کوفہ اور اس کی سیاسی سماجی اجتماعیت – ( دوئم )
اکثر مورخین کوفہ کی تقسیم کو ” ایڈمنسٹریشن بلاک” میں تقسیم سے تعبیر کرتے ہیں – اس طرح کی تقسیم کے ان کے نزدیک تین فیز تھے – حضرت سعد بن ابی وقاص نے کوفہ کی جو پہلی ایڈمنسٹریشن تقسیم کی تھی یعنی اسے نزاری عرب اور یمنی عرب دو بلاکس میں تقسیم کیا تھا ، اس کے نتائج بہتر نہ نکلے –کیونکہ ہر ایک بلاک میں جو قبائل کی مختلف شاخیں تھیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک اور جڑت بنانے میں ناکام رہے اور کافی سنگین قسم کے چیلنج ابھر کر سامنے آئے ، پھر یہ جو ان بلاکوں کے اندر جو انتشار دیکھنے کو مل رہا تھا یہ کوفہ شہر کے بطور گریژن سٹی بنانے کے تصور کے آڑے آرہا تھا-تو ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے کوفہ کی سماجی اجتماعیت کی تشکیل نو کرنے کا فیصلہ کیا گیا-
کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ یہ کیا گیا کہ عرب ماہرین الانساب کو بلایا جائے اور کوفہ میں بسے عرب قبائل کے شجرے دیکھ کر عصبہ کی بنیاد پہ قبائل کی تنطیم نو کی جائے-یعنی عرب قبائل کے درمیان جو سیاسی معاہدے ہیں جسے عصبہ کہتے ہیں کو مدنظر رکھکر کوفہ کی سماجی اجتماعیت کی ترکیب نو کی جائے-تو اس بنیاد پہ کوفہ کی ساری آبادی کی تقسیم “عصبہ ” کی بنیاد پہ 7 بڑے گروپوں میں یا بلاکوں میں کی گئی – مارٹن ہنڈز ، یوسف خلاف ، حلبی اور حسین محمد جعفری کے بقول کوفہ کی سماجی اجتماعیت کی یہ تشکیل نو ” ماقبل اسلامی ” یا روائتی عرب قبائلی نظم کی بنیاد پہ رکھی گئی –اور اس سماجی ترکیب کے اندر بھی ” اہل الایام القادسیۃ ” کی اشرافیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا –
اس اشرافیت کو مقدم رکھے جانے کا اندازہ ‘کنانہ بلاک ‘ سے کیا جاسکتا ہے –یہ ایک بلاک تھا جس میں کنانہ ، احباش ، جدالہ، قیس ، ایلان (حجاز سے ) کے قبائل شامل تھے –کنعانہ اور قريش سابقہ تقسیم میں اس گروپ میں شامل تھے ، جسے خندیف کہا جاتا تھا – اور یہ اہل العلیا –بلند مرتبہ والے –کہلاتے تھے –کنانہ اور جدالہ دونوں کے دونوں کوفہ کے اندر ایک تو ایک دوسرے کے بہت قریبی اتحادی تھے تو دوسری طرف ان کے قریشی عربی گورنران کوفہ سے گہرے سمبندھ تھے –ان کی تعداد بہت کم تھی لیکن ان کا اثر و رسوخ اور سماجی مقام بہت بلند تھا-
کنانہ قبیلے سے ہی حضرت ابو زر غفاری کنانی کا تعلق تھا – اور اس قبیلے سے ہی ایک بڑا لشکر غالب بن عبداللہ اللیثی کی قیادت میں قادسیہ کی جنگ میں شامل ہوا تھا اور کنانۃ قبیلہ پہلے حضرت علی کے ساتھ تھا اور جمل کی جنگ میں عراق میں بسے سارے کنانیوں نے حضرت علی کا ساتھ دیا لیکن صفین کی جنگ میں یہ دو حصّوں میں بٹ گیا – ایک جیش –لشکر جس کی قیادت حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلۃ کررہے تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ تھا
جب کہ دوسرا گروہ کنانیوں کا تميم بن نصر الضمري الكناني کی قیادت میں شامی لشکر کے ساتھ تھا-کنانی قیس اعیلان کی اولاد تھے اور عرب قیس اعیلان قبیلے کی یمنی عرب قبائل سے پرانی حریفانہ کشمکش چل رہی تھی اور یہ کشمکش بنو امیہ کے عبداللہ بن زبیر کے ساتھ جھگڑے میں بہت کھل کر سامنے آئی اور اس زمانے میں قیس اعیلان قبیلے سے عبداللہ بن زبیر کا ساتھ دیا-اس کشمکش کا سب سے بڑا سبب میسوپوٹیمیا کی زرعی زمینوں پہ کنٹرول کی لڑائی تھی –
