شام میں شیعہ شامیوں کی نقل مکانی اور خود کش بم دھماکے پہ میڈیا ڈسکورس – مستجاب حیدر
شام کے صوبے ادلب میں شیعہ اکثریت کے دو گاؤں فوعہ اور کفریا سے نقل مکانی کرنے کے لئے جانے والے شامی مہاجرین کی بسوں پہ تکفیری وہابی دہشت گرد تںطیموں کے خود کش حملے سے 126 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ ان میں 68 بچے بھی شامل ہیں۔یہ دونوں گاؤں جنوری دو ہزار سولہ سے امریکہ،سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ بنیاد پرست جہاد ازم کی علمبردار نصرہ فرنٹ اور دیگر تنظیموں کے محاصرے میں تھے۔اس واقعے پہ اردو میں سوشل میڈیا پہ شام کے حوالے سے سعودی فرقہ وارانہ پروپیگنڈا کرنے والے عناصر نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔جبکہ پاکستان میں امریکی کیمپ کے حامیوں نے اس واقعے پہ بی بی سی ، سی این این اور فاکس نیوز سمیت سعودی نمک خوار میڈیا چینلز کی پیروی کرتے ہوئے جھوٹ کا بازار گرم کررکھا ہے۔
اس خوفناک شیعہ نسل کشی اور بشار الاسد کے حامی فوعہ اور کفریا کے باسیوں پہ ٹوٹ پڑنے والی قیامت کے بارے میں عرب نژاد لبنانی تجزیہ نگار امل سعد نے اپنی فیس بک وال پہ یوں تبصرہ کیا ہے:
فوعہ اور کفریا کے انخلاء کرنے والوں کے خون سے ہولی کھیلے جانا گزشتہ ہفتے کے امریکی ہوائی حملوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔متعدد نقل مکانی کرنے والے شیعہ کو مارنے( میں نے ایک ویڈیو دیکھی ہے جس میں چار سے پانچ بسیں تباہ شدہ دکھائی گئی ہیں جو بچوں سے بھری ہوئی تھیں) کا مقصد مضایا اور زبدانی سے انخلاء کرنے والی سنّی آبادی کے خلاف بدلے کی آگ بھڑکا کر فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنا ہے جن کی نقل مکانی ایک معاہدے کے تحت ہورہی ہے اور اس کا مقصد سنّی کے خلاف بدلے کی آگ کو تیلی دکھانا ہے۔
مغرب اور عرب گلف ریاستوں میں جو حزب اختلاف کے حامی ہیں وہ پہلے ہی اسد حکومت گھٹیا الزام لگارہے ہیں تاکہ تکفیری دہشت گردوں کو الزام اور اس خون آشام گھٹنا کے دوش سے محفوظ رکھا جاسکے۔
یہ صرف شیعہ جانوں کی ارزانی کا کیس نہیں ہے مثال کے طور پہ شیعہ اموات کا مین سٹریم میڈیا پہلے کی بہت کم تذکرہ کرتا ہے یا مغربی لیڈر مرجانے والے شیعہ بچوں کی خبر کو سیاسی طور پہ اپنے لئے فائدہ مند خیال نہیں کرتے،زرا خیال کیجئے کہ اگر یہ واقعہ مضایا یا زبدانی کے نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا۔
تو یہ صرف شیعہ اموات بارے خاموشی اختیار کرنے کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سفید چمڑی ( مغرب) والے ہیں جو “مظلوموں” کے وکیل ہونے کا دعوی کرتے ہیں جیسے پالیسی بنانے والے، صحافی اور سیاسی پنڈت جو ہمیں فرقہ پرست قرار دے ڈالیں گے اگر ہم داعش، القاعدہ اور تکفیری باغیوں پہ شیعہ کو ٹارگٹ کرنے کا الزام دیں۔ اور ” ہم ” سے میری مراد کوئی بھی فرقہ یا مذہب کے لوگ ہیں۔ یہاں تک کہ سنّی مسلمان بھی اس میں شامل ہیں جو اس کی نشاندہی کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔شیعہ کی مظلومیت یا ان کو نشانہ بنائے جانے کی نشاندہی کرنا ایک ممنوعہ کام ہے۔یہ غیر ترقی پسندانہ عمل ہے۔اور اسلامو فوبک /اسلام دشمنی بھی ہے اور یہ سنّیوں کو بے اختیار کرنا بھی ہے۔مغرب ، گلف ( پاکستان کو بھی شامل رکھیں اور ذہن میں نجم سیٹھی،سیرل المیڈا، فاروق ندیم پراچہ اینڈ کمپنی کو رکھیں) میں لبرل کا نیا ڈسکورس اور قابل قبول یہ ہیں: متاثرین اور مظلوموں کی شناخت کو اس وقت تک نمایاں نہ کیا جائے جب تک ان کا تعلق سیاسی طور پہ حملہ آوروں اور اپنے حامی گروپ سے نہ ہو۔
