ہند و پاک کی عصر حاضر کی سیاست ماقبل تقسیم کی سیاست کی باز گشت ہے – حصّہ اول – محمد عامر حسینی
ہمارے ہاں جب مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ‘گلالئی سیکس ٹیکسٹ ساگا’ اور ‘ حمزہ شہباز سیکنڈ میرج ساگا’ سے لیکر سابق وزیراعظم نواز شریف کی جی ٹی روڈ سیاست پہ ہی تجزیوں، تبصروں، کالم اور مضامین نے جگہ گھیر رکھی ہے تو ایسے میں ہندوستان کے اندر ‘تقسیم ہندوستان’ کو لیکر جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے آغاز ہی میں سوشل میڈیا، نیوز ویب سائٹس اور پرنٹ میڈیا میں کافی بحث ہورہی ہے۔اور اس تقسیم کے سوال کو لیکر بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور آج کے حالات کے تناظر میں تقسیم بارے نئے طریقے سے دیکھا جارہا ہے۔اس بحث کا اکثر حصّہ دانشورانہ ، سنجیدہ اور علمی ہے اگرچہ وہاں بھی مہا احمقوں، مذہبی جنونیوں اور تنگ نظر لوگوں کی کمی نہیں ہے جیسے ہمارے ہاں نہیں ہے۔لیکن اس سارے معاملے میں بھارت ایک چیز میں ہم سے آگے ہے۔اور وہ ہے وہاں پہ مہا مذہبی فسطائی احمق جعلی دانشوروں اور مذہبی فسطائیوں کے مقابلے میں سنجیدہ اہل علم اور دانش کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور وہاں پہ کم از کم قحط کا عالم نہیں ہے۔
ہمارے سماج کا حال یہ ہے کہ اس ملک کا چیف جسٹس جب کوئٹہ میں بم دھماکے میں شہید ہونے والے وکلاء اور دیگر شہریوں کی پہلی برسی پہ خطاب کرتا ہے تو وہ ‘دو قومی نظریہ کی بھی من مانی تشریح کرتا ہے اور مسلمان قوم کی بات کرکے دوسری قوم جسے کہتا ہے اس کا نام تک لینا اسے پسند نہیں ہے۔اسلامی جمعیت طلباء ، جماعت اسلامی پاکستان اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ قربتیں رکھنے کا ماضی لئے موجودہ چیف جسٹس اگر اس طرح کی تنگ نظری دکھاتے ہیں تو حیرانی نہیں ہوتی لیکن یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جس ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ اگر کسی کی مذہبی شناخت کے سبب اس کمیونٹی کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا تو وہ انصاف کی کرسی پہ بیٹھ کر اپنے مذہبی شاؤنزم کو کیسے اس کمیونٹی کے کسی مدعی یا ملزم سے انصاف کرپائے گا؟
The BJP’s ideology and its growth mirrors that of the Muslim League in the 1930s
سکرول ان ہندوستانی ویب سائٹ پہ اس عنوان سے ایک بہت ہی معنی خیز آرٹیکل شایع ہوا ہے۔اس آرٹیکل کے مصنف کا کہنا یہ ہے کہ ہندوستان کی حکمران جماعت کی جو فکر ہے اور اس کی جو نشوونما ہے وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی 1930ء کی سیاست کی عکاس ہے۔پاکستان سماج میں مین سٹریم میڈیا کا بیشتر حصّہ، اسکول ، کالج ، دینی مدرسے ، جامعات ، سول و ملٹری نوکر شاہی کے شعبہ تعلقات عامہ ، دائیں بازو کی سنٹر اور فار رائٹ جماعتیں اور اس ملک کے اکثر ججز ان سب کے ہاں جس آئیڈیالوجی /فکر کو فروغ دیا جاتا ہے وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی 1930ء کی پالیسی کے ساتھ ہی ہم آہنگ ہے۔لیکن ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ ہے 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے جب مسلمان قوم کہا جاتا تھا تو اس میں وہ مسلمانوں کے فرقوں کی تقسیم کو مدنظر رکھے بغیر سب مسلم فرقوں کو شامل کرتے تھے۔
