پاکستانی کی سیاسی جماعتیں اور ان کا ووٹ بینک

16966-partymash-1366453826-789-640x480

ایک وقت تھا جب پپلز پارٹی کی صورت میں ایک ایسی جماعت موجود تھی جسے کافی حد تک ایک وفاقی یا چاروں صوبوں میں نمائندگی رکھنے والی جماعت کہا جاتا تھا۔ چاروں صوبوں کی زنجیر جیسے نعرے لگائے جاتے تھے۔

پھر بینظیر کی شہادت کے بعد یہ سکڑ کر سندھ کی جماعت بن گئی جس کے ووٹ بینک کا انحصار اندرون سندھ اور دیہی علاقوں کی سندھی آبادی پر مشتمل ہے۔

نون لیگ کی بات کریں تو معاملہ صرف پنجاب تک نظر آتا ہے اور اُس میں بھی جنوبی پنجاب میں معاملہ ففٹی ففٹی ہی چلتا ہے جہاں سیاست گدی نشینی اور مخصوص خانوادوں کے گرد گھومتی ہے۔ مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نون لیگ کا ووٹ بینگ بہت حد تک پنجابی ووٹ پر انحصار کرتا ہے۔ تحریک انصاف نے پنجاب میں انٹری تو بہت دھواں دار ماری تھی لیکن اب وہ کافی حد تک بیک فٹ پر ہے۔

تحریک انصاف کا بیشتر ووٹ بینک یا تو پنجاب میں ہے اور یا پختونخواہ جہاں اُسکی حکومت قائم ہے۔ اسکے ووٹ بینک پر بہرحال لسانی چھاپ ابھی تک نہیں ہے لیکن پنجاب اور پشتون رنگ غالب ہے۔
اے این پی کی سیاست پشتون سنٹرلائیزڈ ہے۔

مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک تو ظاہر ہے وہی مکتب فکر ہے جس سے وہ تعلق رکھتی ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ مذہب اعتبار سے یہ کس کی نمائندگی کرتی ہے، یہ ہم سب کو معلوم ہے البتہ سیاسی میدان میں اسکی حیثیت “ریلو کٹّے” سے زیادہ نہیں۔ کہیں تحریک انصاف سے اتحاد اور کہیں نون لیگ سے ایڈجسمنٹ۔

غور کریں تو پاکستان میں موروثیت، گدی نشینی، وڈیرہ شاہی اور برادری ازم پر مبنی سیاست کے ساتھ ساتھ لسانی سیاست بھی ایک حققیت ہے۔

لہذا جب پورے ملک میں سیاسی سٹرکچر ہی ایسا بن چکا ہے جس میں لسانیت کا کسی نہ کسی انداز میں عمل دخل ضرور ہے تو اردو سپیکنگ کمیونٹی کی نمائندہ جماعت کو ہی لسانی سیاست کرنے کا الزام کیوں دیا جائے؟ جب ہمارا سیاسی نظام گھومتا ہی برادری، وڈیرہ شاہی، گدی نشینی اور قوم پرستی کے گرد ہے تو اردو بولنے والوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی نمائندہ جماعت پر اعتماد کریں اور اُسے ووٹ دیں۔ ظاہر ہے اُنہیں اس جماعت کی وجہ سے کوئی احساسِ تحفظ محسوس ہوتا ہوگا تبھی تو عرصہ دراز سے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک اور مینڈیٹ چیلنج نہیں کیا جاسکا۔ بالکل اسی طرح جیسے پنجاب میں نون لیگ اور سندھ میں پلز پارٹی کا ووٹ بینک مستحکم ہے۔

البتہ ایم کیو ایم کو ایک فوقیت ضرور حاصل ہے کہ لسانی چھاپ کے باوجود اس نے نمائندگی لوئر مڈل کلاس طبقے کو دی اور اُنہیں پارلمنٹ تک پہنچایا۔ ان کے ہاں نہ موروثی خاندانی سیاست کارنگ نظر آتا ہے اور نہ وڈیرہ شاہی۔

Comments

comments