عاصمہ جہانگیر کا نواز شریف بارے موقف کمرشل ازم کے سوا کچھ نہیں – عامر حسینی
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء علی زیدی نے ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی کے پروگرام ” فیصلہ آپ کا ” میں پانامہ پیپرز کے حوالے سے نواز شریف خاندان کی مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ پہ انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی رائے سنکر جب یہ کہا کہ ” عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ کی ایک بڑی وکیل ہیں ان کی رائے مجھے سمجھ میں نہیں آئی اور انہوں نے یہ سب کیسے کہہ دیا ” تو وہ علی زیدی کی بات سنے بغیر اٹھ کر یہ کہتے ہوئے چلی گئیں کہ وہ یہ سب سننے یہاں نہیں آئیں۔
عاصمہ جہانگیر کو یہ کہنا کہ “وہ اتنی بڑی سپریم کورٹ کی وکیل ہیں وہ کیا باتیں کررہی ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہی ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کونسی بدتمیزی ہے۔۔۔۔۔ عاصمہ شیرازی نے فیصلہ سنادیا،،،، زیدی کے بار بار کہنے پہ بھیی کلپ نہ چلایا۔۔۔۔ اس کے بعد نواز شریف کے احتساب کو ” جمہوریت کا قتل ” ثابت کرنے پہ تلے کیمپ نے عاصمہ جہانگیر کو ” مقدس گائے ” بناکر پیش کرنا شروع کردیا اور زیدی پہ بمباری شروع کردی۔ عاصمہ جہانگیر اگر ” انسانی حقوق کی کارکن ” ہے تو زیدی ایک سیاسی کارکن ہے اسے حق ہے کہ وہ عاصمہ کی کسی پوزیشن اور موقف سے اختلاف کرے ۔
عاصمہ جہانگیر صاحبہ نواز شریف اینڈ کمپنی کے مبینہ جرائم کے خلاف عوام میں پائی جانے والی “نفرت ” کو اسٹبلشمنٹ کی سازش ، عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ کہہ کر رد کرنے کا حق رکھتی ہیں تو ان کی اس رائے کو عاصمہ جہانگیر سمیت لبرل کے ایک سیکشن کی آراء کو ” کمرشل ازم ” کہنے کا حق بھی دوسروں کو پہنچتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے علی زیدی کے چند فقروں کا اتنا برا منایا لیکن وہ خود کئی مواقع پہ اس سے زیادہ سخت جملے عدلیہ کے ججز، مسلح افواج کے سربراہوں ، بیوروکریٹس اور کئی سیاست دانوں کے بارے میں دے چکی ہیں۔حال ہی میں انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کے فیصلے پہ سپریم کورٹ کے احاطے میں کھڑے ہوکر کہا کہ ایسے ججز کو تو کسی مسجد کا مولوی ہونا چاہئے یہاں عدالت میں نہیں۔
تو کیا یہ جملے سننے کے بعد ججز کو عاصمہ جہانگیر کا داخلہ عدالتوں میں بند کردینا چاہئیے۔بابر اعوان نے کہا تھا کہ نوٹس ملیا ، کھکھ نہ ہلیا۔۔۔۔۔ وہ معطل کردئے گئے تھے مجھ سمیت کئی لوگوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا، عاصمہ بھی خوب بولیں تھیں۔
ویسے دلچسپ بات ہے کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی پیس کردہ درخواست پہ جی آئی ٹی کے ارکان کو یہ کہنا کہ وہ چھوئی موئی نہ بنیں اور اس نے مجھے کالا کہہ دیا، اس نے مجھے یہ کہہ دیا پہ دھیان مت دیں ، خاموشی سے کام کریں اور رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرکے چلتے بنیں لیکن تھوڑی دیر میں خود ہی چھوئی موئی بنکر چلی گئیں۔عاصمہ شیرازی کی معذرت بھی کام نہیں آئی۔عاصمہ شیرازی کی مجبوی سمجھ میں آنے والی ہے۔اینکرز کو عاصمہ جیسے مہمانوں کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ضرورت راتی ہے۔علی زیدی ایک سیاسی کارکن ہے اور اس میں اتنا گلمیر کہاں جتنا عاصمہ کے اندر ہے۔
