قدیم مرثیہ خوانی اور جدید آپشنز – حسنین جمال
شاعری کا کمال یہ ہے کہ آپ شعر پڑھیں اور تصویر آپ کے ذہن میں بنتی چلی جائے۔ لیکن یہ کمال تبھی ممکن ہے کہ جب انسان بہت کچھ پڑھ چکا ہو، ذہنی تربیت ایسی ہو چکی ہو کہ شاعرانہ خیالات دماغ میں کوئی تصویر بنا سکیں۔ شعر کہنے سے زیادہ شعر پڑھنا مشکل کام ہے۔ جہاں چار لوگ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں مشاعرہ چل رہا ہے، وہاں شعر کی اہمیت سے زیادہ اسے پڑھنے کے انداز پر توجہ دی جاتی ہے۔ اگر ایک بہت اچھا شعر تلفظ کی غلطی یا سپاٹ لہجے کے ساتھ پڑھا گیا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ پٹ جائے اور اگر ایک عام سا شعر اچھے ترنم یا پھر تحت اللفظ کے ساتھ پڑھ دیا تو اس پر داد کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بہت سے شاعر جو اپنے وقت میں مشاعرہ کامیاب ہونے کی ضمانت سمجھے جاتے تھے آج ان کا کلام بھی نظر نہیں آتا۔ نام لینا خلاف مصلحت ہے، ذہن پر زور دیجیے کئی نام سامنے آ جائیں گے۔ شعر خوانی ایک بالکل الگ فن سمجھ لیجیے اور شاعری ایک الگ کام۔
یہ معاملہ مرثیہ خوانی میں آ کر مزید شدت اختیار کر جاتا ہے۔ مذہبی احترام کی وجہ سے سننے والے سنیں گے تو سہی، آ گئے ہیں تو آپ کے سامنے ٹک کر بھی بیٹھ جائیں گے لیکن اگلی بار کیا وہ آنا پسند کریں گے، اس کا انحصار مرثیہ گو پر ہوتا ہے۔ آج یہ رواج بہت زیادہ ہے کہ مرثیہ کہنے والے شاعر کوئی اور ہوں اور منبر پر کوئی اور پڑھے لیکن اگلے زمانوں میں ایسا کم کم ہوتا تھا۔ میر انیس کی بات کریں تو جب ان کی طبیعت خراب ہوتی تھی یا جن دنوں ضعیف ہو چلے تھے، کبھی کبھار اپنی جگہ بھائی کو پڑھنے بھیج دیتے تھے، کوشش مگر یہی ہوتی تھی کہ جب بھی پڑھیں خود ہی پڑھیں۔ اس کی وجہ وہ اعتماد تھا جو ایک پڑھنے والے کو خود اپنی ذات پر ہوتا ہے۔
مرثیہ پڑھنے کے لیے اساتذہ نصیحت کرتے تھے کہ میاں سامنے آئینہ رکھو، اور مشق کرو، چہرہ نہ بگڑے، ہاتھ فضول میں نہ اٹھیں، جب کہیں کوئی کمی نظر نہ آئے تب ہمارے سامنے آنا، باقی کا ہم سکھائیں گے۔ دو سکول آف تھاٹ مرثیہ گوئی میں موجود تھے۔ ایک تو وہ اساتذہ تھے جو پڑھنے کے دوران ہاتھوں کی حرکات سے منظر مزید واضح کر دیتے تھے، کہیں ہلکے سے جسم کو جنبش دی، کہیں آواز بڑھائی، کہیں گھٹائی، کہیں چہرے کے تاثرات شامل کیے، الغرض ون مین شو والا ماحول بنا دیتے تھے۔ حاضرین مجلس مبہوت اس فنکار کو دیکھے جاتے اور شدت گریہ اس قدر ہوتی کہ لوگ بے ہوش بھی ہو جاتے۔ لیکن ایک طرف وہ اساتذہ تھے کہ جو صرف پڑھنے سے سماں باندھنے کے قائل تھے۔ ان کی اپنے آپ پر پابندی تھی کہ جو کچھ ہو گا وہ آواز کے اتار چڑھاؤ سے ہو گا یا زیادہ سے زیادہ آنکھوں کو جنبش دے دی جائے گی بہت ہوا تو گردن ذرا سی ہل گئی، اس سے زیادہ حرکت نہیں کی جاتی تھی۔ اس فن کی مشکلات کا اندازہ یہاں سے لگا لیجیے کہ ایک ہی فرد وہ شعر بھی پڑھے گا جو خواتین کی زبانی ہوں گے، دشمن کا مکالمہ بھی نبھائے گا، بچوں کی بولیاں بھی بیان کرے گا، گھوڑے کا پلٹنا جھپٹنا، تلواروں کا چلنا، یہاں تک کہ اگر غیب سے آتی کوئی آواز ہے تو اسے بھی پرفارم کرے گا۔ یہ سب کچھ ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے ہونا ہے، سوچ لیجیے۔ مسعود حسن رضوی ادیب جو انیسیات پر اتھارٹی ہیں ان کے مطابق مرثیہ خوانی کا فن ایکٹنگ کا انتہائی کمال ہے۔