دوسرا بلاک قضاعۃ ، غسّان ، بجلیۃ ، خثعم ، کندہ ، حضر موت اور ازد قبائل کی کنفیڈریشن پہ مشتمل تھا-یہ یمنی قبائل تھے اور اس میں جو بجلیۃ قبیلہ ہے اس کو عراق کی سوادی زمینوں کا ایک ربع عطاء کیا گیا تھا اور اس کا سردار جعفر بن عبداللہ کے خلیفہ راشد دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بہت قریبی تعلق تھا اور یہ ان کے زاتی دوست تھے-جبکہ دوسرا قبیلہ اس گروپ میں کندہ تھا جس سے اشعث بن قیس کا تعلق تھا اور یہ دونوں اس گروپ میں غالب پوزیشن رکھتے تھے-
تیسرا گروپ یا بلاک قبائل مذحج ( اسی قبیلے سے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا تعلق تھا )، ہمدان (یہ وہ قبیلہ ہے جس کی طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو روانہ کیا تھا اور اس قبیلے نے اسلام قبول کیا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک خط اس بارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارسال کیا – آپ نے جب یہ سنا سجدہ شکر کیا اور سر اٹھا کر تین مرتبہ ہمدان قبیلے کی سلامتی کی دعا مانگی )،حمیر اور ان کے اتحادیوں پہ مشتمل تھا-ہمدانی قبیلہ کوفہ کے اندر بہت بااثر تھا اور اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور آئمہ اہل بیت اطہار کی بہت زیادہ حمایت کی اور عراق میں یہ امویوں کے خلاف ایک اہم ترین قبیلہ شمار ہوتا تھا –
چوتھا گروپ تمیم ، رحاب اور ھوازن پہ مشتمل تھا یہ بنو مضر سے تعلق رکھتے تھے –جبکہ پانچواں گروپ بنو اسد ، غطفان ، محارب، دوبیۃ ، نمر اور تغلب پہ مشتمل تھا یہ بنو ربیعۃ اور بنو بکر کے نزاری عرب قبائل پہ مشتمل گروپ تھا-
چھٹا گروپ ایاد ، عک ، عبدالقیس اور حمیرا قبائل پہ مشتمل تھا -قبیلہ ایاد (یہ ان قدیم عرب قبائل کی ایک فیڈریشن ہے جو کہ بہت پہلے سے عراق کے اندر آباد تھے اور یہ بازنطین سلطنت میں اہم مقام رکھتے تھے –اور چھٹی صدی عیسوی میں یہ بازنطین سلطنت کے علاقوں میں داخل ہوئے جن میں میسو پوٹیمیا /عراق بھی شامل تھا اور ایاد قبیلہ نے میسوپوٹیمیا / عراق کے اندر کلچر کے حوالے سے بہت ہی اہم کردار ادا کیا اور تین جہتوں سے تھا،ایک یہ کرسچن تھے ، دوسرے ان کی شاعری اور تیسرا ان کا عرب ہونا –جبکہ عک(مھجع بن صالح عکی جنگ بدر کے پہلے شہید کا تعلق بھی عک قبیلے سے تھا اور یہ مولی عمر ابن خطاب تھے-
ان کے بارے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی(ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا) ) بھی عدنانی عرب قبیلہ تھا اور یہ بھی بہت پہلے سے غالب امکان ہے کہ 6ویں صدی عیسوی سے یہ لوگ عراق میں آبسے تھے –ان دونوں قبائل نے ساسانی افواج کے خلاف مسلم عرب افواج کا ساتھ دیا تھا-عبد القیس قبیلہ بھی ایک اور عرب عدنانی شاخ ہے ، اس قبیلے نے 9 ھجری میں ایک بڑا وفد مدینہ بھیجا تھا اور اسلام قبول کرلیا تھا اور ان کو الاھل الھجر بھی کہا جاتا ہے اور یہ بحرین سے وفد آیا تھا –