عاصمہ جہانگیر اور ان کا ادارہ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان بہت سی درخشاں روایات کا امین ہے۔دونوں نے آمریت ، انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ایک لمبی جدوجہد کی ہے۔لیکن ایک عرصہ دراز سے ان کے ایکٹو ازم اور ان کے فنکشن پہ مخصوص ہونے اور سیلیکٹو ہونے کا الزام لگنے لگا ہے۔اور اس الزام میں کافی حد تا صداقت بھی نظر آتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر کا رویہ نواز شریف خاندان کی سیاست کے بارے میں پاکستان کے اندر سول سوسائٹی کے ان لوگوں کے بہت قریب نظر آنے لگا ہے جو کمرشل ازم کا شکار ہیں اور ان پہ یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ نواز شریف اینڈ کمپنی کی تنخواہ پہ کام کررہے ہیں۔نواز شریف کو اینٹی اسٹبلشمنٹ سمبل کے طور پہ پیش کرنا، اس کی ملٹری کے اندر کچھ لوگوں سے ذاتی اختلاف اور لڑائی کو جمہوریت بمقابلہ آمریت کی لڑائی بناکر دکھانا اور نواز شریف کی عدالتی و فوجی اسٹبلشمنٹ کے کچھ سیکشن سے محاذ آرائی کو جمہوری جدوجہد بناکر پیش کرنا ایسے معاملات ہیں جن پہ ان کے آج کے ایکٹو ازم پہ سوال کھڑے ہوتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر پاکستان کے اندر جہاد ازم ، تکفیر ازم ، ملائیت ، مذہبی جنونیت کو صرف اور صرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہیں۔وہ نواز شریف کی جوڈیشری، سول بیوروکریسی، ملٹری کے اندر جڑوں کو نظر انداز کرکے ان عوامل کے نواز شریف خاندان کی سلطنت کے ساتھ روابط کو یکسر نظر انداز کردیتی ہیں۔نواز ایمپائر کا سعودی کنکشن کبھی ان کی توجہ کا مرکز نہیں بنتا ہے۔اور وہ نواز بمقابلہ اسٹبلشمنٹ کی رٹ لگاتی ہیں۔
ایک صاجب لکھتے ہیں
1993میں 14برس کے سلامت مسیح کو مذہب کی توہین کے جرم میں سزائے موت ہوگئی، ایسے حساس کیس کو کون لڑتا، اس موقع پر عاصمہ جہانگیر آگے آئی اور اس نے سلامت مسیح کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ عدالت کو ماننا پڑا کہ سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا اور کچھ شرپسندوں نے مذہب کا نام استعمال کرکے ننھے بچے کو پھنسایا
ایچ آر پی سی کی عاصمہ جہانگیر اور ان کے لاہور کے ذمہ داران نے جو سہولت سلامت مسیح کو فراہم کی وہ سہولت حال ہی میں سوشل میڈیا پہ مبینہ توہین کے الزام میں سی ٹی ڈی کی جانب سے پکڑے جانے والے افراد پہ بنے کیسز میں کیوں نہ فراہم کی جبکہ ایسے کیسز میں گرفتار لوگوں کے عزیز و اقارب میں سے بعض کو عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمان ، حنا جیلانی سمیت ٹیپو بلاک گارڈن ٹاؤن میں بیٹھنے والے ایچ آر سی پی کے لوگوں کے پرسنل نمبرز اور آفس نمبر دئے گئے اور وہاں بار بار رابطہ فراہم کیا گیا لیکن کوئی ليگل ایڈ فراہم نہیں کی گئی
عاصمہ جہانگیر سمیت پاکستان کے کئی نامور لبرلز نے مولوی عبدالوحید کو ” رنگيلا رسول ” کتاب آن لائن اپنی ویب سائٹ پہ اپ لوڈ کرنے والے ” ایاز نظامی ” کے شبے میں گرفتار کیا تو ان گرفتاریوں کی پبلک مذمت کی گئی اور ایف آئی اے سے لیکر انسداد دہشت گردی کی عدالت تک ایسے مقدمات کی پیروی میں معاون ماہر وکلاء بھی پیش کردئے گئے لیکن ایسی کوئی سہولت آج تک شیعہ ،سنّی لوگوں کو پیش نہیں کی گئی جن پہ توہین کا مبینہ الزام لگاکر سائبر کرائم ایکٹ اور بلاسفیمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے۔
