میاں سکندر ملتانی، میر و سودا کے عہد کا اہم ترین مرثیہ گو شاعر

خطہ ملتان میں مرثیہ گوئی کا آغاز واقعہ کربلا کے کچھ عرصہ بعد ہی ہو گیا تھا‘ ملتان اور سندھ ہی برصغیر کے وہ علاقے ہیں جہاں سب سے پہلے کربلا کی داستان الم سینہ بہ سینہ پہنچی۔

معروف ادیب و مؤرخ حفیظ خان کی تحقیق کے مطابق ’’خطہ ملتان میں عزاداری اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب واقعہ کربلا کے سال سوا سال بعد دت قوم کے کچھ افراد حضرت امام حسینؓ سے عقیدت رکھنے کے باعث مظالم کا شکار ہوئے اور 681ء کے لگ بھگ ایران کے راستے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہوئے۔ اس وقت ایران اور عرب کے زیراثر دت قوم کے ان لوگوں نے مخلوط زبان میں گلی گلی عزاداری کی اور اس منظوم صنف کو عام کیا جو کبت کہلائی اور کبت خوانی کرنے والے یہ اصحاب ’’حسینی باہمن‘‘ کے نام سے جانے گئے۔

حسینی باہمنوں کے کہے ہوئے یہ کبت ہی خطہ ملتان اور سرائیکی زبان میں مرثیہ کی ابتدائی شکل ہیں‘‘۔ کیفی جامپوری اپنی کتاب ’’سرائیکی شاعری‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’جب تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو وہاں سے جان بچا کر نکلنے والے علماء‘ شرفاء اور سادات نے قربت کی وجہ سے ملتان میں آ کر پناہ لی‘ ان میں اکثریت شیعہ عقائد رکھنے والوں کی تھی جن کے مذہبی عقائد نے اہل ملتان پر خاصا اثر ڈالا۔ آج بھی ملتان میں ایسے گھرانے موجود ہیں جن کے آباؤ اجداد نے اسی زمانہ میں شیعہ عقائد کو قبول کیا تھا‘‘۔

جس عہد میں حیدر آباد دکن اور اودھ کے شیعہ حکمران ذاکرین اور مرثیہ گو شاعروں کی پذیرائی کر رہے تھے‘ اس عہد میں ملتان سے بہت سے شاعر اور ذاکر اودھ اور حیدر آباد دکن میں جا کر آباد ہوئے‘ ان شاعروں میں میاں مسکین ملتانی اور میاں سکندر ملتانی جنہیں اردو ادب کی تاریخ میں خلیفہ سکندر یا سکندر پنجابی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ بہت زیادہ نمایاں ہوئے‘ میاں مسکین ملتانی جو میاں سکندر سے سینئر شاعر تھے‘ کو اودھ میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی لیکن بعدازاں میاں سکندر ملتانی کی شہرت مرثیہ گوئی کے حوالے سے میاں مسکین تو کیا میرؔا ور سودا ؔ سے بھی آگے نکل گئی تھی‘ ہماری آج کی گفتگو میاں سکندر ملتانی کے حوالہ سے ہے۔

میاں سکندر ملتانی 1740ء میں ملتان میں پیدا ہوئے‘ ان کا اصل نام محمد علی جبکہ تخلص سکندر تھا۔ ملتان میں شعر و ادب کی تاریخ پر لکھی جانے والی دو کتابوں جن میں پہلی ڈاکٹر طاہر تونسوی کی ’’ملتان میں اردو شاعری‘‘ ہے جبکہ دوسری ڈاکٹر روبینہ ترین کی ’’تاریخ ادبیات ملتان‘‘ ہے‘ میں میاں سکندر کے حوالہ سے صرف اتنا ہی مواد ملتا ہے کہ اٹھارویں صدی کا یہ اہم ترین مرثیہ گو شاعر 1740ء کے قریب ملتان میں پیدا ہوا بعدازاں دہلی یا لکھنؤ کی طرف چلا گیا اور وہاں جا کر مرثیہ گوئی کے حوالے سے نمایاں شہرت کا حامل ٹھہرا۔

منشی عبدالرحمن خان کی ’’تاریخ ملتان‘‘ میں بھی سکندر کا حوالہ ملتا ہے کہ ’’مغل دور کے آخر میں سکندر نے فارسی اثرات سے ہٹ کر ملتانی اور پھر اردو میں مرثیے کہے اور مرثیہ گوئی کا باوا آدم کہلایا‘‘۔