میر انیس تحت اللفظ (بغیر ترنم کے، سادہ الفاظ کی ادائیگی سے) مرثیہ کس طرح پڑھتے تھے، چند کتابوں سے لیے گئے اقتباسات دیکھیے۔
“جس طرح انیس کا کلام سحر آمیز ہے اسی طرح ان کا پڑھنا مسحورکن تھا۔ منبر پر پہنچ کر ان کی شخصیت بدل جاتی تھی اور وہ بوڑھے سے جوان اور بیمار سے تندرست نظر آنے لگتے تھے۔ آواز کے زیر و بم، لہجے کے اتار چڑھاؤ، آنکھوں کی گردش اور ہاتھوں کی خفیف سی جنبش سے وہ اہلِ مجلس پر نظربندی کا سا عالم طاری کر دیتے تھے ، اور جو کچھ وہ مرثیے میں بیان کرتے ، حاضرین کو وہ اپنے سامنے نظر آنے لگتا تھا۔ شاد عظیم آبادی بتاتے ہیں کہ میر صاحب یہ بند پڑھ رہے تھے : “وہ دشت اور وہ خیمۂ زنگار گوں کی شان۔” “وہ دشت” کو سریلی آواز سے ایسا کھینچا کہ وسعت دشت کی آنکھوں میں پھر گئی۔ الله الله! وہ لفظوں کا ٹھہراؤ، وہ لب و لہجہ، وہ سریلی دل کش آواز، وہ لبوں پر مسکراہٹ، غرض کہ کس بات کو کہوں۔ اس وقت میر انیس کی جو بات تھی کلیجے کے اندر اتر جاتی تھی، چوتھا مصرع، بیت العتیق، دیں کا مدینہ، جہاں کی جان، تو اس خوبی سے ادا کیا کہ تعریف کرتے کرتے لوگ کھڑے ہو گئے۔ غرض چہرے سے لے کر صف آرائی، رخصت، لڑائی، شہادت، بَین سب پورا پڑھا۔ آخر پسینے سے کرتا بدن میں، ٹوپی سر پر بھیگ کر چپک گئی۔ ہاتھ تھام کر منبر سے اتارے گئے۔ سیدھے فرودگاہ کو چلے۔ میں بھی ننگے پاؤں حیرت زدہ ساتھ ہو لیا۔”
مولوی ذکاء الله دہلوی نے الہ آباد میں انیس کو سنا تھا۔ وہ کہتے ہیں “معلوم ہوتا تھا کہ منبر پر ایک کل کی بڑھیا بیٹھی ہوئی لڑکوں پر جادو کر رہی ہے ، جس کا دل جس طرف چاہتی ہے پھیر دیتی ہے اور جب چاہتی ہے ہنسا دیتی ہے اور جب چاہتی ہے رلا دیتی ہے۔ میں اسی حالت میں دو گھنٹے کے قریب کھڑا رہا۔ میرے کپڑے پسینے سے تر اور پاؤں خون اترنے سے شل ہو گئے تھے ، لیکن میں جب تک میر انیس کی صورت دیکھتا رہا اور ان کا مرثیہ سنتا رہا مجھ کو یہ کوئی بات محسوس نہیں ہوئی۔”
صفیر بلگرامی دبیرئیے تھے (جناب دبیر کے طرف دار تھے) وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اتفاقاً انیس کی ایک مجلس میں شرکت ہوئی اور میں بے ادبی سے ان کو سننے لگا، لیکن دوسرے بند کا بیت، ساتوں جہنم آتشِ فرقت میں جلتے ہیں/ شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں، جیسے ہی پڑھا گیا تو مجھے شعلے بھڑکتے ہوئے دکھائی دینے لگے اور میں وہیں کا وہیں بیٹھ کر توجہ سے سننے لگ گیا۔ ایک اور صاحب کا بیان تھا کہ ایک مجلس میں انیس نے جب یہ مصرع پڑھا، “صحرا زمردی تھا پھریرے کے عکس سے” تو مرثیے کو اس طرح ذرا سا پلٹ دیا کہ پھریرے کا لہرانا آنکھوں کے سامنے آ گیا۔