اور کہا جاتا ہے کہ مدینہ کے بعد دوسرے جس شہر میں پہلی مرتبہ نماز جمعہ ہوئی وہ عبدالقیس قبیلہ کے شہر بحرین میں ہی ہوئی تھی –یہ قبیلہ بصرہ ، موصل اور پھر کوفہ میں مسلم عرب لشکر کے ساتھ ہی مقیم ہوئے-یہ تینوں قبیلے یعنی ایاد ، عک اور عبدالقیس بنو تمیم کے سردار زھرہ بن ھوائیہ کی قیادت میں متحد ہوگئے اور ان کے اس اتحاد نے فارسی افواج کو سخت ھزیمت سے دوچار کیا-اور اس گروپ کی طاقت میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب 4 ہزار فارسی غلاموں نے اسلام قبول کرلیا اور ان کا سردار دیلم کی قیادت میں ان سے آملا –
تو یہاں جو حمیر قبیلہ ہے اس گروپ میں اس سے مراد بقول حسین محمد جعفری اور دیگر یہی چار ہزار فارسی غلام ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے-یہ گروپ قبائل کا کوفہ کی سماجی ترکیب میں اور ںطم اجتماعیت میں اگرچہ تعداد کے اعتبار سے زیادہ تھا لیکن اسے کوفہ کے نظم اجتماعی میں سماجی رتبے کے لحاظ سے دوسرے گروپوں کی جانب سے تحقیر کا سامنا تھا- خاص طور پہ قریشی گورنروں کے حامی پہلا گروپ جس کی قیادت کنانیوں کے پاس تھی کے ساتھ اس کا تضاد بہت جلدی سامنے آیا-عبدالقیس ، ایاد اور عک قبائل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی کوفہ ، بصرہ اور موصل میں بالخصوص حمایت بہت زیادہ تھی اور یہ قبائل جمل ، صفین کی جنگوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ دل جمعی سے کھڑے رہے –
ساتواں گروپ قبیلہ طے کا ہے ، اگرچہ طبری نے کوفہ پہ سو کے قریب صفحات لکھے لیکن اس کو الگ سے زکر نہیں کیا لیکن بلازری نے یہ اہتمام کیا ہے اور یہ بہت بڑا قبیلہ تھا جوکہ قبل اسلام سے ہی عراق ، شام اور آج کے ترکی تک جابسا تھا اور اس قبیلے کے کئی لوگوں نے کرسچن مذہب اختیار کرلیا تھا –طیء قبیلہ 9 ھجری میں اسلام کرگیا اور اس کا سردار عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ تھے –عربوں میں سخاوت کے لحاظ سے دیومالائی کردار حاتم کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا-11ھجری میں جب بڑے پیمانے پہ قبائل نے اسلام ترک کردیا تو یہ قبیلہ قائم دائم رہا-مثنی بن الحارثہ کے ساتھ ملکر انہوں نے عراق اور حیرہ کی جنگوں میں حصّہ لیا اور پھر ایام القادسیۃ میں بھی یہ بڑے اہتمام سے شریک ہوئے –
اور کوفہ کے اندر اس قبیلے کی بڑی تعداد آباد ہوئی –قبیلہ طیء کے لوگ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ جنگ جمل ، صفین اور نھروان میں شریک رہے اور ثابت قدم رہے –اس قبیلے کے لوگ امام حسن کے ساتھ کوفہ میں ڈٹے رہے اور یہ عدی بن حاتم تھے جنھوں نے کوفہ میں امام حسن کے لئے زبردست تحریک بھی چلائی تھی اور اسی قبیلے کے معزز سردار اور عدی بن حاتم کے بیٹے ترمیمہ بن عدی امام حسین کوفہ کے راستے میں ملے تھے اور انہوں نے امام حسین کو یمن کے پہاڑوں میں بسے طیء قبیلے میں چلنے کی دعوت دی تھی –ایسے آثار موجود ہیں کہ جب جبر اور ستم حکومت اموی بہت زیادہ بڑھ گیا تو اس قبیلے کے اکثر لوگوں نے یمن کے پہاڑوں میں نقل مکانی کرلی تھی –
ہم کوفہ کی تیسری نظم اجتماعی کی ترکیب نو جوکہ ٹھیک 19 سال بعد جب حضرت علی مدینہ سے کوفہ آئے واقع ہوئی تھی پر زرا بعد میں لکھیں گے لیکن پہلے یہاں کچھ اور بنیادی باتیں طے کرلی جائیں جن کا اس مقالے سے براہ راست تعلق ہے-
کوفہ کی ابتدائی سیاسی وابستگی
