ذکر امام باقر محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنھما – مستجاب حیدر

میں سوچ رہا تھا کہ مسلم تاریخ میں رجب المرجب کی پہلی تاریخ ایک ایسے شخص کی ولادت باسعادت کی تاریخ ہے جس نے علم کی الجھی گتھیوں کو سلجھانے کا کام ایسے سرانجام دیا تھا کہ اس کا لقب ” باقر العلوم ” پڑگیا تھا اور اس نے اسقدر گہرائی میں جاکر چیزوں کو دیکھنا اور دکھانا شروع کیا کہ سالوں گزر جانے کے بعد جس باب مدینۃ العلم کا وہ تذکرہ لوگوں سے سنتے تھے اس کی جیتی جاگتی اور متکلم تصویر لوگوں نے دیکھ لی۔

محمد بن سعد زھری متوفی 230 ھجری علمائے اہل سنت میں بہت بڑے محدث ،فقیہ ، متقی ،پرہیز گار اور عالم فاضل شمار ہوتے ہیں۔ان کی کتاب ” طبقات الکبیر ” احوال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اہل بیت ،صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین بارے بہت معروف کتاب ہے جسے اکثر طبقات ابن سعد کہا جاتا ہے اور آپ فرماتے ہیں :
محمّد من الطبقة الثالثة من التابعين من المدينة، كان عابداً عالماً ثقة
محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب مدینہ کے تابعین کے طبقہ ثلاثہ سے تعلق رکھتے تھے اور وہ عابد و ثقہ عالم تھے۔
پھر آپ فرماتے ہیں :
كان ثقة كثير الحديث
آپ سے کثیر مستند احادیث مروی ہیں

علّق الإمام أحمد بن حنبل على سندٍ فيه الإمام علي الرضا عن أبيه موسى الكاظم عن أبيه جعفر الصادق عن أبيه محمد الباقر عن أبيه علي زين العابدين عن أبيه الحسين بن علي عن أبيه علي بن أبي طالب عن الرسول الأكرم صلوات الله عليهم أجمعين قائلاً: لو قرأت هذا الإسناد على مجنون لبرئ من جنته
امام احمد بن حنبل متوفی 241 ھجری نے ایک سند کی تعلیق ایسے کی کہ ” امام علی رضا نے اپنے والد موسی الکاظم سے انہوں نے اپنے والد جعفر الصادق سے انہوں نے اپنے والد محمد باقر سے انہوں نے اپنے والد حسین بن علی سے انہو ں نے اپنے والد علی ابن ابی طالب سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی اور پھر کہا کہ اگر میں یہ اسناد کسی مجنون پہ پڑھ دوں تو اس کا جنون جاتا رہے۔

امام ابو نعیم الاصفہانی متوفی 430ھجری ان کا تذکرہ “حلیۃ الاولیاء ” میں ایسے کرتے ہیں :
ومنهم الحاضر الذاكر، الخاشع الصابر، أبو جعفر محمد بن علي الباقر، كان من سلالة النبوّة
محمد بن طلحہ الشافعی روض المسئول میں لکھتے ہیں :
هو باقر العلم وجامعه، وشاهر علمه ورافعه، ومتفوق درّه وواضعه، ومنمّق درّه وراضعه(2)، صفا قلبه، وزكا عمله، وطهرت نفسه، وشرفت أخلاقه، وعمرت بطاعة الله أوقاته، ورسخت في مقام التقوى قدمه، وظهرت عليه سمات الازدلاف، وطهارة الاجتباء، فالمناقب تسبق إليه، والصفات تشرف به
عطاء بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر امام باقر کے سامنے جسقدر علم کے باب میں علماء کو عاجز دیکھا اتنا کہیں اور نہیں دیکھا اور میں نے حکم کو ان کے ایسے عاجز پایا جیسے وہ مغلوب ہوں اور حکم سے مراد حکم بن عنیہ ہیں جو کہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم جلیل القدر تھے۔
ما رأيت العلماء عند أحدٍِ أصغر علماً منهم عند أبي جعفر لقد رأيت الحَكَم عنده كأنه مغلوب، ويعني بالحَكَم الحَكَم بن عُيينة وكان عالماً نبيلاً جليلاً في زمانه
ایسے ہی اور کثیر تعداد میں علمائے اہلسنت ہیں جنھوں نے امام باقر کے علم ، ان کے تقوے اور ان کی فراست کے گن گائے ہیں۔اور میں ان سب کو پڑھ کر امام باقر محمد بن علی بن حسین بارے جاننے کا اور زیادہ مشتاق ہوتا چلا گیا ۔
أبو زكريا محيي الدين بن شرف النووي جو علم حدیث کا ایک بڑا نام ہیں اور 634ھجری میں ان کی وفات ہوئی ہے یہ امام باقر کے بارے میں فرماتے ہیں :

