اسرائیلی تھنک ٹینک : داعش کو مکمل تباہ نہ کریں، یہ حزب اللہ ، ایران اور روس کے خلاف موثر ہتھیار ہے – بین نورٹن : ترجمہ:عامر حسینی
ایک تھنک ٹینک جوکہ ناٹو اور اسرائیل کے لئے کنٹریکٹ ورک کرتا ہے کے مطابق مغرب کو داعش کی مکمل تباہی نہیں کرنی چاہیے-داعش عراق میں اقلیتی گروپوں کی نسلی صفائی اور نسل کشی میں ملوث تکفیری فاشسٹ گروپ ہے-
کیوں؟ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ نام نہاد اسلامی ریاست / داعش ایران ، حزب اللہ ، شام اور روس کو تباہ کرنے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے
اس تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر افراھیم انبار نے داعش کو سٹریٹیجک مقاصد کے لئے تباہ کرنے سے روکنے کے حق میں دلائل پہ مشتمل ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھا جس کا عنوان ہے ” داعش کی تباہی تزویراتی غلطی ہے ” جو دو اگست 2016ء کو شایع ہوا-
انبار نے دلائل دیتے ہوئے کہا:روس سے ملکر نسل کشی کے مرتکب گروپ داعش سے لڑنا تزویراتی حماقت ہے امریکہ کی –اور اس سے ماسکو-تہران-دمشق محور اور زیادہ مستحکم ہوگا-انبار کا کہنا ہے کہ تینوں ملک مڈل ایسٹ میں سٹریٹجک الائنس بنارہے ہیں تاکہ مڈل ایسٹ میں غلبہ حاصل کیا جاسکے-
مغرب کو داعش کو مزید کمزور کرنا چاہئیے –کمزور داعش مکمل تباہ داعش سے کہیں زیادہ بہتر ہے-
انبار ایک بااثر اسرائیلی سکالر ہے جوکہ بیجن-سادات سنٹرفار سٹریٹجک اسٹڈیز تھنک ٹینک کا ڈائریکٹر ہے اور اس کا ایجنڈا اسرائیل کی سلامتی اور امن کے ۂئے حقیقت پسند ، قدامت پرست اور صہیونی ایجنڈا تشکیل دیناہے
تھنک ٹینک جو کہ بیسا (بی ای ایس اے ) کے نام سے جانا جاتا ہے اسرائيل کی بار ایلان یونیورسٹی سے الحاق رکھتا ہے اور اسرائیلی گورنمنٹ ، ناٹو میڈٹیرین انی شيو ایٹو ، یو ایس ایمبیسی ان اسرائیل اور کارنیگی کونسل فار ایتھکس ان انٹرنیشنل افئیرز کی مدد اسے حاصل ہے-
بیسا کہتا ہے کہ یہ اسرائیلی امور خارجہ اور دفاعی اسٹبلشمنٹ اور ناٹو کے ۂئے خصوصی تحقیقات کرتا ہے-
اپنے تحقیقی مقالے میں انبار نے تجویز کیا کہ شام میں جنگ کا طول پکڑنا اچھا آئیڈیا ہے-ایسی جنگ جس نے اس ملک کو تباہ کردیا ہے،ہزاروں لوگ مارے گئے اور آدھی سے زیادہ آبادی بے دخل ہوگئی ہے-
انبار داعش کی شکسست سے مڈل ایسٹ میں آنے والے استحکام کو رد کرتے ہوئے کہتا ہے :
“استحکام بذات خود کوئی قدر نہیں رکھتا اگر یہ ہمارے مفادات کو پورا نہ کرے-“
انبار کہتا ہے ؛
” عدم استحکام اور بحران بعض اوقات مثبت تبدیلیوں کے شگون رکھتے ہیں”
انبار اس بات پہ زور دیتا ہے کہ مغرب کا مرکزی دشمن داعش نہیں ہے –بلکہ یہ ایران ہے-وہ اوبامہ انتظامیہ پہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ داعش کے خطرے کو زیادہ بڑا بناکر دکھاتی ہے تاکہ ایران کو ایک زمہ دار کردار کے طور پہ دکھائے جوکہ مڈل ایسٹ میں داعش سے لڑرہا ہے-