دوسری طرف لکھنؤ‘ دہلی اور حیدر آباد دکن میں اردو شاعروں کے جو بھی اہم ترین تذکرے لکھے گئے‘ ان سب میں میاں سکندر کا ذکر موجود ہے‘ ان تذکروں میں میاں سکندر کے مرثیہ گوئی کے حوالے سے مقام و مرتبہ کا بھی تعین کیا گیا ہے لیکن کوئی بھی تذکرہ نگار سکندر کے اصل وطن کے بارے میں نہیں جانتا۔ سکندر نے شاعری کا آغاز کب کیا اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا لیکن دیگر شاعروں کی طرح انہوں نے بھی ابتداء میں غزل کہی۔

سکندر غزل کے شاندار شاعر تھے اور اپنے زمانے کے مذاق کے عین مطابق غزل کہتے تھے‘ کچھ پرانے تذکروں میں سکندر کا نام غزل گو شعراء کے ہی زمرے میں آیا ہے۔ نواب مصطفی خان شیفتہ‘ مبتلا لکھنوی‘ میر حسن‘ مصحفی‘ شاہ کمال‘ اشپرنگر اور مولوی کریم الدین نے متفقہ طور پر انہیں محمد شاکر ناجی کا شاگرد شمار کیا ہے۔

’’تذکرہ عشقی‘‘ کے مطابق سکندر ابتداء میں قصہ خوانی کی طرف مائل تھے اور اس فن میں خاص سلیقہ رکھتے تھے‘‘۔ میاں سکندر کی مرثیہ کے علاوہ صرف 2 غزلیں اور چند شعر ہی اردو تذکروں میں ملتے ہیں۔ وہ شاعری میں محمد شاکر ناجی کے شاگرد تو تھے لیکن اپنے استاد سے ان کا رنگ تغزل بالکل الگ ہے‘ ان کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں:

کرے گی مجھ کو دیوانہ سکندر یا کہ متوالا

پری کی طرح صہبا پردہ مینا سے تکتی ہے

قیس صحرا میں رہا‘ کوہ میں فرہاد رہا

میں بگولے کی طرح دشت میں برباد رہا

میاں سکندر ملتانی جب ملتان سے لکھنؤ گئے تو صرف ملتانی زبان میں شعر کہتے تھے‘ بعد ازاں انہوں نے اردو میں بھی مرثیہ گوئی کا آغاز کیا‘ سکندر نے مختلف علاقوں کی سیاحت کی تو ان علاقوں کی زبانوں میں بھی اظہار کرنے لگے‘ انہوں نے اردو اور ملتانی کے علاوہ بنگالی‘ پوربی اور مارواڑی زبان میں بھی مرثیے لکھے‘ قصہ خوانی کے دور میں انہوں نے ایک قصہ ’’ملاح و ماہی اور بادشاہ دلخوار‘‘ بھی نظم کیا تھا۔

کہا جاتا ہے میاں سکندر عرق کشی کے فن کے بھی ماہر تھے اور یہی ان کا ذریعہ روز گار بھی تھا۔ انشاء اللہ خان انشاء ’’دریائے لطافت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سکندر نے ہر زبان میں مرثیے کہے‘ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک مصرع میاں سکندر سے منسوب کیا ہے جو مارواڑی زبان میں ہے:

’’کائیں کہی اب مہا کو شایاں گھنی کٹک چڑھ ہائی چھے‘‘

انشاء کہتے ہیں کہ ’’کٹک‘‘ ہرگز اردو زبان کا لفظ نہیں یہ مارواڑی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں‘ سکندر کا مختلف زبانوں میں مرثیہ کہنا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ اپنے زمانے میں عوام میں کس قدر معروف اور ہر دل عزیز تھے‘ سکندر نے اردو مرثیہ نگاری کے دوسرے دور میں اپنے کلام کے حوالے سے جو انفرادیت حاصل کی تھی۔

اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کے زمانے میں مرثیہ گو شاعروں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی لیکن ان تمام شاعروں کے درمیان سکندر بڑی اہمیت کے حامل تھے‘ سکندر کی مرثیہ گوئی کے معترف میر حسن‘ مصحفی اور انشاء اللہ خان انشاء جیسے شاعر بھی تھے۔ میر حسن اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں ’’سکندر کے مرثیے بڑے مضبوط اور مربوط ہیں‘ ان کی زبان تاثیر میں ڈوبی ہوئی سادہ اور شیریں ہے‘ انداز بیاں بھی شاندار ہے‘‘۔

مُولف ’’تذکرہ ضیغم‘‘ کے مطابق حضرت امام حسینؓ کے واقعات شہادت کو جگر خراش الفاظ میں بیان کرنے پر سکندر کو کامل مہارت حاصل تھی‘ گارساں دتاسی نے اپنے کیٹلاگ میں میاں سکندر کو صاحب دیوان شاعر لکھا ہے لیکن کسی تاریخی کتاب اور تذکرہ میں سکندر کے صاحب دیوان شاعر ہونے کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ یقینا اس عہد میں سکندر کا دیوان ضرور شائع ہوا ہو گا لیکن اب سکندر کا دیوان تو کیا کلام بھی نایاب ہے۔

’’اودھ میں اردو مرثیہ کا ارتقاء‘‘ کے مصنف ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری کے مطابق مسعود حسن رضوی ادیب اور راجہ صاحب محمود آباد کے کتب خانوں میں ان کے چند قلمی اور غیر مطبوعہ مرثیے محفوظ تھے‘ کچھ مرثیے ’’اردو مرثیہ کا ارتقاء‘‘ کے مصنف ڈاکٹر مسیح الزمان کے ہاں بھی تھے‘ راجہ صاحب محمود آباد کے ذاتی کتب خانہ میں میاں سکندر کے اردو کے علاوہ پوربی زبان میں مرثیے بھی محفوظ تھے‘ راجہ صاحب محمود آباد کے ذاتی کتب خانہ میں سکندر کا وہ مشہور و معروف مرثیہ بھی موجود تھا جو اس بند سے شروع ہوتا ہے:

ہے روایت شتر اسوار کسی کا تھا رسول ؐ

ان دنوں شہر مدینہ میں ہوا اس کا نزول

جس محلے میں بہم رہتے تھے حسنینؓ و بتول ؓ

ایک لڑکی کھڑی دروازہ پر بیمار و ملول

خط لئے کہتی تھی پردے کے قریں زارونزار

ادھر آ تجھ کو خدا کی قسم اے ناقہ سوار

دراصل یہ میاں سکندر کا معروف ترین مرثیہ ہے جو مسدس کی شکل میں ہے‘ اس مرثیہ کے 61 بند ہیں‘ یہ مرثیہ آج بھی اودھ اور حیدر آباد دکن میں معروف ہے‘ اس کا موضوع عام مرثیوں سے الگ ہے‘ اس میں جناب صغریٰ ؓجو اپنی بیماری اور کم سنی کے باعث کربلا نہیں جاسکیں اپنے والد امام حسینؓ کے نام قاصد کے ذریعے ایک خط بھجواتی ہیں‘ قاصد میدان کربلا میں اس وقت پہنچتا ہے جب امام حسینؓ کے سوا سب شہید ہو جاتے ہیں‘ کربلا میں ان خون فشانیوں کو دیکھ کر قاصد واپس لوٹتا ہے اور جناب صغریٰؓ کو آنکھوں دیکھا حال سناتا ہے۔

اثر لکھنوی اپنی کتاب ’’انیس کی مرثیہ نگاری‘‘ میں لکھتے ہیں‘ ’’سکندر کا یہ مرثیہ پیکر سوز وگداز ہے اور کچھ برس ادھر تک اتنا مقبول تھا کہ فقیر اسے پڑھتے ہوئے پھیری لگاتے تھے‘‘۔

اسی طرح امیر احمد علوی اپنی کتاب ’’ یاد گار انیس‘‘ میں صفحہ 12 پر لکھتے ہیں‘‘ یہ اردو زبان کا پہلا مسدس ہے کہ جس کو قبول عام کی سند ملی تھی ‘ سودا کے مرثیے ان کے دیوانوں میں مقید ر ہے اور سکندر کا مرثیہ نواح لکھنو میں سو برس کے بعد بھی بچہ بچہ کی زبان پر ہے شیر دلاں پنجاب فخر کریں کہ ہندوستان میں مرثیہ گوئی کا دوسرا دور ان کے ایک ہم وطن کے کلام سے شروع ہوتا ہے‘ اور جس عالی شان عمارت کو شعرائے لکھنو نے تابہ ثریا پہنچایا‘ اس کی داغ بیل میاں سکندر نے ہی ڈالی ہوئی تھی‘‘۔

شجاعت علی سندیلوی اپنی تصنیف ’’تعارف مرثیہ‘‘ میں لکھتے ہیں‘‘ سودا کے ہم عصر میاں سکندر پنجاب کے رہنے والے تھے اور لکھنو میں آ کر سکونت اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے ایک نہایت درد ناک مسدس لکھا‘ کہا جاتا ہے کہ یہ اردو زبان کا پہلا مسدس ہے۔‘‘ بعض تذکرہ نگار اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ میاں سکندر نے ہی اردو میں سب سے پہلے مسدس کی ہیئت میں مرثیہ لکھا لیکن بعض مسدس کے حوالے سے اولیت کا سہرا مرزا رفیع سودا کے سر باندھتے ہیں۔

اس حوالہ سے شیخ چاند اپنی کتاب ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ میں لکھتے ہیں(مولانا شبلی کی مشہور عالم موازنہ انیس و دبیر کے علاوہ اسی نام سے شیخ چاند کی کتاب بھی موجود ہے۔) ’’سکندر بڑا مرثیہ گو ہوا ہے لیکن یہ سودا کے آخری زمانے میں ہوا‘ میر حسن‘ مصحفی اور شاہ کمال کے بیانات ثابت کرتے ہیں کہ سکندر، سودا کے بعد کا شاعر ہے‘ سکندر سے ایک جدت یہ منسوب کی جاتی ہے کہ اس نے ہندوستان کی مختلف زبان میں مرثیے کہے لیکن اس حوالے سے بھی اولیت اور جدت کا سہرا سکندر کے سر نہیں ہو سکتا کیونکہ سودا نے پوربی و پنجابی میں بھی دو مرثیے کہے ہیں۔‘‘

’’اودھ میں اردو مرثیہ کا ارتقا‘‘ کے موضوع پر 1980ء میں دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کی رائے کے مطابق ’’اردو زبان میں مسدس لکھنے کا آغاز سکندر نے ہی کیا کیونکہ وہ اپنے ہم عصر شعراء سودا‘ میر‘ مہربان کے مقابلہ میں سب سے اچھے اور بلند پایہ مرثیہ گو تھے۔

اسی طرح ’’دہلوی مرثیہ گو‘‘ کے مصنف ڈاکٹر علی جواد زیدی کہتے ہیں کہ ’’مولانا شبلی نعمانی نے اردو میں پہلا مسدس لکھنے کا سہرا سودا کے سر ہی باندھا ہے لیکن کچھ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اردو میں مسدس لکھنے کا آغاز کرنے والے بھی سکندر ہی تھے۔‘‘ علی جواد زیدی نے اپنی کتاب میں افضل حسین ثابت کا بھی ایک فقرہ درج کیا ہے کہ ’’سب سے پہلے جن بزرگوار نے مسدس لکھا وہ سکندر پنجابی مرثیہ گو شاعر ہیں‘‘۔

میاں سکندر ملتانی‘ ملتان سے پہلے پہل دہلی گئے تھے‘ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شاعری کا آغاز بھی دہلی میں کیا‘ اس کے بعد لکھنو اور فیض آباد میں بھی رہے‘ کچھ عرصہ انہوں نے بنگال اور مارواڑ میں بھی گزارا‘ میاں سکندر کے قیام دہلی اور لکھنو میں بطور مرثیہ گو شاعر ان کی شہرت پھیل چکی تھی‘ دہلی کے اکثر تذکرہ نگار انہیں دہلوی قرار دیتے ہیں جبکہ اودھ سے تعلق رکھنے والے مؤرخین کہتے ہیں کہ سکندر کی مرثیہ گوئی نے ہی لکھنوی شعراء کو وہ بنیاد فراہم کی جس پر بعد کے زمانے میں ایک شاندار عمارت تعمیر ہوئی۔

اس حوالے سے علی جواد زیدی کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے‘ علی جواد زیدی اپنی کتاب ’’دہلوی مرثیہ گو‘‘ کے صفحہ 341 پر رقم طراز ہیں‘‘ سکندر کے مرثیے دہلوی مرثیے کے عروج کی داستان ہیں‘ دوسرے وہ پہلے مرثیہ گو ہیں جو فن شاعری پر مکمل عبور رکھتے ہیں ان کے ہاں اردو مرثیے کے کئی ایسے ارتقائی نشان مل جاتے ہیں جن سے بعد کو لکھنوئی مرثیہ کی تخمیر ہوئی کیونکہ سکندر کے مرثیے زبان کے اعتبار سے صاف اور اسقام شعری سے پاک ہیں۔

سکندر کے ہاں واقعات و روایات کا تسلسل تو ہے ہی واقعہ کو پراثر طریقہ پر بیان کرنے کا انداز بھی ہے‘ یہ غالباً ان کے ابتدائی دور قصہ گوئی کو دین ہے اکثر وہ مکالموں سے اثر انگیزی کا کام لیتے ہیں‘‘۔ اردو مرثیہ کا یہ اہم ترین شاعر دہلی‘ لکھنو اور فیض آباد میں قیام کے بعد آخری عمر میں نواب ارسطو جاہ کی طلبی پر حیدر آباد دکن چلا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ میاں سکندر نے حیدر آباد میں ہی وفات پائی، بقول شاہ کمال سکندر کا سال وفات 1804ء ہے کچھ تذکروں میں ان کا سال وفات 1800ء بھی درج ہے۔ بعض تذکرہ نگار یہ کہتے ہیں کہ میاں سکندر کی قبر حیدر آباد دکن میں زیارت گاہ عام و خواص رہی‘ بعض روایات کے مطابق سکندر نے خود کو کربلائے معلی میں دفنانے کی وصیت کی تھی۔

میاں سکندر اور مرزا رفیع سودا

میاں سکندر جس زمانے میں لکھنو گئے وہاں بہت سے شاعر موجود تھے جن میں سودا‘ میر ضاحک‘ میر حسن‘ مقبل‘ میر شیر علی افسوس اور میر تقی میر لیکن سکندر نے ان سب کے درمیان رہ کر بطور مرثیہ گو شاعر شہرت پائی۔ اردو کے علاوہ ان کی دوسری زبان میں شعر گوئی کا پہلے ہی ذکر ہو چکا ہے۔

میاں سکندر ہی اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے مختلف زبانوں کے ساتھ ساتھ مختلف اصناف میں بھی مرثیے کہے۔ انہوں نے مربع‘ مخمس‘ مسدس‘ دوہرابند‘ مستزاد اور غزل کی ہیئت میں بھی مرثیے کہے۔ میاں سکندر کے ایک پوربی مرثیہ کا بند ملاحظہ ہو:

سر پیٹ کے زینبؓ رووت

ہیں ٹوٹ گئی من کی آسا

گھر کیسے موکو چین پڑے

بیرن کا حلق کٹا پیاسا

گھر بار لٹا اور دیس چھٹا

کوئی میت نہیں میرے پاسا

بعض تاریخی حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میاں سکندر اور مرزا رفیع سودا لکھنؤ میں اکٹھے قیام پذیر تھے‘ اس عہد میں میاں سکندر کے اردو مرثیوں کے ساتھ ساتھ ملتانی مرثیوں کی بھی بہت زیادہ شہرت تھی۔ بقول حفیظ خان میاں سکندر کے انہی مرثیوں سے متاثر ہو کر سودا جیسے شاعر کو بھی ملتانی میں مرثیہ کہنا پڑا تھا۔

حفیظ خان کے اس بیان کی روشنی میں ہم نے سودا کا کلیات کھنگالا تو ان کا ملتانی زبان میں لکھا گیا مرثیہ مل گیا‘ گو اس مرثیہ کی زبان خالص ملتانی نہیں لیکن اس پر ملتانی کے اثرات واضح نظر آتے ہیں‘ سودا کے ملتانی مرثیہ کے دو شعر ملاحظہ ہوں:

تینڈی خاطر آج سکینہ پیٹ پیٹ سر روئے

بانو دے بہلائے بھائی ہک پل نیند نہ سوئے

آکھو تو اوہ دکھیا رو رو کیکر جندنہ کھوئے

جسدا بابا دشت بلا وچ ونج پیاسا ہوئے

Comments

comments