لیکن پاکستان میں اب زیادہ تر مذہبی قدامت پرست اور دو قومی نظریہ کے حامی اس میں بھی کٹ لگاتے ہیں۔اسماعیلی و جعفری شیعہ ، ذکری سنّی اس فہرست سے خارج ہیں اور احمدی/قادیانی بہت پہلے اس سے نکال دئے گئے تھے۔پاکستانی ریاست اور زرایع ابلاغ میں جو رائٹ ونگ کا غالب سیکشن ہے تو وہ اس صف سے ‘صوفی سنّی ‘ آبادی کے طرز فکر کو بھی خارج کرتا ہے اور سلفی-دیوبندی تعریف مسلمان کو ہی معیاری تعریف خیال کیا جاتا ہے۔اور اگر آج پاکستانی قومیت کی بنیاد ‘مسلمان ‘ ہونے کو ہی مانا جائے جیسے ہمارے چیف جسٹس صاحب نے فرمایا تو اس قومیت کے حقدار اس ملک کے ہندؤ،قادیانی،کرسچن ،چند ایک بچے کھچے پارسی بھی نہیں ٹھہرتے۔اور یہ ایک بہت بڑا تضاد ہے جسے پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتا آج تک سلجھا نہیں سکے ہيں۔
اگر دیکھا جائے تو برصغیر پاک و ہند کی جو ماقبل تقسیم تاریخ ہے وہ آج کے ہندوستان اور پاکستان دونوں کی سیاست پہ اثر انداز ہورہی ہے۔
اعجاز اشرف جنھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی آئیڈیالوجی اور آل انڈیا مسلم لیگ کی آئیڈیالوجی کے درمیان اشتراک تلاش کیا ہے کہتے ہیں:
‘ہندوستان میں آج حزب اختلاف کی جماعتیں جس چیلنچ کا بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے سامنا ہے وہ ان مشکلات کی طرح ہے جس کا سامنا آل انڈیا نیشنل کانگریس کو محمد علی جناح کی مسلم لیگ سے 1937ء میں تھا۔اس وقت کانگریس کو مسلم لیگ کی جانب سے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کے احساسات کو بڑھانے کی سٹریٹجی سے نبٹنا پڑرہا تھا تو اسے جناح کی ليگ کی جانب سے اس دعوے پہ اصرار کا سامنا بھی تھا کہ وہ مسلمانوں کے مفادات کی واحد محافظ اور ان کی واحد نمائندہ ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ اس زمانے میں یہ دلیل دیتی تھی کہ ‘کمپوزٹ نیشنل ازم ‘ ، مسلمانوں سمیت ہندوستان کی تمام نسلی و مذہبی برادریوں کے ایک قوم ہونے کا کانگریس کا دعوی ہندؤ راج قائم کرنے کا ایک بہانہ ہے۔اور یہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو متاثر کرے گا ‘
اعجاز اشرف کے بقول آج حزب اختلاف کی جماعتیں بی جے بی کے ‘ہندؤ نیشنلزم ‘ کا جواب دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔یہ ایسا نیشنلزم ہے جو کہ ہندؤں کے اندر ان کی اینگزائٹی کو مزید بڑھانے کا کام کرتا ہے۔’سنگھ پریوار ‘ اور ہندؤ فسطائی بھی کمپوزٹ نیشنل ازم پہ حملہ آور ہیں۔اور وہ یہ کہتی ہیں کہ کمپوزٹ نیشنل ازم مسلمانوں کی خوشامد اور ان کو خوش رکھنے اور ‘ ہندوستان کی ہندؤ شناخت ‘ کو ختم کرنا ہے۔
