اداریہ تعمیر پاکستان: ضیاء الحق کی سیاسی تجسیم کی نااہلی سے کاسمیٹک جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے 29 جولائی 2017ء کو وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے ڈالا جبکہ ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،داماد کیپٹن صفدر ، بیٹے حسن نواز، حسین نواز اور بیٹی مریم نواز کو بھی کسی بھی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا بلاشبہ یہ ایک تاریخی فیصلہ اور واقعہ ہے۔لیکن یہ تاریخ ساز فیصلہ اس لئے نہیں ہے کہ اس سے پاکستان کی کاسمیٹک جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوگیا ہے یا اس سے پاکستان کے اندر سویلین جمہوری بالادستی کی صورت حال خراب ہوگی ۔ہمارا خیال ہے کہ پاکستان میں لبرل کمرشل مافیا بشمول عاصمہ جہانگیر،نجم سیٹھی، نصرت جاوید، سیرل المیڈا وغیرہم اس فیصلے سے پہلے اور اس فیصلے کے بعد جمہوریت کو خطرہ ہونے کی جو رٹ لگائے ہوئے ہیں وہ دلائل کے بغیر اور سوائے ‘نمک حلالی ‘ کے اور کچھ نہیں ہے۔
نواز شریف دائیں بازو کے ایک ایسے سیاست دان ہیں جو ضیاء الحق کی سیاسی تجسیم، ضیاءالحق کی جملہ فکر اور ان کی برائیوں کو ادارہ جاتی شکل دینے کا بڑا کردار ہیں۔ان کی سیاست میں کاسمیٹک بدلاؤ کے سوا کچھ بھی نہیں بدلا۔وہ آج تک کھلے عام کبھی یہ نہ کہہ سکے کہ انہوں نے بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری ، شہلا رضا ، شرمیلا فاروقی،سلمان تاثیر،فیصل صالح حیات سمیت اس ملک کے جمہوریت پسند کارکنوں اور رہنماؤں کے ساتھ جو کچھ بھی کیا وہ غلط تھا اور یہ سب کچھ انہوں نے فوجی جرنیل ،ججز،ملاؤں،سول بیوروکریٹس اور صحافتی اشرافیہ اور سب سے بڑھ کر سعودی عرب ، قطر وغیرہ کے وہابی آمر حکمرانوں کی اشیر باد اور گٹھ جوڑ کے ساتھ کیا اور اس پہ وہ معذرت خواہ ہیں۔انہوں نے 2008ء سے لیکر 2012ء تک حزب اختلاف میں رہتے ہوئے چیف آرمی سٹاف،ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ ملکر محلاتی سازشیں کيں اور پھر جب برسراقتدار آئے تو ایک دوسرے چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ ملکر پاکستان کو سعودی عرب کی گود میں مکمل طور پہ ڈالنے کا منصوبہ بنایا۔انھوں نے تکفیر ازم،جہاد ازم اور دیوبندی۔سلفی جہادی/تکفیری انتہا پسند نیٹ ورک کی پشتیبانی کی اور پاکستان کی ریاست میں مذہبی و نسلی اقلیتوں پہ زمین تنگ کردینے والوں کو ‘کھل کر کھیلنے ‘ دینا جاری رکھا۔جبکہ اس دوران ضیاء الحق کی کئی گئی آئینی ترامیم کو انہوں نے بدل ڈالنے کی زرا کوشش نہ کی بلکہ اٹھارویں ترمیم کے وقت یہ نواز لیگ تھی جس نے دفعہ 62 و 63 کو ختم کرنے کی تجویز کی مخالفت کی۔
نواز شریف سعودی عرب کے وائسرائے تھے۔اور ان کی حمایت میں سعودی عرب کی فنڈنگ سے پاکستان کو سعودی عرب بنانے کی کوشش کرنے والی تنظیموں کے لئے فضا سازگار بنانے والی بھی۔وہ ضیاءالحق کی طرح پاکستان کو انتہائی قدامت پرستانہ راستے پہ دھکیلنے کا سب سے بڑا سیاسی انجن ہیں اور ان کا اقتدار میں آنا دائیں بازو کی مذہبی جنونی طاقتوں کو نئی آکسجین فراہم کرنے کا سبب بنا ہوا تھا۔
