ناھض حتر : تکفیری ثقافت کا ایک اور شکار
بائیں بازو کے عرب دانشور ، صحافی ناھض حتر کے ایک مذہبی جنونی کے ہاتھوں اردن کے دارالخلافہ عمان میں سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے سیڑھیوں پہ مارے جانے پہ میڈیا اسی طرح سے تقسیم ہے ،جیسے یہ شام ، یمن اور عراق میں جاری دہشت گردی کے بارے میں تقسیم ہے اور یہ تقسیم مڈل ایسٹ میں عرب معاشروں کے اندر پائی جانے والی تقسیم کی عکاس بھی ہے-مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ناھض حتر کو اردن سمیت عرب معاشروں میں امریکہ نواز اور سعودی نواز وہابی اور لبرل حلقوں کی اکثریت سے کوئی ہمدردی نہیں ملی ہے-ان کے قتل کی یہ حلقے اگر مذمت بھی کرتے ہیں تو پہلے وہ ناھض حتر کو ملامت کرتے ہیں اور اس کے جرائم کی ایک فہرست کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے-نیویارک ٹائمز جیسا اخبار ناھض حتر پہ توھین اسلام کے الزام کا زکر کرتے ہوئے جب اس کی موت بارے خبر دیتا ہے تو اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتانا بھول جاتا ہے ناھض حتر کا فیس بک اکاؤنٹ پہ شئیر کردہ کارٹون داعش کے تصورات کی مذمت میں تھا اور ناھض حتر کسی بھی لحاظ سے ‘لبرل فاشسٹ ‘ نہ تھا اور نہ ہی کوئی اسلامو فوب تھا-نیویارک ٹائمز کی خبر میں یہ سب شاید اس لئے نہ درج ہوسکا کہ ناھض مڈل ایسٹ میں تباہی و بربادی کی بڑی زمہ داری جہاں آل سعود اور اس کے ہرکاروں پہ ڈالا کرتا تھا ،وہیں وہ اس کا زمہ دار امریکی سامراج کو بھی ٹھہراتا تھا-
ناھض حتر کی حمایت میں اردن ، کویت ، بحرین ، یو اے ای ، قطر ، سعودی عرب کے میڈیا میں آج کوئی بھی ہمدردی رکھنے والا آرٹیکل یا فیچر شایع نہیں ہوا-لبنان میں بھی سعد حریری کے حامی میڈیا نے خاموشی اختیار کی ہے-اور زیادہ تر ردعمل منفی ہی ہے-لیکن بیروت سے بائیں بازو کے ریڈیکل روزنامہ “الاخبار ” نے ایک مرتبہ پھر اس خاموشی کو توڑا ہے –ایک خصوصی گوشہ اس اخبار کی عربی ویب سائٹ پہ موجود ہے-جس میں اس اخبار کے مالک اور ایڈیٹر ابراہیم امین اور بیار ابی صعب کے مضامین شامل ہیں-
ابراہیم امین مدیر روزنامہ الاخبار نے ‘ اردنی نظام نے ناھض حتر کو مار ڈالا ‘ کے عنوان سے لکھا ہے،
” میں لبنان میں خانہ جنگی کے ان دنوں کی یاد دلانا چاہتا ہوں جب پورے لبنان کو تاریک ترین فکر انکار نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا –یہ وہ دن تھے جب ہر دوسرے کی فکر کا انکار ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ دوسروں کے الفاظ ، لباس ، رنگ ، خورد و شرب تک کا انکار معمول بن گیا تھا –
یہ وہ فضا تھی جس نے ہر زندہ شئے کو گھیر رکھا تھا –ایسی فضا جس میں عقل ساقط ہوجایا کرتی ہے –اور انسان جس جبلت کے سبب حیوان ناطق کہلاتا ہے وہ ہی اس سے ساقط ہوگئی تھی-حیوانیت کا راج تھا-کسی محرمات کا خیال نہ تھا اور نہ ہی کوئی عقل و منطق کا لحاظ رکھ رہا تھا –
اسی طرح کی حیوانیت ، اشتعال انگیزی اور خون آشامی کا مظاہرہ عمان اردن میں سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے دیکھنے کو ملا-ایک وحشیانہ قتل جس کو اسی فکر کے ساتھ منسلک فرد نے کیا جس فکر کے زیر اثر پوری دنیا دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے نہ رکنے والے سلسلے میں پھنسی ہوئی ہے-یہ ایک ایسی فکر ہے جس کے زکر اثر مجرم خود کو سورما اور ھیرو خیال کرنے لگتا ہے یا وہ اپنے ان دوستوں ، رفقاء اور دیگر سے مدح و تعریف کا منتظر ہوتا ہے جو اسی طرح کی فکر اور عمل رکھتے ہیں –”
ابراہیم امین سوال اٹھاتے ہیں کہ ‘اس قتل کی زمہ داری کس پہ عائد ہوتی ہے ؟ ‘
اور پھر وہ کہتے ہیں کہ ناھض کے قتل کا زمہ دار اردنی نظام ریاست ہے-جب حکومت ، اس کے وزراء ، مشیر اور دیگر لوگوں نے ناھض کو اعلانیہ ناجائز طور پہ ” توھین ” کا مرتکب قرار دے ڈالا اور اردنی میڈیا سے ناھض کی تکفیر کی جاتی رہی اور اس کا ميدیا ٹرائل شروع کردیا گیا اور اسے قتل ہونے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا تو واضح طور پر یہ اردنی نظام ہے جس نے ناھض کے قتل کی راہ ہموار کی –
ابراھیم امین کے مطابق اردن کی حکومت کے زیر سایہ تکفیری کام کرتے ہیں اور ان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جیسے اردنی حکام نے ان تکفیریوں کو دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ملکر دہشت گردی کا بڑا نیٹ ورک شام میں قائم کرنے کی اجازت دی –اور اسی نے آج ناھض کو قتل کردیا-اردن کا بادشاہ اپنے زوال کو روک نہیں سکتا لیکن اس نے اردن کو مستقبل میں داعش جیسے تکفیریوں کی جنت ضرور بنا ڈالا ہے-اور اردن کو داعش کا مفتوحہ علاقہ بنانے کا راستہ بھی صاف کیا ہے-اردن کے حکمران تکفیری کلچر کے مالک ہیں اور ان کا حب الوطنی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے-
بیار ابی مصعب نے ” التفکیر فی زمن التکفیر ۔۔۔من قتل ناهض حتّر على أدراج قصر العدل” – تکفیر کے زمانے میں تفکیر : ناھض حتر کو عدالت کی سیڑھیوں پہ کس نے قتل کیا – کے عنوان نے ایک فکر انگیز مضمون لکھا ہے اور بیار ابی مصعب بھی یہی کہتا ہے کہ یہ ایک ثقافت ہے جو وہابیت کے زیر اثر پھیل رہی ہے اور اس سے بذات خود علمی و فکری حیات عرب معاشروں میں خطرے میں پڑگئی ہے-وہ دانشور فرج فودہ کی مثال دیتا ہے کہ کیسے ایک علمی بحث کو تکفیر میں بدل کر ان کے خلاف کفر اور ارتداد کے فتوے جاری کی گئے جبکہ فواد کا قصور بھی یہی تھا کہ وہ سلفی آئیڈیالوجی کی تباہ کن روش کے ناقد تھے- اسی طرح یبرالی المصری اور اردنی الممعانی کے قتل اسی تکفیری ثقافت کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہوئے-یہاں تک کہ الاخبار بیروت کے مدیر ابراہیم امین پہ بھی یہ الزام لگایا گیا –
بیار ابی مصعب بالکل ٹھیک کہتا ہے کہ ناھض حتر کا قاتل ہو یا اس طرح کے دوسرے قاتل یہ انتہا پسندی اور شدت پسندی کی ایک بڑی مشین کی پیداوار ہیں جسے وہابی آئیڈیالوجی نے جنم دیا ہے اور اس نے پوری تکفیری ثقافت کو ہمارے معاشرے پہ مسلط کردیا ہے-اور اس مشینری کو نہ صرف عرب بادشاہتوں ، آمریتوں نے تیل پانی دیا بلکہ خود مغربی عالمی طاقتوں نے بھی اسے بڑھاوا دینے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس کی قیمت پوری دنیا ادا کررہی ہے- ناھض حتر شہید شام ہے –
ناھض حتر اردن سمیت پورے عرب کی ورکنگ کلاس کے حقوق کا حامی تھا –وہ عورتوں کے حقوق کے لئے بلند آہنگ کے ساتھ بولا کرتا تھا-
ناھض حتر کے قتل کے جواز کے لئے اردنی معاشرے کے اندر اور میڈیا پہ بحث کا انداز بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے موقعہ پر دیکھنے کو ملا تھا یا سید خرم زکی کے قتل کا جواز ان کے سماء ٹی وی میں ایک پروگرام کے دوران کہے گئے ایک جملے کو بنایا گیا تھا اور ایسے ہی شہباز بھٹی کے قتل کی راہ ہموار کی گئی تھی – ناھض حتر کا قتل اس لئے ہوا کہ وہ مذہبی فاشزم کی ایک بدترین شکل تکفیریت اور تکفیری ثقافت کے بارے میں وہ خیالات نہیں رکھتا تھا جو خیالات اردنی سرکاری ، درباری تکفیری دانش کے تھے (اگر اسے دانش کہا جائے تو )
ہمارے ہاں بھی تکفیری ثقافت اپنے عروج پہ ہے اور نظریات و افکار کے صحت مند جدال کا دائرہ روز بروز سکڑتا جارہا ہے-اور یہ ثقافت بہت واضح طور پہ سعودی فنڈنگ کی مرہون منت تو ہے ہی ساتھ ساتھ ہماری سیاسی اور عسکری اشرافیہ کے اندر اس ثقافت کے بہت سے پالنہار بیٹھے ہوئے ہیں – پاکستانی اردو پریس پہ تکفیری ثقافت کو پروان چڑھانے والوں کا غلبہ ہے
Source:
ناھض حتر : تکفیری ثقافت کا ایک اور شکار