر رکھنے والی شخصیات کے پاس ہی رہ گیا۔لیکن اعجاز اشرف نے یہ بات نظر انداز کرڈالی کہ اصل میں پنجاب کے اندر اقتدار کی رسہ کشی جب ممدوٹ اور دولتانہ گروپ کے درمیان چلی تو یہ ممتاز دولتانہ اور ان کے اتحادی تھے جنھوں نے ملکر کمزور پڑگئی مجلس احرار میں جان ڈالدی اور قادیانی ایشو کھڑا کردیا جوکہ لاہور میں مارشل لاء لگانے پہ جاکر ختم ہوا۔مرکز میں خان لیاقت علی خان کے ساتھ کھڑے جاگیردار سیاست دانوں اور یو پی۔سی پی سے آئی اردو بولنے والی وردی بے وردی نوکر شاہی کمزور سی سرمایہ دار کلاس نے بھی ‘آرتھوڈوکس سنّی اسلام ‘ میں پناہ لے لی۔عثمانی صاحب شیخ الاسلام اور پھر مفتی شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان بن گئے۔حکمران لیگ کے اندر نمایاں حثیت کے مالک جو قادیانی ، شیعہ ، یہاں تک کہ سنّی پیر زمیندار تھے وہ بھی آہستہ آہستہ منظر نامے سے ہٹاڈالے گئے۔اور ریاستی سطح پہ آئیڈیالوجی کا تعین کرنے کے لئے ریاست نے پہلے مارشل لاء لگنے تک یا تو جماعت اسلامی کی دانش سے مدد لی یا پھر دیوبند سے آنے والوں کی دانش مستعار لی گئی۔ایوب خان نے پہلے پہل ڈاکٹر فضل الرحمان، ڈاکٹر یوسف گورایا، خلیفہ عبدالحکیم جیسے عقلیت پسندوں سے مدد لی لیکن آخر میں وہ بھی دیوبندی ملائیت سے مدد مانگنے لگے۔
یحیی خان کے زمانے سے جماعت اسلامی باقاعدہ ریاستی اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم بنی اور حد تو یہ ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو نے بھی غلام غوث ہزاروی،عبداللہ درخواستی سمیت دیوبندی آرتھوڈوکس مولویوں کو اپنے ساتھ رکھا جن کے اینٹی قادیانی ، اینٹی شیعہ اور یہاں تک کہ اینٹی صوفی سنّی نظریات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں تھے۔کراچی میں دیوبندی ازم یو پی ،سی پی اور راجھستان سے آنے والی مہاجر آبادی کے اندر مڈل کلاس اشرافیہ کے اندر زیادہ تھا اور تعداد کے اعتبار سے یہ اقلیتی رجحان تھا لیکن ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد جب کراچی کے اندر بڑے پیمانے پہ انڈسٹری لگی اور پشتون علاقوں کے ساتھ ساتھ ہزارہ ڈویژن جہاں پہ مولانا غلام غوث ہزاروی کا بڑا اثر ورسوخ تھا بڑے پیمانے پہ نقل مکانی ہوئی اور دارالعلوم کراچی جو کہ اردو بولنے والی دیوبندی خاص طور پہ متوسط تاجر اور تنخواہ دار طبقے کی ترجمانی کرتا تھا کے مقابلے میں دارالعلوم عربیہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی بنیاد یوسف بنوری نے ڈالی اور یہ بنیادی طور پہ کراچی آنے والے پشتون دیوبندی آبادی کا ترجمان بنکر ابھرا اور اس کے ابتداء میں پشتیبان نچلے متوسط طبقے اور غریب کسان پس منظر کے حامل لوگ تھے۔اور یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم کراچی کی نسبت جامعہ بنوریہ کے اندر ریڈیکلائزیشن بھی زیادہ دیکھنے کو ملی اور آنے والے دنوں میں جہاد ازم، تکفیریت کے عناصر کو بھی اسی دارالعلوم اور اس سے منسلک شاخوں کے اندر ہی زیادہ پذیرائی دیکھنے کو ملی۔