بعد میں آنے والے مورخین نے کوفہ کی ابتدائی سیاسی مذہبی وابستگی بارے موقف کا تعین کرنے کے لئے جو راستہ اختیار کیا ، وہ بہت حد تک فرقہ وارانہ ہے-مثال کے طور پہ شہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، صلح امام حسین کے پس منظر اور واقعہ کربلاء کے ظہور پذیر ہونے کے بعد جب ان واقعات کی زمہ داری کا تعین کرنے کی بات آئی اور سنّی و شیعہ کی تقسیم خاصی گہری ہوگئی اور یہ دو واضح مکتبہ فکر کی شکل میں سامنے آگئے تو ہمارے سامنے ایسے مورخوں کی کمی نہیں ہے جن کی کوشش یہ تھی کہ وہ کسی طرح سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، اہل بیت اطہار اور ان کے رفقاء کے خلاف کئے جانے والے جرائم کی زمہ داری امویوں کے سر سے اتار ڈالیں اور اسے الٹا آپ کے ساتھیوں کے ذمے ہی ڈال دیا جائے –
اب اگر ” کوفہ ” بارے آپ تعصبات اور شدت سے مذمت کے رجحان کا جائزہ لیں تو آپ کو واضح اندازہ ہوگا کہ کیسے یہ بڑی ہوشیاری اور کمال مہارت سے امویوں کے جرائم پہ پردہ ڈالنے اور اس حوالے سے پورے کوفہ کو ایک مجرم شہر کے طور پہ پیش کرنے کی کوشش تھی –اور یہ کوشش یہاں تک ہوئی کہ قتل حسین بن علی بن ابی طالب کو بھی یزید کے زمے سے ہٹاکر صرف عبیداللہ ابن زیاد اور شمر تک محدود کرتے ہوئے اصل نزلہ اہل کوفہ پہ گرادیا گیا –اور اسقدر شور مجایا گیا کہ کوفہ کی تاریخ کے جو روشن ابواب تھے وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے-
کوفہ شہر میں جب یہ آباد ہوا اور حضرت علی کے کوفہ آنے تک کن سیاسی نظریات کے حامل لوگوں کی اکثریت تھی یہ سوال اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہ بھی جاننا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ کوفہ امویوں کی حکومت آنے تک عربوں کی اکثریت کا شہر رہا یا یہ عجمیوں کا شہر بن گیا تھا ؟ اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جسے جاننے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کوفہ آج بھی عربوں کی اکثریت کا شہر ہے اور یہ امویوں اور عباسیوں کے دور میں بھی عربوں کی اکثریت کا شہر رہا-اور اس شہر کی ابتدائی سیاسی وابستگی کیا تھی اس کا ایک ثبوت تو ہمیں نہج البلاغہ میں ہی ایک واقعے سے ملتا ہے-
اور وہ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت عمار یاسر ، حجر بن عدی الکندی اور امام حسن کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ لوگوں سے ان کے لئے حمایت طلب کریں تو لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ شیخین کریمین یعنی حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے ؟ یہ واقعہ پورا درج ہے کہ یہ تینوں اصحاب پھر آپ کے پاس آئے اور آپ کو اس بارے بتایا بھی –تو یہ بات مسلم ہے کہ کوفہ شہر اپنی تاسیس کے دن سے لیکر بعد تک شیخین کے حامیوں کا شہر تھا –اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں بھی آپس کے باہمی معمولی افتراق کے باوجود اس شہر نے مدینہ کی اتھارٹی کو کبھی چیلنج نہ کیا –
اب یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ شہر فتنوں کا شہر ہے ، شریر لوگوں کا شہر ہے اور تخریب اس شہر کی سرشست میں ہے یا اس شہر کو مجوسی سازش کا گڑھ بتایا جاتا ہے تاکہ اس شہر میں بعد ازاں ہونے والی ریڈیکلائزیشن کو ایک سازش بتایا جائے اور اس کی انقلابی جہت کا انکار کیا جاسکے-اس شہر میں کوفہ کی جامع مسجد تھی اور ہر گروپ کی جس کے علاقے کو ہم ایک ڈسٹرکٹ کہہ سکتے ہیں اپنی مسجد تھی اور کوفہ کی مسجد میں بیک وقت چالیس ہزار نمازی آسکتے تھے اور یہ شہر اپنی ہئیت کے اعتبار سے بہت بعد تک کسی بھی لحاظ سے امامیہ شیعہ کی اکثریت کا شہر نہ تھا –
بلکہ پولیٹکل شیعہ کی اگر ہم اصطلاح استعمال کریں تو یہ اس کی اکثریت کا شہر بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی کوفہ آمد کے وقت بنا –ہاں ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ اس شہر کی اکثریت نے قریشی غلبے اور اموی اشرافیت کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں رد کرنا شروع کردیا تھا اور ولید بن عقبہ کے خلاف اس شہر کی فضاء واضح طور پہ ناموافق ہوئی اور اس کے خلاف سب سے زیادہ مضبوط احتجاج اور تحریک جو چلی کوفہ میں اس کی قیادت کرنے والوں میں عرب پس منظر کے حامل جید صحابہ کرام بشمول عدی بن حاتم،حجر بن عدی ، وغیرہ تھے اور یہ کسی بھی لحاظ سے فارسیوں کی کوفہ میں تحریک نہ تھی –مدینہ کی اتھارٹی کے خلاف کوفہ کے اندر جو تحریک پیدا ہوئی اس کا سبب بھی مرکز کا اموی اشراف کا ساتھ دینا تھا –
اور یہی اشرافیت تھی جس کے خلاف ہمیں نہج البلاغہ اور دیگر کتب تواریخ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خطبات ملتے ہیں اور وہ تواتر سے قریشی اشرافیہ کی اکثریت کے غلط سیاسی موقف اور دنیا پرستی کے بارے میں بار بار باتیں کرتے ہیں –اور ظلم کے خلاف ، باطل کے خلاف ان کے نظریات بہت ہی واضح ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں –اس لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے رفقاء اور ان کے حامیوں کو مطعئون کرنے کی مجمل پالیسی ہرگز ٹھیک نہیں ہے اور سارے کوفہ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا طریقہ بھی غلط ہے-حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جب مدینہ چھوڑا اور کوفہ کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا اور وہیں رہ کر انھوں نے اموی اشرافیت کا مقابلہ کیا تو یہ بات سوچنے والی ہے کہ اگر ان کے ساتھ کوفہ میں کوئی نہ تھا اور سارا کوفہ ہی بے وفائی پہ مصر تھا تو انہوں نے کوفہ ہی میں ٹکے رہنے پہ کیوں اکتفا کیا ؟
اور پھر یہ بات سوچنے کی ہے اگر کوفہ کے سبھی رہنے والے لالچی ، بزدل ، کائر ، حکومت اور عہدوں کے بھوکے تھے تو امیر شام سے لیکر سبھی اموی بادشاہوں نے عراق بشمول کوفہ پہ انتہائی جابر گورنر کیوں مسلط کئے ؟ ان کو کیوں ڈرایا دھمکایا جاتا رہا ؟ ان کے قتل کیوں ہوتے رہے اور پھر بار بار کوفہ بغاوت کا مرکز کیوں بنتا تھا ؟ اور کیوں کوفہ کی جانب اہل بیت اطہار دیکھا کرتے تھے اور جناب امام حسین رضی اللہ عنہ نے عراق کا ہی دوبارہ رخ کیوں کیا ؟