عن الإمام الباقر۔۔۔۔۔۔ سميّ بذلك لأنه بقر العلم أي شقّه فعرف أصله وعرف خفيّه… وهو تابعي جليل، إمام بارع، مجمع على جلالته، معدود في فقهاء المدينة وأئمتهم
امام الباقر کے بارے میں ۔۔۔۔۔ ان کو اس لقب سے اس لئے پکارا جاتا تھا کہ انہوں نے علم کو بقر کیا یعنی اس کو شق کیا اور پھر اس کی اصل سے متعارف کرایا اور اس کا جو باطن تھا ، خفی تھا اسے واضح کیا ۔۔۔۔۔ وہ بہت بڑے تابعی ، تقوی و پرہیز گار امام ، جن کی بڑائی اور جلالت علمی پہ سب جمع ہیں ، سب کا اجماع ہے اور مدینہ کے چند گنے چنے فقہاء اور آئمہ میں سے ایک تھے۔
ان کے بارے میں یہ شعر خواص اور عوام دونوں میں بہت مقبول رہا
يا باقر العلم لأهل التقى۔وخيرَ مَنْ لَـبّى على الأجبل

آپ کو قدیم کتب تاریخ و تفسیر و حدیث و فقہ و رجال سب میں امام باقر کے فضائل بارے کثرت سے تذکرہ ملے گا اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جائے گا کہ وہ فقہ ، تفسیر ،حدیث و تاریخ کے بہت بڑے عالم تھے لیکن جب آپ ان کے مآثر کی تلاش میں جائیں گے تو سوائے شیعہ ماخذ کے اور کہیں یہ کثرت سے نہیں ملیں گے۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ سوال ذہن میں جنم لیتا ہے۔اور آج آپ اکثر غیر شیعہ مسلم ذہنوں پہ دستک دیں اور ان سے محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب بارے سوال کریں تو ان کے ذہنوں پہ شاید عام تابعین کے جتنے تذکرے نقش ہوں گے محمد بن علی بارے بہت کم ہی علم ہوگا۔اس سے ہم اس جبر کا اندازہ کرسکتے ہیں جو صدیوں سے آئمہ اہل بیت کے علم کو پھیلانے سے روکنے کے لئے نافذ کیا جاتا رہا ہے۔اور آج بے خبری کا یہ عالم ہے کہ ان کے بارے میں بات کرنے کے لئے چند جملوں سے زیادہ کہنے کے لئے اکثریت کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔

تشیع میں امامت کو اصول دین میں شمار کرنے والوں کے ہاں امام باقر پانچوين امام ہیں اور یہاں تک تشیع الامامیہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ امام اثناء عشرہ امامیہ اور اسمعیلیہ شعیہ کے درمیان وحدت کی ایک کڑی ہیں۔اور مکتب علی شناسی میں اس پانچوین امام کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ ہے کہ اس امام نے مکتب کی بنیادوں پہ ایک پوری عمارت تعمیر کرنے کی ابتداء کی اور سب ہی کمرے تعمیر کرڈالے۔سب سے بڑا کام اس امام نے تصور امامت کی علمی بنیادوں کو دلائل و شواہد سے مزین کیا۔اور اس طرح سے مکتب علی شناسی کی اساس کو بہت زیادہ تفصیل سے کھولکر بیان کرنے کا سہرا باقر العلوم محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب کے سر جاتا ہے۔

