کوفہ اور اس کی سیاسی سماجی اجتماعیت

its-a-map-of-masjid-e

کوفہ  : ایک چھاؤنی سے طاقتور سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک

ابتدائیہ

کوفہ کے بارے میں ،میں نے بچپن سے ایک جملہ اکثر لوگوں سے سنا کہ یہ “عہد شکنوں ” کا شہر ہے-اور “کوفی لا یعوفی ” کی اصطلاح بھی میں نے اکثر لوگوں کو بولتے سنا-مولانا شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی تقاریر کا زمانہ تھا اور جب بھی محرم کا پہلا عشرہ آتا تو ان کو شہادت امام حسین کا قصّہ بیان کرنے کے لئے بلایا جاتا تو وہ جب اسیران کربلاء کا قصّہ بیان کرتے تو جناب شریکۃ الحسین ، ام المصائب بی بی زینب بنت فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنھا کا خطاب کا تذکرہ کرتے جس میں “کوفہ ” والوں سے عمومی خطاب کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور اس بنیاد پہ کوفیوں کی مذمت کی جاتی –اس زمانے میں بھی مرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کرتا تھا کہ کوفہ وہ شہر ہے جہاں فقہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بنیادیں رکھی گئیں اور یہی وہ شہر ہے جہاں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی فکر کو مدون کیا گیا

اور اسی سے آگے چل کر فقہ حنفیہ ، فقہ امام اوزاعی اور فقہ امام جعفر صادق کا وجود سامنے آیا-اور پھر کوفہ شہر کسی بھی لحاظ سے عجمیوں کا شہر تو تھا نہیں بلکہ یہ خالص عرب شہر تھا اور یہاں پہ جو لوگ آکر بسے وہ حجاز سے اسلامی تعلیمات کا براہ راست تجربہ کرکے یہاں آئے تھے اور ان کے اور رسالت مآب کے درمیان کوئی واسطہ نہیں تھا-تو یہ شہر کیسے صرف بے وفاؤں کا شہر ہوسکتا تھا؟ اور پھر مرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا تھا کہ عراقی فقہ کے بارے میں اہلسنت چاہے بریلوی ہوں یا دیوبندی ان کے اہل علم فقہا کی کتابیں تعریف و مدح سے بھری پڑی تھیں اور وہ عراقی فقہ کو رد کرنے والے ” غیر مقلدین ” کے خلاف علمی جہاد میں مصروف تھے لیکن جیسے ہی وہ تاریخ سے معاملہ کرنے پہ آتے تو ان کے رویے بھی عراق بارے بالعموم اور کوفہ بارے بالخصوص ” غیر مقلدین ” جیسے ہوجاتے تھے-دیوبندی علماء تو اس سے بھی آگے جاتے تھے اور وہ امویوں کو چھوڑ کر اہل بیت اطہار پہ مصائب کا زمہ دار ہی اہل کوفہ کو ٹھہرادیتے تھے-اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے تکفیری خیالات خارجی فکر کی حدود کو چھوجاتے تھے یزید کے ظلم کی توجیہ پیش کرنے لگتے تھے-

مرے ایک دوست ہیں مولانا محمد شوکت سیالوی ،وہ جب جامعہ نظامیہ لاہور سے فارغ التحصیل ہوکر آئے اور انہوں نے فقہ کوفہ پہ خاص مہارت حاصل کرنے کی ٹھانی اور غیر مقلدین کی “کوفہ ” بارے پھیلائی چیزوں کا کافی شافی رد کرنے کی ٹھان لی تو مجھے بھی ان کے ساتھ اس بارے میں کافی کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا-کوفہ کے بارے میں ” افواہیں ” اور ” مبالغہ آرائی ” پہ مبنی چیزیں اس شہر کی ” تہذیبی اور اقتصادی و فکری ” پرداخت اور پرشکوہ تاریخ کو دبانے کا سبب بن گئیں-اور المیہ یہ ہوا کہ اردو میں کسی بھی صاحب نے اس شہر کی سنجیدگی سے ایک علمی و فکری تاریخ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی-مولانا شوکت سیالوی کی مناظرہ بازی نے ان کو ایک انتہائی ضروری کام سے روک دیا –لیکن میں نہیں رکا-

میں مسلسل اس موضوع پہ مواد ڈھونڈتا ہی رہا-عرب دنیا کو اس لحاظ سے خوش قسمت کہا جاسکتا ہے کہ وہاں دانشور طبقہ کوفہ کی اجتماعی حیات ، اقتصادیات بارے کافی سنجیدہ تحقیقی کام سامنے لاتا رہا-لیکن المیہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے  وہابی تاریخی بیانیہ کے شور میں مسلم تاریخ کے متبادل تحقیقی کام  کو دبادیا گیا-خود کوفہ کی فقہی روایت کے علمبردار وں نے اس علمی کام کو برصغیر پاک و ہند کی مقامی زبانوں میں ڈھالنے یا اس بارے لوگوں کی رائے کو بہتر بنانے کے لئے کوئی کام نہ کیا-بلکہ کوفہ کے اور اس کے مکینوں کے بارے میں جو ” فکری مغالطے ” زبان زدعام کردئے گئے تھے ان کو ہی پروموٹ کرنے کے کام میں جت گئے-1966ء کے لگ بھگ عرب دنیا کے اندر بالخصوص اور مغرب کے دانشکدوں میں ایک کتاب کا بہت شہرہ ہوا تھا اور یہ کتاب اب

” کوفہ شہر ” کی اجتماعی زندگی اور معاشی زندگی پہ ایک حوالہ کتاب بن چکی ہے-اور یہ کتاب لکھنے والے محمد حسین الزبیدی تھے-اور کتاب کا نام تھا ” الحياة الاجتماعية و الاقتصادية في الكوفة في القرن الاول الهجري” انگریزی میں اس کا ترجمہ بنتا ” سوشو-اکنامک لائف آف کوفہ ان فرسٹ  ہجری ” اور کوفہ کی قبائلی تاریخ بارے تفصیل سے جاننے کے لئے دمشق سے 1949ء میں عمر رضا کہالہ کی کتاب ” معجم قبا‏ئل العرب “شایع ہوئی –اور اسی طرح سے ایک اور بہت ہی تحقیقی مقالہ یوسف خالف کا کتابی شکل میں 1968ء میں قاہرہ سے شایع ہوا جس کا نام تھا ” حیات الشعر فی الکوفۃ “-ایم ہند کا ایک تحقیقی مقالہ ” کوفی سیاسی اتحاد 7ویں صدی عیسوی میں ” انٹرنیشنل جرنل آف مڈل ایسٹ اسٹڈیز ” کے اکتوبر 1971ء میں شایع ہوا-اور اسی طرح سے ایک بہت ہی مشہور مورخ سید محمد صادق نے “تاريخ الكوفة” لکھی اور یہ 1985ء ميں شایع ہوئی تھی-کوفہ کی تاریخ بارے جزو ، جزو بکھرا ہوا مواد تاریخ طبری ، تاریخ البلاذری ، تاریخ حموی ، تاریخ یعقوبی میں موجود ہے اور کم از کم عربی ، فارسی ، انگريزی میں اس کو کمپائل یا مرتب کرنے والوں کی کمی نہیں ہے-

اور اسی طرح کوفہ کی سماجی زندگی پہ سید حسین محمد جعفری کی کتاب ” دی اورجینز اینڈ ارلی ڈویلپمنٹ آف اسلام “کا پانچواں باب “کوفہ : سٹیج آف شیعی ایکٹویٹیز ” بہت ہی زبردست تحقیق پہ مشتمل ہے –کوفہ اور عراق بارے سنجیدہ تاریخی مطالعوں کا آغاز عرب دنیا میں اس لئے بھی ہوا کہ” سعودی وہابی تاریخی بیانیہ” بے پناہ فنڈنگ کے سبب تاریخ کو مسخ کرنے کا سبب بن رہا تھا اور اس کا اگر فکری رجحان کا کوئی ٹھوس مظاہرہ دیکھنا مقصود ہو تو ہمیں مصر کے اندر ہی محمد امین مصری جیسے لوگ مل جاتے ہیں جنھوں نے پوری تاریخ کو گھڑی ہوئی اور فرضی قرار دے ڈالا-فجرالاسلام نامی کتاب کو آپ پڑھتے جائیں تو آپ کو اس رجحان کی ٹھیک ٹھیک جڑیں ملتی چلی جائیں گی-یہ سعودی وہابی تاریخی بیانیہ کے پیچھے بڑی فنڈنگ تھی جس نے شیخ ابن تیمیہ کی ” منھاج السنۃ ” کو پھر سے زندہ کیا اور اسی کتاب کی بنیاد پہ ایک ” تکفیری تاریخی بیانیہ ” بھی تشکیل پایا جس میں کوفہ کے لوگ “ولن ” ٹھہرادئے گئے-اور کیا یہ محض اتفاق تھا کہ خود دیوبندی روایت سے جڑے کئی بڑے بڑے نامور دانشور اور محققین نے

 شیخ ابن تیمیہ ، شیخ ابن قیم  جوزی ، محمد بن عبدالوہاب تمیمی نجدی کا تاریخی بیانیہ اپناتے ہوئے کوفہ کی سماجی-معاشی زندگی کو بس عہد شکنی تک محدود کردیا-اور آج بھی ” سعودی وہابی تاریخی بیانیہ ” ریڈیکل وہابی ازم اور ریڈیکل دیوبندی ازم کے ہاں مقبول ترین پروڈکٹ ہے-عراق میں بالخصوص کوفہ کی تہذیبی زندگی کی تشکیل میں زہاد ، صوفیاء ، عابدین ، عالم باعمل کا کس قدر کردار تھا ؟ اس سوال کا جواب آج بھی “بے وفائی ” کے شور میں نظر نہیں آتا-کوفہ کی تاریخ کو مسخ کرنے کا کام ویسے ہی کیا گیا جیسے تاریخ مدینہ کو مسخ کرنے کا کام شیخ ابن تیمیہ نے بخوبی کیا تھا اور اس کے لئے اس کی کتاب ” مذہب امام مالک ” اور اجماع اہل مدینہ ” کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے-

مدینہ کی  سعودیائے جانے کی تاریخ بہت دلچسپ ہے-اور اس سے صرف شیعی تاریخ کا مین سٹریم بیانیہ ہی رد کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ خود مین سٹریم سنّی تاریخی بیانیہ بھی مسخ کردیا گیا-مجھے اپنی تحقیق کے دوران بار بار یہ احساس بھی ستاتا رہا کہ سلفی اور دیوبندی سعودی نواز تاریخی بیانیہ اصل میں سرے سے “تاریخ ” کا ہی انکار کرنے والا بیانیہ ہے-اور یہ اپنے جوہر کے اعتبار سے ‘اے ہسٹاریکل ‘ ہے-کوفہ کے بارے میں اس ‘بیانیہ ‘ کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے خود کئی ایک شیعی اور اکثریتی صوفی سنّی ذہنوں کو بھی تسخیر کرلیا-کوفہ سارے کا سارا ہی مذمت کے دائرے میں آگیا-اور اس کا اندازہ مجھے اس طرح سے بھی ہوا کہ کئی ایک شیعہ اور صوفی سنّی انتہائی پڑھے لکھے خواتین و مرد نے مجھے کوفہ کے بارے میں تحسین کے جملے کہنے اور لکھنے پہ معتوب کیا اور اس حوالے سے جناب بی بی زینب اور اس سے پہلے جناب علی المرتضی کے کئی جملوں کے اجمالی اور عمومی خطاب سے انہوں نے یہ کہنے کی جسارت بھی کی کہ ‘کوفہ ‘ سارے کا سارا مذمت کے دائرے میں لانا خود مکتب اہل بیت کا شعار ہے-

میں نے 12 سال اسی تگ و دود میں گزارے اور مسلسل چیزیں پڑھنا شروع کیں اور اپنے اس مقالے کو رنگ و روپ میں ڈھالنا شروع کردیا-مری تفہیم حرف آخر کا درجہ تو نہیں رکھتی لیکن پھر بھی میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں نے کوفہ کے سارے رنگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے جس تصویر کو بنانے کی کوشش کی ہے وہ کم از کم آنے والے محققین کی راہ آسان ضرور بنائے گی-اور مرے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ میں نے نصر بن مزاحم بارے متبادل نکتہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی تھی ایسے ہی کوفہ بارے یہ متبادل نکتہ نظر کم از کم اردو پڑھنے والوں کے ڈہنوں کو صاف شفاف کرنے کا موقعہ فراہم کرے گا-اگر اوپر بیان کردہ کتب اور مقالہ جات کو اردو میں منتقل کرنے کا بیڑا کوئی تحقیقی بورڈ سنبھال لے تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جنوبی ایشیا کے اندر اردو پڑھنے والی کمیونٹی کے اندر ‘تکفیری آئیڈیالوجی ” کا رام رام ستے ہوجائے گا-اور ریڈیکل سلفی ازم و دیوبندی ازم کے لئے کے بہت بڑے چیلنج کا سبب بنے گا-اور ہمارے ہاں یہ جو کوفہ کی مادی سماجی تاریخی جڑوں سے عدم آگاہی کے سبب ‘مارکسی وہابیت ‘ یا ‘نام نہاد لبرل وہابیت ‘ جیسی انہونیاں ہورہی ہیں اس کا سدباب بھی کیا جاسکتا ہے-کوفہ کی مادی –سماجی جدلیاتی جڑوں کی ازسرنو تلاش خود یورپ اور امریکہ کے معاشروں میں سعودی فنڈنگ سے پھیلتی سلفی –دیوبندی ریڈکلائزیشن سے پیدا ہونے والی خوفناک صورت حال سے نکلنے کی سبیل بھی بن سکتی ہے –

کوفہ کی سماجی –سیاسی اجتماعیت

کوفہ کی سوشو-پولیٹکل زندگی کے بارے میں اگر ہمیں بات کرنی ہے تو ہمیں کوفہ کی حیات اجتماعی کے تین بڑے رجحانات کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے-کوفہ میں ایک طرف تو وہ گروہ تھا جسے ہم سیاسی طور پہ شیعان علی کہہ سکتے ہیں اور اس سے ایک گروہ ٹوٹ کر الگ ہوا جسے دنیا خوارج کے نام سے جانتی ہے اور تیسرا گروہ قبائلی اشراف کا گردانا جاتا ہے-کوفہ کی اجتماعی سیاسی زندگی کا یہ تین بڑے گروہ ہی مظہر تھے-

اور ان تینوں گروہوں نے اگر دیکھا جائے تو جناب عمر کے زمانے ہی میں ‘سیاسی مزاحمت ‘ دکھانا شروع کردی تھی اور پھر بنوامیہ کے خلاف کوفہ کا جو سیاسی کردار ہے وہ انہی تین گروہوں کی روش سے شکل وصورت پاتا ہے-اب ہمارے ہاں اکثر و بیشتر جو مذہبی سکالرز ، زاکرین اور مولوی حضرات ہیں ان کا طریقہ کار خاصا چیزوں کو گڈمڈ کردینے والا ہے-وہ کوفہ پہ بات کرتے ہوئے کوفہ میں سیاسی اشتراک اور افتراق اور وہاں پائی جانے والی سیاسی تقسیم اور قبائلی تقسیم کو عمومی طور پہ نظر انداز کرڈالتے ہیں اور کوفہ کے رہنے والوں کے کردار کی ایک عمومی سیاہ تصویر پینٹ کرنے لگ جاتے ہیں-کوفہ کے بارے میں ایک جامع تصویر بنانے میں ہماری مدد لبنان نژاد امریکی پروفیسر  طیب ال-حبری کی کتاب

Parable and Politics in Early Islamic History :The Rashidun Caliphs

بھی کرتی ہے-طیب الحربی اس کتاب میں کوفہ کے اندر بتدریج ابھرنے والی سیاسی تقسیم بارے بہت ہی تفصیل سے بیان کرتا ہے اور شاید یہ کتاب کوفہ پہ عمومی طور پہ اختیار کی گئی تعبیرات سے ہٹ کر ایک تیسری تعبیر پیش کرنے والی کتاب بھی ہے-مجھے اس کتاب کو پڑھنے کے دوران ہی یہ اندازہ ہوا کہ کیسے مورخ بلازری نے کوفہ کی سیاسی و سماجی زندگی کو سمجھنے میں ہماری بہت زیادہ مدد کی-یہ بلازری کی کتاب الانساب ہے جس میں ‘بنو عبد شمس ‘ قبیلے بارے لکھتے ہوئے بلازری معاویہ کے زمانہ حکمرانی میں یہ زکر کرتا ہے کہ سعید بن العاص نے ایک خط معاویہ کو لکھا جس میں اس نے بتایا کہ کوفہ کے اندر ایک گروپ ‘قراء ‘ کا ہے جسے اسے نے نہایت متقی ، باصفا ، بہترین اور امانت دار قرار دیا حکومت کے خلاف بدامنی پھیلانے کا سبب بن رہا ہے-

اس گروہ کی شکایت طبری کی روایت کے مطابق کوفہ کے قبائلی اشراف نے بھی کی اور معاویہ کو سعید بن العاص گورنر کوفہ نے ان اشراف کی جانب سے معاویہ کو خط  لکھا کہ ان سے نمٹا جائے ورنہ حالات بگڑجائیں گے-طیب الحربی بلازری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بلازری نے خود ‘قراء ‘ کا خط کا متن درج کیا جس میں اہل قراء نے معاویہ کو لکھا: تم نے اپنے عزیز و اقرارب میں عہدے بانٹ رکھے ہیں اور ہم پہ ان کو مسلط کردیا ہے اور آج کوفہ کے اندر ایک تقسیم ہے جس میں ایک جانب وہ لوگ ہیں جو تمہارے مددگار ہیں اور یہ ظالم اور جبر کرنے والے لوگ ہیں جبکہ دوسری طرف مظلوموں کے مددگار ہیں جو ظلم کے شکار لوگوں کے ساتھ ہیں-

طیب الحربی کہتا ہے کہ بلازری نے اس خط کو لکھنے والوں کے نام بھی لکھے ہیں جن میں مقبل بن قیس الریاحی ،عبداللہ بن الطفیل

 العامری،مالک بن حبیب التمیمی ،یزید بن قیس ارہابی ،حجر بن عدی الکندی ، عمر بن حمق الخزاعی ،سلیمان بن صرد الخزاعی ،مصیب بن نجبہ الفزاری،زید بن حسن الطئے ،کعب بن عبدالنھادی ،زید بن ناضر ،بشیر بن مالک ،مالک بن الدیان الحریثی ،مسلمہ بن عبدالقاری  شامل تھے اور الحربی کا کہنا ہے کہ یہ وہ گروہ ہے جو کوفہ کے اندر  اصل میں شیعان علی کا عکاس ہے-اور یہ کوفہ کا وہ گروہ ہے جس کی مزاحمت کے تاریخی شواہد ہمیں خود جناب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے ہی ملنا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ مزاحمت جناب خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں اپنے عروج پہ پہنچ جاتی ہے اور جسے اہل قراء کہا جارہا ہے اسی کا بہت غالب رول تھا زمانہ خلافت عثمانی میں کوفہ کے گورنر کے خلاف سیاسی –

مزاحمتی تحریک چلانے کا-طیب الحربی کتب تاریخ و تفسیر و احادیث و اسماء الرجال میں آنے والے واقعات کے دوران لوگوں کے جملوں اور امثال سے کوفہ کی سیاسی و سماجی تقسیم اور مزاحمت و لڑائی کی ںظریاتی و فکری بنیادوں اور پھر اس پہ بننے والے سیاسی و مذہبی گروہوں کی تفہیم کو آسان بنانے میں ہماری مدد کرتا ہے-عراق میں حضرت علی کے حامیوں میں اگر کوئی گروہ سب سے زیادہ مخلص اور  جو بعد میں امامت کے منصوص من اللہ ہونے پہ بہت کلئیر نظر آیا اور جس نے کوفہ سمیت عراق کے اندر بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم کی اس کے اولین نشان تو ہمیں انہی لوگوں میں ملتے ہیں جن کو طبری ،بلازری ، ابن اثیر ، ابن اعثم کوفی ‘اہل قراء ‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے-جبکہ حضرت علی اور اہل بیت کے حامیوں میں باقی عناصر جن میں عراق کے بدوی اور عرب قبائل کے اکثر اشراف بھی شامل ہیں کی وفاداریاں نشیب و فراز کا شکار رہیں اور انہی میں سے خوارج بھی تھے جو کہ صفین کی جنگ میں ‘تحکیم ‘ کو عذر بناکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے الگ ہوگئے-

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دیگر آئمہ اہل بیت کی حمایت میں وفاداری کے ساتھ سرگرداں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جن کا امامت بارے نظریہ وہ تو نہیں تھا جسے ہم شیعہ امامیہ کے ہاں پاتے ہیں مگر انہوں نے خانودادہ اہل بیت کا ساتھ نہ چھوڑا اور جیسے بن پڑا آپ کا ساتھ دیا-مسلم تاریخ کی ابتداء میں مذہبی –سیاسی گروہ بندی  کی جانچ کرنے کے لئے جولیس ویل ہاچس (جرمن مشترق ) کی کتاب ‘ابتدائی زمانہ اسلام میں مذہبی –سیاسی تقسیم /گروہ بندی ‘ ایک اہم دستاویز ہے اور اس میں ہاچس نے جس طرح سے خوارج کی سماجی ترکیب کو بیان کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے-ڈاکٹر حسین محمد جعفری اگرچہ اپنی اوپر زکر کردہ کتاب میں شیعی اسلام کی اصل اور ابتدائی تشکیل کا جائزہ لیتے ہوئے ان کتابوں کا تذکرہ کرنا بھول گئے یا انہوں نے ضروری نہیں سمجھا مگر ان کی کتاب کا پانچویں باب کی کئی ایک سطریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے سامنے یہ کام بھی تھا لیکن طوالت سے بچنے کے لئے انہوں اس کا تذکرہ زیادہ ضروری خیال نہ کیا-

ایک اور کتاب جو حامد دباشی نے لکھی ‘ اتھارٹی ان اسلام : فرام رائزنگ آف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹو اسٹبلشمنٹ آف امویہ’میں بھی ابتدائی سیاسی –مذہبی تقسیم اور اس حوالے سے جو کوفہ کا کردار ہے اس پہ کافی تفصیل سے بات کی گئی ہے- جیفری ٹی کینی کی کتاب ‘دی مسلم ریبلز :خوارج اینڈ ایکسٹریم ازم ان ایجپٹ ( مسلم باغی : خوارج اور مصر میں انتہا پسندی ) بھی ایک بہترین کتاب ہے جو کہ اگرچہ کوفہ سے براہ راست ڈیل نہیں کرتی لیکن اس میں ناردن میسوپوٹیمیا –شمالی عراق میں خوارج کے بتدریج پھیلاؤ اور ان کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے کیمپ سے الگ ہونے کے اسباب پہ کافی اچھی روشنی ڈالی گئی ہے-ایک اور بنیادی بات بھی کوفہ اور عراق کو دسکس کرتے ہوئے ذہن نشین رہنی چاہئیے اور وہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور اہل بیت اطہار کے گرد جو لوگ اکٹھے ہوئے جن میں ان کو امام منجانب اللہ ماننے والے اور ان کی امامت کو نص کا معاملہ نہ سمجھنے والے بلکہ کئی ایک کسی بھی آدمی کے لئے جواز امامت و خلافت خیال کرنے والے سبھی شامل تھے اور ان تینوں گروہوں کے اندر شامیوں اور امیوں کے خلاف سیاسی و حربی سٹریٹجی اختیار کرنے کے حوالے سے کافی انتشار پایا جاتا تھا اور کم از کم تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اکثریت اہل عراق کی عام آدمیوں میں سے حربی راستے کی بجائے خیالی و مثالی امن کی متلاشی تھی

اور اس تلاش میں وہ جدال کے راستے پہ چلنے سے گبھرانے لگی تھی جس کے نتائج خود ان کے اپنے حق میں بہت برے نکلے-عراق کے اشراف قبائل کی اکثریت جاہ پسندی کا شکار تھی اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی مکمل جیت اور فتح نہیں چاہتی تھی اور یہی اس کا خیال امام حسن کے زمانے میں بھی تھا اور اشراف قبائل کی اکثریت بنوامیہ کے آگے ڈھیر ہوگئی تھی بلکہ اس نے شامیوں کے زریعے ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی جس نے نہ صرف معاویہ ابن سفیان کو پوری مسلم ریاست کا بادشاہ بننے کا موقعہ فراہم کیا بلکہ شہادت امام حسن سے لیکر واقعہ کربلاء تک کے المیے اس عراقی –کوفی قبائیلی اشرافیہ کی موقعہ پرست فطرت سے پیدا ہوئے-لیکن اہل عراق نے بالعموم اور اہل کوفہ نے بالخصوص آہستہ آہستہ اپنی غلطیوں اور خامیوں پہ قابو پایا اور شیعان علی کا کیمپ بھی مضبوط ہوتا چلاگیا-بنوامیہ ہی نہیں بلکہ بنوعباس کے خلاف مزاحمت کا سب سے بڑا کیمپ بھی علوی کیمپ ہی بنتا چلا گیا-اور واقعہ کربلاء کے بعد یہ کوفہ ہی تھا جہاں نئی توانائی اور قوت کے ساتھ شیعی تحریک کا ظہور ہوا اور علی شناسی کے چراغوں کی روشنی تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی –

یہ درست ہے کہ واقعہ کربلاء کے بعد جناب امام سجاد سے لیکر امام جعفر صادق تک آئمہ اہل بیت مدینہ منورہ میں ہی رہے لیکن ان کی تحریک کا مرکز کوفہ ہی رہا اور علی شناسی وہیں سے بلاد اسلامیہ کے اندر پھیلتی رہی –آج کے معاصر عراق ، لبنان اور اس کے ملحقہ علاقوں میں علوی کیمپ ہی سب سے بڑا مذہبی –سیاسی کیمپ ہے اور جب میں علوی کیمپ کی بات کرتا ہوں تو اس میں شیعہ امامی ، اسماعیلی ہی نہیں بلکہ صوفی سنّی بھی شامل ہوتے ہیں جن کی اصل جناب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں بننے والے عمومی شیعان علی کے نام سے موجود سیاسی-مذہبی گروپ کے اندر ہی پیوست ہیں-کوفہ اور عراق کے باسیوں نے اموی و عباسی اور بعد کی ملوکیتوں کے جبر وستم سہے اور ان کی اکثریت نے اپنے آپ کو علوی کیمپ سے الگ کرنے سے انکار کیا-یہی وجہ ہے  سارے اموی بادشاہوں نے عراق کو زبردست ریاستی جبر وتشدد کا نشانہ بنایا-اگر اہل عراق اور اہل کوفہ کی اکثریت کی تصویر ویسی ہوتی جیسی ہمیں ‘کوفی لا یعفوی ‘ جیسے القابات اور جملوں میں نظر آتی ہے تو اتنے بڑے پیمانے پہ ظلم وجبر اور ستم کرنے کی امویوں اور عباسیوں کو ضرورت کیا تھی ؟ کیوں جناب امیر شام کو کوفہ کی جامع مسجد میں آکر یہ کہنا پڑا تھا کہ اگر اہل کوفہ نے اپنی روش ترک نہ کی تو تلواروں سے ان کو سیدھا کردیا جائے گا –

کونسی روش تھی اہل عراق و اہل کوفہ کی اور کون لوگ تھے ان کے مخاطب ؟یہ سوالات کم اہم نہیں ہیں –ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جب ‘کوفی ‘ کا استعارہ یا ‘کوفی ذہنیت ‘ کی اصطلاح ‘بے وفائی ، دھوکہ بازی ، موقعہ پرستی ،بزدلی ، انحراف ، ہوس ، لالچ ‘ کے معانی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، امام حسن و امام حسین و حضرت زینب بنت علی ، امام زین العابدین ، امام باقر و امام سجاد کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے تو اس سے صاف صاف مراد ایک طرف تو کوفہ و اہل عراق کے وہ قبائلی اشراف ہیں جنھوں نے نظریہ پہ مال اور سماجی مرتبہ کو فوقیت دی اور وہ جاکر امویوں سے مل گئے ،یا وہ جنھوں نے صفین میں تحکیم کے وقت آپ کو جھوڑ دیا یا وہ جنھوں نے جاکر امویوں سے ساز باز کرلیا-ملامت کا مصداق شیعان علی کے نام سے موجود ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے خیالی امن پرستی کے زعم میں جناب بوتراب و جناب امام حسن کی سٹریٹجی کی بجائے نام نہاد گفت و شنید پہ زور دیا اور لڑائی سے کترانے لگے-لیکن اس منفی ترکیب کا مصداق کوفہ و عراق کے وہ جانثار ہرگز نہیں ہیں جو عراق میں اور کفہ میں بسے عرب قبائل کے اندر جابجا موجود تھے اور اہل قراء کے نام سے ان میں سے چند ایک کے نام تاریخ میں سامنے آگئے-ان سب کو نظر انداز کرنا اور سارے کوفہ و اہل کوفہ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرنا تاریخ کے چہرے کو مسخ کرنے کے مترادف ہے –

کوفہ شہر میں ریڈیکل پولیٹکل نظریات کی مقبولیت بارے پہلے پہلے عام طور پہ مورخین کا خیال یہ رہا کہ اس کا عروج خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا اور اکثر مورخین نے یہاں پہ انقلابی مذہبی-سیاسی خیالات کے ابتدائی بیجوں کا سراغ لگانے میں زیادہ سے زیادہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دنوں تک ہی تلاش کی –لیکن یوسف خلاف کے مقالے “ساتویں صدی کے درمیان کوفہ میں سیاسی صف بندی ” مقالے کی اشاعت نے اس سوچ میں انقلابی تبدیلیوں کو جنم دیا-یوسف خلاف کا یہ مقالہ جرمن مستشرق جولئیس ویل ہاسچ کی تحقیق “ابتدائی اسلام میں مذہبی سیاسی گروہ بندی ” میں بیان کئے جانے والے مقدمات کی توسیع معلوم ہوتا ہے-اور عراق کی فتح اور وہاں کے بندوبست اراضی ، بیت المال کے نظام کو چلانے کا طریقہ کار اور سواد و اشراف جیسی دو بڑی اہم سماجی ترکیب اور اس دوران کوفہ کے بتدریج ایک چھاؤنی سے اربن شہر بن جانے کے دوران پیدا ہونے والی تبدیلیوں نے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں اس شہر میں ایک ریڈیکل ، انقلابی مذہبی سیاسی تحریک کے ابتدائی بیج بودئیے تھے-اور عمرو بن العاص کے زمانہ گورنری کے اندر ہی کوفہ میں مدینہ کی جانب سے قائم کردہ اتھارٹی کو چیلنج کردئے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا-ایسے شواہد موجود ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہی کوفہ کے لوگوں کا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خانوادہ اہل بیت اطہار سے روابط کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا –

کوفہ شہر کی تاسیس

کوفہ شہر کی بنیاد 17 ھجری /638ء میں اس وقت رکھی گئی جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت مدینہ میں قائم ہوئے تیسرا سال ہوچلا تھا-اصل میں 15 ھجری /636ء کو قادسیہ کی جنگیں اپنے اختتام کو پہنچیں اور مسلم عرب لشکروں کو فتح ہوئی اور اس کی قیادت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کررہے تھے-اور اسی سال جلولاء نامی ٹاؤن بھی فتح کرلیا گیا جوکہ نھر دیالہ کے کنارے آباد تھا اور اس کا ساسانی دور میں فارسی نام سیروان دریا تھا-سعد بن ابی وقاص کو حضرت عمر نے جلولاء میں ٹھہرجانے کا حکم دے دیا-حسین محمد جعفری سمیت دیگر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ حکم ابتک کی فتوحات سے حاصل ہونے والے علاقوں میں عرب مسلم قبضے کو مضبوط بنانا تھا اور وہاں پہ انتظام و انصرام کو بہتر کرنا تھا-اس وقت عرب لشکر ساسانی دارالحکومت مدائن میں قیام پذیر تھا اور عرب لشکر کے لوگوں کو یہ شہر اپنی حبس زدگی اور گنجان آباد ہونے کی وجہ سے بہت ہی خراب فضاء کا شہر لگتا تھا-یہاں صحراء کی جیسی صاف شفاف ہوا کی موجودگی نہیں تھی-اور چراگاہوں کی بھی اشد کمی تھی-اس حوالے سے جب لشکر میں شکایات بڑھ گئیں تو سعد بن ابی وقاص نے خلیفہ دوئم حضرت عمر کو سارا حال لکھ بھیجا اور اس پہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے جن لوگوں سے مشاورت کی ان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی شامل تھے اور آپ نے مشورہ دیا کہ مدائن سے عرب لشکر کو ایسی جگہ من

تقل کیا جائے جو صحرا کے نزدیک ہو اور وہاں کی آب و ہوا بھی عربوں کو موافق آئے-جگہ کے انتخاب میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے دو انتہائی قریبی ساتھی حضرت سلمان فارسی و حضرت حذیفہ بن الیمان ہی کام آئے-انہوں نے دو تین جگہوں کو دیکھا اور طویل غور و فکر کیا گیا اور قریب قریب دو سال کا عرصہ لگا علاقہ چننے میں –انہوں نے میسوپوٹیمیا کا قدم علاقہ الحراء کے نزدیک دریائے فرات کے مغربی کنارے کی جگہ پسند کی-تو یہاں عرب لشکر چلا آیا اور یہیں پہ خیمے لگادئے گئے-اور دریائے فرات کا مغربی کنارہ الحراء کے ںزدیک آہستہ آہستہ ایک نئے شہر کی بنیاد پڑگئی اور اس کا نام کوفہ پڑگیا –کوفہ شہر کی بنیاد پڑتے وقت ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تذکرہ کسی نہ کسی حوالے سے ملتا ہے اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کوفہ شہر اپنی تشکیل کے ساتھ ہی اہل بیت اطہار کی جانب رجحان کو سمونے والا شہر ثابت ہوا تھا-

عرب لشکر کا اگر ہم علاقائی پس منظر دیکھیں تو اس میں کئی علاقوں سے شریک عرب جنگجو شامل تھے اور یہ سب کے سب وہ تھے جنھوں نے ساسانیوں کے زیر حکمرانی عراق کو فتح کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا-اور بقول یوسف خلاف ان کو بعد ازاں مورخوں نے اہل الایام القادسیۃ بھی لکھا –اور یہی” اہل الایام القادسیۃ “دریائے فرات کے مغربی کنارے پہ آکر خیمہ زن ہوئے-اور یہ بھی خیال رہے کہ کوفہ میں بعدازاں جو “اشراف قبائلی طاقتور سماجی گروپ ” وجود میں آیا اس کے اکثر اراکین “اہل الایام القادسیۃ ” ہی تھے اور یہی بعد ازاں کوفہ کا سب سے  بڑا مرفہ الحال اور دولت مند بنے-اور اسی گروپ کے زیادہ تر اشراف عرب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حربی اور جارح سٹریٹجی کے مدمقابل مرتاض قسم کی فراریت پہ مبنی پالیسی کو اہل عراق پہ تھونپنے کی کوشش کی –لیکن یہ بات سب ” اہل الایام القادسیۃ ” کے بارے میں درست نہ ہے –

ان میں کئی  ایک جناب علی المرتضی کے بے مثال  رفیق ثابت ہوئے-یوسف خلاف ، ویلہاسچ جرمن مستشرق اور طیب الحربی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر حسین محمد جعفری نے بھی کوفہ شہر کی بنیاد بارے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ان سب کا کم از کم اس بات سے اتفاق ہے کہ کوفہ شہر کو پہلے پہل ایک گریژن / چھاؤنی کی شکل دینے کا ارادہ تھا –اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص کو خط میں لکھا کہ ایک “دارالہجرت و الجہاد و الکاروان ” کی ضرورت ہے-یعنی ایک تو وہاں جگہ جگہ سے شامل ہونے والے عرب جہادی ٹھہریں گے ، پھر وہیں سے عراق کے مفتوحہ علاقوں پہ کنٹرول کو مستحکم کرنے کا کام بھی کیا جائے اور یہ لوگوں کے باہمی صلاح مشورے کا مرکز بھی بن جائے-اس سے ثابت ہوا کہ ابتداء میں یہ ایک چھاؤنی بنانے کا فیصلہ تھا اور اسے ایک سیٹلڈ سٹی بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں تھا-

یہاں پہ زرا ٹھہر کر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت بھی ہے کہ کیا عربوں کو ٹاؤن / شہر جیسے کہتے ہیں ان کو بسانے کا کوئی تجربہ اسے پہلے تھا کہ نہیں-حسین محمد جعفری ، ڈاکٹر محمد حسین دتّو ، مارٹن ہنڈز سمیت کئی ماہرین تاریخ کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ ایک ایسا شہر جو

سیاسی سماجی اکائی کے طور پہ بسایا جائے یہ تصور عربوں کے ہاں ابھی بہت دور تھا-کوفہ سے پہلے بصرہ کو بسایا گیا تھا-اور بصرہ کے اندر زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تھی کیونکہ وہاں دو ہی بڑے عرب قبیلے تھے بنو تمیم اور بنوبکر تو ان کو بسانا آسان تھا-لیکن سعد بن ابی وقاص کا جو لشکر تھا ایک تو وہ کئی قبیلوں اور ان کی ذیلی شاخوں سے تعلق رکھنے والے عربوں پہ مشتمل تھا-حسین محمد جعفری نے جن زرایع سے اس لشکر کی تعداد معلوم کی ان زرایع کے مطابق 15ہزار سے 20ہزار سپاہی تھے جو دور دراز کے مختلف علاقوں سے آئے تھے اور مختلف عرب قبائل اور ان کی شاخوں سے تعلق رکھتے-ڈاکٹر محمد حسین دتّو کے بقول محتاط اندازے کے مطابق عرب لشکریوں کی تعداد 20ہزار اور فارسی سپاہیوں کی تعداد 4ہزار تھی اور یہ فارسی سپاہ دیلم نام کے ایک لیڈر کے تحت جمع تھی-عرب لشکریوں کا تعلق زیادہ تر بنو سلیم ، ہمدان ، بجابلہ ، نماللات،بنو تغلب ، بنو اسد ، نخاہ ، کندہ ، ازد ، مزینہ تمیم محرابامریم جدلہ ، اخلاط، جہنیہ ، محجاز اور ہواون وغیرہ سے تھا-اور یہ سب ملے جلے تھے اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے پہ افرادی قوت کے اعتبار سے زیادہ طاقت نہیں رکھتا تھا –اور یہ ایک طرح سے بہت زیادہ تنوع والی صورت حال تھی-سعد بن ابی وقاص نے یہ کیا کہ ان کی ایک بڑی تقسیم کی-اور یہ نزاری عرب اور یمنی عرب کی ایک بڑی تقسیم تھی –لیکن یہ تجربہ کچھ زیادہ کامیاب نہ رہا اور جلد ہی سعد بن ابی وقاص نے اس سماجی تقسیم کو بدل ڈالا

Source:

کوفہ اور اس کی سیاسی سماجی اجتماعیت

 

Comments

comments