اعجاز اشرف نے آل انڈیا مسلم لیگ اور بی جے پی کے درمیان پائے جانے والے اس بنیادی اتفاق کہ قوم کی تشکیل کی بنیاد مذہبی شناخت ہوتی ہے کو جانچنے کے لئے 1936ء کے اخیر سے 1937ء تک کی آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کی جانچ کی ہے۔1936ء کی سردیوں میں 11 صوبائی دستور ساز اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔چھے اسمبلیوں میں کانگریس کو واضح اکثریت ملی جبکہ تین میں وہ سب سے بڑی پارٹی بنکر سامنے آئی۔حیرت انگیز طور پہ کانگریس نے مسلمانوں کے لئے مختص 482 نشستوں میں سے 56 پہ انتخاب لڑا۔28 نشستیں کانگریس نے جیتیں۔ مسلمانوں کے سب سے بڑی آبادی کے صوبے اترپریش/یوپی میں اسے ایک بھی نشست نہیں ملی۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کے کل ووٹوں کا چار اعشاریہ آٹھ فیصد حاصل کی جبکہ 272 نشستوں میں سے اس نے 43 نشست حاصل کیں۔علاقائی اتحادوں نے زیادہ نشستیں لیں لیکن اتر پردیش میں مسلم لیگ نے 46 میں سے 39 نشستیں حاصل کرلیں۔
آل اںڈیا مسلم لیگ چونکہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے ووٹ نہیں لے پائی تھی تو کانگریس کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کی زیادہ بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائے گی۔اور اگر کانگریس ایسا کرنے میں کامیاب رہتی تو وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کے دعوے کو رد کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔اس وقت آل انڈیا کانگریس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا جو کہ اس وقت ہندوستان میں ایک کالعدم پارٹی تھی کے کیڈر بھی کام کررہے تھے۔کمیونسٹ پارٹی کے رکن ڈاکٹر محمد اشرف نے نے کانگریس کے رہنماء جواہر لعل نہرو کو ‘مسلم عوام رابطہ مہم ‘ شروع کرنے کا مشورہ دیا جسے انھوں نے قبول کرلیا۔اس مہم کا مقصد مسلمانوں کو یہ باور کرانا تھا کہ مشترکہ طبقاتی مفادات کی بنیاد پہ اتحاد کی بنیاد مشترکہ مذہب کی بنیاد پہ اتحاد سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم اور حقیقی ہے۔آخرکار مسلمان کسانوں کا مفاد اور ہندؤ کسانوں کا مفاد مشترکہ تھا اور دونوں کو مسلمان و ہندؤ جاگیرداروں کے استحصال کا سامنا تھا۔
کانگریس کو امید تھی کہ مسلمانوں کو اپنی حمایت پہ راضی کرلے گی کیونکہ کانگریس سمجھتی تھی کہ وہی ایک ایسی پارٹی ہے جو کہ ہندوستان کو نوآبادیاتی غلامی سے نجات دلاسکتی ہے اور سب ہندوستانیوں کے لئے معاشی ترقی کے راستے کھول سکتی ہے۔
کانگریس جب معاشی بنیادوں پہ مسلمانوں کو ساتھ ملانے کا پروگرام سامنے لیکر آئی تو آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی کانگریس کی اس کمپئن کو ناکام بنانے کے لئے صف بندی کی۔علامہ اقبال نے جناح کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے کہا،’ملک میں صرف معاشی مسئلہ ہی نہیں ہے۔مسلمانوں کے نکتہ نظر سے ثقافتی مسئلہ کے زیادہ مضمرات بنتے ہیں’۔اقبال