اس مدرسے خیبر پشتون خوا اور فاٹا کی غریب اور متوسط طبقے کے دیوبندی ہندکو،ہزارہ خاندان وابستہ ہوئے اور بعدازاں مڈل ایسٹ جانے والے خاندانوں کی بڑی تعداد بھی اسی مدرسے اور اس سے منسلک شاخوں کے ساتھ جڑی۔جہاد افغانستان سے لیکر جہاد کشمیر پروجیکٹ تک اور ایسے ہی اینٹی قادیانی تحریک سے لیکر اینٹی شیعہ تحریک تک اور اس سے آگے صلح کل صوفی ازم کے خلاف سب سے زیادہ کردار بھی جامعہ بنوریہ کا نظر آتا ہے۔پاکستان میں مسلم لیگ کی ہئیت اور ساخت کو زیادہ آرتھوڈوکس بنانے اور اس میں زیادہ فرقہ پرستی لیکر آنے میں کردار جنرل ضیاء الحق کا بنتا ہے۔
اس لئے یہ کہنا کہ جناح کو مسلم لیگ کا سربراہ بنانا اس وجہ سے تھا کہ وہ شیعہ تھے اور یہ اپنے اوپر سے آرتھوڈوکس ٹیگ اٹھانے کے لئے تھا ٹھیک نہیں ہے۔کیونکہ مسلم لیگ جب تشکیل ہوئی تو اس کی تشکیل میں سرآغا خان سے لیکر نواب آف محمودآباد سمیت درجنوں رہنماء شیعہ تھے،کئی لوگ قادیانی تھے، کئی لوگ صوفی سنّی روایات سے تعلق رکھتے تھے جیسے خواجہ ناظم الدین کا خاندان تھا۔مسلم لیگ کے اندر مسلم فرقہ پرستانہ عنصر کبھی غالب نہیں رہا تھا بلکہ اس پارٹی نے اپنے آپ کو جناح سے پہلے اور جناح کے زمانے میں بھی کبھی شیعہ –سنّی اور اینٹی قادیانی تحریکوں میں ملوث نہیں کیا تھا اور نہ ہی 37ء کے زمانے میں اور نہ 45ء اور 46ء کے زمانے میں اس کی سیاست اینٹی ہندؤ ازم ہونے کے باوجود کسی بھی لحاظ سے اینٹی شیعہ ، اینٹی قادیانی یا اینٹی تصوف نہیں تھی۔بلکہ جناح اور اقبال کا ریکارڈ یہ تھا کہ وہ جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار ، خاکسار جیسی جماعتوں کی فرقہ پرستانہ روش سے سخت بیزار تھے اور ان کی آرتھوڈوکسی کو مسلم یونٹی کی راہ میں روکاوٹ خیال کرتے تھے۔
یہ اور بات ہے کہ جب جناح نے کمپوزٹ کلچر ،سیکولر ازم ، مشترکہ ثقافتی ورثے کے خلاف دو قومی نظریہ، ہندؤ اور مسلمانوں کے الگ الگ قوم ہونے اور الگ الگ تہذیب و ثقافت کے علمبردار ہونے کا مقدمہ پیش کیا تو ان کا یہ مقدمہ آگے چل کر مسلم تھیوکریٹک سیاسی پارٹیوں کے بہت کام آیا۔جب جناح نے پاکستان بننے کے بعد 11 اگست کی تقریر میں پاکستانی قومیت اور ریاست کی نظریاتی بنیاد سیکولر اور لبرل تصور شہریت پہ رکھنے کی بات کی اور اپنی ہندؤ وزیر قانون، قادیانی وزیرخارجہ، صوفی سنّی وزیراعظم ،خود اپنے شیعہ پس منظر کے ساتھ گورنر جنرل ہونے پہ مشتمل حکومت اور کابینہ کی تشکیل کردی اور اس طرح سے مستقبل میں پاکستانی ریاست کے نظریاتی تشخص کا ازسرنو تعین کرنا چاہا تو ان کی اس کوشش کو خود ان کی حکمران جماعت اور پاکستان کی افسر شاہی اور مسلم لیگ کے حامی ملاؤں نے ماننے سے انکار کردیا۔
ان کی تقریر سنسر کردی گئی اور اگر روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہمت کرکے اس پوری تقریر کو شایع نہ کرتے تو ہمیں اس تقریر کا ریکارڈ تک نہیں ملنا تھا۔47ء کے بعد پاکستان کی سب مذہبی سیاسی جماعتوں نے ، سرکاری گملوں میں پلنے والی مسلم لیگ نے اور اس ملک کی وردی بے وردی نوکر شاہی نے فرقہ پرستانہ تصور کو مزید آگے بڑھایا اور آج پاکستان کے اندر اسلامائزیشن کا مطلب وہابائزیشن اور اس کی سب سے زیادہ ریڈیکل شکل جہادی تکفیری دیوبندی-سلفی ازم ہوگیا ہے۔اور عملی طور پہ اس میں شیعہ، احمدی ، صوفی سنّی اور سیکولر لبرل مسلم نظریات و اقدار نکال باہر کردئے گئے ہیں۔