https://www.facebook.com/amal.saad111?fref=nf
اس پیمانے کو مدنظر رکھیں اور دیکھ لیں کہ پاکستان کے سب سے موقر میڈیا گروپ
ڈان کی اردو اور انگریزی ویب سائٹ پہ مذکورہ خودکش بم دھماکے کی خبر میں یہ بتانے کی کوشش نہیں کی گئی کہ مرنے والے شیعہ ہیں۔
https://www.dawnnews.tv/news/1056005/
بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ نے جو خبر پوسٹ کی ہے وہ اور امریکی تجزیہ نگار فرائیڈمین نے جو کہا اس پہ تبصرہ کرتے ہوئے امل سعد نے لکھا ہے :
یہ رپورٹ اور فرائیڈ مین کی جانب سے امریکہ کو یہ مشورہ دئے جانے کہ اسے داعش سے شام کے خلاف اتحاد کرنے کی ضرورت ہے پڑھنے کے بعد میرے پاس مغرب کو کہنے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔بی بی سی نے نصرہ فرنٹ اور تکفیری باغیوں سے فوعہ اور کفریا پہ حملے کی زمہ داری ہٹاکر بشار الاسد پہ اس کی ذمہ داری ڈال دی ہے۔بی بی سی کی رپورٹر لینا سنجاب نے رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا ” دھماکہ اس وقت ہوا جب خوراک سے بھرا ایک ٹرک انخلاء کے لئے تیار بسوں کے پاس پہنچا اور اس نے بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرنا شروع کیں اور اس نے بچوں کو اپنی جانب کھینچا اور دھماکہ ہوگیا۔لیکن حکومت کی اجازت کے بغیر یہ ٹرک انخلاء کے مقام تک کیسے پہنچا؟ اور کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دھماکہ باغیوں نے کیا ہے۔۔۔۔۔۔ اینکر پرسن نے اس پہ مزید بات کو بڑھاتے ہوئے کہا “اس دھماکے کا الزام باغیوں کو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ تو خود اپنے حامیوں کے انخلاء کے دوسری جگہوں پہ منتظر تھے اور یہ ان کے کسی طرح سے مفاد میں نہیں ہے”
http://www.bbc.com/news/world-middle-east-39613313
امل سعد کہتی ہیں کہ مین سٹریم میڈیا کی اس واقعے پہ رپورٹنگ ” ڈیٹا اکٹھا کرنے کی گیس لائٹنگ کی طرح ہے اور یہ نفسیاتی طور پہ کسی حقیقت کو ایسے مسخ کرنے کی تکنیک ہے جس کی بنیاد پہ ہونے والی رپورٹنگ کو دیکھ کر لوگ خود سے مطلوبہ سوال ، ان کے مطلوب جواب ڈھونڈ نکالتے ہیں اور جسے الزام سے بچانا مقصود ہو اسے بچا لیا جاتا ہے۔یہ ایسی تکنیک ہے جس میں اگر آپ کوئی ثبوت پیش کریں تو بھی آپ کو کہا جاتا ہے کہ ” آپ جھوٹ بول رہے ہیں” ” آپ پاگل ہیں”اور آپ کو ” تکفیری فوبیا ہوگیا ہے ” ۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پاکستان کے اندر آپ ” شیعہ نسل کشی ” پہ بات شروع کریں تو پاکستان میں ایک لبرل سیکشن آپ کو یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ جنگ ہے، شیعہ-سنّی لڑائی ہے، ایرانی ، سعودی پراکسیز لڑ رہی ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے کہ اگر یہ شیعہ سنّی لڑائی ہے تو پھر بم مزارات پہ کیوں پھٹتے ہیں، چرچ پہ حملے کیوں ہورہے ہیں؟احمدی کیوں مارے جارہے ہیں؟سنّی علماء اور مشائخ پہ حملے کیوں ہورہے ہیں ؟ اور یہ سب حملے تکفیری دیوبندی دہشت گرد کیوں کرتے اور ذمہ داری لیتے ہیں؟ لبرل اس پہ آپ کو کریزی، فوبک ، جنونی کہنا شروع کردیتے ہیں اور دیوبندی اور سلفی و جماعتی کے پاس جواب ہوتا ہے کہ یہ حملے راء،موساد، سی آئی اے کروارہی ہے۔مطلب ہر صورت اس بات کی نفی کرنا ہے کہ پاکستان میں شیعہ، صوفی سنّی، اعتدال پسند دیوبندی، اہلحدیث،احمدی، کرسچن، ہندؤ، لبرل کو نشانہ بنانے والوں کی شناخت کو چھپایا جائے اور ساتھ ساتھ خود شیعہ ، صوفی سنّی شناختوں کو بھی چھپایا جائے تاکہ مجرموں کی شناخت نہ ہوسکے۔