میر انیس کے پوتے دولہا صاحب عروج تھے، انہیں سننے کا شرف فقیر کے دادا کو بھی حاصل ہوا، دولہا صاحب جس زمانے میں انتہائی ضعیف تھے، تب بھی مرثیہ پڑھنے بیٹھتے تو دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا کہ ان کے اندر کسی جوان کی روح گھس آئی ہے۔ ان کے متعلق مہذب لکھنوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے پانچ چھ مرتبہ یہ بیت پڑھا، طیش میں آ کر سر مرحب و عنتر کاٹے/ اور جھلائی تو جبریل کے شہپر کاٹے، اور ہر مرتبہ مختلف الفاظ پر زور دے کر ایسے پڑھا کہ لوگ داد دیتے دیتے کھڑے ہو گئے۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں دولہا صاحب پہلی مجلس پڑھتے ہیں اور اس کے بعد نہ ختم ہونے والی داد تا عمر ان کے مقدر میں رہتی ہے، کوئی تو ایسا فن ہو گا۔ کہنے والوں نے کہا کہ جب یہ مصرعہ پڑھا، “وہ بلندی پہ ستارہ سا چمکتا ہے علم” تو ہاتھ ذرا سا بلند کیا اور سامنے بیٹھے لوگوں کو ہتھیلی میں ستارہ چمکتا محسوس ہوا۔
پھر پیارے صاحب رشید تھے، میر انیس ہی کے نواسے تھے۔ ان کے کلام میں تمام تر رنگ اپنے نانا کا جھلکتا تھا مگر پڑھت بالکل سادہ تھی۔ صرف تحت اللفظ پڑھتے تھے، بتانے کی عادت نہیں رکھتے تھے۔ ان کی طبیعت غزل کی طرف بھی رواں رہتی تھی تو مرثیے میں ساقی نامہ کا ایک نیا جزو شامل کر دیا، مضامین غزل وہاں کھپا دئیے۔ ان کی مجالس میں آنے والے لوگ وہ بھی ہوتے تھے جو مرثیے میں رنگ تغزل دیکھنا چاہتے تھے تو پڑھت سادہ ہوئی مگر ایک نئی کشش یہ پیدا کر دی کہ مرثیے سے پہلے غزل کے معاملات بھی شامل کر دئیے۔ ان کے سامعین اس قدر عادی ہو گئے کہ جس مرثیے میں ساقی نامہ نہ ہو وہ اسے مکمل مرثیہ نہ سمجھتے تھے۔
یہ ساری باتیں ان زمانوں کی ہو گئیں جو ہم نے دیکھے نہیں ہیں صرف کتابوں میں پڑھے ہیں۔ کل ملا کر اگر دیکھا جائے تو مرثیہ خوانی کی معراج یہ تھی کہ صرف لہجے سے، پڑھت سے، آواز کے اتار چڑھاؤ سے یا ہاتھوں آنکھوں اور جسم کی خفیف حرکات سے الفاظ یوں ادا کیے جائیں کہ منظر آنکھوں کے سامنے کھچا آئے۔ لوگ اس ماحول کو محسوس کریں، مرثیے کی فضا میں کھو جائیں اور اس دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے گریہ کریں۔
اب جو زمانہ ہے اس میں ہمارے پاس قریب قریب انہیں چیزوں کا فیوژن نوحہ خوانی کی شکل میں موجود ہے۔ مرثیہ خوانی ہے لیکن اسے وہ قبول عام بہرحال حاصل نہیں جو نوحہ خوانی کو ہے۔ ندیم سرور مرثیہ گو نہیں، مرثیہ خواں نہیں، نوحہ خواں ہیں۔ اس دور میں جب پرانے گیت بھی باقی نہیں بچتے، ری مکس ہو کر ہٹ ہوتے ہیں، نصرت فتح علی مغربی موسیقی ملا کر گانے بناتے ہیں، دنیا پر راج کرتے ہیں، کوک سٹوڈیو آتا ہے اور چھا جاتا ہے تو ہم ندیم سرور کو وہ اہمیت کیوں نہیں دیتے جو انہیں بہرحال دی جانی چاہئیے۔ زیادہ تر وہ ریحان اعظمی کا کلام پڑھتے ہیں، مان لیا ان کا کلام میر انیس کا سمپلیفائیڈ ورژن ہے لیکن زمانہ بھی تو سادہ الفاظ کا ہے۔ ایسا کیجیے مثال کے طور پر ذرا یہ نمونہ دیکھیے؛
چیتے کی جست شیر کی چتون ہرن کی آنکھ
