پانامہ پیپرز تحقیقات : جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے خط میں تہلکہ خیز انکشافات – محمد عامر حسینی

 

پانامہ پیپرز بارے قائم کردہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات کا پروسس سست روی کا شکار ہے۔ابتک کی سامنے آنے والی رپورٹوں سے پتا یہ چلتا ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں روکاوٹ خود حکومتی اداروں کی جانب سے پیدا کی جارہی ہیں۔جے آئی ٹی کی جانب سے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کو درپیش روکاوٹوں بارے ایک رپورٹ درخواست کے ساتھ پیش کی گئی۔یہ رپورٹ سنسی خیز انکشافات پہ مبنی ہے۔جو انکشافات ابتک سامنے آئے ہیں اس نے نیب کے چئیرمین، ایف بی آر کے سربراہ، ایس ای ایس کے چئیرمین، وزیر داخلہ، وزیر قانون و انصاف، آئی بی کے سربراہ اور خود وزیر اعظم ہاؤس کے حکام کی غیر جانبداری پہ سنگین سوالات کھڑے کردئے ہیں۔

اس رپورٹ اور درخواست کو دیکھتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے شریف خاندان کی حکومت کو مافیا کی حکومت قرار دینے کا الزام سچ لگنے لگا ہے۔اور یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ میاں نواز شریف کو جو ریاستی اداروں کے سامنے ایک کمزور وزیراعظم پروجیکٹ کرکے اور ان کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چل رہی محاذآرائی کے جو قصّے کہانیاں پھیلائی جاتی رہی تھیں وہ کافی زیادہ جعلی اور من گھڑت تھیں۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ شریف خاندان کی ریاستی اداروں پہ گرفت کتنی مضبوط ہے۔اور وہ ان اداروں کو کیسے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لئے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔پانامہ پیپرز تحقیقات کا معاملہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا ہرگز نہیں ہے بلکہ جمہوریت کا راگ الاپ کر شریف خاندان کی لوٹ مار اور بدعنوانی پہ مٹی ڈالنے کی کوشش کرنے والے زرخرید قلم فروش ایسے نعرے بلند کررہے ہیں۔اور اس معاملے میں مین سٹریم میڈیا کے کئی طاقتور گروپ اور اینکرز پرسن ، تجزیہ کار بری طرح سے بے نقاب ہوگئے ہیں۔

اس دوران جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ کو حسین نواز کی تصویر کے لیک ہونے کی جو رپورٹ داخل کی گئی اس کو میڈیا پہ لیک کردیا گیا اور یہ لیکج ان میڈیا گروپوں کی جانب سے کی گئی جن کا جھکاؤ موجودہ حکومت کی جانب بتایا جاتا ہے۔دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ کئی ایک نامور صحافی،اینکر پرسن اس رپورٹ میں تصویر لیک کرنے والے اہلکار اور اس کے ڈیپارٹمنٹ کا نام ظاہر نہ کرنے پہ جے آئی ٹی کو تنقید کا نشانہ تو بنارہے ہیں لیکن یہی میڈیا گروپ جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ کو داخل کی گئی اس رپورٹ کے مندرجات بارے نمایاں رپورٹس شایع نہیں کررہے اور نہ تبصرے کررہے ہیں جو جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو کانفیڈنشل کہہ کر جمع کرائی تھی اور وہ بھی میڈیا کو لیک کردی گئی۔

حکمران شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیق کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) نے حکومتی اداروں اور محکموں کے خلاف ریکارڈ میں ردوبدل کرنے،تحقیقات میں روکاوٹ ڈالنے اور جے آئی ٹی کے اراکین کو ڈرانے دھمکانے کے الزامات عائد کئے ہیں۔

جے آئی ٹی کی جانب سے اس ہفتے عدالت عالیہ میں ایک درخوکست گزاری گئی ۔اس درخواست میں جے آئی ٹی نے دو ماہ کی مدت میں تحقیقات کو مکمل کرنے میں حائل مشکلات کا ذکر کیا ہے جس کا سامنا جے آئی ٹی کو ہے۔

ایس ای سی پی نے ریکارڈ ٹمپر کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان کے چئیرمین ظفر الحق حجازی 2016ء میں شریف خاندان کی ملکیت چودھری شوگرز مل کے خلاے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات بند کروانے میں اہم ترین کردار بنے۔

سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے: پرانی تاریخوں میں تحقیقات بند کروانے کا یہ عمل ۔۔۔۔۔۔مجرمانہ ہے اور یہ مدعا علیہ (شریف خاندان) کو سہولت بہم پہنچانے کے لئے کیا گیا جن کے خلاف حالیہ تحقیقات کی جارہی ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ایس ای سی پی کے چئیرمین کے ریکارڈ میں تبدیلی اور چوہدری شوگرز مل کے خلاف تحقیقات بند کرانے کے احکامات پہ ایس ای سی پی کے ايگزیگیٹو ڈائریکٹر علی عظیم اکرم نے عمل کیا،جو کہ ابتدائی طور پہ حکومت کی جانب سے موجودہ جے آئی ٹی کا ممبر نامزد کیا گیا تھا تاکہ تحقیقات کو غلط سمت موڑا جاسکے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایس ای سی پی نے اپنے افسران کو تحقیق کے لئے جے آئی ٹی کے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے سے روکا اور ان کو جے آئی ٹی کے حوالے کرنے سے بھی روک دیا ہے۔

جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ اس نے ایس ای سی پی کو چوہدری شوگر ملز سے متعلقہ یا دوسری کوئی کمپنی جس کا شریف خاندان سے تعلق ہے کے بارے میں دستاویزات مہیا کرنے کو کہا تھا۔تاہم ایس ای سی پی کے ایک افسر جس کا نام سیکورٹی وجوہات سے ظاہر نہیں کیا جارہا بتایا کہ ایس ای سی پی کے چئیرمین نے ان کو ایس ای سی کے تمام متعلقہ شعبوں کو چیک کرنے اور شریف خاندان کی ملکیت کمپنیوں کے خلاف موجود انکوائریوں کی تصدیق کرنے یا نہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

آئی بی نے جے آئی ٹی کے اراکین کے فیس بک اکاؤنٹ ہیک کرانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا
جے آئی ٹی کی درخواست میں وفاقی انٹیلی جنس بیورو کے کردار پہ بھی سوال اٹھایا گیا ہے جو کہ وفکقی حکومت کے ماتحت کام کرتا ہے۔

درخواست میں انکشاف کیا گیا کہ حسین نواز نے عدالت میں جے آئی ٹی کے دو ممبران کے خلاف جو درخواست دائر کی اس میں انہوں نے بلال رسول اور میاں اظہر کے شناختی کارڈ کی نقول کی کاپی بھی منسلک کی ہیں ۔یہ شناختی کارڈ کی نقول ان نمبرز کے ساتھ ہیں جو کہ نادرا نے لگائے ہیں۔نادرا کا کہنا ہے کہ یہ نقول ان سے انٹیلی جنس ادارے آئی بی نے مانگی تھیں۔

مزید چیکنگ کرنے پہ یہ بھی انکشاف ہوا کہ آئی بی نے ہی یہ نقول حسین نواز کو فراہم کی ہیں۔

اس درخواست میں ایک ہلادینے والا انکشاف اور بھی ہے کہ بلال رسول اور اس کے خاندان کے میڈیا اکاؤنٹس کے سکرین شاٹ بھی حسین نواز کی درخواست میں لف کئے گئے ہیں۔بلال رسول کا فیس بک اکاؤنٹ جو ان کی بیوی اور خاندا کے زیر استعمال بھی رہتا ہے بظاہر ہیک کیا گیا تاکہ درخواست میں لگایا گیا مواد حاصل کیا جاسکا۔اور یہ بلال رسول یا اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر کیا گیا۔بلال رسول کے فیس بک اکاؤنٹ سے جو مواد لیا گیا اس پہ پرائیویسی سیٹ ہے اور اسے کوئی اور نہیں لے سکتا۔اور یہ سب آئی بی کی سہولت سے کیا گیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئی بی کا فیلڈ سٹاف جے آئی ٹی کے ممبران کے گھروں کے اردگرد منڈلاتا دیکھا گیاجے آئی ٹی کے ممبران کے گھروں کے ہاؤس کیپرز سے معاندانہ پوچھ گچھ کی جاتی رہی جس سے جے آئی ٹی ممبران کے خاندان میں خوف اور سراسیمگی پھیل گئی۔

نیب کا جے آئی ٹی ممبران کو ہراساں کرنا
قومی احتساب بیورو کے بارے میں بھی درحواست میں کہا گیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی ممبر ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان عرفان نعیم منگی کو ہراساں کرنے کی سٹرٹیجی پہ عمل پیرا ہے۔

منگی کو 25 اپریل،2017ء کو نیب کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں ان سے نیب میں تعنیاتی کے وقت 2004ء میں ان کے متعلقہ تجربے بارے شکوک کا اظہار کیا گیا اور ان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا گیا۔

منگی نے نیب کے حکام کو بتایا کہ وہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں بری طرح سے مصروف ہے اس لئے اسے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کی مہلت دی جائے لیکن نیب کے حکام نے اسے جواب میں کہا کہ وہ 15 دن میں جواب داخل کرے ورنہ اس کے خلاف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی ۔

نیب کے چئیرمین قمر الزمان ہیں جوکہ اس سے پہلے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے اندر بہت ڈھٹائی سے یہ جواب داخل کراچکے کہ ہاں حدیبیہ پپرزمل بارے تحقیقات انھوں نے بند کی تھیں اور انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا مناسب خیال نہ کیا۔اس پہ عدلیہ کے ججز صاحبان نے کہا کہ آج نیب فوت ہوچکا ہے۔چئیرمین عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

جے آئی ٹی کی درخواست کہتی ہے کہ اس طرح کے ہتھکنڈے اپناکر نیب منگی کی کارکردگی کو خراب کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اسے ہراساں کیا جارہا ہے۔

جے آئی ٹی کی درخواست میں کہا گیا کہ کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے اعلامیہ پہ دستخط کرنے والے ممالک بارے سرکاری نوٹیفکشن کے اجراء میں تاخیر کی جارہی ہے۔اس تاخیر کا مقصد حکومت کی مشینری کی جانب سے جے آئی ٹی کی تحقیقات میں رخنے ڈالنا ہے۔حکومتی مشینری کو اس کام کے لئے پوری قوت سے استعمال کیا جارہا ہے۔

جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ اس نوٹیفکشن کی ضرورب اس لئے کہ غیر ممالک سے تصدیق شدہ دستاویزات منگوانے کے لئے میوچل لیگ اسسٹنس۔ ایم ایل اے آسان ہوجاتا ہے۔

جے آئی ٹی ک درخواست کے مطابق نوٹیفکشن کے اجراء میں مزرات قانون و انصاف روکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
درخواست میں ایف بی آر کے کردار پہ بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔اور کہا گیا ہے کہ وہ شریف خاندان کی انکم ٹیکس، دولت ٹیکس اور ریٹرن گوشواروں کی تفصیلات چھپارہا ہے۔ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اس نے 5 سال تک کا ریکارڈ سنبھال کر رکھا ہوا ہے جبکہ 1985ء سے لیکر ابتک کا ریکارڈ تفصیلی دینے سے انکاری ہے۔جو نامکمل کانٹ چھانٹ کی گئی اس کی تسلی بخش وضاحت دینے سے بھی انکار کیا گیا ہے۔درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ جے آئی ٹی کی شریف خاندان اور دیگر لوگوں سے انتہائی خفیہ مراسلت کو جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کے لئے میڈیا کو لیک کیا گیا۔

درخواست میں انکشاف کیا کیا ہے کہ گواہوں کو پہلے سے پڑھایا سکھایا جارہا ہے۔اتفاق گروپ کے سی ای او نے طارق شفیع کو وزیراعظم ہاؤس آنے کو کہا ،جہاں اسے پاشا نے جے آئی ٹی کے سامنے بیانات دینے کے لئے چیزیں رٹائی گئیں۔اور طارق شفیع نے جے آئی ٹی کے سامنے حقائق کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پرائم منسٹر ہآشس کو گواہوں پہ اثرانداز ہونے کے لئے بری طرح سے استعمال کیا جارہا ہے۔

دستاویزات جو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئیں ان میں اس بات پہ ناراضی ظاہر کی گئی کہ نواز شریف کو جے آئی ٹی نے طلب کرنے کے لئے جو انتہائی خفیہ خط بھیجا اسے بھی میڈیا میں لیک کردیا گیا۔اور مخصوص ميڈیا گروپوں کو اس کی نفل بھیجی گئی۔

درخواست میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی ممبران کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔جے آئی ٹی کے اراکین کو قصائی،جیمز بونڈ وغیرہ وغیرہ کہہ کر بدنام کیا جارہا ہے۔اور ان پہ حملوں پہ اکسایا جارہا ہے۔

جے آئی ٹی کے ایک رکن کو مسلسل جنرل عزیز کا بیٹا لکھا جارہا ہے جبکہ یہ حقائق کے صریح منافی ہے،اور یہ اس رنک کے بوڑھے باپ کے لئے خاصی فکر مندی کی بات ہے۔معزز عدالت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس درخواست میں ذکر کی گئی باتو پہ فوری ایکشن لے۔

Comments

comments