شہادت قنبر بن ھمدان مولی علی المرتضی خلیفہ چہارم رضی اللہ عنہ: شعوبیت عرب ( شاؤنسٹ عرب ازم )کے خلاف روشن مینار – عامر حسینی
واللہ انی سعد و انت شقي
قنبر نے حجاج کو کہا کہ میں موت کو بوسہ دوں گا تو سعادت مند کہلواؤں گا اور تو قاتل ہوکر شقی کہلائے گا ،ميں قنبر کی حجاج میں حاضری کا منظر تصور میں تازہ کررہا تھا تو مجھے استاد جی سبط جعفر کا لکھا قصیدے کے یہ اشعار یاد آگئے
موت ترے محبوں کو آتی نہیں
آبھی جائے تو پھر بچ کے جاتی نہیں
موت کا کیا خطر،موت سے کیا حذر
اس سے بچنا بھی کیا،آگئی ،آگئی
قنبر سے جب پوچھا جاتا کہ وہ کون ہیں تو قنبر کہتے :
أنا غلام أمير المؤمنين كان يقول مولاي من ضرب بسيفين وطعن برمحين وصلى القبلتين وقاتل ببدر وحنين ولم يكفر بالله طرفة عين
سبط جعفر نے کیا خوب کہا
جبرائیل اور قنبر پہ کیا منحصر
در ترا چھوڑ کر ترا جاتا نہیں
جو غلامی کا تری مزا پاگیا ،راس جس کو تری نوکری آگئی
عرب میں عوامی جمہوریت کے انقلاب کو رد انقلاب کھا چکا تھا،ظلم و جبر کی آندھیاں ہر سمت چل رہی تھیں،حجاج بن یوسف ثقفی عراق اور بصرہ کا گورنر بناکر بھیجا جاچکا تھا اور اس نے ان دونوں صوبوں میں اس تحریک کی ہر ایک نشانی کو مٹانے کا عہد کررکھا تھا اور خون ریزی کا بازار گرم تھا۔ظلم، ناانصافی،جبر، لوگوں کے مال کو ناحق کھا جانا،عرب سامراجیت کو جبری طور پہ نافذ کرنا اور نو مسلموں و غیر مسلموں کے حقوق کو غصب کرلینا، لونڈی، کنیزوں، غلاموں اور مجہول حسب و نسب والوں کو ان کے علم و فضل کے باوجود ذلیل کرنا شعار ہوگیا تھا اور ان سب چیزوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہونے والی علوی تحریک سے وابستگی کا جس پہ شبہ ہوتا اس کو حجاج بن یوسف کے جبر و شدت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔کوفہ میں جتنے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور آپ کی اولاد کے محب اور سرگرم ساتھی تھے ان کی تلاش تھی اور چن چن کر ان کا خاتمہ کیا جارہا تھا۔
عطیہ اوفی کا قصّہ میں الگ مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ کیسے وہ جب فارس گئے تو وہاں محمد بن قاسم حجاج کا بھتیجا عامل تھا اسے کہا کہ عطیہ کو پکڑو اور اس کو کہو کہ جناب علی المرتضی پہ لعنت کرے اور اگر نہ کرے تو چار سو لاٹھیاں برساؤ،ڈاڑھی مونڈھ دو اور گنجا کردو۔۔۔ عطیہ اوفی نے لعنت کرنے سے انکار کیا تو ان کو سزا بھگتنا پڑی۔ایسے ہی کتب تاریخ میں رقم ہے کہ ایک دن حجاج اپنے دربار میں بیٹھا ہوا تھا اور اس نے اپنے دربار والوں سے سوال کیا
أُحِبُّ أَنْ أُصِيبَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ أَبِي تُرَابٍ فَأَتَقَرَّبَ إِلَى اللَّهِ بِدَمِهِ
مجھے یہ بہت پسند ہے کہ میں اصحاب ابو تراب ( اموی ابوتراب کی کنیت تحقیر کے لئے استعمال کرتے تھے ) سے کسی شخص سے ملوں اور اس کا خون بہا کر اللہ پاک کا تقرب پالوں
فَقِيلَ لَهُ : مَا نَعْلَمُ أَحَداً أَطْوَلَ صُحْبَةً لِأَبِي تُرَابٍ مِنْ قَنْبَرٍ مَوْلَاهُ
تو اس سے کہا گیا : ہمارے علم میں ابو تراب کی صحبت میں ان کا قنبر سے زیادہ رہنے والا کوئی اور شخص نہیں ہے۔
تو حجاج نے قنبر کو طلب کرلیا ،اس موقعہ پہ حجاج اور قنبر میں جو مکالمہ ہوا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
حجاج : کیا تم قنبر ہو؟
قنبر : ہاں
حجاج : ابو ھمدان
قنبر : ہاں
حجاج : مولی علی ؟
قنبر : اللہ میرا مولا ہے اور علی ابن ابی طالب میرے ولی نعمت ہیں
حجاج : ترے اور علی ابن ابی طالب کے درمیان کیا معاملہ تھا
قنبر : میں ان کے ہاں حاضر خدمت رہتا اور ان کو وضو کراتا تھا
حجاج : جب وہ وضو کرکے فارغ ہوتے تو کیا پڑھتے تھے؟
قنبر : وہ آہستہ سے کچھ پڑھتے تھے ، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں یہ آیت پڑھتا ہوں
پھر جب وہ اس نصیحت کو بھول گئے جو ان کو کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہو گئے جو انہیں دی گئی تھیں تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تب وہ نا امید ہو کر رہ گئے۔(سورہ انعام آیت 45 )