چلتا تھا دیکھ دیکھ کے شاہ زمن کی آنکھ
پڑھتی تھی یوں ہر ایک پہ اس صف شکن کی آنکھ
لڑتی ہو جیسے جنگ میں شمشیر زن کی آنکھ
تیغ آئی جس پہ اس کا بھی وار اس پہ چل گیا
وہ سر گرا گئ تو یہ لاشہ کچل گیا
کہتا تھا ذوالفقار سے اب میری جنگ دیکھ
چل میرے ساتھ ساتھ ذرا میرا رنگ دیکھ
اس پیاس میں لڑائی کا میرا بھی ڈھنگ دیکھ
راہ حیات کتنوں پہ کرتا ہوں تنگ دیکھ
مانا تو ذوالفقار ہے مرحب شکار ہے
لیکن یہ دیکھ کون یہ مجھ پر سوار ہے
سمٹا جما اڑا ادھر آیا ادھر گیا
چمکا پھرا جمال دکھایا ٹھہر گیا
تیروں سے اڑ کے پرچھیوں میں بے خطر گیا
درہم کیا صفوں کو سروں سے ادھر گیا
آیا جو زد میں اس کی اجل آ گئی اسے
اک کانپ پڑی جس پہ زمین کھا گئی اسے
اب اسے جس طرح سے ندیم سرور نے ادا کیا ہے ذرا ویڈیو دیکھیے ؛
اس لنک میں صرف 7:00 سے لے کر 8:30 کے ٹائم بار میں ان الفاظ کی ادائی موجود ہے۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے سامنے پوری فلم چل رہی ہے۔ ندیم سرور کی تمام حرکات و سکنات اس نوحے کے ساتھ یوں پیوست ہوتی ہیں کہ آپ انہیں الگ نہیں کر سکتے۔
اعتراض اٹھتا ہے کہ ندیم سرور اداکاری کرتا ہے، تو سرکار یہ اداکاری ہی ہے، یہ تو مسعود حسن ادیب بھی کہہ گئے، فن ہے، معراج ہے اداکاری کی۔ اعتراض بنتا ہے کہ ندیم سرور کمرشل ہے، تو بھئی پیارے صاحب رشید یا دولہا صاحب عروج بھی پیسے لیتے تھے پڑھنے کے لیے، اعتراض کیا جاتا ہے کہ ماتم کی آواز کے لیے ندیم سرور ڈیجیٹل بیٹ (دھمک) استعمال کرتا ہے، تو صاحب جب ایک سہولت موجود ہے تو وہ ماتم داروں کے دستے سٹوڈیو میں کیوں جمع کرے گا، اعتراض نمودار ہوتا ہے کہ وہ بعض نوحوں کی دھنیں بہت زیادہ تیز بنا دیتا ہے، تو قبلہ وہی نوحے نئی نسل سنتی ہے، اعتراض پھر بلند ہوتا ہے کہ گانوں کی دھنیں بھی ایک زمانے میں کاپی کیں، تو دوست وہ دو چار مرتبہ ہو گیا، بندہ بشر ہے، دوبارہ تو نہیں ہوا، جانے دیجیے کچھ اور بات کیجیے۔ اعتراض اٹھتا ہے کہ ندیم سرور راک سٹار کے جیسا دکھتا ہے، وہ ہے سید، وہ راک سٹار ہے، بال بڑھائے، ایک ہی ڈیزائین کی کالی شلوار قمیص پہنے وہ جو پچھلے بیس سال سے ویڈیو میں نظر آتا ہے یا جلوسوں میں پڑھتا ہے تو اگر اسے راک سٹار کہا جائے گا تو وہ راک سٹار ہے۔ میر انیس بھی ورزش کرتے تھے، سلیقے سے تیار ہو کر پڑھنے بیٹھتے تھے، اپنے زمانے کے فیشن والے کپڑے ہی پہنتے تھے تو آج کا پڑھنے والا کیوں نہیں کرے گا، وہ بھی اسی دنیا کا حصہ ہے۔ چار برس کی عمر سے نوحہ خوانی شروع کرنے والے ندیم سرور اردو، ہندی، سرائیکی، پنجابی، سندھی، فارسی، پشتو اور عربی تک میں پڑھ چکا ہے۔ دونوں بچوں کو یہ فن سکھا چکا ہے۔ نئی نسل نے اگر قوالیاں عاطف اسلم سے سنی ہیں تو نوحہ خوانی انہوں نے ندیم سرور ہی کے ذریعے جانی ہے۔ ملکی حالات کے پیش نظر یہ فنکار بھی کچھ برس پہلے آسٹریلیا سدھار چکا، اب ہر سال سات آٹھ ویڈیوز آتی ہیں، دیکھنے والے دیکھتے ہیں اور محرم کرتے ہیں۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/31981/husnain-jamal-134/