ان کی منزل پھر کوفہ ہی کیوں تھی ؟ اگر کوفی وعدہ ایفا کرنے والے نہ تھے سب کے سب تو امام حسین اپنے اہل خانہ اور رفقاء کے ساتھ اسی شہر بے وفا میں قدم رکھنے کیوں چلے آئے تھے ؟ہم اگر سارے کوفہ کو ہی موردالزام ٹھہرادیں گے تو پھر ہمیں اس شہر میں بسنے والے ہمدانیوں ، عبدالقیس ، حمیرا ، بنو اسد ، اور دیگر کی قربانیوں کا انکار کرنا پڑے گا اور ان کی خدمات کا بھی اور ہم ارتقاء کی اس کڑی کو بھی کبھی نہ پاسکیں گے جس نے کوفہ شہر کی اکثریت کو آخرکار ایک علوی شہر میں بدل ڈالا تھا –اور کوفہ شہر کی وابستگی کی ابتداء سے آخر تک یہ بھی دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ عراق میں وہ کونسے ہتھکنڈے اور حربے تھے جو اس کے باسیوں کی علویوں سے یک جہتی اور نیاز مندی کو توڑنے کے لئے اپنائے گئے –ڈرائے جانے اور بے پناہ دہشت زدہ کرنے کا ہتھیار اور کوفہ سمیت عراق کے عرب قبائل کے اشراف کو خریدے جانے کا ہتھیار اور ان کے درمیان نہ ختم ہونے والی افواہیں پھیلانے کا حربہ یہ سب آپ کو تاريح کی کتب اور قدیم لٹریچر میں جابجا بکھرا ہوا ملے گا –
کوفہ اور عراق پہ قدیم تاریخی ماخذ کو اگر آپ کھنگالیں ، سو صفحات طبری نے لکھے ، بلازری کے عراقی قبائل کے بارے میں بیان کئے گئے صفحات کو لے لیں ، اعثم کوفی کی کوفہ بارے کی جانے والی باتوں کو اکٹھا کرلیں ، تو آپ کے سامنے ایک پوری تصویر آجائے گی کہ کیسے عراق کے اندر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور ان کے بعد آنے والی اولاد کی حمایت اور ان سے محبت و مودت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور کیسے عرب اشرافیت کے خلاف جو عراق ، مصر کے اندر ایک بڑی ریڈیکل سیاسی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تھی اسے ختم کرنے کی کیسے کوشش کی گئی –
اور یہ بھی مدنظر رہے کہ اموی ہوں کہ عباسی انھوں نے اپنے اپنے قبضوں کے مستحکم ہونے کے بعد تاریخ کو مسخ کرنے اور ” علی شناسی ” کو مبہم بنانے میں کوئی کمی نہیں کی –اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ علویوں کے استحقاق حکمرانی کے مقابلے میں ان کا اپنا استحقاق کو کہیں سے ثابت ہوتا نہیں تھا اور اسی لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلیفہ بننے کے بعد ان کی مخالفت میں جس سیاسی کیمپ کا ظہور ہوا اس کے افکار اور اعمال سے صرف نظر کرنے کے لئے ” عبداللہ ابن سباء ” کا کردار گھڑ لیا گیا اور حیرت انگیز طور پہ کوفہ کی بالخصوص اور عراق کی بالعموم سیاسی-فکری –
مذہبی زندگی کو ہی سبائیت کے برابر ٹھہرادینے کی بھرپور کوشش کی گئی اور کوفہ شہر کے علمی و فقہی ،تاریخی کردار کو گہنا دیا گیا –اور المیہ یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈا اتنا شدید اور اتنا بدتر ہے کہ کوفہ شہر کو علمی اور سیاسی اعتبار سے اپنا شہر کہنے میں خود مین سٹریم سنّی اسلام کے سب سے بڑے فقہی مکتبہ فکر یعنی احناف اور مین سٹریم شیعی اسلام کے سب سے بڑے گروپ یعنی اثناء عشری کو شرم آتی ہے-قاتلان امام حسین کا زکر آئے تو سنّی کہتے ہیں کہ یہ کوفیوں کا کام تھا جوکہ شیعہ تھے اور شیعہ کہتے ہیں کہ کوفہ تو کبھی شیعہ امامیہ کی اکثریت کا شہر تھا ہی نہیں یہ تو سنّی شہر تھا تو قاتلان امام حسین سنّی ہوں گے –دھوکے باز ، دغا باز اور عہد شکن بھی سنّی ہوں گے –وہ کہتے ہیں کہ شیعہ ہوں گے-