حجاج : کیا وہ اس آیت کو ہم پہ منطبق کرتے تھے ؟
قنبر ( بہت سکون سے جواب دیتے ہوئے ): ہاں
حجاج (غضب ناک اور شدید غصّے میں آجاتا ہے): تم علی ابن ابی طالب سے اظہار برآت کرو
قنبر: اگر میں ان کی فکر سے اظہار برآت کروں تو مطلب ہوگا کہ میں ان کے غیر کی فکر کو حق خیال کرتا ہوں۔یہ ممکن نہیں ہے۔
حجاج : میں تمہارے قتل کا حکم دوں گا ، تمہارے ساتھ کیا ہوگا جب تمہاری گردن ماری جائے گی ؟
قنبر : میں نہایت خوشی سے اپنی موت کی جانب جاؤں گا ، اللہ کی قسم میں سعادت مند اور تو شقی ہوگا۔
حجاج : کیوں ایسا کیوں ہے، کیا تجھے ترے مولا نے کچھ خبر دی تھی ؟
حجاج : ہاں میرے مولا نے کہا تھا کہ میں موت سے ہمکنار ایسے ہوں گا کہ مجھے ناحق قتل کیا جائے گا ۔
حجاج: ( غصّے میں آگ بگولہ لوگوں کے سامنے چیختے ہوئے کہتا ہے) : اسے ایسے ذبح کرو جیسے بکری کو ذبح کیا جاتا ہے۔
جلاد آگے بڑھتا ہے اور فوری طور پہ ان کو ایسے ذبح کرتا ہے جیسے بکری ،اور ان کی گردن کاٹ دی جاتی ہے۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے قنبر کو ایسے یاد کیا
میرے دادا کے ایک خادم تھے ،ان کا نام قنبر تھا اور وہ میرے دادا سے شدید محبت کرتے تھے
قنبر کا نسب و حسب مجہول ہے اور اب ان کی شناخت خادم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ہی ہے۔قنبر کے بارے میں حضرت سعید ابن جیبر نے کہا کہ قنبر کی تربیت اس ذات نے کی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تھا کہ “میں علم کا شہر تو علی اس کا دروازہ ہیں”۔تو قنبر علم کے شہر میں باب علی سے داخل ہوئے اور ان سے ہی تربیت پائی۔جنگ صفین میں علوی کیمپ جو کہ سواد اعظم کا کیمپ تھا اس کا جھنڈا حضرت علی نے قنبر کے حوالے کیا تھا۔قنبر کا لکھا ہوا ایک رسالہ کے کچھ اجزاء محفوظ رہ گئے جس کا نام “قطر السيل في سياسه الخيل” ہے اور اس میں قنبر لوگوں سے کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ پڑھیں اور اس کا ثواب محمد رسول اللہ،اہل بیت و اصحاب رسول اللہ کی ارواح کو ایصال کریں۔کوفہ کے قاضی شریح کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا اور اس میں گواہی قنبر کی تھی جسے شریح نے رد کیا تو آپ نے اس پہ اعتراض کیا اور کہا کہ جب گواہی دینے والا عادل ہو تو پھر وہ چاہے کوئی ہو اس کی گواہی قبول کی جائے۔
یہ بظاہر بہت چھوٹا سا واقعہ نظر آتا ہے لیکن یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سیاسی و سماجی خیالات کی انقلابیت کو کھول کر بیان کرتا ہے۔آپ نے اس زمانے میں جیسے عجمی مسلمانوں کے کردار اور ان کے علم کو معیار بناکر عرب پرستی کو رد کیا وہ اس زمان ومکان میں کوئی معمولی بات نہ تھی۔اور آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم و اہل بیت نے جیسے کمزوروں،مجبوروں، یتیموں ، بے کسوں ، محتاجوں اور حسب و نسب سے محروم سماج کی نچلی پرتوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اس زمانے میں سرکاری و درباری اسلام کے مقابلے میں عوامی اسلام کو متعارف کرایا یہ اس زمانے کے حساب سے بہت بڑا ترقی پسندانہ اقدام تھا۔اب تک مسلم تاریخ میں عوام کی تاریخ لکھے جانے کی طرف پیش قدمی بہت سست ہے اور قنبر جیسے بہت سے کردار ہیں جو مین سٹریم مسلم تاریخ کی تدوین میں اپنے مقام کے منتظر ہیں۔
قنبر شرطۃ خمیس میں شامل ہیں ۔ان سے مراد وہ اصحاب ہیں جو اپنی وفا، قربانی اور آپ کے ساتھ عہد وفا کے عوض بطور حضرت علی کے جانثار محافظ دستے کے طور پہ کام کرنے کے جنت میں آپ کے ہمراہ داخل ہوں گے۔ان میں جو احباب شامل ہیں ان کے نام نصر بن مزاحم نے وقعۃ الصفین میں درج کئے ہیں
سلمان الفارسي، أبو ذر الغفاري، والمقداد، وعمّار بن ياسر، وأبو ساسان الأنصاري، وأبو عمرو الأنصاري، وسهل بن حنيف، وعثمان بن حنيف، وعمرو بن الحمق الخزاعي، وميثم التمّار، ورشيد الهجري، وحبيب بن مظاهر الأسدي، ومحمد بن أبي بكر، ومالك الأشتر، وسويد بن غفلة الجعفي، وحارث بن عبد الله الهمداني، وقنبر، وأويس القرني، وكميل بن زياد النخعي، والأصبع بن نباتة، ووهب بن عبد الله.