نواز شریف نااہل اس لئے ہوگئے کہ انھوں نے سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ پہ مقدم کیا اور اپنے آپ کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنا منظور کرلیا جبکہ پارلیمنٹ کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنے کو وہ ہتک خیال کرتے رہے۔نواز شریف نے نااہلی کے بعد جس طرح سے شہباز شریف کو ترجیح دی ہے اس سے یہ بات اور پختہ ہوئی ہے کہ وہ پاکستان کو مذہبی و نسلی اقلیتوں اور یہاں تک کے اس ملک کے صوفی سنّی اکثریتی عوام کے لئے ایک پرامن ماحول پیدا کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔نواز شریف اس وقت جس سیاسی اتحاد کی صورت کھڑے ہیں اس میں جہاد ازم اور تکفیر ازم کے لئے ستون کا درجہ رکھنے والی مذہبی انتہا پسند جماعتوں اور چہروں کا غلبہ ہے اور اس سیاسی فارمیشن سے خیر کی امید رکھنا عبث ہے۔ان کی جماعت کے اکثر لیڈر اس ملک کی لبرل سیاسی طاقتوں سے اشتراک کی بجائے رجعت پرست اور انتہا پسند طاقتوں کے اشتراک کو ترجیح دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس پارٹی سے اس ملک کی مظلوم اور دہشت گردی کی بدترین متاثرہ کمیونٹیز الگ تھلگ ہیں اور ان کو نواز شریف کی نااہلی سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے بلکہ ان کی اکثریت اس نااہلی کو ضیاء الحقیت کے لئے جھٹکا خیال کرتی ہے۔
نواز شریف کی نااہلی اس قدر آسان کام نہیں تھا۔یہ نااہلی اس لئے ہوئی کہ ملک کی اپوزیشن پارٹیوں خاص طور پہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مسلسل دباؤ تھا کہ ‘انصاف اور میرٹ ‘ سے کام لیا جائے۔جبکہ اس مرتبہ نواز شریف نے اپنی انانیت اور ون مین شو کے سبب ‘دھرنا ایپی سوڈ’ کی طرح اس ملک کی سیاسی و جمہوری اپوزیشن کی جماعتوں کو آن بورڈ لینے کی کوشش نہیں کی۔پی پی پی ، اے این پی اور دیگر جماعتوں کی قیادت نے نواز شریف کو بہت سمجھایا کہ وہ اپوزیشن کے ٹی آر اوز کے تحت پارلیمنٹ میں اپنے آپ کو پیش کردیں لیکن انہوں نے اسے سرے سے مسترد کیا اور سولو فلائٹ کی جس کا نتیجہ بھگت لیا۔
پاکستان میں نواز شریف کی جانب سے ہائر کیا جانے والا لبرل کمرشل مافیا نواز شریف کے ٹرائل کو ملٹری و عدالتی اسٹبلشمنٹ کی مشترکہ سازش بناکر دکھانے کے جس پروجیکٹ پہ کام کررہا تھا وہ بری طرح سے ناکام رہا۔ادارہ تعمیر پاکستان نے بہت پہلے سے کرائے کے لبرل کا پول کھولنا شروع کردیا تھا اور یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ‘کمرشل لبرل مافیا’ کے بڑے بڑے نام بری طرح سے ایکسپوز ہوگئے ہيں۔انسانی حقوق کے چند لبرل اشراف کی اوقات بھی لوگوں کے سامنے آگئی ہے۔یہ آئین پرستی ، جمہوریت ، سویلین بالادستی کے نام پہ نواز راج اور نواز شاہی کی سپورٹ میں لگے ہوئے اپنے آپ کو ننگا کرتے گئے اور ان کے فکری دیوالیہ پن اور بانجھ ہونے کا پردہ بھی فاش ہوگیا۔اور جمہوریت پہ ان کے لمبے بور کرنے والے اور ایک جیسے جملوں کی تکرار سے عوام کی اکثریت اوب چکی ہے اور ان کی موقعہ پرستی سے آگے ‘بک جانے’ کا سارا منظر لوگوں کے سامنے آگیا ہے۔ضیاءالحق کی سیاسی تجسیم نواز شریف کا نااہل ہونا بہت ہی بڑی بات ہے۔