میں ایک واقعہ کا ذاتی شاہد ہوں۔خانیوال سے ایک دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے صحافی جو پریس کلب کے سابق صدر بھی رہے جن کی ایک پوسٹ پہ ان کو سی ٹی ڈی نے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا تو میں نے ایچ آر سی پی لاہور سے سے کہا کہ وہ اس کیس کو دیکھیں اور ملزم کو لیگل ایڈ بھی فراہم کریں لیکن اس پہ خاموشی ہی رہی۔
بہاول پور میں حال ہی میں ایک شیعہ نوجوان کو بلاسفیمی ایکٹ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنادی گئی ہے۔ایچ آر سی پی کی جانب سے ابتک اس کیس پہ کوئی ایک پریس ریلیز جاری نہیں ہوئی اور نہ ہی عاصمہ کا آن دی ریکارڈ کوئی بیان موجود ہعاصمہ جہانگیر سمیت پاکستانی لبرل کا ایک پورا سیکشن سرے سے بلاسفیمی ایکٹ کو ہی Repeal کرنے کا حامی ہے تو وہ شیعہ نوجوان کی ليگل ایڈ کے لئے آگے کیوں نہیں آئے ؟ ایسے ہی اس نوجوان دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی کے لئے آگے کیوں نہ بڑھے ؟
پاکی داماں کی حکایت کو اور آگے بڑھایا گیا ہے تو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ عاصمہ جہانگیر کو جب جان کا خطرہ محسوس ہوا تھا تو اس نے میڈیا پہ بھرپور پریس کانفرنسیں کیں۔نصیربھٹہ جو شہباز شریف کے بہت قریب ہیں اور عاصمہ کے بار سیاست میں اہم حلیف نے پنجاب حکومت کو کہہ کر بھرپور سیکورٹی دلوادی تھی لیکن جب ایچ آر سی پی ملتان ٹاسک فورس کے کوارڈی نیٹر اور آئی اے رحمان کے بھتیجے راشد الرحمان نے پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود عاصمہ جہانگیر نے کوئی بڑی پریس کانفرنس نہیں کی تھی اور نہ ہی راشد کی حفاظت کے لئے صوبائی و وفاقی حکومتوں کو خطوط ارسال کئے تھے ۔
ماضی میں کی گئی جدوجہد کو یاد کرانے والوں کو عاصمہ جہانگیر کا حال یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔عاصمہ جہانگیر نے اپنی “سہیلی” بے نظیر بھٹو کی جتنی مخالفت 90ء،93ء میں کی تھی اتنی مخالفت اس نے آج تک ” نواز شریف ” کی نہیں کی ہے بلکہ وہ نواز شریف کو ” اینٹی اسٹبلشمنٹ سمبل ” بناکر پیش کرتی ہے۔اس نے آج تک نواز شریف کے کالعدم تنظیموں سے تعلقات اور سعودی نوازی پہ ایک لفظ تک نہیں بولا۔نواز شریف جب مشکل میں آیا وہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا پہ نمودار ہوگئیں،ٹوئٹر پہ متحرک ہوگئیں۔عاصمہ جہانگیر نواز شریف کی پروجیکشن میں اسی طرح سے مصروف عمل ہیں جیسے ” سیفما ” کا مالک ” امتیاز عالم ” اور اس کے حواری مصروف ہیں۔جیسے جیو۔جنگ گروپ کا مالک اور اس کی ذاتی ٹیم بنے کچھ صحافی مصروف ہیں۔
عاصمہ جہانگیر پہ ہماری تنقید لیفٹ سائیڈ سے ہے۔ان کے بارے میں یہ تاثر بن گیا ہے کہ وہ ایسے کیسز پہ سامنے آتی ہیں جن کو بین الاقوامی طور پہ شہرت ملنے اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی لبرل اشرافیہ کی جانب سے اہمیت دی جارہی ہو ورنہ کئی اور سلامت مسیح، کئی صائمہ ارشد اس سماج کی تنگ نظری اور مذھبی جنونیت کا نشانہ بنے مگر ان کے بارے میں عاصمہ جہانگیر کا ایکٹو ازم افیون کھاکر سوتا ہی نظر آیا ہے۔