اعجاز اشرف کہتے ہیں کہ اقبال نے جو بات کی اس کی باز گشت سنگھ پریوار کے نظریہ سازوں کے ہاں تین عشروں سے سنائی دیتی ہے۔ویسے اگر دیکھا جائے تو پاکستان بننے کے بعد سید مودودی کی جماعت اسلامی سے لیکر بریلویوں کی جمعیت علمائے پاکستان تک اور جمعیت علمائے اسلام دیوبندی سے لیکر اہلحدیث کی جمعیت اہلحدیث تک اور آج کی نئی مذہبی جماعتیں ‘ملّی مسلم لیگ/جماعت دعوہ ‘ ، ‘اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان’، ‘سنی تحریک ‘ سب کی قیادت اور نظریہ سازوں کے ہاں بھی یہی باز گشت سنائی دیتی ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ جماعت اسلامی سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ اس نے اس زمانے میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ دیا۔لیکن مسلم لیگی نظریہ سازوں نے ‘اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور جدیدیت کے سب مسائل کا حل اس میں موجود ‘ ہونے کا نعرہ دیا جسے بعد میں پاکستان کے اندر ہر ایک مذہبی جماعت نے اپنالیا۔اعجاز اشرف کہتے ہیں کہ ان دنوں آل انڈیا مسلم لیگ نے کانگریس کی جانب سے اکبر، دار شکوہ اور امیر خسرو وغیرہ کی عظمت کو بیان کرنے اور ان کو ہند مسلم تہذیب کا نمائندہ بناکر پیش کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔آل انڈیا مسلم لیگ کا خیال یہ تھا کہ ان جیسی شخصیات کو ‘کمپوزٹ کلچر اور اس پہ قائم سیکولر نیشنل ازم ‘ کے معمار قرار دیکر ‘ہندؤ راج ‘ کو ممکن بنانا چاہتی ہے اور اورنگ زیب جیسی شخصیات کو نظر انداز کرنا جن کی مذہبی سوچ کمپوزٹ کلچر کی منافی ہے کے پیچھے بھی بدنیتی ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے ‘گئو کشی ‘ کے خلاف تحریک مسلم ثقافتی عادات کو مجہول بنانے کی کوشش اور بندے ماترم کو ہندؤانہ علامت قرار دیا اور اسے بت پرستی کو فروغ دینے کی کوشش قرار دینے پہ اصرار کیا۔
نوٹ: کمپوزٹ کلچر –مشترکہ ثقافتی ورثہ کی نفی کی آل انڈیا مسلم لیگ کے ہر ایک چھوٹے بڑے قائد کی جانب سے چلائی جانے والی مہم اور اس حوالے سے دی جانے والی دلیلوں کو بعد ازاں پاکستان میں مسلم لیگ کی جاگیردار قیادت اور وردی بے وردی نوکر شاہی نے جمہوریت،قومیتوں کے حقوق ، صوبائی خودمختاری کی نفی کرنے کے لئے استعمال کیا اور مذہب کی بنیاد بنائی۔جماعت اسلامی سمیت ہر ایک مذہبی جماعت نے اس دلیل کے زریعے سے ‘تھیاکریسی اور تھیوکریٹک ریاست و تھیاکریٹک آئین ‘ کو لازم و ملزوم بنانے کی کوشش کی اور آج اس کوشش کی انتہائی شکل ‘الٹراکنزرویٹوازم ، تکفیریت، جہاد ازم ، فرقہ پرستی ‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔اور ریاست کے سب ہی اداروں کے نزدیک ‘کمپوزٹ کلچر ‘ کی نفی ہی پاکستان کی نظریاتی اساس ہے۔
کانگریس نے اعجاز اشرف کے بقول آل انڈیا مسلم لیگ کی اس مہم کا رد یوں کیا کہ کہا کہ بندے ماترم کے پہلے دو اشعار ہی عوامی پروگراموں میں گائے جاتے ہیں اور ان میں ‘بھارت ماتا’ کا مطلب بھارت کو دیوی بتلانا نہیں ہے اور اس طرح سے بت پرستی نہیں ہے۔تاریخی نصاب جس میں چند خاص مسلمانوں کی عظمت بیان ہوئی تھی اس کے خالق ذاکر حسین تھے جو جامعہ ملیہ دہلی کے بانیان میں سے تھے اور اس کے پہلے چانسلر بھی اور پھر ہندوستان کے تیسرے صدر بھی بنے۔جناح نے بھی جب تک کانگریس نے اس نکتے کو نہیں اٹھایا تھا کانگریس کے جھنڈے کے تین رنگوں کی مذمت نہ کی تھی۔
لیکن اس کمپئن نے مسلم لیگ کے ابھار اور مقبولیت پہ روک لگانے میں کامیابی کانگریس کو نہ دلائی۔1945/46 میں جو انتخابات ہوئے اس میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کے کل ووٹوں کا 76 فیصد حاصل کرلیا جبکہ 37ء میں یہ محض چار اعشاریہ آٹھ فی صد تھا۔
نوٹ : اعجاز اشرف نے اس مضمون میں اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ آخر کار کانگریس کی مسلم عوام رابطہ مہم کی ناکامی کے اسباب کیا تھے؟
میرے خیال میں کانگریس نے کنور محمد اشرف سمیت آل انڈیا نیشنل کانگریس میں موجود ترقی پسند مسلمانوں کی جانب سے جس معاشی طبقاتی اشتراک اور برصغیر میں دو ثقافتوں کی بجائے مشترکہ ثقافت کے جس نکتے پہ زور دینے کا کہا تھا اسے کانگریس کے ہی ان اتحادیوں نے ناکام بنادیا جن کو عرف عام میں ‘کانگریسی ملّا ، نیشلسٹ ملّا ‘ کہا جاتا تھا۔دارالعلوم دیو بند کی نمائندہ مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار نے آل انڈیا مسلم لیگ کے خلاف مہم کی بنیاد فرقہ وارانہ تنگ نظری پہ استوار کی۔مسٹر جناح سمیت آل اںڈیا مسلم لیگ کی صف اول کی قیادت میں سے جن کے پس منظر شیعہ یا صوفی سنّی تھے ان کی تکفیری مہم چلائی گئی اور ایسے ہی اس قیادت کی جدیدیت کو بھی چیلنج کیا گیا۔ان کو بے عمل ، شریعت کی پابندی نہ کرنے والے، رقص و سرود میں ڈوبے ، گمراہ ، بدعتی اور ان کی عورتوں کو بدقماش تک قرار دیا گیا۔
ان کی ذہنیت کو غیر اسلامی بتلایا گیا اوردلچسپ امر ہے کہ مجلس احرار نے پنجاب میں پیر جاگیردار مسلم لیگی امیدواروں اور اتر پردیش میں شیعہ مسلم تعلقہ داروں کے خلاف تحریک کا بنیادی نکتہ ان امیدواروں کی مذہبی ثقافتی رسومات جیسے عرس وغیرہ ، میلے ٹھیلے وغیرہ جو تھے ان کو غیر اسلامی اور ہندؤانہ روایات سے لئے گئے بتلایا گیا۔جناح کا لقب قائد اعظم ‘کافر اعظم ‘ میں بدل گیا۔جناح کی زاتی زندگی میں ان کا جو لبرل ازم تھا اور اسے ہی ان کا جو مسلکی پس منظر تھا ساتھ ساتھ ان کی ازواجی زندگی ، پارسی لڑکی سے شادی کو سیکنڈلائز کیا گیا۔یوپی کے تعلقہ دار جیسے نواب آف محمود آباد تھے ان کی شیعیت کو لیکر مسلم لیگ کا رد کرنے کی کوشش ہوئی۔
یہ پروپیگنڈا مہم کانگریس کی مسلم عوام رابطہ مہم کو سبوتاژ کرنے کے لئے کافی تھی۔پھر آل انڈیا نیشنل کانگریس کی ان اتحادی جماعتوں نے جیسے ابن سعود کی حکومت کو مانا اور ترک عثمانی خلافت کے خاتمے کا بعدازاں سواگت کیا تھا اس نے بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو آل انڈیا مسلم ليگ کی آئیڈیالوجی کے قریب تر کردیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کی اینٹی کمپوزٹ کلچر سیاست کی مشرقی بنگال میں مقبولیت کا سبب تقسیم بنگال کی منسوخی اور کانگریس کی جانب سے بنگالی مسلم آبادی کے تحفظات کو ایڈریس نہ کرنا بھی تھا۔
دلچسپ امر یہ ہے آل انڈیا مسلم لیگ کے خلاف کانگریس کی نیشلسٹ مسلم مذہبی جماعتوں اور جماعت اسلامی نے جو موقف اپنایا اس کا انھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جامع ایڈیشن تیار کیا اور اپنی ساری سیاست اس ایجنڈے پہ استوار کرلی۔مجلس احرار اور جمعیت علمائے ہند نے اسی دوران اینٹی شیعہ، اینٹی تصوف اور اینٹی قادیانی جو موقف اپنایا تھا وہ پاکستان بننے کے بعد ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کرگیا اگرچہ اس کے علاقائی و بین الاقوامی عوامل بھی بعد میں پیدا ہوئے۔یعنی کمپوزٹ کلچر کے خلاف مسلم لیگ کی مہم کا جواب ‘فرقہ پرستی کلچر ‘ آیا اور پاکستان بننے کے بعد یہ فرقہ پرست کلچر انتہائی خارجیت پسندانہ مسلم کلچرل بیانیہ میں بدل گیا اور مسلم ثقافتی مظاہر جسے شیعہ اور سنّی ملکر تشکیل دیتے تھے ان کو بھی ‘بدعت اور خلاف اسلام ‘ کہہ کر خارج کردیا گیا۔یہی عمل آگے چل کر آج کی شیعہ نسل کشی میں بدل گیا۔اور اس میں جو مشترکہ نسلی،لسانی اور جغرافیہ سے بننے والی قومیتی شناخت تھی اس کی نفی پہلے بنگالی نسل کشی اور پھر آج بلوچ نسل کشی تک پہنچ گئی ہے۔
ہندوستان میں کئی طریقوں سے ماقبل تقسیم ماضی کی باز گشت آج کے ہندوستان میں سنی جارہی ہے۔جیسا عمل لیگ نے اسلام کے ساتھ کیا ( یہ عمل تو خود جماعت اسلامی ، مجلس احرار ، جمعیت علمائے ہند نے بھی کیا)ایسے ہی سنگھ پریوار ہندؤمت کے ساتھ کررہا ہے۔اس کا دعوی ہے کہ ہندؤ ازم ایک مکمل فکر و نظام کا نام ہے اور یہ آج کی نہیں مستقبل کا نظام فکر بھی ہے۔اس کا دعوی ہے کہ قدیم ہندوستان ایرو ڈائنامکس ، پلاسٹک سرجری ، ایٹم بم اور ایڈز کے علاج سے لیس تھا۔اس کا خیال ہے کہ چار ابعادی ورنا سسٹم ہے اس کا وجود ہندؤ یوٹوپیا میں پہلے سے ہی تھا۔ایسے دعوے پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی کرتی رہتی ہيں۔
گئو کشی پہ سنگھ کے پیدل سپاہیوں نے تناؤ پیدا کررکھا ہے۔بی جے پی کی حکومتیں ایسے ہندؤ حکمرانوں کی عظمت بیان کرنے کے لئے ازسرنو تاریخی نصاب کی کتابوں کو ترتیت دے رہی ہیں جنھوں نے مسلم حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی۔اور یہ جھوٹا دعوی بھی داخل نصاب کیا جارہا ہے کہ 1576ء میں رانا پرتاپ نے اکبر کو ہلدی گھاٹی کی لڑائی میں شکست دی تھی۔عدالتوں کی جانب سے تھوڑی سی مدد ملنے کے بعد ترنگا اور بندے واترم نیشنل ازم کے نئے بنیادی نشان بن گئے ہيں۔بی جے پی اصل میں فرقہ وارانہ بیانیہ کے ساتھ مسلم لیگ سے ہی لڑرہی ہے جبکہ اس کا وجود ہندوستان میں ہے ہی نہیں۔