اعجاز اشرف نے اپنے آرٹیکل میں ایک بنیادی نکتہ اٹھایا ہے جس پہ کم از کم پاکستان کے سیکولر ،لبرل اور لیفٹ حلقوں میں میرے خیال کے مطابق کبھی ٹھیک سے اور سنجیدگي سے بحث نہیں ہوئی ہے۔اس نکتے کا تعلق ‘آئیڈنٹی پالیٹکس ‘ کی پاور اور اس کے اثرات سے ہے۔شناخت کی سیاست کس قدر پاور فل ہوتی ہے اور پاور فل پالیٹکس آخرکار کمیونٹی کے اپنے اندر کے اختلافات کے اندر عارضی طور پہ ڈوب بھی جاتی ہے۔آل انڈیا نیشنل کانگریس نے ‘عوامی رابطہ پروگرام ‘ بنایا تھا اور اس حوالے سے اس نے مسلم لیگ کی حریف مذہبی نیشنلسٹ جماعتوں سے جو تعاون مانگا اور ان کی پشت پناہی کی اس کے مطلوبہ نتائج تو نہ ملے بلکہ کانگریس کو ایک ایسی پارٹی کے طور پہ دیکھا جانے لگا جو مسلم یک جہتی اور اتحاد کو ان کے درمیان پائے جانے والے مسلکی ، فرقہ وارانہ اور معاشی تضادات کو ایکسپلائٹ کرکے ختم کرنا چاہتی تھی۔جناح اور ان کے ساتھیوں نے نیشنل انڈین کانگریس میں ابوالکلام آزاد سمیت کانگریسی مسلم لیڈروں کی کمزور پوزیشن اور ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں مضبوطی سے ابھرنے والے ہندؤ شاؤنسٹ رہنماؤں کی انانیت اور آمرانہ طرز عمل کو بہت ہی کامیابی کے ساتھ ایکسپوز کیا اور حقیقت میں موجود کانگریس میں موجود ہندؤ نیشنل بورژوازی کی سبھائی ذہنیت کی جانب جھکاؤ کو مبالغے کے ساتھ بیان کیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار کی دیوبندی اور سلفی وہابی لیڈرشپ کی نیشنل کانگریس کے سرمایہ داروں سے حقیقی یا جھوٹے تعلقات کا پروپیگنڈا بھی خوب کیا۔ساتھ ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ پنجاب ، سندھ ، اور شمال مغربی سرحدی صوبے کی زمیندار اشرافیہ کو آل انڈیا کانگریس کی زرعی اصلاحات کے پروگرام سے خوفزدہ کرنے اور پنجاب ، سندھ ، بنگال کے شہری علاقوں میں ہندؤ بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے غلبے سے مسلمانوں کی کمزور سرمایہ داری اور مڈل کلاس طبقے کے اندر مسلم کمیونل شناخت کو ایکسپلائٹ کرنے میں کامیاب رہی اور اس نے خاص طور پہ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے شیرازے کو تتر بتر کردیا۔آل انڈیا نیشنل کانگریس نے چند سالوں میں ہی اپنے ‘مسلم عوامی رابطہ پروگرام’ کو ختم کردیا۔اعجاز اشرف کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ ، یک نوعی ، تکثریت مخالف شناخت کی سیاست کا مقابلہ صرف ‘معاشی اصلاحاتی ایجنڈے ‘ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ان کا خیال یہ ہے فرقہ وارانہ شناخت کی سیاست کا مقابلہ لیفٹ،لبرل ، روشن خیال سیکولر جمہوریت پسند حلقے کمپوزٹ کلچر اور مشترکہ ثقافتی شناخت پہ اصرار کرکے کیا جاسکتا ہے۔
اعجاز اشرف نے ‘ماقبل ہندوستان کی سیاست کے بیانئے کی بنیاد یاسمین خان کی کتاب ‘دی گریٹ پارٹیشن ،وینکٹ دھولیپا کی کتاب ‘ کری ایٹنگ اے نیو مدینہ ‘ اور انیتا اندر سنگھ کی کتاب ‘دا اوریجنز آف پارٹیشن آف انڈیا 1947۔1936 ‘پہ رکھی ہے۔جبکہ اعجاز اشرف خود دہلی میں مقیم صحافی ہیں اور ‘دی آور بی فور ڈان ‘ ناول کے مصنف ہیں۔جوکہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔
نوٹ : اعجاز اشرف کے مضمون کو درج ذیل لنک پہ پڑھا جاسکتا ہے