سعودی معاشرہ عورتوں کے لئے بدترین قید خانہ بن چکا ہے – مستجاب حیدر
فلپائن کے راستے آسٹریلیا جانے کی کوشش کرنے والی ایک سعودی نوجوان عورت کو منیلا ائر پورٹ پہ روک لیا گیا۔سعودی نوجوان عورت سعودی عرب میں اپنے گھر والوں کے مظالم سے تنگ آکر اور سعودی عرب کے عورت دشمن قوانین سے بیزار ہوکر آسٹریلیا میں پناہ گزین ہونے کی کوشش میں تھی۔اس سعودی نوجوان عورت نے منیلا ائرپورٹ پہ روکے جانے پہ ایک وڈیو پیغام ریکارڈ کیا اور اسے سوشل میڈیا پہ پوسٹ کردیا۔یہ وڈیو جیسے ہی منظر عام پہ آئی تو وائرل ہوگئی۔
سعودی عورتیں اکثر سعودی عرب سے فرار اختیار کرتی ہیں اور یہ فرار ان کی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے اور وہ اکثر اپنے مرد رشتے داروں سے بچنے کے لئے ایسا کرتی ہیں،
وہابی بادشاہی سعودی قانون کے مطابق ملک سے باہر جانے،پاسپورٹ حاصل کرنے، شادی کرنے یا یہاں تک کہ جیل سے رہائی بھی اس عورت کے نگران اور ولی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔تاہم اکثر مسلم ممالک میں ایسے سخت قوانین سرپرست /ولی کو لازم قرار دینے والے نہیں ہیں۔
فرار ہونے والی لڑکی کا نام دینا علی لسلوم ہے ۔اس نے جو پیغام ویڈیو کلپ میں دیا اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
موبائل فون سے بنائی جانے والی ویڈیو میں 24 سالہ سعودی نوجوان خاتون دینا علی کہتی ہے کہ اس کا پاسپورٹ منیلا ائرپورٹ پہ سوموار کے دن جب وہ آسٹریلیاء جانا چاہتی تھی اس سے لے لیا گیا ہے۔
اس نے الزام عائد کیا کہ ائرپورٹ حکام نے سعودی سفیر کی درخواست پہ اس کا پاسپورٹ لیا ہے تاکہ اس کے رشتے دار اسے سعودی عرب واپس لے جائیں۔
اگر میرے خاندان والے آتے ہیں تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔میرا سعودی عرب واپس جانے کا مطلب میری موت ہے۔براہ کرم، میری مدد کریں، ” اس نے ویڈیو پیغام میں درخواست کی ہے۔
دینا علی نے ائرپورٹ پہ پیغام ریکارڈ کروایا تاکہ پبلک جان لے کہ وہ کہاں ہے۔ایک کوٹ پہنے ہوئے نوجوان سعودی عورت نے اپنا چہرہ نہیں دکھایا۔
“مجھے یہاں ایک مجرم کے طور پہ رکھا گیا ہے، میں کچھ بھی نہیں کرسکتی” ،دینا علی نے اپنی ویڈیو میں کہا۔امریکی خبر رساں ایجنسی نے سعودی عرب کی ترجمانی کے خودساختہ فرائص سنبھالتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ وڈیو کے اصلی ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق کے علمبردار کہتے ہیں کہ دینا علی کو آخرکار مجبور کرکے سعودی عرب آنے والے جہاز میں سوار کرادیا گیا ہے جس میں اس کے دو چچا بھی سفر کررہے ہیں جو کہ ریاض سے منیلا فلپائن پہنچے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکام دینا علی کو دارالامان لے گئے ہیں کیونکہ اس لڑکی کا کیس بہت سے لوگوں کی نظروں میں آگیا ہے۔
تاہم وہ اپنے مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاسکے گی۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ صرف سعودی حکام اور اس کے رشتے دار ہی لڑکی سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
سرکاری طور پہ عورتوں کے گھر سے فرار ہونے اور ان کے پکڑے جانے پہ غیرت کے نام پہ مار دئے جانے کے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔میڈیا میں بہت کم ایسے واقعات کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔انسانی حقوق کے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ درجنوں سعودی عورتیں اکثر اپنے بچوں کے ساتھ گھر سے اور ملک سے فرار کی راہ اختیار کرتی ہیں۔حالیہ چند سالوں میں ایسے بہت سے کیس سامنے آئے ہیں۔ایسے کیسز بہت زیادہ مشہور ہوئے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اب باقاعدہ ایک رجحان اور ٹرینڈ بن چکا ہے۔
سعودی حکومت پہ عورتوں پہ ناروا پابندیاں ہٹانے کے حوالے سے دباؤ بڑھتا چلا جارہا ہے۔سعودی حکومت نے اس حوالے سے کچھ اقدامات اٹھائے بھی ہیں۔جیسے عورتوں کو مقامی حکومتوں کے الیکشن میں ووٹ کا حق، ریس اور دوڑ کی گیمز میں حصّہ لینے کا حق اور بعض شعبوں میں ملازمت کرنے کا حق وغیرہ۔
ایسے خواتین جو سعودی عرب کے قید خانے سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئیں کہتی ہیں کہ ان کو مرضی سے شادی کرنے سے روکا گیا اور ان کی جبری شادیاں کروانے کی کوشش کی گئیں۔
کچھ عورتوں نے انسانی حقوق کے گروپوں کو بتایا کہ ان کے مرد سرپرست ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے اور ان کی آمدنی ہتھیالیتے تھے۔
ان میں سے اکثر نے کہا کہ سعودی عرب عورتوں کے لئے بدترین قید خانہ ہے ۔شہری آزادیاں تو بہت دور سانس لینے کے لئے بھی مردوں کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔معودی اہلجنہی کا کہنا ہے کہ اس نے منیلا ائرپورٹ پہ دینا علی سے بات کی۔الجہنی بھی گزشتہ سال سعودی عرب سے فرار ہوکر امریکہ پہنچی تھی اور انہوں نے سیاسی پناہ طلب کی تھی۔الجہنی کا کہنا ہے کہ دینا علی نے اسے بتایا کہ اس کا سانس گھٹنے لگا تھا وہ بس آزادی چاہتی تھی۔
الجہنی کی عمر 26 سال ہے اور میامی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اسے احساس ہوا کہ سعودی عرب کی حکومت اور سماج بہت ہی ظالم سماج اور عورتوں کے لئے فید خانے سے کم نہیں ہیں اور جب ول آخری بار ایک ہفتے کے لئے سعودی عرب واپس اپنے گھر گئی تو اسے محسوس ہوا کہ وہ تو ایک قید خانے میں آگئی ہے اور کئی ماہ تک اسے محبوس رکھا گیا جب اس نے ان پابندیوں پہ احتجاج کیا۔
” سعودی عرب میں آٹھ ماہ کی قید نے میرے اندر کے ناراض، باغی انسان کو بیدار کردیا تھا اور اب میں مزید خاموش رہنا نہیں چاہتی تھی”۔جہنی نے کہا۔” سعودی عرب میں جو مجھ پہ بیتی اس نے اس شخص کو بیدار کردیا جو اس بارے سب کچھ بتانا چاہتی ہے”
گزشتہ 15 سالوں سے شاہ عبداللہ کی چار بیٹوں شہزادی جواہر، سحر ، حالہ اور ماہا جو اب 40 سال کی ہوچکیں ہیں کو سعودی شاہی محل کے ایک کمپاؤنڈ میں نظر بند رکھا گیا۔ان کی ماں نے جو لندن میں تھی برطانوی پریس کی توجہ اپنی بیٹیوں کی حالت زار کی جانب دلائی۔ان میں سے دو شہزادیوں نے اپنے وڈیو ریلیز کرانے میں کامیابی حاصل کی جس میں وہ مدد کی درخواست کررہی ہیں۔
سعودی عرب میں متعدد کیسز ایسے زیر سماعت ہیں جن میں عورتوں نے اپنے سرپرست مرد تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے اور اکثر نے اپنے بیٹوں کو اپنا ولی مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔
ریاض میں عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی خاتون نے ٹیلی فون پہ بتایا کہ دینا علی اصل میں کویت میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں سے فرار ہوئی جو کہ اسے واپس سعودی عرب بھیجنے کی دھمکی دے رہے تھے۔
ان خاتون ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کا کہنا ہے کہ سینکڑوں سعودی نوجوان لڑکیاں اور کئی عورتیں ہیں جو سعودی عرب رہنا نہیں چاہتیں اور سعودی عرب چھوڑ کر چلی جانا چاہتی ہیں۔اس خاتون ایکٹوسٹ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں 20 سال کی ہر دوسری تیسری لڑکی ملک سے فرار چاہتی ہے۔
خاتون سعودی ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں ” عزت کے نام پہ قتل ” کا وجود نہیں ہے کیونکہ ایسے قتل نہ تو رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور نہ میڈیا کی ہمت ہے کہ ان کو رپورٹ کرے۔موجود اس لئے نہیں ہیں کہ “نظروں سے غائب ” کردیا جاتا ہے۔ورنہ ہر روز ایک یا دو قتل لازمی ہوتے ہیں۔جبکہ مار پیٹ، تشدد کا تو شمار نہیں ہے۔
مڈل اسٹ میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر سارہ لیہ وٹسن کا کہنا ہے کہ سعودی خواتین کا اپنے خاندان سے فرار آسان کام نہیں، یہ انتہائی قدم ہوتا ہے جو خواتین اٹھانے پہ مجبور ہوتی ہیں اور ان کو اس اقدام پہ بدترین تشدد اور قتل تک کا سامنا غیرت اور مذہب کے نام پہ بنایا جاتا ہے اگر وہ واپس اپنی مرضی کے خلاف لائی جاتی ہیں۔انہوں نے سعودی حکام کو دینا علی کی جان بچانے کا کہا ہے (ظاہر ہے یہ درخواست ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے)
سعودی عرب کی بدمعاشی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے سفیر نے فلپائن حکومت کو سعودی لڑکی کو آسٹریلیا جانے والے جہاز سے اتارکر قید رکھنے کی درخواست کی تاکہ اس لڑکی کے رشتے دار اسے آکر اپنے قبضے میں لے لیں۔اور فلپائنی حکام اس دباؤ کے سامنے سرنڈر کرگئے۔
سعودی سفارت خانے نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پہ کہا ہے کہ انھوں نے کوئی دباؤ نہیں ڈالا صرف درخواست کی اور یہ ایک لڑکی کو اس کے خاندان کے حوالے کرنے سے زیادہ اور کوئی معاملہ نہیں ہے۔
جبکہ منیلا ائرپورٹ کے جنرل مینجر نے تیسری دنیا کے کمزور اور غلام ذہنیت کے سرکاری بابوؤں کی طرح ایسے کسی واقعے کے رونما ہونے سے ہی انکار کردیا ہے۔
سعودی انسانی حقوق کے کارکنوں نے ریاض ائرپورٹ پہ دینا علی سے ملنے کی کوشش کی تو ان کو سیکورٹی حکام نے نہ صرف ملنے نہیں دیا بلکہ ایک انسانی حقوق کے کارکن اعلاء العنزی کو ائرپورٹ پہ محبوس کردیا اور پھر لڑکی کو دارالحکومت کے ایک نظر بندی سنٹر بھیج دیا۔
سعودی وزرات داخلہ نے اس معاملے پہ پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ سال سعودی خواتین بارے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب میں عورتوں کی زندگی ان کے سرپرست مردوں کے رحم و کرم پہ ہوتی ہے اور سعودی سماج گھر سے لیکر تعلیم کے مرکز اور کام کی جگہ تک سعودی عورتوں کے لئے قید خانے اور نگرانی سنٹر سے کم نہیں ہے۔