انبار کے دعاوی کے باوجود ایران داعش کے لئے ہلاکت خیز دشمن ثابت ہورہا ہے کیونکہ ایرانی حکومت شیعی اسلام پہ قائم ہے اور داعش شیعی اسلام کو کفر و ارتداد کا مذہب خیال کرتی ہے-داعش اور اس کے اتحادی عراق،شام اور کئی اور علاقوں میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کی نسلی صفائی کی-
انبار یہ بھی نوٹ کرتا ہے کہ داعش شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے لئے خطرہ ہے-اگر شامی حکومت بچ جاتی ہے تو بہت سے بہت سے ریڈیکل اسلامسٹ (تکفیری سلفی –دیوبندی )جیسے نصرہ فرنٹ وغیرہ ہیں پیرس اور برلن وغیرہ کا رخ کرسکتے ہیں-
انبار لکھتا ہے؛
“حزب اللہ لبنانی ملیشیا جسے ایران سے ہتھیار اور فنڈ ملتے ہیں بھی بری طرح سے داعش سے لڑنے مصروف ہے اور یہ ایک ایسی حالت ہے جو مغربی مفادات کے لئے بہت موضوع ہے”
انبار کے مطابق “برے لڑکوں ” کے زریعے سے بروں کو مارنا بظاہر بہت ہی برا لگتا ہے لیکن یہ مفید ہے اخلاقی اعتبار سے یہ بہتر ہے کہ برے لوگوں کو بروں کے ساتھ مصروف رکھا جائے تاکہ وہ اچھے لوگوں تک پہنچ نہ سکیں
اس ریسرچ پیپر کے چھپنے کے کئی دنوں بعد ایم ڈبلیو وین برگ بیسا پبلک افئیر ڈائریکٹر نے اسی سے ملتا جلتا ایک مضمون
اسرائیل سے چھپنے والے مقبول دائیں بازو کے اخبار
Israel Hayom
میں” کیا داعش کا صفایا کردینا چاہئیے” کے عنوان سے سے شایع کیا-یہ اخبار شیلذن اڈلسن نامی ایک ارب پتی کی فنڈنگ سے چلتا ہے اور اسرائیل کے دائیں بازو کے اس ایجنڈے کی حمایت کرتا ہے جسے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو لیکر چل رہا ہے-
اس مضمون میں وینبرگ اپنے ساتھی کے دلائل کا دفاع کرتے ہوئے داعش کو ” ایک مفید ایڈیٹ “کہتا ہے-اور وہ ایران-امریکہ ایٹمی معاہدے کو انتہائی خراب معاہدہ قرار دیتا ہے-اور کہتا ہے کہ داعش سے کہیں بڑا خطرہ ایران و امریکہ ہیں –
وینبرگ بیسا سنٹر کو دانشورانہ رستخیزی اور پالیسی تخلیقیت کی جگہ قرار دیتا ہے اور یہ نہیں بتاتا کہ وہ خود بھی پبلک افئیرز ڈائریکٹر ہے اس تھنک ٹینک میں –
اس تھنک ٹینک کے ساتھ جڑے دو اور لوگوں کا ردعمل دیکھتے ہوئے جوکہ اپنے ساتھی سے اختلاف کرتے ہیں تو وین برگ نتیجہ یہ نکالتا ہے :
” یقینی صرف یہ چیز ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای مغرب کی جانب سے اس کھلی بحث کو مزے کے ساتھ دیکھ رہے ہیں”
اپنی ویب ساغٹ پہ وینبرگ بیسا کو اس لسٹ میں شامل کرتا ہے جوکہ اسرائیل نواز پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں-اور بیسا کے ساتھ سول رائٹس آرگنائزیشن دی اینٹی ڈی فیمیشن لیگ اور دوسرے اسراغيل نواز تھنک ٹینکس جیسے مڈل ایسٹ ریسرج انسٹی ٹیوٹ ( ایم ای ایم آر ای )اور دی واشنگٹن انسٹی ٹیٹ فار نئیر ایسٹ پالیسی (ڈبلیو آئی این ای پی ) وغیرہ بھی اسرائیل نواز پروپیگنڈا کرنے والے تھنک ٹینکس ہیں-
وینبرگ نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ کافی کام کیا اور بار ایلان یونیورسٹی کے ترجمان کے طور پہ بھی خدمات سرانجام دیں-وہ اپنی ویب ساغٹ پہ خود ایک ایسے کالم نگار کے طور پہ اور ایسے لابسٹ کے طور پہ ظاہر کرتا ہے جو اسرائیل کے غداروں اور اسرائیل میں مابعد صہیونی رجحانات کا سخت ناقد ہے-
انبار کے پاس بیک وقت کئی عہدے ہیں-وہ اسرائیل کی قومی منصوبہ بندی کونسل کی سٹریٹجک کمیٹی کا رکن ہے تو ساتھ ہی وہ اسرائیل کے شعبہ تاریخ عسکری کی اکادمی کمیٹی کا رکن بھی ہے اور قومی سیکورٹی نصاب کی کمیٹی کی چئیر اس کے پاس ہے جو کہ وزرات تعلیم میں ہے-
وہ شاندار اکیڈمک ریکارڈ کا مالک ہے-اس نے بطور لیکچرر جانز ہاپکنز اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے لیکر ہاورڈ ، ایم آئی ٹک ، کولمبیا یونیورسٹی ، آکسفورڈ اور ییل میں پڑھایا-ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز میں وہ بطور سکالر رہا اور مینفرڈ ورنر ناٹو فیلو بھی تعینات رہا-
انبار اور وینبرگ نے جس سٹریٹجی کو پیش کیا ہے جوکہ بالواسطہ ایک اسلامسٹ فاشسٹ تنظیم کو مغرب کے دشمنوں سے لڑائی جاری رکھنے پہ مشتمل ہے امریکی اور اسرائیلی فارن پالیسی کے لئے بالکل نئی نہیں ہے-یہ سردجنگ کے دنوں میں امریکی پالیسی کی باقیات ہے جس میں اسلامسٹ انتہا پسندوں کو کمیونسٹ اور بائیں بازز کے قوم پرستوں سے لڑنے کے لئے سپورٹ کی جاتی تھی-
In the war in Afghanistan in the 1980s, the CIA and U.S. allies Pakistan
کی افغانستان میں جنگ کے دوران سی آئی اے، امریکی
اتحادی پاکستان اور سعودی عرب نے بنیاد پرست اسلام پسندوں کو اسلحہ دیا ، تربیت دی اور ڈالر دئے تاکہ وہ سوویت یونین اور سوویت یونین کی حمایت یافتہ سوشلسٹ حکومت کے خلاف لڑیں-ان دنوں امریکی حمایت یافتہ باغیوں کو مجاہدین کہا جاتا تھا-اور یہی القاعدہ اور طالبان کی تشکیل کا سبب بنے –
1980ء میں اسرائیل نے ایسی ہی پالیس؛ اپنائی-اس نے دائیں بازو کے اسلام پسند گروپ جیسے حماس کو سپورٹ کیا تاکہ فلسطین لبریشن آرکنائزیشن –پی ایل او کو ختم کیا جاسکے-پی ایل او کئی لیفٹ قوم پرست اور کمیونسٹ سیاسی پارٹیوں کا اتحاد پہ مشتمل تنظیم تھی-
“حماس مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے اسرائیل کی تخلیق ہے” یہ بات انور کوہن ایک اسرائیل افسر بالا جو 20 سال غزہ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا-
1957ء میں امریکی صدر آئزن ہاوور نے سی آئی اے کو مڈل ایسٹ میں بائیں بازو کی تحریکوں سے لڑنے پہ زور دیتے ہوئے کہا ، ” ہمیں “مقدس جنگ” کے پہلو پہ زور دیتے ہوئے ہر ممکن چیز کو کرگزرنا چاہئیے
Ben Norton is a politics reporter and staff writer at Salon. You can find him on Twitter at @BenjaminNorton.
Link: