سابق وزیراعظم نواز شریف پانچ رکنی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں نا اہلی کے بعد پہلی مرتبہ اسلام آباد سے لاہور کی جانب عازم سفر ہیں۔
ان کے اس سفر کو ان کے حامی اور مخالفین دونوں اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ نواز شریف کا سفرِ لاہور ایک سوچا سمجھا اور منظم منصوبہ اور بھرپور سیاسی مظاہرہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ نواز کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے ارکان سمیت اہم پارٹی عہدے داروں سے مشاورت کا عمل شروع کیا گیا تو لائحہ عمل کے معاملے پر بڑی تقسیم دیکھنے کو ملی۔
چیف منسٹر پنجاب شہباز شریف، رانا ثنااللہ، چودھری نثار علی خاں اور ان کے قریب سمجھے جانے والے وزرا و لیگی رہنماؤں کا خیال تھا کہ سافٹ رویہ اپنایا جائے، ریویو پٹیشن میں جایا جائے اور حکومت مدت پوری کرے اور ترقیاتی پروجیکٹس مکمل کیے جائیں۔
اس کے برعکس خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، طارق فاطمی، مشاہد اللہ خان، عابد شیر علی، تہمینہ دولتانہ، مریم نواز و دیگر کی رائے میں نواز شریف کو بھرپورعوامی، میڈیائی اور سٹریٹ پالیٹکس کرنی چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے لیے انٹرنیشنل سطح پر جمہوری طاقتوں کو باور کرایا جائے کہ پاکستان میں سویلین بالادستی اور جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
میاں محمد نواز شریف نے اپنا وزن ’مزاحمتی‘ کیمپ میں ڈال دیا۔
پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نواز شریف نے مری میں قیام کے دوران نئے وزیراعظم اور کابینہ کی تقرری جیسے فیصلے کیے اور مزید مشاورت بھی جاری رکھی گئی۔
ان کی اسلام آباد واپسی کے بعد کچھ ایسے واقعات سامنے آئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نواز شریف نے نااہلی کے بعد اپنے آئندہ کی سیاست کا رخ متعین کرلیا ہے۔
جب سابق وزیراعظم نواز شریف پنجاب ہاؤس مقیم تھے تو اسی دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر و سابق چئیرپرسن انسانی حقوق کمیشن عاصمہ جہانگیر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی منتخب باڈی نے میٹ دی پریس پروگرام میں دعوت دی تو عاصمہ جہانگیر نے اس موقعے کو اچھی طرح سے استعمال کیا۔
عاصمہ جہانگیر نے اس پریس کانفرنس میں عدلیہ میں بیٹھے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ عدالتی ایکٹوازم اور عدالتی احتساب
Across the board
(بلا امتیاز) نہیں ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ کہ سیاسی گاڈ فادرز کو تو کان سے پکڑ کر باہر نکالا جاتا ہے لیکن جو دوسرے ’گاڈ فادرز‘ ہیں ان کا احتساب آج تک عدلیہ نہیں کرسکی۔ انھوں نے لینڈ مافیا اور جرنیلوں کے احتساب نہ ہونے کا سوال اٹھایا۔ لیکن اس موقعے پہ انھوں نے نواز شریف کو ایسا مشورہ دیا جو لگتا ہے کہ نواز شریف مان چکے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ جنگ ’عوامی طاقت‘ کی مدد سے لڑنا ہوگی۔
نواز شریف نے پنجاب ہاؤس میں سول سوسائٹی کے کئی نامور سرگرم رضاکاروں، ملکی سیاست کے بڑے تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو خصوصی دعوت دی جس ميں جہاں سیفما کے امتیاز عالم سمیت کئی ایک نامور لبرل صحافی، دانشور اور سول سوسائٹی کے اہم نام شریک ہوئے وہیں دائیں بازو کے اور نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے صحافی اور کالم نگار جیسے مجیب الرحمان شامی، عطا الحق قاسمی وغیرہ بھی شامل تھے۔
اس اجلاس میں میاں محمد نواز شریف کو جن لوگوں نے ڈٹ جانے اور مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا، ان میں سب سے نمایاں امتیاز عالم اور مجیب الرحمان شامی تھے۔
سیفما کے سربراہ امتیاز عالم اور روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر مجیب الرحمان شامی نے انتہائی جذباتی اظہار خیال فرمایا اور میاں نواز شریف کو کہا کہ ڈٹ جائیں اور ’لڑائی‘ کو بین الاقوامی حلقوں تک پہنچائیں۔
ادھر ایک نجی ٹی وی چینل پہ معروف صحافی نذیر لغاری کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئرپرسن آصف علی زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ ان کو عاصمہ جہانگیر کا ٹیکسٹ میسج ملا ہے کہ وہ ان سے بات کرنا چاہتی ہیں۔
آصف زرداری کا یہ انکشاف ظاہر کرتا ہے کہ نواز شریف نے ان سے بیک ڈور چینل بات چیت کا راستہ کھولنے کی کوشش شروع کردی ہے۔عاصمہ جہانگیر کا ٹیکسٹ میسج اور فون پہ بات چیت اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
نذیر لغاری نے آصف علی زرداری سے عاصمہ جہانگیر کا نام لیے بغیر سوال کیا :
’خاتون وکیل کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہر 10 سال بعد ایک نیا چہرہ متعارف کراتی ہے؟‘
آصف علی زرداری کا جواب تھا ’ان خاتون سے یہ پوچھیں کہ جب وہ چہرے متعارف کرائے جاتے ہیں تو کیا وہ اس وقت مخالفت کرتی ہیں؟ کیا نواز شریف کو لائے جانے کے وقت وہ بولی تھیں؟ ہمارے لیے کیس لڑے ہوں تو میں مانوں‘۔
آصف زرداری کی گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ عاصمہ جہانگیر کی جانب سے نواز شریف کی موجودہ محاذ آرائی کی سیاست کو ’سویلین بالادستی‘ کی سیاست سمجھنے اور اس سیاست میں ان کے شریک کار بننے کو ٹھیک خیال نہیں کرتے اور نہ ہی وہ عاصمہ جہانگیر کے حالیہ جوش جذبے کو ان کی ماضی کی روش سے ہم آہنگ خیال کرتے ہیں۔
بلکہ انھوں نے بالواسطہ عاصمہ جہانگیر کو یہ جتلایا ہے کہ سویلین بالادستی کے ایشو پہ ان (عاصمہ جہانگیر) کی ترجیحات اور ایکٹوازم سلیکٹو رہا ہے اور ان کا جوش و خروش پاکستان پیپلزپارٹی کے معاملے میں ایسا نظر نہیں آیا جتنا نواز شریف کے معاملے میں نظر آرہا ہے۔
آثار بتاتے ہیں کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پہ دباؤ ڈالنے کے لیے سول سوسائٹی، وکلا برادری کے لبرل سیکشن اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی جماعت سے جس پیمانے پہ تعاون کے خواہاں ہیں اس تعاون کے حصول میں ان کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان بار کونسل تقسیم ہے اور سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے عہدے دار بھی متحد نہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار اور پنجاب بار کونسل میں حالات کافی خراب نظرآتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی پالیسی ’تماشا‘ دیکھنے تک محدود ہے جبکہ وہ پاکستان تحریک انصاف سے بھی زرا فاصلہ رکھنا چاہتی ہے۔
نواز شریف ایک ٹی وی چینل سے وابستہ نامور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے چند اہم ناموں کے ساتھ مل کر چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر اور باہر ان کو ایک بڑے جمہوریت پسند سیاست دان کے طور پہ پروجیکٹ کیا جائے اور عدلیہ پہ بھی زبردست دباؤ پڑے۔
وہ ہاتھ پیر کٹواکے نیب کے ریفرنسز کا سامنا کرنا نہیں چاہتے۔ نیب کے راستے جیل جانے کی بجائے براہ راست لڑکر بطور سیاسی قیدی جیل جانے کے خواہش مند ہیں یا دباؤ ڈال کر آخری انجام سے بچنا چاہتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ق، پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین جیسی جماعتیں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی سرگرم سیاست کی فلم کو ڈبے میں بند کرنے کا زور لگارہی ہیں۔
وہ چاہتی ہیں کہ نواز شریف پنجاب کارڈ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ محاز آرائی کی سٹریٹ پالیٹکس کا کارڈ استعمال نہ کرسکیں۔ وہ نواز شریف کو سرے سے غیرفعال کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ آنے والے انتخابات میں پنجاب کے اندر مسلم لیگ نواز کا راستا روکا جاسکے۔ نواز شریف کا ایسا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔
این اے 120 سے نواز شریف پہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ کلثوم نواز کو امیدوار بنائیں۔ نواز شریف کو محاز آرائی کا مشورہ دینے والا کیمپ بھی کلثوم نواز کارڈ کھیلنے کے حق میں ہیں۔
عام انتخابات میں نو ماہ باقی ہیں۔ نواز شریف اس دوران پنجاب کے اندر زبردست عوامی رابطہ مہم چلانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
ان کو اس سے روکنے کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری نے ’تحریک قصاص‘ کا دوسرا راؤنڈ شروع کردیا ہے۔ مال روڈ پہ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر جسٹس باقر نجفی رپورٹ پبلک نہیں کی جاتی اور ماڈل ٹاؤن سانحہ میں شہباز شریف کو شامل تفتیش نہیں کیا جاتا تو لاہور میں ایک بڑے دھرنے کا وہ اعلان کریں گے۔
ایسا نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی بھی پنجاب میں بڑے جلسے کرے گی۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پنجاب میں جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان کا پہلا جلسہ چینوٹ میں ہوگا۔
عدالتی اور میڈیا جنگ کے ساتھ سب جماعتیں پنجاب کو سیاسی جلسے جلوسوں کا مرکز بنانے جارہی ہیں۔
نواز شریف کو پنجاب میں اپنے سیاسی حریفوں پہ یہ برتری حاصل ہے کہ پنجاب اور وفاق کی حکومتی مشینری کا ان کو مکمل سہارا ہے اور اس لیے ان کو کہیں کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
لیکن کیا سیاسی سطح پہ نواز شریف۔ فضل الرحمان، محمد احمد لدھیانوی، محمود اچکزئی، حاصل بزنجو کی حمایت اور سول سوسائٹی میں عاصمہ جہانگیر، نجم سیٹھی و امتیاز عالم جیسے حامیوں کی مدد سے اپنے خاندان پر پڑنے والے عدالتی دباؤ سے نکل پائیں گے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت بتائے گا۔
Source:
http://nuktanazar.sujag.org/nawaz-sharif-gt-raod