اداریہ: انسانی حقوق کے کارکن ،شاعر ،ادیب سلمان حیدر کو بازیاب کرایا جائے

 

 چھ جنوری 2016ء کی شام کو فاطمہ جناح یونیورسٹی میں تعنیات استاد اور انسانی حقوق کے کارکن سلمان حیدر اپنے دوستوں کے ساتھ بنی گالہ ریجن اسلام آباد میں تھے اور انہوں نے اپنی اہلیہ کو فون شام چھے بجے فون کرکے بتایا تھا کہ وہ رات آٹھ بجے تک گھر پہنچ جائیں گے لیکن وہ جب رات دس بجے تک گھر نہ پہنچے تو ان کی اہلیہ نے فون کرکے ان کے بارے میں جاننا چاہا تو ان کا فون بند جارہا تھا ،بعد میں ایک موبائل میسج پہ ان کو کہا گیا کہ سلمان حیدر کی گاڑی کورال چوک سے لے لیں۔اسلام آباد پولیس نے ان کی گاڑی کورال چوک اسلام آباد سے برآمد کرلی لیکن سلمان حیدر کا تاحال کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔

بادی النظر میں ان کی یہ گمشدگی جبری لگتی ہے اور تعمیر پاکستان بلاگ اس پہ اپنی سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے۔سلمان حیدر کا اغواء ایک طرف تو پاکستان میں سرگرم تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیموں میں سے کسی کی کاروائی ہوسکتا ہے کیونکہ سلمان حیدر پاکستان میں شیعہ ، احمدی ، کرسچن اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف سرگرم گروپوں کے خلاف اپنے قلم اور زبان سے اور عمل سے جدوجہد کرنے میں مصروف تھے۔انہوں نے مذہبی جنونیوں اور تکفیری فاشزم کے خلاف شہرہ آفاق نظم “تو بھی کافر ،میں بھی کافر ” لکھی تھی۔جبکہ سلمان حیدر کے جبری گمشدگی میں کسی سرکاری انٹیلی جنس ایجنسی کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سلمان حیدر بلوچستان سے ہونے والی جبری گمشدگیوں اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں پہ بھی سخت تنقید کررہے تھے۔وجہ کوئی بھی ہو ہم پاکستان اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے سرگرم گروپوں اور تنظیموں سے کہتے ہیں وہ اس حوالے سے اپنی آواز بلند کریں۔اور ہر فورم سے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا جانا بہت ضروری ہے۔

سلمان حیدر کا اسلام آباد میں اغواء ہوجانا وفاقی حکومت کے لئے بھی کوئی نیک نامی کا باعث نہیں ہے۔وفاقی حکومت کو اپنے تمام وسائل بروئے کار لاکر سلمان حیدر کی بازیابی کی کوششوں کو تیز تر کرنا چاہئیے۔

ہم ارباب حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کا بڑھتا ہوا سلسلہ پاکستان کے امیج کو پوری دنیا میں بگاڑ رہا ہے اور قومی سلامتی کے نام پہ سرکاری اداروں کو یہ پریکٹس ترک کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے معاملات شفاف بنانے کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔

Comments

comments