مجھے ایک قصّہ یاد آرہا ہے۔کہ جابر بن یزید الجعفی مدینہ میں مسجد نبوی میں قائم امام باقر محمد بن علی رضی اللہ عنہ کے حلقے میں تشریف فرما تھے اور آپ نے امام باقر سے سوال کیا :
استفهمه جابر بن يزيد الجعفيّ: لأيّ شيءٍ يُحتاج إلى النبيّ والإمام ؟
جابر بن یزید الجعفی نے ان سے پوچھا : کون سے چیز نبی اور امام کی احتیاج پیدا کرتی ہے ؟

فأجابهالإمام الباقر عليه السّلام: لبقاء العالَم على صلاحه، وذلك أنّ الله عزّوجلّ يرفعالعذابَ عن أهل الأرض إذا كان فيها نبيٌّ أو إمام، قال الله عزّوجلّ: « وما كان اللهُ لِيُعذِّبَهم وأنت فيهم »،وقال النبيّ صلّى الله عليه وآله: النجوم أمانٌ لأهل السماء، وأهلُ بيتي أمان لأهلالأرض.. فإذا ذهبت النجوم أتى أهلَ السماء ما يكرهون، وإذا ذهب أهلُ بيتي أتى أهلَالأرض ما يكرهون
تو امام باقر علیہ السلام نے جواب دیا : دنیا کی بقا اور اس کی درستگی ،اور جیسا کہ اللہ عزوجل نے اہل زمین سے ‏عذاب اٹھا لیتا ہے جب اس میں نبی یا امام موجود ہوتا ہے۔اللہ عزوجل نے فرمایا ” اللہ ان کو عذاب دینے والا نہیں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں موجود ہیں” اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ستارے اہل سماء کے لئے امان ہیں اور میرے اہل بیت اہل زمین کے لئے ۔۔۔۔۔ تو جب نجوم چلے جائیں گے تو اہل سماء پہ وہ آئے گی جس سے وہ کراہت کرتے ہیں اور ایسے جب اہل ارض سے اہل بیت اٹھ جائیں گے تو ان کو اس شئے کا سامنا ہوگا جس سے وہ کراہت کرتے ہیں
ثمّ قال عليه السّلام: يعني بأهل بيته الأئمّةَ الذين قرناللهُ عزّوجلّ طاعتَهم بطاعته فقال: « يا أيُّها الذين آمنواأطيعوا اللهَ وأطيعوا الرسولَ وأُولي الأمرِ منكم ۔۔۔۔۔۔۔۔وهُمُ المعصومون المطهّرون الذين لا يُذنبون ولا يعصون، وهمُ المؤيَّدون الموفّقون المسدّدون، بهم يرزق اللهُ عباده، وبهم تعمر بلاده، وبهم يُنزل القطر من السماء،وبهم يُخرِج بركات الأرض، وبهم يُمهل أهلَ المعاصي ولا يعجل عليهم بالعقوبةوالعذاب، ولا يفارقهم روح القدس ولا يفارقونه، ولا يفارقون القرآن ولا يفارقهم
پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا : یعنی اہل بیت وہ آئمہ ہیں جن کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت سے جوڑا ہے۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں :” اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعات کرو رسول کی اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں” ۔۔۔۔(امام باقر اولی الامر سے مراد آئمہ اہل بیت لیتے ہیں ) اور کہتے ہیں کہ رسول و اولی الامر سب کے سب معصوم ،پاک ہیں جو کہ نہ تو ارتکاب گناہ کرتے ہیں نہ ہی معصیت کا ظہور ان سے ہوتا ہے۔اور انہی کی تائید کی گئی ہے۔ اور جو راہ مسدود ہوجائے ان کے دم قدم سے کھلتی ہے۔ان کے برکت سے رزق ملتا ہے۔اور ان کی برکت سے شہر آباد رہتے ہيں،ان کی برکت سے آسمان سے بارش برستی ہے اور ان کے توسل سے زمین سے برکات کا خروج ہوتا ہے،اور ان کی وجہ سے اہل معصیت کو مہلت ملتی ہے اور ان پہ عقوب و عذاب کی جلدی نہیں کی جاتی۔ان سے نہ تو روح القدس الگ ہوتا ہے اور نہ وہ اسے الگ ہوتے ہیں اور نہ ہی قرآن ان سے الگ ہوتا ہے اور وہ قرآن سے الگ ہوتے ہیں

• ورُوي عنه سلام الله عليه قولُه: واللهِ ما تَرَك اللهُ أرضاً منذ قُبض آدم عليهالسّلام إلاّ وفيها إمام يُهتدى به إلى الله، وهو حُجّتُه على عباده، ولا تبقىالأرضُ بغيرِ إمامٍ حجّةٍ لله على عباده
آپ سے یہ قول روایت کیا گیا :
خدا کی قسم ! اللہ نے کبھی زمین کو نہ چھوڑا جب سے آدم علیہ السلام کو اٹھایا مگر یہ کہ اس میں ایک امام ہمیشہ رہا جو کہ اللہ کی جانب رہنمائی کرتا رہا اور وہ اللہ کی حجت رہا بندوں کی جانب اور زمین بغیر امام جوکہ اس کے بندوں پہ حجت اللہ ہوتا ہے کے باقی نہیں رہ سکتی

امام باقر سے کسی نے اہل بیت کی معرف و محبت بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا تو آپ نے قرآن پاک کی ایک آیت سے ہی استدلال فرمایا کہ اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ پھر آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول درج کیا جس میں انہوں نے فرمایا کہ کسی انسان کے سینے میں یہ نہیں ہوسکتا کہ ہماری محبت اور عدوات دونوں اکٹھی ہوجائیں، کہ وہ ایک ہی شے سے محبت بھی کرے اور اس سے بغض بھی رکھے۔تو جو کوئی ہم سے محبت کرے گا تو اس کی محبت خالص ہوجائے گی جیسے آگ سب خالص کردیتی ہے اور جو کدورت ہوتی ہے اسے الگ کردیتی ہے،تو جو کوئی اراد کرے کہ ہماری محبت کا اسے علم ہو تو اس کا قلب پاک و صاف ہونا چاہئیے۔اگر کوئی ہماری محبت میں ہمارے دشمن کی محبت شریک کرتا ہے تو وہ ہم سے نہیں اور نہ ہم اس سے ہیں اور اللہ بھی ان کا دشمن ،جبرائیل و مکائیل بھی اور اللہ کافروں کا دشمن ہے ۔

قال الامام محمد بن علي الباقر عليهما السلام في ذيل الآية الكريمة ( ما جعل الله لرجلٍ من قلبين في جوفه ) … قال علي بن ابي طالب – عليهما السلام – : لا يجتمع حبنا وحب عدونا في جوف انسان , فيحب بهذا ويبغض بهذا , فاما محبنا فيخلص الحب لنا كما يخلص الذهب بالنار لا كدر فيه , فمن اراد ان يعلم حبنا فليمتحن قلبه فان شاركه في حبنا حب عدونا فليس منّا ولسنا منه والله عدوهم وجبرائيل وميكائيل والله عدوٌ للكافرين

امام باقر اپنے حلقہ میں علم کے موتی لٹاتے تھے اور ان کی مجلس میں جو آتا وہ سیراب ہوکر جاتا تھا۔یہاں تک کہ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کہا کرتے تھے کہ ان کی فکر کی بلوغت ہوئی ہی تب جب وہ حضرت امام باقر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اور آپ نے ایک بہت ہی لطیف نکتہ بیان کیا علم کے باب میں کہ وہ شخص جو علم اس نیت سے حاصل کرے کہ وہ بزرگ علماء کی تذلیل کرے اور عوام جو کم علم ہوں ان پہ رعب جھاڑے اس کے جہنمی ہونے میں کوئی شک نہیں اگر اس قول کے ظاہری معنی کے ساتھ ساتھ باطنی معنی بھی لئے جائیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔یعنی جو شخص علم کی زیادتی کے ساتھ عاجزی و انکساری کا ورد نہ کرے اور تکبر کو اپنا شعار بنالے تو وہ حسد اور بے جا برتری کی آگ میں جل جاتا ہے اور یہ آگ بھی تو کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔امام باقر کے ہاں باطنی معانی کی کثرت موجود ہے جو ذات انسانی کے اندر کی پلیدی اور ناپاکی کو دور کرنے کا سبب بنتی ہے۔آپ نے فرمایا کہ اپنے اعمال کی تزین و آرائش صدق سے کرو اور یہ سچائی ہے جو ہر قسم کے اعمال کو تاثیر سے نوازتی ہے۔آپ نے فرمایا کہ محبت اللہ عزوجل اسے نصیب ہوتی ہے جو حیا کرتا ہو، حلم رکھتا ہو ، جو نہ صرف برائی سے خود بچتا ہو بلکہ برائی سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہو۔یہ بہت لطیف نکات ہیں جو اندر کی صفائی کرتے ہیں اور خارج میں ایک بابرکت ماحول بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔اور دراصل امام صرف تبلیغ ہی نہیں کرتا بلکہ وہ تزکیہ بھی کرتا ہے اور دلوں کی کدورت کو صاف کرتا ہے۔اور جہنم بنے معاشرے کو جنت بنانے کا کام بھی کرتا ہے۔

امام باقر معرفت کے لئے علم اور عمل دونوں کو لازم قرار دیتے ہیں اور ” جاننے والا ہونا ” ان کے ںزدیک کامیاب ہونے کی سیڑھی ہے اور ” جاننے کی خواہش کرنا ” ان کے نزدیک عبادت ہے۔

امام باقر حیاء اور ایمان دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں اسی لئے ایک جگہ انہوں نے بہت ہی لطیف نکتہ بیان کیا اور فرمایا :
“اَلحَياءُ والإيمانُ مَقرونانِ في قَرَنٍ فَإذا ذَهَبَ أحدُهُما تَبِعَهُ صاحِبُهُ”
حیاء اور ایمان ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جب ان میں سے ایک جاتی ہے تو دوسری جانے والے کی صحبت اختیار کرلیتی ہے
اس کا مطلب بہت واضح ہے کہ جہاں ایمان ہوگا وہاں حیاء ہوگی اور جہاں حیاء نہ ہو وہاں ایمان بھی نہیں ہوگا۔اور امام باقر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول زکر کیا کہ سب سے زیادہ متقی وہ شخص ہے جو حق بیان کرتا ہے۔اور امام نے یہ بھی فرمایا کہ بے شک قلیل عمل صالح کیا جائے مگر اس کو مستقل کیا جائے اور اسے حصول محبت اللہ عزوجل کا بہترین راستہ قرار دیا۔

مآثر امام باقر رضی اللہ عنہ میں کافی کچھ ہے اور ان میں معانی و مطالب کا جہاں آباد ہے۔میں نے ان کی ولادت کی مناسبت سے چند چیزیں بیان کی ہیں تاکہ ہم سب زکر امام باقر کی سعادت سے بہرہ مند ہوجائیں۔

Comments

comments