لیکن بات اتنی سادہ ہے نہیں جتنی بنادی جاتی ہے- کوفہ کے جس بازار میں بی بی زینب رضی اللہ عنھا کے خطبے کا زکر شیعہ اور سنّی دونوں کے ہاں سننے کو ملتا ہے تو کیا اس ایک بازار میں سبھی کوفی جمع تھے اور سبھی کے سبھی عہد شکن اور دھوکہ باز تھے ؟یقینی بات ہے کہ ایسا نہیں تھا – تاریخ میں زکر ہے کہ اس بازار میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے ہاتھوں ميں پتھر تھے ، کچھ مذاق اور ٹھٹھا کررہے تھے –تو کیا یہ لوگ محبان اہل بیت تھے ؟ چلو فرزدق کی بات کرلیتے ہیں جس نے کہا کہ دل آپکے ساتھ مگر تلواریں نہیں ہیں تو اسی ایک فقرے سے قیاس کیجئے کہ عزیمت کی بجائے رخصت اختیار کرنے والے وہ کوفی جن کے دل اہل بیت اطہار کے ساتھ رخصت کے مذہب پہ عمل کرنے کی وجہ سے قابل ملامت تو ٹھہرجاتے ہیں لیکن کیا ان کو بالکل ہی علوی کیمپ سے خارج کردیا جائے گا ؟ ہرگز نہیں –
بات سمجھنے اور پالینے کے کئی زاویے ہوا کرتے ہیں –اور آگے چل کر میں بتاؤں گا کہ اموی افواج اور اس کی ایڈمنسٹریشن نے کیسے کوفہ کی جانب آنے والے اور کربلاء کی اور آنےوالے عراق کے سب راستوں کو کیسے بلاک کیا کہ کوفہ اور بصرہ سے اہل بیت اطہار کے حامی امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی مدد کو نہ پہنچ سکے –اور کیسے عرب اشراف قبائلی سرداروں نے وہی کیا جو انھوں نے امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا –تو کوفہ اور عراق کا علوی کیمپ کسقدر زمہ دار ٹھہرتا ہے اور کس قدر ہم اسے الزام دے سکتے ہیں یہ سب باتیں آگے چل کر اور صاف ہوں گی –
لیکن یہ بات طے ہے کہ اہل عراق کی اکثریت کے اندر علوی کیمپ کی حمایت کا تناسب بہت زیادہ تھا تبھی تو یزید کو امیر شام نے عراق کے ساتھ سختی سے نمٹنے کو کہا تھا اور ان کے پورے دور میں عراق میں اہل بیت کے حامیوں کے خلاف سخت ترین جبر اور تشدد کی فضا قائم رکھی گئی تھی –اگر کوفہ اور عراق والے فکری علوی سے مخلص نہ تھے یا ان کے ہاں علوی افکار کی کوئی اہمیت نہ تھی تو شامیوں کی طرح عراقیوں نے اموی افکار اور نظریات کو مجموعی طور پہ اپنا کیوں نہ لیا اور سٹیٹس کو کے حامی کیوں نہ بنے اور کوفہ شہر امویوں کے خلاف مسلسل بغاوتوں اور انقلابی ابھاروں کا مرکز کیوں بنا رہا ؟اور عراقیوں کی فقہ ، ان کے فہم تفسیر ، فہم حدیث ، ان کے فہم عقائد کے خلاف امویوں کے سرکاری و درباری لکھاریوں نے ایک محاذ کھولے کیوں رکھا ؟
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بعدمابعد کربلاء بھی مین سٹریم سنّی اسلام کی بڑی بڑی شخصیات جن کا جنم کوفہ میں ہوا وہ بھی امویوں کے سخت خلاف تھیں اور یہاں تک کہ جب عباسیوں نے علویوں کے ساتھ مخاصمت شروع کی تب بھی ان شخصیات نے علوی کیمپ کا ساتھ دیا- امام اعظم ابوحنیفہ کی سیرت سب کے سامنے ہے- وہ ہشام بن عبدالمالک کے خلاف بھی رہے اور اوائل عباسی خلفاء کو بھی رد کیا – امام مالک اور امام شافعی کی حالت بھی یہی تھی –امام شافعی نے اپنے اشعار میں محبت اہل بیت اطہار کا جیسے اظہار کیا اس سے صاف ان کی سیاسی وابستگی کا اندازہ ہوتا جاتا ہے اور وہ عباسی دور میں سانس لے رہے تھے ،اس زمانے میں ان کے گرد و نواح میں ایسے لوگ ضرور موجود ہوں گے جن کو اہل بیت اطہار سے محبت رفض لگتا ہوگا تو تبھی انھوں نے کہا تھا نا
یا آل بیت رسول اللہ حبکم ،،،،،،،،،،،فرض من اللہ فی القرآن انزلہ ،
کفاکم من عظیم القدر انکم ،،،،،،،،،،من لم یصل علیکم لا صلاۃ لہ
قالوا : ترفضت قلت : کلا ،،،،،،،،،،، ماالرفض دینی ولا اعتقاد۔۔۔۔۔۔
ان کان حب الولی رفضا ،،،،،،،،،،،،،فاننی ارفض العباد،،،،،،،،،
اے اہل بیت اطہار آپ کی محبت قرآن کے اندر فرض کردی گئی ہے-آپ کی قدر و منزلت کے بڑے ہونے کی یہی بات کافی ہے کہ جو آپ پہ درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ہے-وہ کہتے ہیں کہ کیا تو رافضی ہوگیا ،تو میں کہتا ہوں
، ہرگز نہیں مرا نہ تو دین رفض ہے اور نہ ہی اعتقاد لیکن اگر تم حب ولی (حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت کے حوالے سے ان کو ولی کہا جارہا ہے ) کو رفض کہتے ہو تو میں اللہ کے بندوں میں سب سے بڑا رافضی ہوں –
امام ابو حنیفہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا میں نے کچھ پیسوں کی نذر مانی ہے ، میں کس کو دوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم نے امام عادل کی پہچان کرنا ہے تو جاؤ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق بن محمد الباقر رضی اللہ عنھما ) کے پاس اور اپنا مال ان کو دے ڈالو –
تو کوفہ کو رفض سے منسوب کرنا ، اسے وعدہ شکنوں ، عہد شکنوں کا مرکز قرار دینا ، اس کو سراپا شر قرار دینا یہ نظریہ سرے سے حد اعتدال سے گرا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ یہ علوی تحریک کو ہی یکسر سازش قرار دینے کے مترادف ہے-اور آج جو واقعہ کربلاء کے خلاف صف بندی ہے اور اس واقعے کے زمہ داروں کے بارے میں حیلوں بہانوں سے توجہ کو بھٹکانے کی کوشش ہے یا یزید کو معصوم اور بیچارہ ثابت کرنے پہ زور ہے یا اس کے خلاف قیام حسین رضی اللہ عنہ کو ایک غلط اقدام ثابت کرنے کی کوشش ہے یہ خود مین سٹریم سنّی اسلام کے اسلاف اور اکابر کے بالکل برخلاف بات ہے –
بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ مین سٹریم سنّی اسلام اور مین سٹریم شیعہ اسلام کے جمہور اکابر اس بات پہ متفق ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد جس کیمپ کو علوی کیمپ کہا جاتا ہے وہی برحق کیمپ تھا اور ان کا تعلق بھی اسی کیمپ سے تھا –اور مین سٹریم سنّی اسلام کے اکابر ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک جنگ جمل ہو کہ جنگ صفین کہ جنگ نھروان ہو اور کربلاء کا معرکہ ہو یا حضرت زید بن علی کا قیام ہو سب کے سب درست تھے –
اور یزید اور اس کے ساتھیوں کے لئے مین سٹریم سنّی اسلام نے کوئی گنجائش رکھی ہی نہیں –نام نہاد سلفی،اور ریڈیکل تکفیری دیوبندی اس حوالے سے مین سٹریم سنّی اسلام کے نہ کل نمائندے تھے نہ ہی آج ہیں اور اگر ہوتے تو وہ اپنے حق میں شیخ ابن تیمیہ اور اس کے شاگردوں کے ساتھ ساتھ محمد بن عبدالوہاب اور اس کے ساتھیوں کے دلائل سے مدد نہ لے رہے ہوتے بلکہ مذاہب اربعہ کے بانیوں سے اپنی بات مضبوط کرتے –یزید کو پلید قرار دینے میں دارالعلوم بریلی کے امام احمد رضا ، دارالعلوم دیوبند کے قاری محمد طیب ، مفتی محمد شفیع ، مولوی خیر محمد جالندھری ، مولانا شفیع اوکاڑوی کے موقف ایک جیسے ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس حوالے سے آج کے تکفیری دیوبندیوں کی جو روش اور راہ ہے وہ ان کے اکابر کی راہ سے ہٹ کر ہے ورنہ وہ ایسے نہ کہتے بلکہ آگے بڑھ کر یزید کو پلید کہتے
Source: